حکومت شام کا تختہ الٹنے کی تمام تر سعودی سازشوں کے ناکامی کے بعد آل سعود نے ایک نیا منصوبہ مرتب کیا ہے
جس کے تحت اب سعودی افواج اور خفیہ ایجنسیوں کی براہ راست نگرانی میں شامی افواج کے خلاف کاروائیاں کی جائیں گی۔
سعودی حکمران شام میں کیمیاوی ھتھیاروں کے معاملے میں روس کے ساتھ سمجھوتے اور شام پر حملہ کرنے کے منصوبے سے پسپائی کی بنا پر امریکہ سے سخت ناراض ہیں اور وہ شام میں اپنے زیر سرپرستی دھشت گرد ٹولوں کی تنظیم نو کررھے ہیں اور اس ضمن میں امریکہ سے وابستہ فری سیرین آرمی کو بھی نشانہ بنانے کا منصوبہ ہے۔
یونائٹڈ پریس کے مطابق سعودی عرب آل سعود اپنی سرحدوں سے باھر "اھل سنت کی بیداری" کے عنوان سے ایک تحریک چلانے کے درپے ہیں اور یوں وہ شام میں بھی اھل سنت کو اپنے اھداف کی خاطر بشار حکومت کے خلاف متحد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عجب یہ ہے کہ سعودی عرب کے اھل سنت کو سانس لینے تک اجازت نھیں دی جاتی اور ان کے بیدار علماء کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے لیکن اب وہ اھل سنت کے نام سے فائدہ اٹھا کر بیرونی ممالک میں بغاوتیں کروانے کے درپے ہیں جبکہ اھل سنت کے پیروکار خود بھتر جانتے ہیں کہ سعودی حکمران کبھی بھی ان کے لئے مخلص تھے اور نہ ہیں۔
یونائٹڈ پریس کے مشرق وسطی کے امور کے تجزیہ نگار "مائیکل ویس" نے لکھا ہے کہ ریاض حکومت نے بنیادی طریقہ کار کو اپنا کر شام کے میدان جنگ میں انتھا پسند سلفیوں کا ایک نیٹ ورک تشکیل دینے کا عزم کررکھا ہے جبکہ شام میں سلفی انتھا پسند اسی وقت ایک ھی چھتری تلے اکٹھے ھوچکے ہیں اور سعودی حکمران ان ٹولوں کی مدد سے شام میں امریکی اثر و رسوخ کا مکمل خاتمہ کرنا چاھتے ہیں۔
ویس کھتا ہے: آل سعود نے 50 بریگیڈز (ھر بریگیڈ کئی سو دھشت گردوں پر مشتمل) تشکیل دیئے ہیں اور کئی ھزار جنگجو بھی جمع کئے ہیں اور ان کی قیادت طاقتور ترین سلفی تنظیم لواء الاسلام کے سربراہ زھران علوش کے سونپ دی گئی ہے۔ علوش نے سعودی عرب میں ھی دینی تعلیمات کے شعبے میں تعلیم حاصل کی ہے اور اس کا باپ عبداللہ بن ایک سلفی مولوی ہے۔
ویس کے مطابق، یہ سعودی اقدام درحقیقت تیرہ دھشت گرد تنظیموں کے اتحاد کا رد عمل بھی ہے جن میں جبھۃالنصرہ بھی شامل ہے اور سعودی عرب اس اتحاد کو بھی تنھا کرنا چاھتا ہے۔
واضح رھے کہ جبھۃالنصرہ نامی دھشت گرد تنظیم ویسے تو القاعدہ سے وابستہ تنظیم سمجھی جاتی ہے لیکن القاعدہ سے وابستہ گروپ "دولۃ الاسلامیۃ في العراق و الشام" (داعش) کی طرف سے جبھۃ النصرہ پر شدید حملوں اور آل سعود کی طرف سے اس کو تنھا کرنے کی کوشش، نیز ترکی کی طرف سے اس گروپ کو دھشت گرد تنظیموں کی فھرست سے نکالنے کی کوششوں سے اس رائے کو تقویت پھنچتی ہے کہ یہ تنظیم درحقیقت اخوان المسلمین سے وابستہ ہے۔
سعودی منصوبے کا مقصد ان ناراض باغیوں اور دھشت گردوں کو اپنے اختیار میں لینا ہے جو قیادت سے محروم ہیں۔ سعودیوں کی کوشش ہے کہ ان گروپوں کو متحد کرکے اسد حکومت نیز تیرہ گروپوں کے اتحاد اور امریکہ کے حمایت یافتہ گروپ "فری سیرین آرمی" کے مقابلے میں ایک طاقتور فورس کو منظم کریں۔
یونائٹڈ پریس اشارہ کرتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل اور نفاذ کی اصل ذمہ داری سعودی انٹیلجنس کے سربراہ "بندر بن سلطان" اور اس کے بھائی نائب وزیر دفاع "سلمان بن سلطان" کو دی گئی ہے۔ بندر بن سلطان آل سعود کا کلیدی مھرہ ہے جس کو اسرائیل کا اعتماد بھی حاصل ہے اور امریکہ میں بھی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ اس کو شام کے مسئلے میں ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے تعینات کیا گیا ہے۔ بندر نے اس مقصد کے حصول کے لئے قطر کو شام کے میدان جنگ سے نکال باھر کیا اور کھا جارھا ہے کہ قطر میں فوجی بغاوت کروانے اور امیر قطر کو ھٹا کر اس کے بیٹے تمیم کو اس کی کرسی پر بٹھانے میں بھی بندر ھی کا کردار تھا۔
یونائٹڈ پریس کا کھنا ہے کہ بھرحال آل سعود کی ان کوششوں کا مفھوم یہ ہے کہ یہ خاندان امریکہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تزویری اتحاد سے دور ھورھا ہے جس کا آغاز 1945 میں امریکی صدر فرانکلن روزویلٹ کے دورہ ریاض اور عبدالعزیز بن سعود کے ساتھ ملاقات سے ھوا تھا۔
ادھر طلال بن عبدالعزیز نے بھی امریکہ پر عرب ممالک کے خلاف سازشیں کرنے کا الزام لگاتے ھوئے کھا ہے کہ شاید "تخلیقی دراڑیں" کی اصطلاح ـ جو سب سے پھلے جارج ڈبلیو بش کی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے استعمال کی تھی ـ امریکی سازشوں ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ فاش ھوگا۔
شھزادہ طلال نے امریکی افواج کے جنرل اسٹاف کے سربراہ جنرل "ھنری ھیو شلٹن" کے حوالے سے کھا ہے کہ بارک اوباما انتظامیہ مصر اور بحرین کے نظام ھائے حکومت کے خلاف سازش کررھی ہے اور ھم کھتے ہیں کہ اولاً سازش کا یہ نظریہ بالکل واضح و آشکار حقیقت ہے گوکہ بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں، ثانیاً اس امریکی جنرل کے خیالات سے ظاھر ھوتا ہے کہ امریکہ میں بعض فریق تمام عرب ممالک کے خلاف سازشیں کررھے ہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ ھم عرب ممالک کمزور اور سست ارادوں کی وجہ سے دوسروں کو اپنے خلاف سازشیں کرنے کا موقع فراھم کرتے ہیں۔
طلال کا ٹویٹر پیج
طلال نے کھا: جب تک عرب قومیں اپنے حالات میں تبدیلی نھیں لائیں گے اور ضروری اقدامات بجا نہ لائیں گے، سازشوں کو فاش کرنے کا انھیں کوئی فائدہ نھيں پھنچے گا کیونکہ عرب اقوام کے خلاف سازشیں یکے بعد دیگرے تیار ھوتی ہیں اور ان پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور ظاھر ہے کہ شکار جتنی کمزوری دکھائے گا شکاری کی لالچ بڑھتی رھے گی۔
بعض عرب اور امریکی ذرائع نے کھا ہے کہ امریکہ گذشتہ دو برسوں کے دوران مصر اور بحرین سمیت عرب ممالک کے خلاف سازشیں کرتا رھا ہے لیکن ان سازشوں کی وضاحت نھیں ھوئی ہے تاھم اس میں شک نھيں ہے کہ مرسی کے ساتھ بظاھر دوستانہ برتاؤ کے پس پردہ مصر کے انقلاب کے خلاف امریکی سازشوں نے اس انقلاب کو نیست و نابود کردیا ہے اور بحرین کے مسئلے میں بھی کبھی کبھی آل خلیفہ کے خلاف امریکہ کے بعض بیانات سامنے آئے ہیں جن کا مقصد کسی صورت میں بھی آل خلیفہ کے خلاف سازش کرنا نہ تھا بلکہ انقلابیوں کو یہ جتانا تھا کہ اوباما انتظامیہ ان کے ساتھ ہے۔ کسی وقت بعض ذرائع نے کھا تھا کہ امریکہ بحرین پر سعودی قبضے کے خلاف ہے جس کی کوئی حقیقت کچھ اور ہے اور امریکہ عملا وہ آل خلیفہ حکومت کو تحفظ فراھم کرتی رھی ہے کیونکہ بحرین کے ساحلوں پر امریکہ کا پانچواں بحری بیڑا تعینات ہے اور امریکہ آل خلیفہ کا سخت حامی ہے۔ لیکن کسی سعودی شھزادے کی جانب سے امریکہ پر سازش کا اعلانیہ الزام اپنی جگہ اھم ہے۔