فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 12 February 2025

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

صھیونی ٹیلی ویژن کے چینل 2 نے اعلی اسرائیلی اور خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں کے عرب حکام کے درمیان خفیہ

ملاقاتوں کا انکشاف کیا ہے اور کھا ہے کہ ان خفیہ ملاقاتوں میں حالیہ ھفتوں میں زبردست اضافہ ھوا ہے۔
فلسطینی ویب سائٹ المنار نے لکھا ہے کہ اسرائیلی ٹیلی ویژن کے چینل 2 نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے حکام سے اعلی اسرائیلی حکام کی خفیہ ملاقاتوں میں اضافہ ھوا ہے اور ان ملاقاتوں کا مقصد ایران کے خلاف اقدامات کو ھمآھنگ کرنا، ایران کے خلاف اقدامات کرنا اور ان ملکوں کی امریکہ سے قربت ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام ان عرب ممالک کے حکام سے ملاقاتیں کررھے ہیں جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نھیں ہیں۔
اس رپورٹ میں کھا گیا ہے: ان ملاقاتوں کا ایک مقصد اسرائیل اور ان ممالک کے حکام کے درمیان پیغامات کا تبادلہ ہے اور اسی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کا اور ان عرب حکام کا کھنا ہے کہ گویا ایران نے امریکہ کو دھوکا دیا ہے اور اوباما انتظامیہ کو آمادہ کیا جارھا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ایسے مفاھمت نامے پر دستخط کریں جس میں ایران کے جوھری پروگرام کو رول بیک کی شق مندرج نہ ھو۔
اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے: "تمام تفصیلات کو فاش نھیں کیا جاسکتا" لیکن قطعی امر ہے کہ خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں کے کئی اعلی حکام حال میں خفیہ طور پر اسرائیل کے دورے پر آئے ہیں تاکہ خفیہ طور پر ایران کے خلاف کوششوں اور اقدامات کو ھمآھنگ کی راھیں تلاش کی جائیں۔
صھیونی چینل 2 کی اس رپورٹ میں کھا گیا ہے: یہ مسائل ابھی تک منظر عام پر نھیں آئی ہیں لیکن ان اجلاسوں اور دوروں کا ھدف ایک نیا محاذ تشکیل دینا ہے جس کو "فکرمندیوں کا محاذ" کھا جاسکتا ہے۔ بنیامین نیتن یاھو اس محاذ کے بانیوں میں سے ہے اور اس کی تشکیل کا ھدف ایران کے مقابلے میں ایک مستحکم رکاوٹ وجود میں لانا ہے اور اس میں خلیج فارس کی زیادہ تر ریاستیں شامل ھونگی۔
اسرائیل نے عربوں کی سرزمینوں پر قبضہ کررکھا ہے اور عربوں کے خلاف برسر پیکار ہے اور عربوں نے ان کے مقابلے میں عرب لیگ تشکیل دی تھی جو اس وقت اسرائیل کے مفادات کا تحفظ کررھی ہے لیکن زمانے کی ستم ظریفی دیکھیں کہ وہ اب اسرائیل مخالف محاذ مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لئے اسرائیل سے متحد ھورھے ہیں بلکہ متحد ھوچکے ہیں اور شام میں اسی محاذ مزاحمت کے خلاف لڑتے ھوئے اربوں ڈالر خرچ کرچکے ہیں اور خرچ کررھے ہیں۔
ادھر صھیونی چینل 2 نے اقوام متحدہ میں صھیونی ریاست کے مندوب "رون بروسور" سے پوچھا: کیا یہ درست ہے کہ امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات کی بحالی کے پیش نظر خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے حکام نے اسرائیل کے ساتھ رابطے کئے ہیں؟ تو بروسور نے جواب دیا: سعودی عرب اور خلیج فارس کی دوسری عرب ریاستیں در حقیقت ایران کی جانب سے تشویش میں مبتلا ہیں اور اس تشویش کی بنا پر وہ تمام فریقوں سے ملاقاتیں اور بات چیت کررھی ہیں۔
بروسور نے کھا: میں ان کے ساتھ انجام پانے والے اقدامات کے بارے میں کچھ نھيں کھنا چاھتا لیکن جو کچھ میں کھہ سکتا ھوں وہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور خلیج فارس کی دوسری عرب ریاستیں ایران کے ایک جوھری ملک میں تبدیل ھونے سے فکرمند ہیں اور اس سلسلے میں وہ مختلف سطوح پر حکام کو اپنے پیغامات پھنچا رھی ہیں۔
صھیونی ریاست کے ٹیلی ویژن کے چینل 10 نے بھی (بقول اس کے) "خلیج فارس کے اعتدال پسند ریاستوں خاص طور پر سعودی عرب" پر منڈلاتے ھوئے نا امیدی کے بادلوں کی طرف اشارہ کرتے ھوئے ایران کی سفارتی قوت و صلاحیت کا اعتراف کرتا ہے اور کھتا ہے: ایرانی امریکہ کو اپنے پیچھے دوڑا رھے ہیں۔ اس چینل نے کھا ہے کہ اس گیم میں ہارنے والے صرف اور صرف عرب ممالک ہیں۔
بےشک یہ ایران فوبیا کی صھیونی تشھیری مھم ہے جو دوست کو دشمن کے طور پر دشمن کو دوست کے طور پر متعارف کرانے کے لئے ھورھی ہے ورنہ اسرائیل کب سے عربوں کا دوست ھوا اور امریکہ نے کس دوست ملک کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنایا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ایرانی کی سفارتی پیشرفت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر عربوں کو اپنے پیچھے دوڑا رھا ہے ورنہ دنیا جانتی ہے کہ ایران عرب ملکوں کا دشمن نھيں بلکہ دوست ہے؛ تاھم وہ امریکہ اور اسرائیل کی سازش میں آکر دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست سمجھ بیٹھے ہیں جس کا خمیازہ بھگتنے میں بھت طویل عرصہ نھيں لگے گا۔
ادھر ڈبلیو این ڈی ویب سائٹ نے لکھا: سعودی عرب اور دوسری عرب ریاستیں صدر روحانی اور صدر اوباما کے درمیان ٹیلیفون رابطے اور سفارتی تعامل کے بعد اب چین اور روس کی قربت حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
ایک اردنی سفارتکار نے اپنا نام فاش نہ ھونے کی شرط پر کھا ہے کہ ارنی بادشاہ عبداللہ ثانی نے اعلی سعودی و دیگر عرب حکام سے بات چیت کی ہے اور اس ملاقات میں صدر حسن روحانی اور اوباما کے ٹیلیفون رابطے کے آثار و نتائج کا جائزہ لیا گیا ہے۔
عرب ممالک کے حکام نے ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی بحالی سے شدید ترین تشویش کا اظھار کیا ہے۔
اس اجلاس میں عرب حکام نے سعودی و دیگر عرب حکام کی اس تجویز کا بھی جائزہ لیا کہ چین اور روس سفارتی میدان اور تجارت میں زیادہ بڑا کردار ادا کریں۔
آل سعود نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ وہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے چین اور روس کو سستی قیمت پر تیل فروخت کرنے کے لئے تیار ہیں۔
 

Add comment


Security code
Refresh