لاتوں کے بھوت باتوں سے نھیں مانتے۔۔ ان طالبان سے جن لوگوں نے بھی معاھدے کئے، انھیں دھوکہ دیا گیا اور معاھدوں کی خلاف ورزی کی
گئی۔ تھکن اتارنے اور سانس لینے کیلئے مختلف ادوار میں مذاکرات کا شوشہ چھوڑا گیا اور اپنے وسیع ایجنڈے کو آگے بڑھایا جاتا رھا، اب بھی ایسا ھی ھوا ہے، ھم سمجھتے ہیں کہ نومنتخب حکمرانوں کو اپنی روش بالآخر بدلنا ھوگی ۔۔۔ اگر امن ان کی خواھش ہے، اگر پاکستان اور اس کے عوام کو سلامتی دینا ہے، اگر اس ملک کو واقعاً روشن اور نیا پاکستان بنانا ہے تو ظلم اور ظالموں کے خاتمہ کے بغیر ایسا ممکن نھیں۔۔۔!
ملک میں نئی حکومت آنے کے بعد یہ توقع کی جا رھی تھی کہ دھشت گردی کا جن بوتل میں بند ھو جائے گا اور ایک عرصہ سے اس سے متاثرھ والے عوام و خواص سکھ کا سانس لیں گے، امن کے گیت اور پیار و محبت کے سنگیت سننے کو ملیں گے، ملک کی اقتصادی حالت پر جو ضربیں دھشت گردی سے لگیں ہیں ان کا ازالہ ممکن ھوگا، کاروبار زندگی معمولات کے مطابق چل پڑے گا اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ھوسکے گا۔ یہ توقعات اس وجہ سے تھیں کہ الیکشن میں جن جماعتوں کو دھشت گردوں نے کھلی چھوٹ دی تھیں وھی برسر اقتدار آگئیں اور مرکز و صوبوں بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا جھاں دھشت گردی کا بول بالا ہے، میں بھی ان کی حکومت بن گئی۔ الیکشن مھم کے دوران اور اس سے پھلے بھی انھی جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات کا ایجنڈا پیش کیا تھا اور دھشت گردی کے خلاف جاری پالیسی اور فوجی آپریشنز کو اس مسئلہ کے حل کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ھوئے مذاکرات کی راہ اپنانے کی بات کی تھی، جسے طالبان اور ان سے وابستہ گروھوں میں پذیرائی ملی تھی۔
حالیہ دنوں میں ھونے والی دھشت گردی سے تو ایسا محسوس ھوتا ہے کہ ان توقعات اور امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان، صوبہ خیبر پختونخوا، صوبہ سندھ اور صوبہ گلگت بلتستان میں دھشت گردی کے شرمناک و المناک واقعات سے یہ تاثر ملا ہے کہ الیکشن میں جو رعایت ان جماعتوں کو حاصل ھوئی تھی اس کا وقت ختم ھو گیا ہے۔ آگے کیلئے نیا معاھدہ اور فیس ادا کرو، وگرنہ ھم نے جو کچھ کرنا ہے وہ تو دکھا دیا ہے۔ ھم ھر محاذ پر لڑ سکتے، فرقہ وارانہ مسئلہ ھو یا سیاسی و مذھبی ٹارگٹ کلنگ، عالمی سطح پر سیاحوں کے قتل کے ذریعے ملک کو بدنام و حکومت کو نااھل ثابت کرنا ھو تو ھمارے پاس اس کا طریقہ بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں کوئٹہ، کراچی، پشاور اور چلاس میں پیش آنے والے المناک سانحات سے دنیا بھر میں اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ دھشت گرد پورے ملک میں پھیلے ھوئے ہیں اور جب و جھاں چاھیں دھشت گردی کرسکتے ہیں، ان میں ملک کی بیسیوں انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فورسز سے زیادہ اھلیت ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر ان دنوں میں وہ کونسی غلطی ھوگئی ہے جس کا خمیازہ معصوم و بے گناھوں کو بھگتنا پڑ رھا ہے اور یونیورسٹی میں تحصیل علم کیلئے جاتی ھوئی قوم کی بچیاں خون میں لت پت، چیتھڑوں میں بدل کر ان کی لاشیں ان کے گھروں میں بھیجی گئی ہیں، ھسپتال میں دکھوں کا مداوا اور زخموں پر مرحم رکھوانے جانے والے لوگوں کو کس جرم کی سزا کے طور پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ خانہ خدا میں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے جانے والے خدا کے برگزیدہ بندگان خدا اور معصوم کم سنوں نے کونسا ڈرون حملہ کر دیا تھا کہ انھیں قرآن کے پاروں کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ھونا پڑا ہے۔ پاکستان کے انتھائی قریبی دوست ممالک کے ان کوہ پیماؤں نے کونسا اسلام کی توھین کر دی تھی کہ انھیں سینکڑوں نھیں ھزاروں میٹر بلندی پر جا کر ھاتھ پاؤں باندھ کر لائن اپ کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا۔
سپہ سالار عساکر پاکستان نے تو یہ کھا تھا کہ گمراہ اقلیت ناکام ھوگئے، عوام نے انھیں مسترد کر دیا اور منتخب حکمرانوں نے یہ کھا کہ وہ (گمراہ اقلیت) جو عزت چاھتے ہیں، دینے کو تیار ہیں۔ ان سے مذاکرات کئے جائیں گے۔ مذاکرات کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت ھوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام گذشتہ عشرہ میں اتنا کچھ دے چکی ہے کہ اب اس کے پاس کچھ دینے کو بچا ھی کیا ہے۔ اگر ھزاروں فرزندان وطن، ماؤں بھنوں اور بیٹیوں کا بھایا جانے والا خون معاف کرنا ہے تو پھر جیل کی کال کوٹھڑیوں کو کھول دو اور ان میں عدالتی نظام کی بھینٹ چڑھنے والوں کو بھی آزاد کر دو اور یہ شاھی فرمان جاری کر دو کہ آج سے پاکستان میں کوئی قانون نھیں ہے، یہ جنگل ہے، جنگل کے بادشاہ کی زبان سے نکلا ھوا فرمان ھی قانون ھوگا۔
سوچنے کی بات ہے کہ جو لوگ سربراہ مملکت کے پاس سزائے موت کے مجرم کو اپیل کے بعد معاف کر دینے کے اختیار کو اسلام کی روح سے متصادم سمجھتے ہیں، انھیں ان مذاکرات کے نتیجہ میں معافی پانے والے قومی و عوامی و شخصی مجرموں کا استقبال کرتے ھوئے شرم کیوں نہ آئے گی۔ یہ بات بھی سمجھ میں نھیں آنے والی کہ جو گمراہ ہے اور اقلیت ہے اس سے مذاکرات کیسے اور اس کی اس کی خواھش کے مطابق عزت کس لئے ۔۔ کیا عزت کرنے کیلئے ھمارے پاس پاک وطن کی خاکی یونیفارم میں ماھتاب چھروں کو خون میں لت پت ھو کر تابوت میں بند ھو کر آخری منزل چلے جانے والوں کی کمی ہے۔
بڑے میاں صاحب نے شاھی فرمان جاری کرتے ھوئے فرمایا تھا کہ طالبان سے مذاکرات بری آپشن نھیں بیٹھ کر بات کریں، اب آپ ھی بتاؤ کہ یہ آپ کی آفر کا جواب ہے، اب اور کتنے معصوم و بیگناھوں کی المناک موت کی صورت میں مذاکرات آگے بڑھ پائیں گے؟ آپ کو اگر اس ملک کو چلانا ہے تو حقائق سے چشم پوشی اور مسائل سے فرار کی راہ نھیں اپنانا ھوگی بلکہ جرات و دلیری سے سامنے آنا ھوگا۔ میاں صاحب آپ نے اپنی حکومت گرانے والے پرویز مشرف کو تو معاف نھیں کیا اور مقدمہ چلانے کا اعلان کرکے آغاز سفر میں ھی اپنی انتقامی روش کو اختیار کرنے میں عار محسوس نھیں کی۔۔ پھر ان ملک و قوم کے دشمنوں سے مفاھمت کیسے؟ اور ان کو معاف کرنا کیسا۔۔؟
ایک کھاوت بھت عام ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نھیں مانتے۔۔ ان طالبان سے جن لوگوں نے بھی معاھدے کئے، انھیں دھوکہ دیا گیا اور معاھدوں کی خلاف ورزی کی گئی۔ تھکن اتارنے اور سانس لینے کیلئے مختلف ادوار میں مذاکرات کا شوشہ چھوڑا گیا اور اپنے وسیع ایجنڈے کو آگے بڑھایا جاتا رھا، اب بھی ایسا ھی ھوا ہے، ھم سمجھتے ہیں کہ نومنتخب حکمرانوں کو اپنی روش بالآخر بدلنا ھوگی ۔۔۔ اگر امن ان کی خواھش ہے، اگر پاکستان اور اس کے عوام کو سلامتی دینا ہے، اگر اس ملک کو واقعاً روشن اور نیا پاکستان بنانا ہے تو ظلم اور ظالموں کے خاتمہ کے بغیر ایسا ممکن نھیں۔۔۔!