فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 12 February 2025

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

چومسکی اپنی مادری اور آبائی سرزمین پر ـ جو کہ اپنے اندر تضادات کا شکار ہے ـ پر تنقید کرتے ہیں۔ کھتے ہیں:

 امریکی استعماری طاقت کم ھورھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی قوت میں کمی کا آغاز 1945 سے ھوا ہے۔ امریکی طاقت کا عروج دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور اس زمانے سے رو بزوال ہے۔
امریکی مفکر "نوآم چومسکی" نے امریکی اخبار ھیفنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ھوئے ایران، شام اور امریکی استعماری طاقت کا جائزہ لیا ہے۔
وہ شام کے بحران اور اس ملک کے معاملات میں امریکہ اور روس کی مداخلت کے بارے میں کھتے ہیں: قطعی طور پر امریکہ اور روس کے مفادات اس ملک میں مختلف ہیں اور اس سلسلے میں تضاد ایک معمولی اور فطری مسئلہ ہے۔ اس کے باوجود امریکہ بین الاقوامی حوادث و واقعات میں اثر و رسوخ کے درپے ہے تا کہ بین الاقوامی برادری میں اپنی پوزیش کو زیادہ مستحکم کرے جبکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اس وقت ایک عالمی طاقت کی کوئی نشانی نھیں ملتی۔
چومسکی نے کھا: سنہ 1940 کے عشرے کے بعد سے عالمی طاقت چند گانگی کا شکار ھوئی ہے۔ 1949 میں چین مستقل اور خومختار ملک بن گیا اور یہ مسئلہ امریکی استعمار پر ایک کاری ضرب کی حیثیت رکھتا تھا؛ اسی بنا پر ایک سسٹم بنایا گیا جس کا نعرہ یہ تھا کہ چین کو قابو میں لاکر ایشیا کو کنٹرول میں لایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس زمانے کے بعد لاطینی امریکہ بھی امریکی کنٹرول سے خارج ھوا۔
چومسکی نے تفصیلات کو نظر انداز کرتے ھوئے کھا: امریکہ میں پالیسیوں کا تعین مفکرین اور دانشوروں کے ایک گروپ کے ذریعے کیا جاتا ہے لیکن ان پالیسیوں نے امریکی طاقت کو شدید ترین نقصانات پھنچائے ہیں۔
یہ امریکی پروفیسر ـ جو 85 برس تک پڑھاتے رھے ہیں ـ امریکی طاقت کے قانونی جواز پر سنجیدہ نکتہ چینیوں کے حوالے سے مشھور ہیں اور بار بار یھی استاد تھے جنھوں نے امریکی سیاسی حقائق کا جائزہ لیا ہے۔
کھتے ہیں: شام کو شدید خشک سالی کا سامنا تھا جس کی وجہ سے شامی کاشتکاروں کو شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ لوگ شھروں میں جانے پر مجبور ھوئے۔ شام میں شھری بدنظمی سنجیدہ تھی چنانچہ شام میں آنے والے بحران کے ایک حصے کا تعلق زمین کے درجہ حرارت میں اضافے سے ہے۔ ایک زمانے میں اس ملک کو کئی میلین عراقی مھاجرین کا سامنا تھا۔
ان کے بقول: عربی بھار کے آغاز پر شام کے بعض حصوں میں بھی مظاھرے ھوئے جس پر صدر اسد نے تشدد کا راستہ اپنایا جس کی وجہ سے ان کا ملک موجودہ صورت حال سے دوچار ھوا۔
انھوں نے البتہ یہ نھیں بتایا ہے کہ شام میں ھونے والے مظاھرے بعض دھشت گردوں کی طرف سے متعدد فوجیوں کے قتل کے ساتھ شروع ھوئے تھے۔
انھوں نے کھا: دمشق حکومت کو روس اور ایران کی حمایت حاصل تھی اور باغی گروپ ـ جن میں بعض مقامی عسکریت پسند اور بعض سیکولر جمھوریت پسند تھے ـ قطر اور امریکی سی آئی اے کی عسکری حمایت سے بھرہ مند تھے۔
انھوں نے کھا: شام اس وقت دو حصوں میں بٹ گیا ہے ایک حصہ حکومت کے زیر کنٹرول ہے اور ایک حصہ باغیوں کے کنٹرول میں اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر شامی کرد خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں اور شام کے کرد علاقے عراق کے کرد علاقوں سے الحاق کرسکتے ہیں تاکہ ایک کرد علاقے کو قائم کریں جس کی اپنی سرحدیں ھوں۔ چومسکی نے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے ایلچی اخضر الابراھیمی کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھا: موجودہ حالات میں کسی قسم کے مذاکرات نھیں ھوسکتے کیونکہ صدر اسد ایسی میز پر نھیں بیٹھیں گے جھاں انھیں خودکشی کے لئے آمادہ کیا جاتا ھو۔
انھوں نے کھا: صدر اوباما شام کے مسئلے میں بدستور مرکزی کردار ادا کررھے ہیں گو کہ امریکی قرار داد کو روس کی حمایت حاصل ہے لیکن امریکہ کے موقف کا صحیح ادراک مشکل ہے۔ امریکہ بظاھر شام کے معاملے میں کنارہ کشی اختیار کرنے کا عزم کئے ھوئے ہے۔
شام کے سلسلے میں امریکی پالیسیاں اوباما کی پالیسیاں ہیں
نوآم چومسکی نے کھا: عالم عرب کے استبدادی حکمران ایران کے سخت مخالف ہیں اور ان کی خواھش ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف اقدام کرے لیکن عرب ممالک کے عوام کی رائے حکام کی رائے سے مختلف ہے۔ عرب ممالک کے عوام ایران سے محبت نھیں کرتے لیکن اس کو اپنے لئے خطرہ بھی نھيں سمجھتے گوکہ اس طرح کا رجحان مغرب میں موجود ہے۔ عرب ممالک کے عوام امریکہ اور اسرائیل کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور مغربی ممالک ایران کو۔
 

Add comment


Security code
Refresh