عصر حاضر میں انسان دوستی پر مبنی نظریات پیش کئے جانے اور عالمی کنونشنوں میں ان کے تحریر کئے جانے کے باوجود
بعض حکومتیں بڑی آسانی کے ساتھ انسانی حقوق کے منشور کی شق نمبر تین نیز 1966ء میں طے پانے والے سول اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی سمجھوتے کی شق نمبر چھ کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور اپنے اس اقدام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلوں کے بھانے جائز ظاھر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب مذکورہ منشور کی رو سے کسی بھی حکومت کو یہ حق حاصل نھیں ہے کہ وہ کسی دوسری حکومت سے اپنی بات منوانے کے لئے اس پر اقتصادی، سیاسی یا کسی بھی طرح کا دباؤ ڈالے۔ اس میں شک نھیں کہ ایران کے خلاف امریکہ کی یکطرفہ پابندیاں اقتصادی اور سماجی حقوق سے متعلق عالمی سمجھوتے کی کھلی خلاف ورزی اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کے بھی منافی ہیں۔ اس لئے اسلامی جمھوریہ ایران پر عائد کی جانے والی پابندیوں کا جائزہ بین الاقوامی معیارات کے تناظر میں نھیں بلکہ ملت ایران کے ساتھ امریکہ کی دشمنی کے تناظر میں لیا جانا چاھیے۔ یورپی حکومتیں اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے رائے عامہ میں شکوک و شبھات پیدا کرتی ہیں اور جھوٹ کو حقیقت بنا کر پیش کرتی ہیں۔ مغرب والوں نے ماضی میں انسانی حقوق کی جو دھجیاں اڑائي ہیں، ان پر توجہ دیئے بغیر وہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار ظاھر کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور وہ انسانی حقوق کے دفاع کے بھانے اپنی پالیسیوں کے مخالف ممالک کے داخلی امور میں مداخلت تک کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کی دعویدار یورپی حکومتوں نے گذشتہ چھتیس برسوں کے دوران اسلامی جمھوریہ ایران کے نظام کو اپنی دشمنی اور کینے کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب انھی حکومتوں نے ایران کے ڈکٹیٹر اور ظالم بادشاہ محمد رضا پھلوی کی حمایت کی تھی۔ ایرانی عوام نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کی قیادت میں اس ظالم شاھی نظام کے خلاف تحریک چلائی اور اسے کامیابی سے ھمکنار کیا۔ اس کے باوجود انسانی حقوق کا نعرہ بلند کرنے والی یورپی حکومتوں نے، جن میں امریکہ سرفھرست تھا، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد سے ایرانی عوام کے اس اسلامی نظام کو ضرب لگانے کے لۓ کوئی بھی سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ثقافتی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نھیں کیا۔ یورپی حکومتوں کا ایران مخالف ایک مخاصمانہ اقدام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ یہ حکومتیں مختلف بھانوں سے اسلامی جمھوریہ ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتی رھتی ہیں۔ یہ بھانے بھی ایسے ھوتے ہیں جن کے ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کاالزام لگایا جاسکتا ہے۔ یورپی حکومتیں اسلامی جمھوریہ ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر اپنی ایران مخالف پالیسیوں کو جائز ظاھر کرنے کے درپے ہیں، اسلامی جمھوریہ ایران کے خلاف الزام لگانے والوں کو اپنے ممالک میں ھونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں جوابدہ ھونا ھوگا۔ ان کا مقصد انسانی حقوق کا مسئلہ نھیں ہے، بلکہ وہ اسے ایران کے خلاف ایک حربے کے طور پر استعمال کر رھے ہیں۔ ایران کو نشانہ بنانے والوں نے خطے کی صورتحال کو نظر انداز کر دیا ہے اور ان کو مشرق وسطٰی میں ھونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نظر نھیں آتی ہے۔ "بحرین، اردن اور سعودی عرب جیسے مشرق وسطٰی کے بعض ممالک میں واضح طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جا رھی ہیں لیکن ابھی تک کسی بھی یورپی حکومت نے ان ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر موثر انداز میں تنقید نھیں کی ہے۔ سعودی عرب اور بحرین میں خاص خاندانوں کی حکومتیں قائم ہیں، جو کہ جمھوریت اور انسانی حقوق کی پابندی سے متعلق یورپی حکومتوں کے کسی بھی معیار پر پورا نھیں اترتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ حکومتیں مشرق وسطی میں امریکہ سمیت یورپی ممالک کی اسٹریٹیجک اتحادی ہیں۔ یھی وجہ ہے کہ یورپی ممالک کی جانب سے ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام نھیں لگایا جاتا ہے۔ جنوبی خلیج فارس سے لے کر شمالی افریقہ تک کے علاقے میں یورپی حکومتوں کی حمایت یافتہ ڈکٹیٹر حکومتوں کے خلاف عوامی تحریکوں کے آغاز کو دو سال کا عرصہ گزر رھا ہے۔ یورپی حکومتوں نے جب یہ دیکھا کہ تیونس میں زین العابدین بن علی ، مصر میں حسنی مبارک اور لیبیا میں قذافی جیسے ڈکٹیٹروں کا کام تمام ھونے والا ہے تو انھوں نے اپنے آپ کو ان ممالک میں چلنے والی اسلامی تحریکوں کا حامی ظاھر کرنے کی کوشش کی۔ اور انھوں نے ان ممالک میں عوامی مطالبات کی حمایت کی لیکن جھاں ان کو امید ھوتی ہے کہ شاھی ، موروثی اور غیر جمھوری حکومتوں کو کوئي خطرہ نھیں ہے تو وہ ان کی حمایت کرتی ہیں۔ اور ان ممالک میں عوام پر کۓ جانے والے تشدد پر خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔ سعودی عرب اور بحرین میں آئے دن عوام اور سیکورٹی فورسز کے درمیان خونریز جھڑپیں ھوتی رھتی ہیں جن کے دوران متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ھوتے ہیں اور متعدد کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ ان ممالک کی جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری پڑی ہیں۔ جبکہ ان ممالک کے عوام کا واحد مطالبہ جمھوریت کا قیام اور عوامی حکومت کی تشکیل اور کئی عشروں پر محیط امتیازی رویئے، ناانصافی اور عوام کی دولت کی لوٹ مار کی روک تھام ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بحرین، سعودی عرب اور یمن میں کئے جانے والے انسانیت مخالف جرائم کے جائزے کے لئے ابھی تک حتی تحقیقاتی کمیٹی تک تشکیل نھیں دی ہے جبکہ بعض بے بنیاد رپورٹوں کی بناء پر اسلامی جمھوریہ ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں، غیر ملکیوں اور تارکین وطن کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک، اسلام فوبیا اور پرامن مظاھرین پر تشدد، یورپ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی چند مثالیں ہیں اور امریکہ میں خواتین خصوصاً سیاہ فام خواتین پر ھونے والے تشدد، گوانتاناموبے جیل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے تسلسل اور افغانستان اور پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں ھونے والے خواتین اور بچوں سمیت نھتے شھریوں کے قتل عام کو امریکہ کے ھاتھوں کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی نمایاں مثالیں قرار دیا جا سکتا ہے، جبکہ کینیڈا میں مقامی لوگوں اور دوسری اقلیتوں کے حقوق کی منظم پامالی کو اس ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ان تمام امور سے اس بات کی عکاسی ھوتی ہے کہ جو حکومتیں انسانی حقوق کی مدعی ہیں، ان کے اپنے ممالک کی تاریخ ظلم و ستم اور لوگوں کے بنیادی حقوق کی پامالی سے بھری پڑی ہے اور مظالم کا یہ سلسلہ مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ ان سے آگاہ ھونے کے لئے بس یھی کافی ہے کہ عراق اور افغانستان میں دھشتگردی سے مقابلے کے نام پر مارے جانے والے دسیوں ھزار بے گناہ انسانوں پر توجہ کی جائے یا گوانتانامو بے، ابوغریب اور دنیا بھر میں قائم امریکہ کی خفیہ جیلوں میں امریکیوں کے سیاہ کارناموں پر نگاہ ڈورائی جائے، یا فلسطینیوں کے قتل عام میں ملوث صیھونی حکومت کو مدنظر رکھا جائے۔ یورپ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی بنیاد کی وجہ یھی تھی کہ اسی خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جاتی تھیں، کسی دوسرے خطے میں نھیں۔ آج اگر انسانی حقوق ایک مسئلہ بن چکا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یورپ اس کو دوسرے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کے حربے کے طور پر استعمال کر رھا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یورپی ممالک آج یہ ظاھر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یورپ تھذیب وتمدن کے اس مرحلے تک پھنچ چکے ہیں کہ اب یورپ میں تمام انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے اور غیر یورپی ممالک انسانی حقوق کے معیارات کا خیال نھیں رکھتے ہیں۔ یھی وجہ ہے کہ یورپ انسانی حقوق کی پابندی کو ایک عالمگیر ویلیو کے طور پر دنیا کے دوسرے ممالک میں منتقل کرنے پر مجبور ہے۔ یورپی حکومتیں نہ صرف ماضی میں کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قبول کرنے پر تیار نھیں ہیں، بلکہ برطانیہ جیسی بعض یورپی حکومتیں اپنی داخلی بحران اور خلفشار پر قابو پانے کے بھانے انسانی حقوق سے متعلق بعض قوانین کا دائرہ محدود کرنے کے درپے ہیں۔ یہ حکومتیں اپنی سرحدوں سے باھر انسانی حقوق سے متعلق قوانین کی ھرگز پابندی نھیں کرتی ہیں۔ یہ حکومتیں حتی دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت کی صورت میں اپنے فوجیوں کو ھر طرح کے ظلم اور تشدد کی اجازت دیتی ہیں۔ عراق اور افغانستان میں امریکی اور برطانوی فوجیوں کے مظالم کو فاش ھوئے زیادہ عرصہ نھیں گزرا ہے۔ اگر یہ مظالم یورپی حکومتوں کی مخالف کسی حکومت نے انجام دیئے ھوتے تو اسے جنگی مجرم قرار دے دیا جاتا۔ لیکن عراق، افغانستان میں واقع ابوغریب اور بگرام جیلوں نیز دنیا کے مختلف ممالک میں قائم امریکہ کی خفیہ جیلوں میں امریکی اور برطانوی فوجیوں اور افسروں کے مظالم منظر عام پر آنے کے بعد حتی ایک بھی فوجی کو اس کے کیفرکردار تک نھیں پھنچایا گيا ہے۔ یہ حکومتیں اپنے اس سیاہ کارنامے کے باوجود اب اپنے آپ کو انسانی حقوق کی محافظ قرار دے رھی ہیں اور وہ اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر ایرانی عوام کو اپنی پالیسیوں کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنا چاھتی ہیں، لیکن یورپی حکومتیں اس بات کا بارھا تجربہ کرچکی ہیں اور وہ جانتی ہیں کہ اسلامی جمھوریہ ایران اس طرح کے دباؤ میں آکر ان کی تسلط پسندی کے آگے ھرگز سرتسلیم خم نھیں کرے گا۔
بقلم: ڈاکٹر عامر عباس