مثل مشھور ہے کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے آج امت مسلمہ پر بھی صادق آتی ہےاگر امت مسلمہ اور اسلامی دنیا کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ھوجاتی ہے کہ مسلمانوں کو سب سے زيادہ نقصان بیرونی طاقتوں نے پھنچایا ہے ۔ شیطانی اور الحادی طاقتیں تو شروع ھی سے اسلام کو نیست و نابود کرنا چاھتی تھیں لیکن دشمن کے واضح اور مشخص ھونے کی بناء پر مسلمان ان کے خلاف سیسہ پلائي دیوار بن جاتے اور اسلام کی قاضی کی تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑي ہے جس میں اسلام نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا تا ھم ماضی کی تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ منافقین اور گھر کے بھیدیوں نے اسلام کو جتنا نقصان پھنچایا ہے دشمن بھی اس قدر نقصان نھیں پھنچا سکا عصر حاضر میں بھی صورتحال زيادہ تبدیل نھیں ھوئی ہے آج اگر سامراجی طاقتیں بالخصوص امریکہ ، اسرائيل اور برطانیہ مسلمانوں کی نابودی کے لئے کوشاں ہیں تو مسلمانوں کے اندر انکے دست بستہ غلام آل سعود ، آل خلیفہ و غیرہ بھی ان کی ایما پر مسلمانوں کو اندر سے کھوکھلا کررھے ہیں ۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق سعودی عرب کے جنگی طیاروں نے یمن کی فضا پر غیر قانونی پروازیں انجام دی ہیں اور ساونڈ بیریئر کو توڑا ہے ۔ سعودی عرب عرصے سے یمن پر لالچی نظریں گاڑھے ھوئے ہے یمن اور سعودی عرب کے درمیان سرحدی حدود پر کافی عرصے سے تنازعہ چل رھا ہے اسی طرح سعودی عرب کی خواھش ہے کہ یا تو یمن پر برسر اقتدار حکومت ان کے ھاتھوں میں کھلونا بنے یا یمن کے اھم اسٹرٹیجک علاقے بالخصوص خلیج فارس کا ایک مخصوص علاقہ سعودی عرب کو دے دیا جائے ۔ سعودی عرب نے اس حوالے سے ایک نقشہ بھی جاری کیا ہے کہ جس میں یمن کے ایک حصّے کو سعودی عرب کی سرزمین ظاھر کیا گيا ہے ۔ سعودی عرب کے اس اقدام پر یمن کی موجودہ حکومت اور آل سعود کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے ۔
سعودی عرب عرصے سے یمن میں مداخلت کا مرتکب ھورھا ہے اس نے نہ صرف سابق ڈکٹیٹر عبداللہ صالح کے خلاف سرگرم عمل گروھوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی بلکہ یمن کے عوامی انقلاب کو نتیجے تک پھنچنے سے پھلے ھی مختلف مشکلات سے دوچار کرکے امریکہ کی خواھشات کو عملی جامہ پھنا دیا ۔سعودی عرب جنوبی یمن کے مختلف قبائل کو اپنے اھداف کے لئے استعمال کررھا ہے اور باوثوق ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے ان قبائل میں بڑی مقدار میں جدید ھتھیار دیئے ہیں ۔سعوری عرب کے ولی عھد سلطان بن عبدالعزیز کی عرصے سے خواھش ہے کہ یمن کے پھاڑی علاقوں الجوف ، مارب ، شیوہ اور حضرموت پر قبضہ کرلیا جائے کیونکہ یہ علاقے تیل سمیت دیگر معدنی دولت سے مالامال ہیں ۔
اگر یمن کے قدیمی نقشے کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس وقت بھی یمن کے ایک بڑے علاقے پر سعودی فورسز تعینات ہیں حالانکہ عبداللہ صالح اور سعودی حکومت کے درمیان ھونے والے ایک معاھدے کے تحت سعودی افواج کو ان علاقوں سے واپس چلا جانا چاھیے تھا لیکن سعودی حکومت نے ابھی تک اس معاھدے پر عمل نھیں کیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا یہ کھنا ہے کہ موجودہ کشیدگي کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ سعودی عرب خلیج فارس کے اندر حضرموت سے مکلا تک کے سمندری راستے کو اپنی تحویل میں لینا چاھتا ہے کھا جاتا ہے کہ گزشتہ صدی کے وسط میں یہ علاقہ سعودی عرب کی ملکیت تھا۔ سعودی عرب تیل کی ایک پائپ لائن جنوب تک بچھانا چاھتا ہے کیونکہ اس پائپ لائن کی تعمیر سے سعودی عرب کو تیل کی سپلائی میں آسانی ھوجائیگي کیونکہ باھر سے آنے والے آئل ٹینکروں کو یھاں تک پھنچنے میں آسانی ھوگي اور انھیں تیل لے جانے کے لئے پورے جزیرہ نما عرب کا چکر لگاکر خلیج فارس میں داخل ھونا نھیں پڑے گا۔ سعودی عرب میں بادشاھی نظام حکومت ہے اور اس ملک میں عوام کو بھت ھی کم سیاسی سماجی اور اقتصادی حقوق حاصل ہیں۔ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں نے سعودی عرب میں عوام کے حقوق کی وسیع پیمانے پر پامالیوں کی بنا پر اسے آمریت کا قلعہ قرار دیا ہے۔
اس میں کوئي شک و شبہ نھیں ہے کہ آل سعود نے اپنی قدرت و طاقت اور حکومت کے تحفظ کے لیے تسلط کے بین الاقوامی نظام کو قبول کرنے کے ساتھ ھی ساتھ اس کی اندھی پیروی کو بھی اپنا نصب العین قرار دے رکھا ہے اور عوام کے حقوق سے اس نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
اس پالیسی کےتحت وہ دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کر رھا ہے جو دنیا کی بڑی طاقتوں کی ضروریات کو پورا کر رھا ہے۔ تیل کی یہ دولت بجائے یہ کہ عوام کی ضروریات کو پورا کرے اور ان کی مشکلات کو کم کرے، مغربی ممالک سے ھتھیاروں کی غیرضروری خریداری میں صرف ھو رھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں مغرب اپنے ھتھیار سعودی عرب کو فروخت کر کے وہ رقم دوبارہ سعودی عرب سے حاصل کر رھا ہے جو اس نے تیل کی خریداری کے لیے سعودی عرب کو ادا کی تھی۔
دوسری جانب یھی اسلحہ مشرق وسطی میں مغرب کے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے استعمال ھو رھا ہے اور مغرب سعودی عرب کے ذریعے اسی اسلحے کو علاقے میں اسلامی بیداری اور عوام کے خلاف استعمال کر رھا ہے۔ سعودی عرب کا یہ کردار خاص طور پر شام اور یمن میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ امریکی وزیر جنگ خطے کے ممالک کے ھاتھ اسلحے کی فروخت کے مقصد سے ایسی حالت میں اس علاقے کا دورہ کر رھے ہیں کہ جب برطانوی چیف آف آرمی اسٹاف بھی گزشتہ ھفتے اس مقصد کے تحت اس علاقے کا دورہ کر چکے ہیں۔ جنرل ڈیوڈ رچرڈ نے گزشتہ ھفتے کے دن ریاض پھنچنے کے بعد سعودی عرب کے نائـب وزیر دفاع شاھزادہ خالد بن سلطان بن عبدالعزیز کے ساتھ ملاقات اور دونوں ممالک کے فوجی تعلقات کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ اس سے چند مھینے قبل فرانسیسی اور جرمن حکام بھی اپنے ھتھیار خطے کے ممالک کو فروخت کرنے کے مقصد سے اس علاقے کا دورہ کر چکے ہیں۔ یورپی اخبارات کے مطابق سعودی عرب نے حالیہ چند برسوں کے دوران امریکہ سمیت یورپی ممالک کے ساتھ یورپی کمپنیوں کے اسلحے کی خریداری کے متعدد معاھدے کۓ ہیں جن کی مالیت ساٹھ ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے حالانکہ سعودی عرب کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک کے عوام کی اکثریت ابتر اقتصادی صورتحال کا شکار ہے اور ان کو بے روزگاری جیسی مشکلات کا سامنا ہے اور بھت سےلوگوں کے پاس رھنے کے لۓ مکان بھی نھیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کو گزشتہ پانچ عشروں سے کسی بیرونی دشمن کی جانب سے کوئي خطرہ لاحق نھیں ھوا ہے لیکن اس کے باوجود اس ملک نے حالیہ برسوں کے دوران دسیوں ارب ڈالر کے ھتھیار خریدے ہیں۔
سعودی عرب کے علاوہ قطر ، متحدہ عرب امارات ، کویت اور بحرین نے بھی گزشتہ تین برسوں کے دوران امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ تیس ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے اسلحے کی خریداری کے معاھدوں پر دستخط کۓ ہیں۔
ان تمام امور کی بنا پر کھا جاسکتا ہے کہ عرب شیوخ نے اپنے تیل کی آمدنی کے ساتھ اپنے اپنے ملک کو یورپی ھتھیاروں کے گوداموں میں تبدیل کر دیا ہے لیکن کبھی بھی ان کو ان ھتھیاروں کے استعمال کی ضرورت پیش نھیں آئي ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کا کھنا ہےکہ یورپ سے ھتھیار خریدنا اقتصادی بحران کے شکار یورپ اور دیوالیۓ کا شکار ھونے والی ان کی اسلحہ ساز کمپنیوں کی نجات کا ایک راستہ ہے ۔ تمام یورپی ممالک اور امریکہ کو بڑھتے ھوئے اقتصادی بحران کا سامنا ہے اور اسی صورتحال میں امریکہ ، برطانیہ حتی فرانس کے درمیان اسلحے کی فروخت کی نئي دوڑ شروع ھوئی ہے۔ کھیں ایسا تو نھیں کہ سعودی غرب اپنے بجٹ کو پورا کرنے کے لئے یمن کی تیل کی دونت پر قبضے کا خواب دیکھ رھا ہے تاکہ امریکہ اور یورپی اتحادیوں کو بھی خوش کرے اور اپنا نقصان یمن سے پورا کر لے!