www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

قبلۂ اول پر صھیونیوں کی یلغار اور اس کی ویرانی پر عرب حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی ان کی طرف سے اسرائیل کی حوصلہ افزائی کے مترادف۔

 فلسطینی حکومت: صھیونی دینی جنگ کا آغاز کرنا چاھتے ہیں ۔ فلسطینی مفتی گرفتار۔ اسرائیل نواز سلفیوں نے حکومت مصر سے شام کے خلاف اقدام کا مطالبہ کیا ۔
عرب تجزیہ نگار نصیر فالح نے العالم کے ساتھ بات چیت کرتے ھوئے کھا کہ صھیونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاھو عربوں کی پشت پناھی میں نوآبادیوں میں رھائش پذیر انتھا پسند صھیونیوں کی حوصلہ افزائی کررھا ہے کہ مسجدالاقصی سمیت اسلامی مقدسات پر حملہ کرکے انھیں منھدم کریں اور ان کی بےحرمتی کریں۔
انھوں نے امت اسلامی سے صھیونیوں کے جارحیت کا مقابلہ کرنے کی اپیل کرتے ھوئے کھا: امت اسلامی کی خاموشی نیتن یاھو کو ترغیب دلاتی ہے کہ وہ صھیونی آبادکاروں کو مسلمانوں کے قبلۂ اول مسجد الاقصی کی بےحرمتی کی کھلی چھٹی دے۔
انھوں نے کھا کہ جب عرب اور مسلمان اپنے قبلۂ اول پر صھیونیوں کی جارحیت پر خاموشی اختیار کریں تو کوئی حیرت کی بات نھیں ہے کہ اسرائیل عرب ملک شام پر بھی حملے کرے۔
انھوں نے کھا: نیتن یاھو کی کابینہ ومسجدالاقصی سمیت پورے علاقے کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کرتی ہے اور عرب صرف ان فیصلوں کا نظارہ کرتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرتے ہیں! اس صورت حال میں مسلمانوں کے عالمی قیام کی ضرورت ہے کیونکہ مسجدالاقصی کا تعلق پوری امت اسلامیہ سے ہے اور اس کی حفاظت تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔
انھوں نے کھا: صھیونیوں نے اپنی سازش کا آغاز شھر قدس میں دیوار تعمیر کرکے اس کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کرنے سے شروع ھوئی جس کے بعد مغربی کنارے اور غزہ کے عوام کو قدس میں داخلے سے روکا گیا اور اگر اس وقت مسلمان اور عرب مزاحمت کرتے آج نیتن یاھو خودسرانہ اقدامات نہ کرسکتا لیکن اب شھر قدس اور 1948 کی فلسطینی سرزمینوں میں فلسطینیوں کا ایک مختصر سا گروہ باقی بچا ہے اور ایک مختصر سا گروہ جو دائمی طور پر اس شھر میں رھائش پذیر نھیں ہیں اور صرف یھی لوگ مسجدالاقصی کا تحفظ کررھے ہیں۔
انھوں نے کھا کہ صھیونیوں نے دوسرے مرحلے میں محاصرہ تنگ کردیا اور مسجدالاقصی کے احاطے میں کھدائیاں شروع کردیں اور صھیونی آبادکاروں کو علاقے میں داخلے کی اجازت دی اور اب صھیونی اس حملے کے ذریعے عرب اور مسلم اقوام کا رد عمل جانچنا چاھتے ہیں؛ اس وقت یہ آبادکار مسجدالاقصی میں داخل ھوں گے اور اس کے احاطے پر قبضہ کریں گے اور اس کے بعد مسجدالاقصی کو شھید کریں گے اور اس کی جگہ نام نھاد ھیکل سلیمانی تعمیر کریں گے۔
واضح رھے کہ متعدد صھیونی سیاستدان بےشمار فوجی اھلکاروں کے ھمراہ باب المغاربہ، باب السلسله اور باب الاسباط سے مسجدالاقصی میں داخل ھوئے جبکہ صھیونی پولیس نے شدید حفاظتی اقدامات کئے تھے۔
اس حملے میں صھیونیوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول اور امت اسلامیہ کے تیسرے حرم کی توھین کی اور مسجد میں موجود طلبہ کو زد و کوب کیا۔ اور کئی نمازگزاروں کو گرفتار کیا اور کئی لوگوں پر مرچوں کی اسپرے کرکے زمین پر گھسیٹا اور کئی افراد کا دم گھٹ گیا اور متعدد زخمی ھوئے۔ جس کی وجہ سے آٹھ افراد اسپتال منتقل کئے گئے۔
ادھر غزہ میں فلسطین کی قانونی حکومت نے مسجدالاقصی میں صھیونیوں کے داخلے کے سلسلے ميں خبردار کرتے ھوئے کھا کہ صھیونی ان اقدامات کے ذریعے ایک دینی جنگ شروع کرنا چاھتے ہیں۔
فلسطینی حکومت کے اوقاف اور دینی امور کے وزیر ڈاکٹر اسماعیل رضوان نے کھا: ھم مسجدالاقصی میں یھودیوں کے داخلے اور نمازگزاروں پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس کو قدس شھر کو یھودی بنانے اور اس پر اپنی شرطیں مسلط کرنے کی صھیونی دشمن کی سازش سمجھتے ہیں۔
انھوں نے کھا: صھیونیوں کے یہ اقدامات انتھائی خطرناک ہیں جن کے ذریعے وہ اس مسجد کو بھی یھودی بنانا چاھتے ہیں اور مسلمانوں اور فلسطینیوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے نتائج کی ذمہ داری صھیونی ریاست پر عائد ھوتی ہے اور ھمیں یقین ہے کہ صھیونی ریاست کسی دینی اور اخلاقی معیار کی پیروی نھیں کرتی اور اپنے مذموم اقدامات کے ذریعے علاقے میں دینی اور مذھبی جنگ کے شعلے بھڑکانا چاھتی ہے۔
انھوں نے کھا کہ مسجدالاقصی، فلسطینی سرزمین اور عوام اور اسلامی مقدسات پر روا رکھے گئے صھیونی جرائم کے سامنے عرب اور اسلامی دنیا کے سرکاری حلقوں کی خاموشی کے سائے میں، نھایت سنجیدہ خطرات کا سامنا کررھی ہے۔
دریں اثناء صھیونی فورسز نے فلسطین کے مفتی شیخ محمد حسین کو ان کی رھائشگاہ سے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا ہے جبکہ ان سے قبل فلسطین میں اسلامی مقابر کمیٹی کے سربراہ مصطفی ابوزھرہ بھی صھیونیوں کے ھاتھوں گرفتار ھوئے ہیں۔
مصر میں اسرائیل نواز سلفیوں نے شام اور قبلۂ اول پر صھیونیوں کی یلغار پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے صدر محمد مرسی سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت شام کے خلاف برسرپیکار دھشت گرد ٹولوں کو فوری مدد پھنچائیں۔
مصر میں الدعوۃالسلفیہ کی مرکزی کونسل کے رکن "شیخ احمد فرید" نے محمد مرسی سے مطالبہ کیا ہے کہ مصر کی دولت کا ایک حصہ حکومت شام کے مخالفین کو مختص کریں اور یوں ایران کا مقابلہ کریں جو حزب اللہ لبنان اور شام کے صدر بشار الاسد (یعنی اسرائیل مخالف محاذ) کی حمایت کررھا ہے۔
سلفی شیخ نے شام اور قبلہ اول کے خلاف صھیونیوں کی جارحیت کے بارے میں موقف ظاھر کرنے کو ضروری نھيں سمجھا اور کھا: جس طرح کہ "مرسی نے غزہ کی مدد کی" ! اب شام کے مخالفین کی بھی مدد کریں۔
واضح رھے کہ مصر کے اخوانی صدر مرسی کا شیمون پیرز کے نام بدنام زمانہ مراسلہ اور مقبوضہ فلسطین میں مصری سفیر روانہ کرنے کا مذموم اقدام کسی سے ڈھکا چھپا نھیں ہے اور غزہ کی حالیہ جنگ میں بھی مصر کے صدر نے فلسطینیوں کے بجائے صھیونی ریاست کے بچاؤ کے لئے بھت اھم اقدامات کئے اور بعض فلسطینی رھنماؤں کا کھنا ہے کہ بعض سرنگوں سے غزہ میں پھنچنے والی اشیاء و خورد و نوش کی رسد مرسی کے زمانے میں بھت محدود ھوکر رہ گئی ہے اور جتنی تکالیف غزہ کے عوام کو اس وقت پھنچ رھی ہیں اتنی مبارک کے زمانے میں بھی نھيں پھنچیں۔ 

Add comment


Security code
Refresh