جرمنی میں امریکہ کے سابق سفیر جان سی کارن بلم نے کھا ہے کہ عراق پر امریکی حملے اور صدام حکومت کے خلاف جنگ کی منصوبہ
بندی 9/11 کے واقعہ سے پھلے ھی کرلی گئي تھی۔ارنا کی رپورٹ کے مطابق جان سی کارن بلم نے ایک انٹرویو میں جارج بش کی صدارت کے دوران امریکی خارجہ پالیسی پر شدید تنقید کرتے ھوئے کھا کہ 9/11 کا واقعہ عراق پر حملے کے لئے امریکی حکومت کا ایک حربہ بن گيا۔
جرمنی میں سابق امریکی سفیر نے کھا کہ جارج بش کی جنگ پسندانہ پالیسی کے پیش نظر اگر 9/11 کا واقعہ پیش نہ آتا تو بھی جارج بش عراق پر حملے کے لئے کوئي اور بھانہ تلاش کرلیتے۔ جان سی کارن بلم نے امریکہ کی اقتصادی حالت کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھا کہ ماھرانہ تجزیہ و تحلیل کے بعد ھمیں یہ پتہ چلا کہ جنگ عراق امریکی اقتصاد کا بتدریج دیوالہ نکلنے کا ایک سبب تھی۔یہ انکشاف ایک ایسے وقت کیا گیا ہے کہ جب گیارہ ستمبر کی تاریخ قریب آرھی ہے اور جیسے جیسے یہ تاریخ قریب آتی جارھی ہے خصوصیت کے ساتھ امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں پر انجانا خوف طاری ھوتا جارھا ہے۔اطلاعات کے مطابق واشنگٹن میں مسجد الاسلام کے امام جماعت عبدالعلیم موسی نے کھا ہے کہ امریکہ میں مسلمان خوف و اضطراب میں زندگي گذار رھے ہیں۔
عبدالعلیم موسی نے پریس ٹی وی سے گفتگو میں کھا کہ مسلمانوں کے خلاف سی آئي اے اور پولیس کی جاسوسی سے مسلمان خوف و اضطراب میں مبتلا ھو چکے ہیں انھوں نے کھا کہ امریکی مسلمانوں کی جاسوسی کرنا امریکی اداروں کی پرانی روش ہے لیکن گيارہ ستمبر کے واقعات اور دھشت گردی کے خلاف نام نھاد جنگ کے شروع ھونے کے بعد سے امریکہ میں مسلمانوں پر دباؤ بڑھتا ھی جا رھا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کےخلاف جاسوسی کرنے کے لئے نیویارک پولیس اور سی آئی اے کے تعاون کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھا کہ امریکی پولیس نے اس تعاون کے تحت مسلمانوں کے تمام عام مقامات کو اپنی نگرانی میں لے لیا ہے اور ان مقامات پر جاسوسی کے آلات نصب کر دئے ہیں۔گیارہ ستمبر کی وہ منحوس تاریخ ہے کہ جس دن امریکہ میں بیک وقت چار ھوائی جھازوں کے اغوا کا ڈرامہ رچایا گیا اور پھر نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹرکی عمارتوں کو لوگوں نے زمین بوس ھوتے دیکھا ۔
اسی طرح امریکی وزارت جنگ پینٹا گون پر بھی ایک حملے کی خبر نشر ھوئی اور یہ دعوی کیا گیا کہ ایک طیارہ اس سے جا ٹکرایا ہے ۔البتہ جس حصہ میں یہ طیارہ ٹکریا ہے وھاں عمارت کے نزدیک لگے بجلی کے پول اور کھمبے بالکل محفوظ رھے ۔ ایک طیارے کو امریکی افواج نے مارگرایا۔لوگوں نے صرف میڈیا پر دیکھا اور سنا اور اس پر یقین بھی کرلیا آور آج امریکہ اور اس کے ھمنوا ممالک کا میڈیا صبح ھی اس ڈرامے سے متعلق خبریں اور تبصرے نشر کرکے ایک بار پھر مسلمانوں کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرارھا ہے ۔
گذشتہ مارچ کے مھینے میں امریکہ میں ایک ھزار آرکی ٹیکٹ اور انجینیروں نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیاتھا کہ وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کےبارےمیں نئے سرے سے تحقیقات کرائے۔
امریکن فری پریس کے مطابق ان آرکیٹیکٹ اور انجینروں نے سان فرانسسکو میں ایک کانفرنس میں 9/11 کے واقعات کے بارےمیں حکومتی تحقیقات پرسوالیہ نشان لگاتےھوئے یہ سوال اٹھایا تھاکہ گيارہ منٹوں میں کس طرح فولاد اور سیمنٹ کا ڈھانچہ تباہ ھوگيا۔امریکن آرکیٹیکٹ ایسوسی ایشن کے رکن رچرڈ گيج نے کھا ہے کہ فیڈرل ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ اور نیشنل اسٹنیڈرڈ اینڈ ٹکنالوجیکل انسٹی ٹیوٹ نے ڈبلیو ٹی سی کے کنارے عمارت کے انھدام کے بارے میں جو دلیلیں پیش کی ہیں وہ ناقابل قبول اور ناقص ہیں اور حقائق سے تضاد رکھتی ہیں۔
یادرھے 9/11 دھشت گردانہ حملوں میں نیویارک میں عالمی تجارتی مرکز کی جڑواں عمارتیں تباہ ھوگئيں تھیں ۔ادھر امریکہ کے تحقیقاتی گروہ کی جدید ترین تحقیقات سے صاف ظاھرھوگیا ہےکہ گيارہ ستمبر کے واقعات سفید جھوٹ کا پلنداہے۔ڈیجیٹل جرنل کی ویب سائٹ کے مطابق امریکہ میں سول انجنیروں اور فن تعمیر کے ماھرین کے ایک گروہ نے وسیع تحقیقات انجام دینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہےکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی جڑوان عمارتوں کا انھدام جیسا کہ امریکی اور عالمی میڈیا میں بتایا گيا ہے کسی بھی صورت میں صرف طیاروں کے ٹکرانے اور طیاروں کے ایندھن سے لگنے والی آگ کے نتیجے میں عمل میں نھیں آسکتا۔جڑواں عمارتوں کے ملبے سے ملنے والے پھگلے ھوئےلوہے اور فولاد کے نمونوں سے معلوم ھوتا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی جڑواں عمارتوں کی تباھی صرف طیاروں کے ایندھن سے لگنے والی آگ کے نتیجے میں ممکن نھیں ھوسکتی کیونکہ طیاروں کے ایندھن سے لگنے والی آگ اتنی شدید نھیں ھوتی کہ لوھے اور فولاد کو پگھلادے۔
گیارہ سمتبر کے تحقیقاتی گروہ سے موسوم ان ماھرین کا کھنا ہےکہ صرف طیاروں کے ٹکرانے کے نتیجے میں جڑواں عمارتيں نھیں گری ہیں بلکہ پھلے سے ان عمارتوں میں بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مادہ نصب کیا گيا تھا۔ ان ماھرین کا کھنا ہے کہ جڑواں عمارتوں کے گرنے کے کئي گھنٹوں بعد عمارت نمبر سات کے گرنے سے صاف پتہ چلتا ہےکہ دھشتگردوں کے ھاتھوں طیاروں کے اغوا کا ڈرامہ بڑی مھارت سے رچا گيا تھا کیونکہ عمارت نمبر 7 کسی طیارے کے ٹکرائے بغیر اچانک منھدم ھوگئی۔
یادرھے 9/11 کے واقعات کے بعد جس میں امریکہ کے بقول 3000 افراد مارے گئےہیں ان واقعات کو بھانہ بناکر دھشت گردی کے خلاف جنگ شروع کردی اور اسی بھانے سے افغانستان اور عراق پرجنگ تھوپ دی جس میں لاکھوں افراد مارے گئے اور ظاھرا یہ جنگ ابھی جاری ہے۔9/11 اور لگتا یہ ہے کہ ھولو کاسٹ کی طرح اس واقعے پر بھی برسھا برس پردے پڑے رھیں گے۔