شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت جو صیھونی غاصبوں کے آگے ڈٹی ھوئی ہے، آج کل امریکہ کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رھی ہے،
جسے ھٹانے کے لیے امریکہ کے پٹھو مسلم حکمران اپنی سرتوڑ کوششوں میں لگے ھوئے ہیں اور اپنے آقا کی خوشنودی کے لیے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی خاطر پیسہ اور دیگر ملکی وسائل پانی کی طرح بھا رھے ہیں۔ ان میں سعودی عرب اور ترکی کے علاوہ قطر سب سے نمایاں اور پیش پیش ہے۔ استعمار اور اس کے پٹھوؤں کو یہ خوش فھمی بھی لاحق ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے جھاں امریکہ کو ایک قلعہ مل جائے گا، وھاں لبنان کی تحریک حزب اللہ اور فلسطین میں "حماس" بھی دم توڑ جائیں گی اور یوں استعمار کا ناجائز بچہ اسرائیل محفوظ تر ھو جائے گا ۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ "حکومتیں کفر سے تو باقی رہ سکتی ہیں ظلم سے نھیں"آج بھت سے اسلامی ممالک میں ظالم حکومتوں کے خلاف سر اٹھانے والی شورشیں اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ فلسطین، بحرین، مصر، افغانستان اور اب سعودی عرب میں بھی ظالم حکومت کے خلاف نہ تھمنے والا عوامی احتجاج شروع ھوچکا ہے۔ صیھونی خدمتگاروں نے گذشتہ سال بے باک اور جرأت مند لیڈر شیخ باقر النمر کو زخمی کرنے کے بعد گرفتار کیا اور ان کے علاوہ بھی کئی ایک علماء کرام اور عوامی سیاسی نمائندوں کو بلاجواز وحشیانہ طریقے سے قید و بند کی صعوبتوں میں ڈال رکھا ہے۔ کئی نوجوان ان کے ھاتھوں بیھمانہ قتل کا شکار ھوچکے ہیں۔ سعودی حکومت اگرچہ عوام کے اس احتجاج کو ایک اقلیتی گروہ کی سیاسی بغاوت کا نام دینے کی کوشش کر رھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ "ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے" کے مصداق سعودی عوام اب پٹھو حکومت کی مزید بے انصافیوں اور ھٹ دھرمیوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نھیں ہیں۔
عوام کا مطالبہ ہے کہ سیاسی اصلاحات کی جائیں۔ آزادئ اظھار رائے کے حق کو تسلیم کیا جائے کیونکہ سعودی حکومت کی طرف سے گذشتہ مارچ سے ملک میں کسی بھی قسم کے جلسے یا جلوسوں پر پابندی لگائی جاچکی ہے۔ علاوہ ازیں عوام بے جرم و خطا سیاسی قیدیوں کی جلد رھائی کے لیے بھی سراپا احتجاج ہیں۔ سعودی عرب کے بعض سیاسی کارکنوں کا کھنا ہے کہ اس وقت تقریباً تیس ھزار سیاسی قیدی بغیر کسی مقدمے کے سعودی جیلوں میں قید ہیں "ایمنسٹی انٹرنیشنل" کے مطابق بھی سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ کیا جا رھا ہے اور وہ سعودی حکومت کی انتھائی ناانصافیوں کا شکار ہیں۔ عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے سعودی سکیورٹی فورسز ھائی الرٹ ہیں۔
دوسری طرف امریکہ بھادر کو سعودی عرب میں اپنے مفادات خطرے میں نظر آرھے ہیں۔ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق سعودی عرب میں خونی بغاوتیں ھوسکتی ہیں، جس سے امریکی مفادات کو شدید خطرات لاحق ھوسکتے ہیں۔ اسی ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق آل سعود کے درمیان بھی اقتدار کی جنگ تیز ھوچکی ہے، جبکہ سعودی حکومت پر عوامی دباؤ بھی دن بدن بڑھتا جارھا ہے۔ ان سب باتوں کے پیش نظر ایک حقیقت جو روز روشن کی طرح عیاں ہے، وہ یھی ہے کہ ظالموں کے دن گنے جاچکے ہیں۔
جیسا کہ ایرانی صدر احمدی نژاد نے بھی اپنے ایک بیان میں کھا ہے کہ "ظالم حکومتیں اپنے ھی کرتوتوں کے سبب اب بند گلی میں پھنس چکی ہیں، جھاں سے ان کے لیے فرار کا کوئی راستہ نھیں بچا۔" امریکہ کی خوشنودی حاصل کرتے کرتے بھت سے مسلم سربراہ ذلت اور رسوائی کے ساتھ اپنی جان تک گنوا بیٹھے ہیں لیکن درس عبرت حاصل کرنا شاید ان لوگوں کی گھُٹی میں ھی نھیں۔ افسوس ہے ایسے نفس کے پوجاریوں پر جو اپنے دشمن کے خوف سے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر بے بس و بے کس انسانوں کا قتل کرتے اور اپنوں ھی کی بلی ان کی چوکھٹ پر چڑھاتے ہیں۔ فقط اس لالچ میں کہ شاید ان کا دور اقتدار چند دن اور بڑھ جائے اور کوئی ان کی عیاشیوں کے آڑے نہ آئے، جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے بدکردار لوگ بالآخر اپنے ھی بنے ھوئے ریشم کے جال میں دم گھٹ کر ذلت کی موت مر جاتے ہیں۔
صیھونی خدمتگار "آل سعود" کے دم توڑتے اقتدار کو دیکھ کر اس کے آقا نے فوراً اسے اپنے وفاداروں کی فھرست سے خارج کرنے اور اسے اپنے عبرت ناک انجام میں تن تنھا چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس کا اچھا نعم البدل فی الحال حکومت قطر کو قرار دیا ہے، جس پر امیر قطر بےحد نازاں ہے اور مرتے دم تک اپنی وفاداریوں کا یقین دلانے کے لیے ھر روز سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کا خون اس کے ناپاک قدموں پر نچھاور کرتا ہے۔ شام میں "النصرہ" جو "القاعدہ" طرز کی ایک دھشت گرد تنظیم ہے، کو ھر طرح کی مالی معنوی سپورٹ کی ذمہ داری امیر قطر نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ مخالفین اور ساتھ نہ دینے والوں کا بے دردی سے قتل عام اس تنظیم کا نصب العین ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت جو صیھونی غاصبوں کے آگے ڈٹی ھوئی ہے، آج کل امریکہ کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رھی ہے، جسے ھٹانے کے لیے امریکہ کے پٹھو مسلم حکمران اپنی سرتوڑ کوششوں میں لگے ھوئے ہیں اور اپنے آقا کی خوشنودی کے لیے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی خاطر پیسہ اور دیگر ملکی وسائل پانی کی طرح بھا رھے ہیں۔ ان میں سعودی عرب اور ترکی کے علاوہ قطر سب سے نمایاں اور پیش پیش ہے۔ استعمار اور اس کے پٹھوؤں کو یہ خوش فھمی بھی لاحق ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے جھاں امریکہ کو ایک قلعہ مل جائے گا، وھاں لبنان کی تحریک حزب اللہ اور فلسطین میں"حماس" بھی دم توڑ جائیں گی اور یوں استعمار کا ناجائز بچہ اسرائیل محفوظ تر ھو جائے گا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر استعمار کے پاس ایسی کونسی قوت ہے جو مسلمانوں کو آسانی سے خرید لیتی ہے اور مسلم حکمران ھر نعمت خدا ھونے کے باوجود کفر کی غلامی کا طوق بخوشی اپنے گلے کا ھار سمجھ کر پھنتے ہیں۔ ذرا غور کرنے سے تین وجوھات بھت نمایاں ھو کر سامنے آتی ہیں :یہ کہ مسلم حکمران ھوس اور لالچ میں اندھے ھو کر استعمار کے ھاتھوں بک جاتے ہیں یا پھر یہ مسلمان نھیں بلکہ استعمار ھی کے ایجنٹ ہیں اور یا پھر استعمار کے بچھائے گئے سازشی جال اور ظاھری رعب و دبدبے سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اس کے آگے دم ھلانے کے سوا انھیں کوئی چارہ نھیں، لیکن ھم بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سب خصوصیات ایک سچے اور مخلص مسلمان میں ھرگز نھیں ھوسکتیں۔ آج یہ سچائی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ اسلام کے لیے سب سے بڑی ذلت اور سب سے بڑا داغ خود مسلمان حکمران ہیں۔ جن کی نگاھیں فقط اور فقط اپنے عیش و آرام اور اقتدار کی ھوس پر جمی ہیں، اس کے علاوہ انھیں کچھ سجھائی نھیں دیتا۔
تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بآسانی اندازہ ھو جائے گا کہ استعمار اس وقت ھی سے اسلام کے خلاف ہے جب خاتم الانبیاء (ص) نے اعلان نبوت فرمایا اور لا الہ الا للہ کا نعرہ بلند کیا۔ پسی ھوئی انسانیت کو اس کا اصل مقام دلانے کی کوشش شروع کی تو استعماری طاقتیں سٹپٹا اٹھیں۔ اسلام کے خلاف جنگیں لڑی گئیں اور جب میدان جنگ میں کامیابی نصیب نہ ھوئی تو سازش در سازش کا سلسلہ شروع ھوگیا۔ دشمن منافقت کا ھتھیار اٹھا کر اسلام کی پشت میں چھرا گھونپنے لگا۔ اس وقت بھی بھت سے لوگ ان سازشوں کا شکار ھوئے۔ فتح مکہ کے روز رسول اللہ (ص) نے اسلام کی سچائی اور عظمت کو ثابت کر دیا لیکن منافق دشمن نے ھار نھیں مانی اور اپنی آمرانہ شان و شوکت کو ھر قیمت پر حاصل کرنے کے لیے ھر انسانی و غیر انسانی حربہ آزمایا۔ رسول اللہ (ص) کی رحلت کے بعد دشمن کو اپنے مذموم ارادے پورے ھوتے نظر آئے۔ حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کیا جانے لگا۔ اسلام کی شکل بگڑنے لگی، عرب معاشرہ زمانۂ جاھلیت سے زیادہ خطرناک صورت اختیار کرنے لگا تو نواسہ رسول (ص) نے عَلَم حق بلند کیا اور اسلام کی بقا کی ایسی جنگ لڑی جو رھتی دنیا تک کے لیے حق و باطل کے درمیان حد فاصل بن گئی۔ باطل اور جھوٹ کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کا چھرہ ھمیشہ کے لیے جگمگا اٹھا۔
پس استعمار کی اسلام دشمنی نئی بات نھیں۔ اس نے کبھی اللہ کو اپنا معبود مانا ہے نہ انسانوں کی مساوات کا قائل ھوا ہے، لیکن اسلام کے پیروکاروں کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے آفاقی پیغام کو اس کی اصل خوبیوں اور شان و شوکت کے ساتھ روئے زمین پر بسنے والے ھر انسان تک پھنچائیں۔ اسلامی تعلیمات کو اپنی ذات کا حصہ بنا کر اس کی سچائیوں کو ثابت کریں اور حق کی جنگ لڑنے والوں کے ساتھ ھم آواز ھو کر اسلام کی بقا کے لیے اپنا کردار ادا کریں، اسی میں انسان کی عزت اور انسانیت کی بقا مضمر ہے۔ حق کو آخر آشکار اور غالب ھونا ہے۔ اسے دشمن کی سازش روک سکتی ہے نہ ہمارے ارادوں کی کمزوری۔۔۔ تو بھتر یھی ہے کہ ھم نظر کترانیں کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور انسانیت کی بقا کے راستے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔