شام میں سرگرم شرپسند دھشت گرد گروہ النصرہ فرنٹ نے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواھری سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا ہے۔
النصرہ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے القاعدہ کے سربراہ سے اپنی عقیدت کا اظھار کیا ہے اور اب عراق میں سرگرم القاعدہ کے دھشت گرد بڑی تعداد میں شام میں آکر النصرہ کی مدد کریں گے۔
النصرہ فرنٹ کو شام میں سرگرم سب سے اھم اور طاقتور دھشت گرد گروہ تصور کیا جاتا ہے اور اس نے کئی چھوٹے چھوٹے سلفی گروھوں کو اپنے ساتھ ملالیا ہے ۔ اس وقت شام میں بشار اسد حکومت کے خلاف جتنی بھی بڑی بڑی کاروائیاں ھورھی ہیں ان کی سرپرستی یھی گروہ کررھا ہے اور اسی کے جنگجو تخریبی کاروائیوں میں ملوث ہیں۔ اب یہ بات منظر عام پر آچکی ہے کہ اس گروہ کو امریکہ اسرائیل مغربی ممالک سمیت ترکی ، سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک کی بھرپور مالی اور فوجی حمایت حاصل ہے شام کے حوالے سے تو یہ تبصرہ زبان زد خاص و عام ہے کہ شام میں سرگرم دھشت گردوں کو امریکہ جنگي ھتھیار، سعودی عرب اور قطر مالی امداد اور ترکی تربیت اور ٹریننگ کی سھولیات فراھم کررھا ہے۔کھا جارھا ہے کہ سعودی اور قطری سرمائے سے اس گروپ کے پاس ھزاروں کے حساب سے ٹینک اور جدید ھتھیار موجود ہیں۔
افغانستان میں جب القاعدہ اور طالبان نے امریکی مفاد میں روس کے خلاف چھاپہ مار جنگ کا آغاز کیا تو اس وقت بھی بھت سے آگاہ حلقوں کا یھی تبصرہ تھا کہ القاعدہ امریکی ایما اور امریکی اشاروں پر امریکہ کے نمبر ون دشمن سویت یونین کے خلاف نبردآزما ہے تا ھم اس وقت بھت سے لوگ اسے ایک اسلامی ملک کا دفاع اور مقدس جھاد کا نام دیتے تھے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت بعض عرب ممالک اس وقت بھی القاعدہ اور طالبان کے زبردست حامی تھے اور انکی دامے درمے سخنے مدد کررھے تھے ۔ سویت یونین کی افغانستان سے واپسی اور سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکہ نے اپنے نئے دشمن تراشے لیکن طالبان اور القاعدہ سے اپنے قریبی تعلق کو برقرار رکھا ۔اسکے بعد سے لیکر آج تک القاعدہ نے عالمی سطح پر جو کاروائیاں بھی انجام دیں اسکا بالواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ امریکہ کو ھی پھنچا ۔ عرب ممالک میں جب اسلامی اور عوامی بیداری کا سلسلہ شروع ھوا تو امریکہ نے اسی آڑ میں اسرائيل کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ اور فلسطین مخالف جھادی تنظیموں کے مرکز شام کو اپنا ھدف قرار دیا۔امریکہ بشار اسد کے خلاف تحریک کو انھی تحریکوں کا حصّہ اور تسلسل قرار دینا چاھتا تھا جو مصر ، تیونس اور لیبیا میں شروع ھوئی تھیں ۔ دنیا بھر سے مذھبی جنونیوں کو اسلام اور جھاد کے نام پر شام میں جمع کیا گيا اور بشار اسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی سازش پر عمل درآمد شروع کردیا گيا۔شروع شروع میں مختلف ناموں سے سلفی اور وھابی گروہ ترکی کے راستے شام میں داخل ھوگئے اور داخلی جنگ کا آغاز کیا گيا ۔ بشار اسد نے بھی عوامی اور فوجی محاذ پر اپنی سرگرمیوں کو تیز کردیا۔ بشار اسد نے جھاں دھشت گردوں کو کنٹرول کرنے کےلئے فوج کو میدان میں اتارا وھاں سیاسی اصلاحات اور انتخابات کے عمل کو بھی جاری رکھا ۔ مصر، تیونس اور لیبیا میں جب انقلاب کامیاب ھوئے تو رائے عامہ کی توجہ شام کی طرف مبذول ھوگئی ۔ آغاز میں عام لوگ یھی سمجھ رھے تھے کہ شام میں جاری تحریک اسی اسلامی بیداری کا حصّہ ہے جسکا بنیادی نعرہ امریکہ اور اسرائيل دشمنی ہے لیکن جب شام کے حالات کا جائزہ لیا گیا تو صورت حال بلکہ جدا نظر آئی یھاں پر جھاد کے نام پر بشار اسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے والی قوتوں کے پیچھے امریکہ ، اسرائیل اور اسکے عرب اتحادی نظر آئے اور بشار اسد کو اقتدار سے ھٹانے کے لئے القاعدہ جیسے گروھوں سے استفادہ کیا جارھا تھا جبکہ دوسری طرف اسرائیل کے مقابلے میں ایک مضبوط و مستحکم قلعے شام میں دراڑیں ڈالی جا رھی تھیں ۔ امریکہ نے اس ھدف کے حصول کے لئے اپنے تمام علاقائی اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملایا اور شام کی حکومت کے خلاف مسلح جنگ کو تیز تر کردیا ۔ آج اگر شام میں سرگرم عمل النصرہ گروہ اور القاعدہ کے درمیان اتحاد و اتفاق کی رپورٹیں اور القاعدہ کے رھنما ایمن الظواھری سے انکے اظھار عقیدت کی خبریں عام ہیں تو اس پر تعجب نھیں کرنا چاھیے کیونکہ دونوں کی اصل اور بنیاد ایک ہے صرف سرزمین اور ملک کا فرق ہے ورنہ مقصد اور اھداف ایک ہیں یھاں پر اگر اسرائيل اور شام کے نام نھاد مجاھدین کے درمیان موجود دلی ھمدردی کا ذکر نہ کیا جائے تو اسرائیل النصرہ دوستی پر ظلم ھوگا۔
اسرائیل نے بشار اسد کے مخالف جنگ لڑنے والے زخمیوں کی فوری امداد کے لئے شام کے سرحدی علاقے جولان پر تمام تر سھولیات سے آراستہ ھسپتال بنادئے ہیں تا کہ زخمیوں کو علاج کے لئے دور دراز کا سفر نہ کرنا پڑے آج بشار اسد کے خلاف برسر پیکار نام نھاد سلفی مجاھدین اسرائیل مخالف ایک مضبوط حکومت کو گرانے کے لئے جان کی بازي لگا رھے ہیں اور اس کار خیر میں زخمی ھونے والوں کے لئے غاصب صیھونی حکومت علاج معالجہ کی سھولیات فراھم کررھی ہے ۔ اسرائيل کے دشمن بشار اسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لئےسعودی عرب ، قطر اور ترکی بھی کسی سے پیچھے نھیں ۔ قطر نے تو اسرائیل کی اسقدر حمایت کی ہے کہ اسرائيلی حکام با بانگ دھل یہ بات کھہ رھے ہیں کہ قطر کے اسرائيل پر جو احسانات ہیں اور قطر نے صیھونی حکومت کی جتنی مدد کی ہے اسکا کوئي اور مقابلہ بھی نھیں کرسکتا ۔