www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

لبنانی شیعوں کی جماعت حزب اللہ اور فلسطینی سنی مسلمانوں کی تنظیم حماس دو ایسی قوتیں ہیں جو اسرائیل کے وجود کے لیے ایک چیلنج ہیں۔

شام مشرق وسطٰی میں فلسطین پر ناجائز اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلمانوں کی جنگ میں فرنٹ لائن ہے۔ لبنانی شیعوں کی جماعت حزب اللہ اور فلسطینی سنی مسلمانوں کی تنظیم حماس دو ایسی قوتیں ہیں جو اسرائیل کے وجود کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے ھاتھوں ھونے والی بے عزتی کا بدلہ برطانوی سامراج نے یھودی سرمایہ داروں کی مدد سے خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے کرکے لیا۔ سلاطین ترکی کی بادشاھت کے خاتمے میں سعود اور آل خلیفہ خاندان نے برطانوی سامراج کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا۔ عالم اسلام کی مرکزیت ختم ھوگئی اور مسلم دنیا ٹکڑوں میں بٹ گئی، جس کے نتیجے میں فلسطین پر یھودی قابض ھوگئے۔ اس وقت سے ناجائز صھیونی ریاست عالم اسلام میں سامراجی مفادات کی محافظ بن گئی۔ دنیا کی اھم گذر گاھوں، تجارتی رستوں، گرم پانیوں اور تیل کی دولت سے مالا مال علاقوں پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے ناجائز اسرائیلی ریاست کا وجود امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ عالم عرب اسرائیلی افواج کے ساتھ جنگ میں کئی بار شکست کھا چکا ہے۔ مصر کے آمروں سے لیکر خلیجی ممالک کے شھنشاھوں تک اسرائیل سے سمجھوتہ کرچکے ہیں۔
عرب خطے میں فقط حزب اللہ اور حماس ایسی طاقتیں ہیں جو بار بار اسرائیلی افواج کو ھزیمت سے دوچار کرچکی ہیں۔ لبنان اور فلسطین کے شیعہ سنی مسلمانوں کے ھاتھوں اپنی حلیف اور مفادات کی محافظ قوت کو زوال پذیر دیکھ کر مغربی طاقتیں مایوسی اور بے چینی کا شکار ہیں۔ پچھلی نصف صدی میں امریکہ کی حلیف خلیجی ممالک میں عرب شھنشاھتیں مسلسل استعماری بلاک کا حصہ رھنے کی وجہ سے فلسطینی مسلمانوں کی حمایت سے دست کشی اختیار کرچکی ہیں۔ اپنے غیر جمھوری اقتدار کو باقی رکھنے کے لیے امریکہ کا سھارا لینی والی ان مسلمان ریاستوں کی باگ ڈور مکمل طور پر مغربی طاقتوں کے ھاتھ میں ہے۔ جس کا سارا فائدہ اسرائیل اٹھا رھا ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں براہ راست اسرائیل کی حامی اور مدد گار ہیں، لیکن شام کے علاوہ تمام عرب ممالک حماس اور حزب اللہ کے مخالف ہیں۔ حماس اور حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف کامیاب جنگوں میں کسی عرب ملک کا ھاتھ نھیں۔ اقوام متحدہ کے ذریعے لبنان کے سیاسی راھنما رفیق حریری کے قتل میں شامی حکومت کو ملوث کرنے کی کوشش اس لیے کی گئی تھی کہ شام نے حماس اور حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف جنگوں میں کھل کر مدد کی۔ حزب اللہ اور حماس کے لیے شام کی سرحدیں ھر وقت کھلی رھتی ہیں۔ لبنان اور فلسطین کے مجاھدین شام کو اپنا ھی گھر تصور کرتے ہیں۔
امریکہ کی حلیف خلیجی ریاستوں اور امریکی بالادستی کی مخالف ایران کی مذھبی حکومت کے دو الگ الگ بلاک بن گئے، لیکن اس اختلاف کو ھمیشہ عرب ایران مخاصمت کے پیرائے میں دیکھا جاتا رھا۔ شام میں امریکہ کو عرب حکومتوں کے علاوہ ترکی نئے حلیف کے طور پر شامی حکومت کے خلاف اھم کردار کر رھا ہے۔ خلافت اور مسلمانوں کے لیے مرکزیت کی علامت رھنے والا ترکی اس وقت جماعت اسلامی طرز کی اسلامی پارٹی کے کنٹرول میں ہے۔ ترکی اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کا اھم مستقر ہے۔ ترکی نے کبھی عسکری طور پر فلسطینی مجاھدین کی حمایت نھیں کی اور نہ ھی فلسطینیوں کو ترکی میں رھنے کے لیے مھاجرین کے کیمپ قائم کرنے دیئے، البتہ شام کے خلاف جب بھی بغاوت ھوئی ترکی نے باغیوں کی ھر ممکن امداد کی۔ شام میں باغیوں کو مدد فراھم کرنے کے علاوہ ترکی کے القاعدہ اور عرب ریاستوں کے ساتھ کبھی خوشگوار تعلقات نھیں رھے۔ اسی طرح اردگان پارٹی کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت ترکی کو ایک خالص اسلامی ملک بنانا چاھتی ہے اور مغربی طاقتوں کے دباو کو خاطر میں لائے بغیر سیکولر ترکی کو مذھبی شناخت دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سے یہ ظاھر ھوتا ہے کہ القاعدہ، عرب ممالک اور مغربی طاقتوں کے ساتھ ترکی کا شام مخالف اتحاد صاف دلی اور نیک نیتی کی بجائے فقط عارضی بنیادوں پر قائم ہے۔
شام اسرائیل کے خاتمے کے لیے جدوجھد کرنے والی قوتوں کی پشت پناھی کرنے والی واحد عرب ریاست ہے۔ اسرائیل کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مغربی طاقتیں شام میں حزب اللہ مخالف حکومت قائم کریں۔ چاھے وہ عرب شھنشاھتوں کی طرح غیر جمھوری حکومت ھو یا کوئی فوجی آمرانہ حکومت ھو۔ عرب دوستوں کے تعاون سے امریکی انتظامیہ نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر عراق میں صدام حکومت کو ختم کر دیا۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد اسامہ بن لادن کی گرفتاری کا بھانہ بنا کر افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ آج طالبان کے ساتھ امریکہ مذاکرات کر رھا ہے اور افغانستان سے واپس جانا چاھتا ہے۔ افغانستان میں امریکیوں کو زبردست نقصان سے دوچار کرنے والی قوتوں کے ساتھ اوبامہ انتظامیہ کی بات چیت سے یہ ظاھر ھوتا ہے کہ افغانستان اور عراق میں امریکی مداخلت کا ھدف طالبان نھیں تھے، بلکہ امریکہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاھتا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ نشانہ بنائے اور اسامہ بن لادن طالبان حکومت کے ذریعے ریاستی طاقت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکیں، اور اسکے ساتھ ھی ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے پاکستان اور افغان علاقوں میں جاسوسی کی سرگرمیاں جاری رکھی جاسکیں۔ عراق میں امریکی مداخلت کا ھدف بھی ایران اور شام کو کا گھیراؤ تھا۔
اوبامہ انتظامیہ نے مشرق وسطٰی اور افریقی عرب ممالک میں تبدیلی کی لھر کے ساتھ ھی شام پر حملوں کے لیے پر تولنا شروع کر دیئے تھے۔ شامی حکومت کا موقف ہے کہ امریکی میزائل حملوں کا مقصد شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو سپورٹ فراھم کرنا ہے۔ سمندر میں مستقر بحری بیڑوں سے امریکی میزائل داغیں گئے اور شام کی سرزمین پر موجود باغی عناصر اپنے حامی غیر ملکی جنگجووں کے ساتھ مل کر شامی افواج کے خلاف حملے تیز کریں گے۔ لیکن دوسری طرف شامی باغیوں کا کھنا ہے کہ سلفی جنگجووں کی ممکنہ کامیابی کے خوف کی وجہ سے امریکہ نے شام میں براہ راست مداخلت کا قدم اٹھایا ہے، تاکہ سیکولر عناصر کو تقویت دی جاسکے۔ حالات جو بھی رخ اختیار کریں، شام سمیت دنیا بھر میں امریکی استعمار کی جارحیت کا مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہے اور مشرق وسطٰی میں اسرائیل کی سکیورٹی، امریکی مفادات کی فھرست میں سب سے پھلی ترجیح ہے۔ شام اسرائیل دشمن ملک ہے اور القاعدہ کی چھتری تلے جمع ھونے والے غیر ملکی جنگجو شامی حکومت کے دشمن ہیں۔ جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ القاعدہ شام کے خلاف جنگ میں شریک ھو کر اسرائیل کو تحفظ فراھم کر رھی ہے۔
اس وقت سب سے اھم سوال خطے میں حزب اللہ کے کردار کا ہے کہ مشرق وسطٰی کی طاقت ور ترین سیاسی و عسکری قوت کا ردعمل کیا ھوگا۔ حزب اللہ کا موقف ہے کہ شام ھمارا حامی ملک ہے اور ھمارے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ھوئے ہیں۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل گذشتہ چند ماہ میں کئی بار اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ حزب اللہ کا عسکری ونگ مکمل طور پر شامی افواج کی مدد کر رھا ہے۔ حزب اللہ کے مدمقابل فری سیرین آرمی کے علاوہ القاعدہ کی چھتری تلے جمع ھونے والے عرب، ترکش، یورپی، افغانی اور پاکستانی عسکریت پسند گروہ ہیں۔ عسکری تجزیہ نگاروں کو اس بات پر اختلاف ہے کہ اسرائیلی بمباری اور میزائل حملوں کا بھرپور جواب دینے والی حزب اللہ امریکی میزائل حملوں اور القاعدہ کے زمینی حملوں کا مقابلہ کر پائی گی یا نھیں؟ بی بی زینب(س) کے مزار پر راکٹ حملوں اور لبنانی سرحد پر شیعہ نشین علاقوں میں القاعدہ کی جارحیت نے شام کی خانہ جنگی میں فرقہ وارانہ چھاپ کو گھرا کر دیا ہے۔ لبنانی، عراقی اور غیر عرب شیعہ قوتوں کا موقف ہے کہ کربلا اور دمشق ھمارے لیے جان سے عزیز مقامات ہیں اور ان دونوں مقامات کے تحفظ کے لیے حزب اللہ کسی رکاوٹ کی پروا نھیں کرے گی۔ فرنٹ لائن پر حزب اللہ شیعہ لڑاکا دستوں کی قیادت کر رھی ہے۔ القاعدہ چونکہ سنی العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل عسکری گروھوں کی جماعت ہے، جو فقط سلفی اور برصغیر کے دیوبندی مسلک والوں کو مسلمان سمجھتی ہے، لیکن شیعہ مجتھدین نے کبھی القاعدہ کے کفر کا فتویٰ نھیں دیا، جس کی وجہ سے عرب دنیا سمیت تمام اسلامی ممالک میں عوامی رائے عامہ ھمیشہ حزب اللہ اور حماس کے حق میں رھی ہے اور انھیں اسرائیل کے خلاف عربوں کے ھیرو ھونے کا درجہ حاصل ہے۔
القاعدہ کے پکڑے جانے والے جنگجووں کی تفتیشی رپورٹوں میں اس بات کو تکرار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ سوڈان میں اسامہ بن لادن کے قیام کے دوران حزب اللہ کے آپریشنز کی منصوبہ بندی کرنے والے شیعہ گوریلا لیڈر عماد مغنیہ کی ان سے کئی ملاقاتیں ھوئیں اور ایسی خبریں بھی منظر عام پر آئیں کہ امریکہ کے خلاف جھاد کا دعویٰ کرنے والی القاعدہ قیادت کو عماد مغنیہ نے اسرائیل کے خلاف جھاد کی دعوت دی، لیکن سوڈان میں اسامہ کی رھائش گاہ پر امریکی میزائل حملوں کی وجہ سے القاعدہ قیادت افغانستان میں منتقل ھوگئی۔ افغانستان میں طالبان اسامہ بن لادن کے میزبان بنے۔ حزب اللہ اور القاعدہ قیادت کے درمیان ھونے والی بات چیت ابتدائی مرحلے میں ھی ختم ھوگئی۔ سوڈان حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنے والی حماس قیادت نے بھی القاعدہ کو اسرائیل کے خلاف مشترکہ جھادی کارروائیوں کی دعوت دی، لیکن حماس کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے بعد حماس نے محسوس کیا کہ القاعدہ قیادت اپنا مستقر افغانستان کو ھی بنانا چاھتی ہے اور بلاد حرمین یعنی مکہ اور مدینہ کو کفار سے پاک کرنے کا نعرہ لگانی والی القاعدہ قیادت کو اسرائیل کے خلاف جدوجھد سے کوئی دلچسپی نھیں۔ جس سے حزب اللہ اور حماس کے حلقوں میں یہ تاثر مضبوط ھوا کہ القاعدہ کی ذھنیت یہ ہے کہ پھلے مسلم ممالک کی حکومتوں کے خلاف تخریبی کارروائیوں اور پروپیگنڈہ کے ذریعے شورش برپا کی جائے اور کسی نہ کسی ملک میں ریاستی طاقت حاصل کی جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ واضح ھوتا گیا کہ اسرائیل کے خلاف جھاد کی حمایت القاعدہ کی ترجیحات میں شامل نھیں۔
فرقہ وارانہ رنگ غالب آجانے کی وجہ سے حزب اللہ، شامی حکومت، عراق، ایران اور عرب و غیر عرب شیعہ قوتوں میں مثالی طور پر مقصد کی یکسوئی اور اشتراک عمل پایا جاتا ہے، جس کی بنیاد ایک عقیدہ ہے اور شیعہ مسلک کے عقیدے کی بنیاد نظریہ امامت ہے اور شیعوں کے نزدیک آخری امام کا ظھور ھوگا، جس میں شام کے خطے کا اھم کردار ھوگا، جن کے ساتھ مل کر ان کے حامی یھودیوں اور دنیا کی باطل طاقتوں سے جنگ کریں گے اور کربلا میں مدفون امام حسین(ع)، شیعوں کے آخری امام کے جد امجد ہیں، اس لئے شیعہ عقیدے کے مطابق کربلا اور دمشق کی حفاظت کرنا اور ان علاقوں کی آزادی برقرار رکھنا، دنیا میں سچی اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ شیعہ مسلک کے تمام مسلمان امام حسین(ع) اور اپنے آخری امام کو نبی آخرالزامان(عج) کے اھلبیت ھونے کی وجہ سے اپنی جانوں سے زیادہ عزیز مانتے ہیں اور پوری دنیا سے کروڑوں کی تعداد میں کربلا اور دمشق میں حاضری دیتے ہیں۔ پوری دنیا کے شیعہ مسلمان عقیدے کے لحاظ سے کربلا اور دمشق کے تحفظ کے لیے حزب اللہ، لشکر مھدی اور شام میں حکومت کی طرف سے جنگ کرنے والے شیعہ عساکر کی پشت پناھی کر رھے ہیں۔ شیعہ مسلک کے مسلمان حزب اللہ کو آخری امام کی فوج سمجھتے ہیں اور انکی تائید و حمایت انکا مذھبی فریضہ ہے۔ ایسے میں حزب اللہ کے عسکری ونگ کو شیعہ نشین ملکوں کے سنگم پر واقع دمشق اور کربلا کی آزادی برقرار رکھنا آسان ہے، بہ نسبت اس کے متفرق العقیدہ اور ایک دوسرے کی تکفیر کے قائل القاعدہ عناصر امریکی عسکری ماھرین کی کمانڈ میں شام کو فتح کرلیں۔ القاعدہ کے لیے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اردن، سعودی عرب اور ترکی شامی حکومت کی تبدیلی تو چاھتے ہیں، لیکن تینوں ممالک ایران کی شیعہ حکومت کے ساتھ تعلقات ختم نھیں کرسکتے اور نہ ھی القاعدہ کی حمایت میں زبان کھول سکتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سعودی عرب، سیرین فری آرمی، امریکہ اور القاعدہ کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ھونا ناممکن ہے ۔
حزب اللہ عربوں کی تجربہ کار عسکری طاقت ہے، جنھیں سنی العقیدہ عرب قوتوں کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے، جیسا کہ فلسطین میں حماس نے حزب اللہ مخالف سلفی گروھوں کا صفایا کیا اور مصر کے تحریر اسکوائر میں حسن نصراللہ کی تقریریں سنی جاتی رھی ہیں، حماس اور اخوان المسلمون جب اپنی بقا کی جنگ لڑ رھے تھے تو لبنان کے شیعہ مجتھدین نے انھیں سھارا فراھم کیا۔ حالیہ رمضان میں سید حسن نصراللہ نے حماس اور فلسطین کے تمام راھنماوں کو افطار کی دعوت دی اور برملا طور پر القاعدہ عناصر کو چیلنج کیا کہ وہ اکٹھے ھو کر شام آجائیں، ھم انھیں واپس نھیں جانیں دیں گے، نہ غیر ملکی مداخلت کو باقی رھنے دیں گے، لیکن القاعدہ کے جنگجو گروپوں کو عقیدے کی بنیاد پر دنیا میں کھیں بھی حمایت حاصل نھیں اور نہ ھی مسلمانوں کے کسی مسلک کے جید علماء نے آج تک القاعدہ کے وجود، مقاصد اور طریقہ کار کی تائید کی ہے، بلکہ القاعدہ ایک بے گھر گروہ ہے، جو اسامہ بن لادن کی اپنے ھی ملک سعودی عرب میں ان کی شھریت ختم ھو جانے کی وجہ سے انتقامی جذبے کے تحت وجود میں آیا۔ اس وقت شام میں القاعدہ کی چھتری تلے جمع ھونے والے سب گروہ غیر ملکی ہیں، لیکن حزب اللہ کے لیے جغرافیائی طور پر شام اور لبنان میں کوئی فرق نھیں۔ القاعدہ اور امریکہ شامی باغیوں کی حمایت کے لیے شام آ رھے ہیں، لیکن حزب اللہ لبنان، فلسطین اور شام کو تحفظ دے رھی ہے۔
شام مخالف دھڑوں کی سپورٹ میں امریکہ کی حلیف سعودی سلفی حکومت القاعدہ پر پابندی لگا چکی ہے، لیکن یھی سعودی حکومت اسرائیل کو اپنے علاقوں سے نکالنے اور پھلی بار شکست سے دوچار کرنے کی خوشی میں حزب اللہ کے ھزاروں جنگجووں کو سرکاری مھمان کی حیثیت سے مکہ اور مدینہ میں بلا چکی ہے۔ عرب ممالک اور ساوتھ ایشاء کے مسلم ممالک کی رائے عامہ شعوری طور اس سوچ کی حامل ہے کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے تمام گروہ امریکہ کے حلیف رہ چکے ہیں، کیونکہ وہ امریکہ کی تخلیق ہیں، لیکن حزب اللہ کی تخلیق کا مقصود ھی لبنان سے امریکہ سمیت تمام استعماری طاقتوں کی افواج کا انخلاء تھا، جس کی خاطر تاریخ میں پھلی مرتبہ امریکی میرینز کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ القاعدہ سے منسلک گروہ اپنے ھی ملکوں کی افواج سے بر سرپیکار ہیں اور عام مسلمان آبادیوں میں معصوم لوگوں کو نشانہ بناتے رھتے ہیں۔ اس کے برعکس حزب اللہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینی اور لبنانی عوام کی سکیورٹی کے لیے صھیونی افواج پر حملے کرتی ہے۔
شام میں حزب اللہ ریاستی طاقت کا ساتھ اس لئے دے رھی ہے کہ اسرائیل کے خلاف اھم حلیف عدم استحکام کا شکار نہ ھو، لیکن القاعدہ صرف مسلکی اختلاف کی بنیاد پر خطے میں طاقت کا توازن اس طرح بدلنا چاھتی ہے، جس کا نتیجہ صرف امریکی اور اسرائیلی بالادستی ھوسکتا ہے۔ پاکستان کی مذھبی جماعتیں مسلکی تعصب کی وجہ سے شامی حکومت کی مخالف ہیں، لیکن تمام مذھبی جماعتیں پاکستانی طالبان یا شام میں لڑنے والے القاعدہ عسکریت پسندوں کی حمایت سے کترارتی ہیں، جس کے برعکس حزب اللہ کو پوری دنیا میں اعتدال پسند مذھبی جماعتیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ القاعدہ نے ھمیشہ کسی نہ کسی غیر ملکی طاقت کی سرپرستی میں اپنے حلیفوں اور سرپرستوں کے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کرایے کے دہشت گردوں کا کردار ادا کیا ہے اور پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک میں دھشت پسند کارروائیاں کی ہیں۔ پاکستان کی دیوبندی اور سلفی قوتیں مسلسل القاعدہ سے لاتعلقی پر اصرار کرتی ہیں۔ حزب اللہ نے پاکستان سمیت کسی اسلامی ملک کے معاملات میں مداخلت نھیں کی۔ حزب اللہ ایک عسکری قوت ھونے کے ساتھ پختہ ترین سفارتی مھارت رکھنے والی مضبوط جمھوری قوت ہے۔
پاکستان میں مغربی دنیا اور امریکہ سے دوستی کا دم بھرنے والے عربوں کے اسرائیل کے ساتھ ھونے والے سمجھوتوں کی بنیاد پر یہ دلیل قائم کرتے ہیں کہ پاکستان کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لینے میں کوئی عار نھیں، لیکن عربوں کے اسرائیل کے ساتھ سمجھوتوں کے باوجود بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا اسرائیل کے حوالے سے یہ موقف کہ اسرائیل مغرب کی ناجائز اولاد ہے، پاکستانی خارجہ پالیسی کے لیے بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملت پاکستان بابائے قوم کے راستے پر قائم ہے، حزب اللہ پاکستانی عوام میں ایک ھیرو کے طور پر مقبول ہے۔
امریکہ اور اسرائیل ھمیشہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں حزب اللہ کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں، جبکہ القاعدہ ایسے عالمی مفرورں پر مشتمل ہے جو مختلف جرائم میں اپنے اپنے ملکوں کو مطلوب ہیں۔ حزب اللہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس اور اپنے مقابلے میں سینکڑوں گنا بڑے دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کی کامیاب جنگی تاریخ کی حامل ہے۔ القاعدہ نے ھمیشہ دھشت گردی کی کارروائیاں کی ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں فراریوں کی فوجیں تیار کی ہیں۔ حزب اللہ لبنان اور شام میں کسی کی پناہ میں نھیں بلکہ علاقے کے استحکام کی ضمانت، خطے میں عالمی طاقتوں کی بالادستی کے خلاف ایک مزاحمتی علامت کے طور پر موجود ہے۔ پوری دنیا کے امن پسندوں کو سید حسن نصراللہ کے وعدے پر یقین ہے کہ جلد ھی شام کو دھشت گردوں سے پاک کر دیا جائے گا اور امریکی حملے شام میں آنے والے شرپسندوں کی گردنیں ذوالفقار کی ضرب سے بچا لئے جانے میں بے سود ثابت ھوں گے، کیونکہ حزب اللہ جرائم پیشہ عناصر اور اغواء برائے تاوان کو تجارت سمجھنے والوں کا گروہ نھیں اور شام افغانستان نھیں بلکہ امریکہ کا قبرستان ثابت ھوگا۔
 

Add comment


Security code
Refresh