فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 12 February 2025

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ایک شامی سیاسی تجزیہ نگار نے فاش کیا ہے کہ اعصاب کو مفلوج کرنے والے سیرین گیس ـ جس کے سلسلے میں

 اقوام متحدہ کے معائنہ کار تحقیق کررھے ہیں ـ عراقی تکفیریوں سے وابستہ ایک ٹیم نے استعمال کی ہے۔
مستقل شامی ھیومین رائٹس واچ کی ویب سائٹ نے شامی تجزیہ نگار کے حوالے سے کھا ہے کہ اعصاب مفلوج کرنے والی گیس القاعدہ سے وابستہ عراقی تکفیریوں نے شام منتقل کی تھی۔
عراقی تجزیہ نگار نے مذکورہ تنظیم سے بات چیت کرتے ھوئے اپنا نام فاش نہ ھونے کی شرط پر، کھا کہ سیرین گیس ایران ـ عراق جنگ کے دوران صدام کی فورسز نے تیار کرکے ایرانی افواج اور عراق اور ایران کے بعض شھروں پر استعمال کی تھی اور یہ گیس عراق کے کیمیاوی ھتھیاروں کے پروگرام کے تحت "ڈاکٹر فھد الدانوک" کے زیر نگرانی تیار ھوئی تھی۔
تجزیہ نگار کے بقول الدانوک تحقیقات و مطالعات گروپ کے دائرے میں کام کررھا تھا اور یہ گروپ تکفیری گروپوں سے وابستہ تھا۔ اس گروپ کی سرگرمیوں کا مقام المثنی تنصیبات سے وابستہ تحقیقاتی ھال تھا جو عراقی شھر سامرا سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
مذکورہ تجزیہ نگار و محقق نے کھا: اس مقام پر بظاھر گندم کے زھریلے دانے اور زھریلا کیمیاوی مواد تیار کیا جاتا تھا جو کیمیاوی کھاد کے طور پر استعمال ھوتا ہے لیکن یہ سب پردہ پوشی کے لئے تھا اور حقیقت یہ تھی کہ وہ وھاں ممنوعہ گیسیں اور ممنوعہ کیمیاوی اور زھریلے مواد کو تیار کیا جاتا تھا اور یہ مواد صدام کی افواج اور متعلقہ اداروں کو بھیجوایا جاتا تھا تا کہ وہ انھیں اسلامی جمھوریہ ایران کے خلاف استعمال کریں تاکہ اسلامی جمھوریہ ایران کی مسلح افواج اور سپاہ پاسداران کے مقابلے میں اپنی پے درپے شکستوں کا ازالہ کرسکیں۔
اس شامی محقق نے کھا: شمالی اٹلانٹک معاھدے (نیٹو) کے رکن ممالک نے بےشمار یورپی کمپنیوں کے توسط سے زھریلی اور ممنوعہ کیمیاوی گیسوں کے لئے ضروری خام مواد صدام کے لئے فراھم کرتے رھے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور مغربی جرمنی اعصاب مفلوج کرنےوالی گیسیں جیسے Tabun گیس وغیرہ، کینسر کا سبب بننے والی (Carcinogens) سرسوں گیس (Mustard Gas)، سیرین گیس (Sarin gas) اور بی زیڈ (B-Z)، عراق کو فراھم کرتے رھے تھے اور اس مواد کو ھتھیاروں میں تبدیل کرنے کے لئے جدید ترین مشینری بھی عراق منتقل کرچکے تھے۔
انھوں نے کھا کہ سعودی عرب، کویت اور اردن سمیت عرب ممالک نے بھی صدام کو مالی وسائل فراھم کئے تا کہ وہ ڈاکٹر الدانوک کی نگرانی میں اپنا کیمیاوی ھتھیاروں کا ذخیرہ مکمل کریں۔
انھوں نے کھا: ایران ـ عراق جنگ کے بعد صدام نے فھد الدانوک کو امریکہ بھیجوا دیا اور امریکہ نے اس کو امریکی شھریت سے نوازا تاکہ وہ نظروں سے اوجھل رھے اور اس کو آج بھی واشنگٹن کی حمایت حاصل ہے اور آرام سے زندگی بسر کررھا ہے۔
انھوں نے کھا: جن جن لوگوں نے المثنی کی تنصیبات میں کام کیا ہے کا تعلیم حاصل کی ہے وہ سب انتھاپسند اور شدت پسند تھے اور تکفیری گروپوں کی طرف مائل تھے۔ ان گروپوں کو صدام نے پالا تھا تا کہ ان کے ذریعے بعث پارٹی کے لادینی رجحانات کے سامنے اٹھنے والی کسی بھی مزاحمت کو کچل دے۔
انھوں نے کھا: اسی تمھید سے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ دھشت گرد تنظیم القاعدہ نے عراق کے جن علاقوں پر غلبہ پایا وھاں موجود تکفیری تفکرات کے حامی افراد کو اپنے ساتھ ملانے میں اسے کوئی مشکل پیش نہ آئی اور ان کے ذریعے کیمیاوی تحقیقات کے نتائج تک پھنچنا بھی اس کے لئے بھت آسان تھا اور ان تحقیقات کو عملی جامہ پھنانا بھی کوئی مشکل نہ تھا۔ اور پھر سیرین گیس کی تیاری بھت مشکل کام نھیں ہے اور اس کی تیاری کے لئے ایک چھوٹی سے لیبارٹری کافی ہے اور ایک ایسا شخص جو کسی حدتک لیببارٹری میں کیمیاوی مواد کے ساتھ کام کرنے کی مھارت رکھتا ھو۔
شامی محقق نے چند سوال اٹھائے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے:
1۔ کیا عراق میں موجود تمام کیمیاوی تنصیبات تباہ کی جاسکی ہیں اور کیا تمام کیمیاوی ھتھیار تلف کئے جاسکے ہیں؟
2۔ کیا کیمیاوی مواد کا ایک بڑا حصہ ابھی تک عراق میں باقی ہے؟
3۔ یہ تنصیبات اور ھتھیار کھاں ہیں اور کن لوگوں کے کنٹرول میں ہیں؟
4۔ کیا اس مواد اور ھتھیاروں کو چوری کرکے شام میں دھشت گردوں تک نھیں پھنچایا جاسکتا؟
اس شامی محقق نے کھا: سیرین گیس آج تک عراق میں موجود ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ القاعدہ نیٹ ورک کے بعض ذیلی گروپوں نے صدام کا تختہ الٹ جانے کے بعد بغداد کے شمال میں "التاجی" کے علاقے میں یہ گیس امریکی فوجیوں کے خلاف استعمال کی تھی۔
انھوں نے کھا کہ التاجی کا علاقہ اور اس کے اطراف میں ایک جھیل پر "دولۃ الاسلامیۃ في العراق والشام (داعش)" کے کنٹرول میں ہے جنھوں نے التاجی اور ابوغریب جیل پر حملہ بھی کیا اور اس حملے کا محرک یہ تھا کہ وہ ان جیلوں میں صدام کے زمانے کے کیمیاوی ھتھیاروں کے ایک ماھر کو رھا کروانا تھا۔ یہ شخص القاعدہ سے جاملا تھا اور امریکیوں نے اس کو گرفتار کیا تھا اور امریکیوں نے عراق سے اپنی افواج کے انخلاء کے وقت اس کو عراقی حکومت کے سپرد کیا تھا اور داعش یا القاعدہ کے حملے میں اس کو رھا کروایا گیا۔
شامی محقق نے مزید کھا: اس مسئلے کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دمشق کے نواح میں الغوطۃالشرقیہ کے علاقے میں کیمیاوی حملہ اس وقت ھوا جب اس ماھر کیمیاوی ھتھیار نے کیمیاوی ھتھیار شام منتقل کئے اور اس مسئلے سے معلوم ھوتا ہے کہ مواد مسلح دھشت گردوں کے پاس موجود ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ جو بات اس فرضئے کو تقویت پھنچاتی ہے وہ، وہ رپورٹیں ہیں جن سے ثابت ھوتا ہے کہ اس علاقے میں استعمال ھونے والا مواد دستی طور پر کسی گھر میں تیار کیا گیا تھا اور فوج کے پاس اس قسم کا مواد موجود نھیں ہے۔ اور پھر ھم ویڈیو کلپس میں ایسے افراد کو دیکھتے ہیں جو ماسک پھنے بغیر کیمیاوی ھتھیاروں کا شکار ھونے والے افراد کے ارد گرد گھومتے ہيں اور دستانے پھنے بغیر جاں بحق ھونے والے افراد کی میتوں کو چھو رھے ہیں اور کیمیکل مواد ان تک سرایت نھیں کررھا!
انھوں نے کھا: اس سے معلوم ھوتا ہے کہ استعمال ھونے والا کیمیاوی مواد ھلکا تھا اور ایک چھوٹی اور گھریلو لیبارٹری میں تیار ھوا تھا اور اس کی شام منتقلی بھی آسان تھی۔
انھوں نے کھا: بغداد کے باب المعظم میں واقع "براء ٹرانسپورٹ کمپنی" کے مالک جاسم کعود (جس نے امریکیوں کو بھی کئی کیمیاوی اڈوں کا پتہ دیا تھا) کو حال ھی میں سات دن کے لئے عراقی فورسز نے زیر تفتیش رکھا تو اس نے واضح طور پر کھا کہ شام میں استعمال ھونے والی سیرین گیس وھی ہے جو عراق میں تیار کی گئی تھی۔
 

Add comment


Security code
Refresh