فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 12 February 2025

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدرڈاکٹر کلب صادق نقوی کا انٹرویو میں کھنا تھا کہ عالم اسلام کو

اس وقت لاتعداد مشکلات کا سامنا ہے ان مشکلات میں سب سے اھم یہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں سمجھ گئیں ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا دینا سب سے آسان کام ہے اور وہ یہ کام زرخرید مفتیوں اور نام نھاد ملاؤں کے ذریعے انجام دیتے ہیں، جن کا اسلام کے ساتھ دور دور کا بھی واسطہ نھیں ہے۔
خاندان اجتھاد سے تعلق رکھنے والے مولانا ڈاکٹر کلب صادق نقوی دنیائے اسلام کے مایہ ناز عالم دین ہیں، آپ 1939ء میں ھندوستان کے شھر لکھنو میں پیدا ھوئے، مولانا کلب صادق ھندو مسلم تعلقات کی بحالی میں اھم رول نبھارھے ہیں، آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، مولانا کلب صادق ھندوستان کی سب سے بڑی سماجی و مذھبی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر کی حیثیت سے اپنی فعالیت انجام دے رھے ہیں، اسلامک سکالر مولانا کلب صادق ھندوستان کے مشھور و اعلیٰ معیار کے Era Medical College & Hospital کے صدر بھی ہیں، اپریل 1984ء سے توحید المسلمین ٹرسٹ کی سرپرستی کرتے ہیں، جس کے ذیل میں یونیٹی ٹیکنکل اسکول، یونیٹی پبلک اسکول، یونیٹی کالج لکھنو، حزا چیریٹیبل ٹرسٹ، میڈیکل سنٹر، ٹی ایم ٹی ویڈوز پینشن اور ٹی ایم ٹی آرپھنز ایجوکیشنل اسکیم جیسے ادارے قوم کی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔
مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق کے زیر نظارت چلنے والے یونیٹی مشن اسکولز میں ھزاروں مسلمان بچے عصری تعلیم سے فیضیاب ھو رھے ہیں اور ضرورت مند طلاب کی بنیادی ضروریات توحید المسلمین ٹرسٹ پوری کررھا ہے، اسلام ٹائمز نے ایک نشست کے دوران مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق سے ھندوستانی مسلمانوں کی ترقی و پیشرفت اور دنیا کی موجودہ صورتحال کے سلسلے میں ایک خصوصی انٹرویو کا اھتمام کیا جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔
مسلمانوں کی پسماندگی اور مصائب میں گھر جانے کے کیا عوامل کارفرما ہیں۔؟
مصیبت باھر سے نھیں آتی ہیں بلکہ بلائی جاتی ہیں، مصیبتوں کو دعوت دینے میں خود مسلمان ذمہ دار ہیں، جمھوری اسلامی ایران کے علاوہ ساری دنیا اس وقت باھر سے بلائی گئی مصیبت کی شکار ہے، جو قوم تعلیم و تربیت میں پسماندہ ہو جاتی ہے وہ دنیا کے ھر محاذ پر، ھر سطح پر پسماندہ رہ جاتی ہے، اس کے سوچنے و سمجھنے کی صلاحیت ختم یا کم ھو جاتی ہے، مسائل کو حل کرنے کے لئے اس کا اپروچ Rational ھونے کے بجائے Emotional ھو جاتا ہے، عقل و تعلیم و تربیت سے ھی انسان اپنے مسائل کا حل تلاش کرلیتا ہے جبکہ جانور اس زیور سے نابلد ھوتے ہیں، میں عصری تعلیم کو ایک ٹانگ اور دینی تعلیم کو دوسری ٹانگ سمجھتا ھوں، مگر وہ دینی تعلیم نھیں جو ھمارے پاکستان و ھندوستان کے دینی مدارس میں دی جا رھی ہے، جن مدارس میں دینی تعلیم نھیں بلکہ فرقہ واریت کی تعلیم ھوتی ہے، پسماندہ ذھن کی تعلیم ھوتی ہے، جس کی وجہ سے مسلمان دن بہ دن اور پیچھے جا رھے ہیں، جس کی وجہ سے طالبان اور القاعدہ پیدا ھو رھے ہیں، ان کو یھی سکھایا جاتا ہے کہ ھم حکومت کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور حکومت بغیر طاقت کے نھیں ملا کرتی، اس لئے وہ اپنی جانیں لے رھے ہیں اور دوسروں کی جانیں بھی لے رھے ہیں اور اس سے بڑھ کر اسلام کی جان بھی لے رھے ہیں اور اسلام پوری دنیا میں بدنام ھو رھا ہے۔
حصول علم اور پیشرفت کے سلسلے میں ھندوستانی مسلمانوں کی موجودہ حالت کیا ہے۔؟
ھندوستان میں مسلمان تعلیم کی طرف راغب ھو رھے ہیں، حصول علم کی جانب راغب ھونا ایک بھت بڑا سنگ میل ثابت ھو رھا ہے، مگر دوسری قوم کے مقابلے میں مسلمان تعلیم کے شعبے میں بھی بھت پیچھے ہیں جس کی بھت ساری وجوھات ہیں، ایک یہ کہ دوسری کمیونٹیز میں بچوں خاص کر نوجوانوں کو تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لئے بھت سارے پروگرامز ہیں، گائیڈینس و کونسلنگ کے مراکز دستیاب ہیں وھاں والدین بچوں کو تعلیم دینے میں بھت سنجیدہ ہیں، جبکہ مسلمانوں میں ایسی سھولیات و رجحانات نہ ھونے کے برابر ہیں، بعض مسلمان غریبی و تنگ دستی کی وجہ سے بچوں کی طرف توجہ نھیں دے پاتے ہیں، ھمارے یھاں تعلیمی اداروں کا نہ ھونا بھی تعلیمی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے، ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کی ایک حالیہ سروے جس میں سابقہ تقریباً 25 سالوں میں ھندوستان کے 20 اعلیٰ معیاری کالجز (انجیئنرنگ یا میڈیکل کالجز) کی کارکردگی و لسٹ مرتب کی گئی، ان کالجز میں مسلمانوں کا ایک واحد سرمایہ ھمارے Era Medical College کی شکل میں سامنے آیا ہے، اسکے علاوہ تمام اھم تعلیمی مراکز دوسری کمیونٹیز یا ھندوؤں کے ہیں، یہ ہے تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی حالت جو بھت ھی افسوسناک ہے۔
عالم اسلام کو کیوں ھر آئے دن نئی نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رھا ہے اور اسلام و مسلمان کیوں آئے دن تذلیل کا شکار ھو رھے ہیں۔؟
عالم اسلام کو اس وقت لاتعداد مشکلات کا سامنا ہے ان مشکلات میں سب سے اھم یہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں سمجھ گئیں ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا دینا سب سے آسان کام ہے اور وہ یہ کام زرخرید مفتیوں اور نام نھاد ملاؤں کے ذریعے انجام دیتے ہیں، جن کا اسلام کے ساتھ دور دور کا بھی واسطہ نھیں ہے، دوسرے یہ کہ مسلمان قوم جذباتی قوم تصور کی جاتی ہے، معمولی سی بات پر ایک دوسرے کو مارنے پر اُتر آتے ہیں، آپس میں بم برسائے جاتے ہیں، مسلمانوں سے مسجدیں بھی محفوظ نھیں ہیں، منفی فکر کی وجہ سے بھت سارے لوگ تشدد و بربریت کا راستہ اختیار کرتے ہیں جس تشدد و کٹر پنتی سے اسلام ھی بدنام ھوتا جا رھا ہے۔
میں اسلام کے ھر فرقے کو ایک دوسرے کے ساتھ متحد دیکھنا چاھتا ھوں اور ساتھ میں یہ بھی چاھتا ھوں کہ القاعدہ و طالبان جیسی اسلام دشمن تنظیموں کا نام و نشان بھی نہ رھے کیونکہ یہ انسانوں کے بھیس میں جانور ہیں، طالبان اور القاعدہ بھیڑیئے ہیں، ان جانوروں اور بھیڑیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مذھب اسلام کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑ رھا ہے، القاعدہ جیسی تنظیموں نے اسلام کی شبیہ بگاڑ کر رکھ دی ہے، انکی غلط و غیر اسلامی حرکات کی وجہ سے غیر مسلم ممالک میں رھنے والے بےگناہ مسلمانوں کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
شام میں صھیونی سازشوں کے بارے میں آپ کی رائے جاننا چاھیں گے۔؟
صھیونی سازشیں شام تک محدود نھیں ہیں بلکہ دنیا کے جس گوشے میں بھی مسلمان آباد ہیں وھاں وھاں صھیونیوں نے اپنی ناپاک سازشوں کا جال بچھا رکھا ہے، کبھی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑوا رھے ہیں، کبھی دوسری قوموں کے ساتھ، غرض صھیونیت پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے سے ھی مسلمانوں کے دشمن قرار پائے ہیں، جس کی گواھی قرآن کریم نے بھی دی ہے کہ یہ کبھی مسلمانوں کے دوست نھیں ھو سکتے ہیں، آپ دیکھیں کہ ھر عالمی جنگ کے پیچھے یھودیوں کا ھاتھ دیکھا گیا ہے، یہ خود تو آپس میں نھیں لڑے بلکہ دوسروں کو لڑواتے ہیں خاص کر مسلمانوں کے خلاف ھروقت زھرافشانی کرتے رھتے ہیں اور یہ سلسلہ اول اسلام سے چلا آ رھا ہے، مسلمانوں کو صھیونیوں کے بارے میں علم ھونا چاھیئے کہ یہ لوگ شرپسند ہیں یہ ھمیشہ ایک قوم کو دوسری قوم کے ساتھ لڑوانے میں اپنا فائدہ تلاش کرتے ہیں اور خود دور کھڑے تماشہ ضرور دیکھتے ہیں، جس کی واضح مثال آج آپ شام میں دیکھ رھے ہیں کہ کس طرح یہ ایک گروپ کو ھتھیار، ڈالر و عورتیں فراھم کرکے دوسرے مسلمان گروپ سے لڑوا رھے ہیں اور معصوم مسلمانوں کا خون بھاتے ہیں۔
رھبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای سے آپ بارھا ملاقات کا شرف حاصل کرچکے ہیں، رھبر معظم کے بارے میں آپ کے تاثرات۔؟
رھبر معظم انقلاب اسلامی کی تعریف و ثناء کے لئے میرے پاس وہ الفاظ نھیں ہیں جن سے حق ادا کرسکوں، آپ بھت ھی با بصیرت قائد ہیں، معاملات کی گھرائی تک جاتے ہیں، اور اللہ کے سوا ڈر و خوف کسی چیز کا نھیں پایا جاتا، ھمیں رھبر معظم مدظلہ العالی کو اللہ کا ایک انمول تحفہ سمجھنا چاھیئے اور تمام مسلمانوں کو چاھیئے کہ وہ رھبر انقلاب اسلامی کی تائید و پیروی کریں، یہ رھبر کی قیادت کا ھی ثمر ہے کہ ایران میں اقلیت میں رھنے والے اپنی پوری مذھبی آزادی کے ساتھ آزادانہ اور بےخوف زندگی بسر کررھے ہیں اس کے برعکس دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک جھاں اھل سنت برادری حکمران ہیں اھل تشیع کو تحفظ نھیں فراھم ھوتا ہے، چند ماہ قبل بھارت کا ایک شیعہ سنی وفد جس میں حقیر بھی شامل تھا ایران کے دورے پر گئے تھے، ھم سب مل کر ایران کے تربت جام شھر گئے، جھاں سنی اکثریت میں ہیں وھاں بھی گئے، وھاں ھم نے اھل سنت کے حالات دیکھے، ان کو جو آزادی ہے وہ ھم نے خود دیکھی، ان کی جو بڑی بڑی مسجدیں آباد ہیں وہ ھم نے خود دیکھیں، ان کے مدرسے آباد ہیں وہ ھم نے دیکھے، غرض سمجھ داروں کے لئے یھی کافی ہے کہ سنی اقلیت کو ایران میں کتنی آزادی حاصل ہے اور اس کے مقابلہ میں اھل تشیع کی اقلیت سعودی عرب میں کن مشکلات کا شکار ہیں، یہ دیکھنے والے خود ھی دیکھتے ہیں، ایسے ممالک میں اھل تشیع ھمیشہ خوف و ڈر کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس کے بارے میں اھل سنت کے حکمرانوں کو سوچنا چاھیئے، غرض کہ رھبر معظم سید علی خامنہ ای کی ھی قیادت ہے کہ جو وحدت ملت کی بات کرتے ہیں اور مسلمانوں کو آپس میں متحد دیکھنا چاھتے ہیں اور اسکے لئے عملی کوشش بھی جاری رکھے ھوئے ہیں، ھمارے رھبر مسلمانوں کی کمزوریوں اور دشمن کی سازشوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ اسکا تدارک و راہ حل اچھی طرح جانتے ہیں۔
ایرانی قوم اور نوجوان ھمارے نوجوانوں کے لئے کیا پیغام دیتے ہیں۔؟
ھندوستان کے مقابلے ایران نے ھر میدان میں ترقی حاصل کی ہے مغربی ممالک کی طرف سے معاشی و اقتصادی پابندیوں کے باوجود بھی ایران نے بھت سے میدانوں میں نمایاں کارنامے انجام دیئے ہیں، چاھے زراعت کا شعبہ ھو یا سائنس کا، ٹیکنیکل میدان ھو یا تعلیمی فیلڈ یا پھر دیگر شعبہ جات، ھاں دقتیں و مشکلات بھی بھت آئے مگر ان تمام چیلینجز کا مقابلہ بڑی مھارت اور دانشمندی کے ساتھ ایران نے کیا، وجہ صرف وھاں کی لیڈر شپ ہے وھاں قیادت مخلص ہے اور قوم اپنی قیادت خود منتخب کرلیتی ہے، لوگ اپنے وطن سے وفا کئے ھوئے ہیں، کرپشن نھیں ہے، بے ایمانی نھیں پائی جاتی ہے، رھا سوال ھندوستان کا یھاں کے لوگ تو وطن پرست ہیں چاھے وہ ھندو ھوں یا مسلمان ھوں، سکھ ھوں یا کسی دوسرے مذھب سے تعلق رکھنے والے مگر یھاں کی لیڈر شپ مخلص نھیں ہے، لوگوں کی لگام غلط حکمرانوں کے ھاتھوں میں ہے، یھی بڑی رکاوٹ ہے کہ ھندوستان کی ترقی و پیشرفت میں، اور اس میں بھی مسلمان زیادہ استحصال کا شکار ھو رھے ہیں۔
اگر موازنہ کیا جائے تو جمھوری اسلامی ایران بےمثال مذھبی اور شرعی حکومت چلانے کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنا لوھا منوا چکا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق ایران نے بھت کم مدت میں پوری دنیا بشمول امریکہ و یورپ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دس گناہ ترقی کی ہے، ھمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایران نے معاشی و اقتصادی پابندیوں کے باوجود غریبی و جھالت سے چھٹکارا پایا ہے جبکہ ھندوستان کے اوپر کسی قسم کی پابندی نھیں ہے مگر یھاں تقریباً آدھی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رھے ہے۔
غرض کہ ھر حال میں ایران کے سیاست دان اور وھاں کے لوگ ھندوستانی سیاست دانوں و جوانوں کے لئے رول ماڈل ثابت ھو سکتے ہیں، اگر ھندوستان بھی ایران کے نقش قدم پر چلے تو یقیناً ھندوستان بھت سے مسائل سے چھٹکارہ پائے گا۔
کیا ھندوستان میں مسلمانوں کی کوئی سیاسی قیادت نھیں ھونی چاھیئے، کیا ضرورت محسوس ھوتی ہے۔؟
جی ھاں، بالکل یھاں مسلمانوں کے لئے صالح قیادت کی ضرورت ہے، آج تک جو بھی مسلم حضرات منتخب ھوکر پارلیمنٹ میں پھنچے ہیں انھوں نے اسلام کو پارلیمنٹ کی سیڑھیوں سے ھی اسلام کو خیرباد کھہ دیا، انکی تمام قوت، ساری کی ساری وفاداری اپنی پارٹی کے ساتھ وابستہ ھو جاتی ہے، انکی دلچسپی مسلمانوں کے ساتھ نھیں رھتی، ھاں مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت اگرچہ وہ سنی مسلک سے تعلق رکھتے تھے لیکن انھوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باھر بھی مسلمانوں کو سرخرو کیا جس کی مثال آج بھی دی جاتی ہے اگر ان ھی جیسی شخصیات مسلم معاشرے کی ضمام اپنے ھاتھ میں لیں تو عنقریب مسلمانوں کی بدحالی دور ھوجائے گی۔
عالم اسلام کیلئے کیا پیغام دینا چاھئیں گے؟
عالم اسلام کے لئے مجھ ناچیز کا پیغام یھی ہے کہ صحیح معنوں میں قرآن پر ایمان لائیں اور دلبرداشتہ نہ ھوں کیونکہ برسھا برس پھلے قرآن نے مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں پیشنگوئی کر دی ہے کہ اے مسلمانوں پریشان نہ ھوں تم اپنے ایمان کو معرفت کے ساتھ برقرار رکھو اور دنیا میں کوئی تمھیں ھرا نھیں سکتا۔ تو سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ھمیں معرفت ھونی چاھیئے، ھمیں یقین کامل ھونا چاھیئے اور شدت پسندی کو چھوڑ کر اللہ کے احکامات پر عمل کرنا چاھیئے تو یقیناً کامیابی مسلمانوں کی مقدر ہے۔
 

Add comment


Security code
Refresh