فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 12 February 2025

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے امریکہ کے ساتھ سیکورٹی معاھدے پر دستخط کو اپنے ملک کے حق حاکمیت سے

 مربوط مسائل پر منحصر قرار دیتے ھوئے صراحت کے ساتھ کھا کہ جب تک امریکہ کے ساتھ افغانستان کا مسئلہ حل نھیں ھوگا مشترکہ سیکورٹی سمجھوتہ پر دستخط کی امید نھیں رکھنی چاھیے ۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری افغان صدر سے تین روز تک گفتگو کرنے کے با وجود انھیں سیکورٹی معاھدے پر دستخط کے لئے راضی کرنے میں کامیاب نہ ھوسکے اس سمجھوتے پر دستخط میں سب سے بڑی رکاوٹ، جان کیری کے مد نظر امریکی فوجیوں کو قانونی تحفظ فراھم کئےجانے کا مسئلہ قرار دیا جارھا ہے۔
امریکہ کے اس مطالبہ کو افغان حکام قبول نھیں کررھے ہیں۔سب سے اھم بات یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو بارہ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی افغان عوام کو اس کا کوئی فائدہ نھیں پھنچا اور اب عالمی رائےعامہ کا یہ سوال ہے کہ افغانستان میں اتنی مدت میں امریکی فوجیوں کی موجودگی افغان عوام کو بدنصیبی، غربت ومفلسی اور ھلاکت کے علاوہ اور کیا دے سکی ہے ؟
امریکہ نے افغانستان میں درجنوں فوجی اڈے بنا لئے ہیں اور اس ملک میں اپنی دائمی موجودگی کا خواھاں ہے ۔افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مابین مذاکرات کے دوران واشنگٹن نے سمجھوتہ کے مسودہ کو دیکھتے ھوئے یہ قبول کرلیا تھاکہ افغانستان کو مکمل سیکورٹی فراھم کرے گا اور اگر کوئی ملک افغانستان پر حملہ کرے تو امریکہ افغانستان کے دفاع کا پابند ھوگا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی افغان صدر کے ساتھ ملاقات میں امریکی فوجیوں کے لئے قانونی تحفظ کی فراھمی کو ریڈ لائن قرار دیا ۔دوسرا مسئلہ افغانستان کی قومی آزادی وخود مختاری کی حمایت کاہے کہ امریکی فوجی افغانستان کے مختلف علاقوں پر حملے اور بمباری سے اجتناب کریں۔
بظاھر امریکیوں نے افغان حکام کے تین مطالبات میں سے دوکو منظور کرلیا امریکہ نے پاکستان اور طالبان پر دباؤ ڈالا کہ افغانستان پر حملہ نہ کریں ۔اور یہ بھی کہ امریکہ افغانستان کا دفاع کرے حقیقت یہ ہے کہ امریکہ افغانسان پر فضول قبضہ کرنے نھیں آیاتھا وہ علاقائی اور عالمی مسائل نیز وسطی ایشیا اور قفقاز میں پائی جانے والی وسیع رقابت کے پیش نظر افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کا خواھاں ہے ۔اس لئے چین جو امریکہ کا اسٹرٹیجک رقیب ہے وہ علاقہ اور عالمی منڈیوں میں تیزی سے اثر ورسوخ حاصل کرتا جارھاہے۔
ادھر چین کے ساتھ ساتھ روس بھی حالیہ برسوں کے دوران امریکہ کا کھلم کھلا رقیب بن کر سامنے آتارھاہے ۔چنانچہ چین اور روس کی جانب سے شام کی حمایت و دفاع ، امریکہ کے ساتھ روس کے اختلاف کی واضح علامت ہے ۔
دوسری جانب اسلامی جمھوریہ ایران ہے جو علاقے میں اپنے قومی مفادات کے مقابلے میں پسپائی اختیار نھیں کرے گا ۔اسی لئے امریکہ افغانستان پر قبضے کے ذریعہ اپنے مقاصد کے حصول کے درپے ہے اور افغانستان کے ساتھ سیکورٹی معاھدے کے ساتھ مرکزی ایشیا اور قفقاز پر تسلط جمانا چاھتاہے اور افغان صدر حامد کرزئی جو حالیہ مھینوں کے دوران اپنےکو عوامی اور جمھوری شخصیت ظاھر کرنے میں کوشاں رھے ہیں لھذا امریکہ کے دباؤ میں آنا پسند نھیں کررھے ہیں جب کہ یہ بات کسی پر پوشیدہ نھیں ہے کہ حامد کرزئی امریکہ کی مدد اور امریکیوں کی فوجی طاقت کے سھارے بر سر اقتدار آئے تھےاور ابھی اقتدار میں رھنا چاھتے ہیں لیکن ایسا نظر آتاہے کہ افغان پاریمنٹ قانونی طریقہ سے اب کرزئی کو اقتدار میں آنے کا موقع نھیں دے گی۔
 

Add comment


Security code
Refresh