ھجرت كے بعد كے حالات كا ذكر چھيڑنے سے پھلے مكى زندگى سے مربوط ايك مسئلے كى طرف اشارہ اور اس كے بعض ظاھرى پھلوؤں پر اظھار نظر مناسب معلوم ھوتا ہے اگرچہ اس مسئلے كا ھجرت كے بعد مدنى زندگى سے بھى گھرا تعلق ہے۔
وہ مسئلہ يہ ہے كہ كيا ھجرت سے قبل مسلمان ھونے والے مكيوں ميں منافقين بھى تھے جن كا ظاھر كچھ اور باطن كچھ اور تھا يا نھيں ؟
اور كيا مكے كى فضا اس قسم كے افراد كو جو بظاھر اسلام قبول كريں اور اندر سے كافر ھى رھيں، وجود ميں لانے كيلئے سازگار تھى يا نھيں؟
اس سلسلے ميں علامہ طباطبائي كا حاصل كلام يہ ہے۔
ممكن ہے كوئي كھے كہ نھيں مكے ميں منافقين كا كوئي وجود نہ تھا كيونكہ وھاں رسول(ص) خدا اور مسلمانوں كو طاقت اور اثرونفوذ حاصل ھى نہ تھاكہ جس كے باعث لوگ ان سے مرعوب اور خائف ھوتے يا ان سے كسي قسم كے مادى يا روحانى فائدے كى اميد ركھتے ۔ پس وہ كيوں كر ان كے قرب كے متلاشى ھوتے اور اپنى باطنى كيفيت كے برعكس ايمان كا اظھار كرتے؟
بلكہ مسلمان تو مكے ميں كمزور مظلوم اور ستمديدہ تھے۔ بنابريں ھونا تو يہ چاھئیےتھا كہ قريش كے رؤسا اور بزرگان كے مقابلے ميں (خواہ خوف كى بناء پر ھو يا اميد ورغبت كى بنا پر) مسلمانوںكى جانب سے اندرونى كيفيت كو چھپانے كى كوشش كى جاتى نہ اس كے برعكس۔
اس كے برعكس مدنى زندگى ميں رسول(ص) الله كى پوزيشن مستحكم ھوچكى تھى مسلمانوں كا اثر ونفوذ واضح ھوچكا تھا اور وہ اپنى حفاظت يا اپنا دفاع كرنے كى طاقت حاصل كرچكے تھے۔ مدينہ كے ھر گھر ميں آنحضرت(ص) كے اعوان و انصار اور پيروكار موجود تھے جو آپ(ص) كے اوامر كى متابعت اور اپنى ھر قيمتى اور نفيس چيز كو آپ(ص) كے حكم پر قربان كرتے تھے۔ رھے باقى ماندہ مٹھى بھر لوگ تو وہ آپ(ص) كى اعلانيہ مخالفت كا دم خم نہ ركھتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اپنى خيريت اسى ميں جانى كہ بظاھر مسلمان ھوجائيں اور باطناً كافر ھى رھيں تاكہ جب بھى موقع ملے مسلمانوں كے ساتھ مكر وفريب اور سازش وحيلہ گرى سے كام لے سكيں۔
خلاصہ يہ كہ اس انداز ميں بعض لوگوں نے ابتدائي مسلمانوں كے درميان منافقوں كى عدم موجودگى پر استدلال كيا ہے۔ ليكن يہ استدلال جيساكہ آپ ملاحظہ فرما رھے ہيں بے بنياد ہے۔
كيونكہ مكے ميں بھى منافقت كى وجوھات موجود تھيں ۔ اور اس كام كيلئے وھاں كے ماحول ميں بھى گنجائش موجود تھي۔ ان ميں سے بعض اسباب كا ھم يھاں تذكرہ كرتے ہيں:
الف): منافقت كے اسباب فقط وھى نھيں جن كا اوپر تذكرہ ھوا ہے يعنى صاحب اقتدار كا خوف يا اس سے وابستہ اميد اور لالچ كيونكہ ھم مختلف معاشروں ميں مختلف قسم كے لوگوں كا مشاھدہ كرتے ہيں جو خوبصورت نعروں پر، ھر قسم كى دعوت پر لبيك كہنے كيلئے آمادہ ھوتے ہيں بشرطيكہ وہ ان كى اميدوں اور آرزوؤں كے ساتھ سازگار ھو، ان كى خواھشات كى برآورى كى اميد دلاتى ھو اور اس ميں ان كى رغبتوں كا سامان ھو۔ پس وہ اس كى حمايت كرتے ہيں اگرچہ وہ ظالم ترين طاقتوں كے زيرسايہ ھى كيوں نہ ھوں اورخود، ان كى حالت انتھائي كمزور اور ضعيف كيوں نہ ھو۔ يوں وہ اس كى خاطر اپنے وجود كو بھت سے خطرات ميں جھونك ديتے ہيں نيز مشكلات اور سختيوں كو جھيلتے ہيں فقط اس اميد ميں كہ شايد كسى دن ان كى اميدوں كى كلى كھل جائے اور ان كے اھداف حاصل ھوجائيں جن كے خواب وہ ديكھا كرتے ہيں ،مثال كے طور پر حصول اقتدار اور حصول ثروت وجاہ ومقام وغيرہ۔
جى ھاں وہ يہ سب كر گزرتے ہيں اگرچہ وہ اكثر وبيشتر اس دعوت پر فقط اتنا ھى ايمان ركھتے ہيں جتنا ان كے مذكورہ بالا اھداف واغراض كے حصول كيلئے ضرورى ھو اور واضح ہے كہ اس قسم كا لالچى منافق دعوت كى كاميابى كى صورت ميں اس دعوت كيلئے بدترين دشمنوں سے بھى زيادہ خطرناك ثابت ھوتا ہے كيونكہ اگر اسے يہ احساس ہو كہ دعوت اس كى تمام آرزؤوں كو پورا نہيں كرسكتى (اگرچہ كسى مصلحت كے تحت ہى سہي) تو وہ منحرف اور خائن ھوجاتا ہے (۱) اس كے علاوہ وہ اس دعوت كو انحراف كى طرف لے جانے نيز اسے سابقہ روش اور راہ مستقيم سے ھٹاكر ان غلط راھوں كى طرف لے جانے پر زيادہ قادر ھوتا ہے جن راھوں كى تاريكى اور ظلمت سے فائدہ اٹھا كر وہ اپنى خواھشات تك آسانى سے رسائي حاصل كرسكے۔ پھر ان كاموں كى توجيہ كے سارے بھانے بھى اسى كے پاس ھى ھوتے ہيں خواہ اس كى توجيھات كتنى ھى كمزور اور بے بنياد كيوں نہ ھوں۔
ليكن اگر دعوت كو ناكامى كا سامنا ھو تو وہ اپنى پوزيشن مضبوط كرچكنے كى صورت ميں اپنے ھم خيال لوگوں سے يہ كہہ سكتا ہے كہ ھم درحقيقت تمھرے ساتھ ہيں ان لوگوں كے ساتھ تو بس مذاق كر رہے تھے۔ بقول قرآن (اناكنامعكم انمانحن مستھزؤون) ان باتوں كى روشنى ميں يہ حقيقت سامنے آتى ہے كہ مدينے ميں اگر منافقت عام طور پر حفاظتى مقاصد يا مخصوص مفادات وروابط كے بچاؤ كے پيش نظر تھى تو مكہ والى منافقت اسلام ومسلمين كيلئے يقيناً زيادہ خطرناك، زيادہ نقصان دہ اور زيادہ پريشان كن ھوگى جيساكہ ھم پھلے وضاحت كرچكے ہيں۔
خلاصہ يہ كہ اس بات كا قوى احتمال ہے كہ مكہ ميں رسول(ص) الله كے بعض پيروكار اسلام كے مخلص نھيں تھے بلكہ ان كو فقط اپنى ذات سے غرض تھي۔اس بات كى تائيد اس حقيقت كو خاص كرملاحظہ كرنے سے ھوتى ہے كہ اسلام نے اپنى دعوت كے روز اول سے ھى قطعى وعدوں كا اعلان كيا تھا كہ اس كے علمبردار بھت جلد زمين كے حكمراں اور قيصر وكسرى كے خزانوں كے مالك بن جائيں گے۔(۲)
چنانچہ جب عفيف كندى نے عباس بن عبدالمطلب سے پيغمبر(ص)،على(ع)اورخديجہ(ع) كى نماز كے بارے ميں پوچھا تو عباس نے جواب ديا:'' يہ محمد بن عبدالله بن عبدالمطلب ہيں۔ اس كا دعوى ہے كہ خدانے اسے بھيجا ہے اور قيصر و كسرى كے خزانے بھت جلد اس كے ھاتھ لگ جائيں گے''۔ عفيف افسوس كرتا تھا كہ وہ اس دن مسلمان كيوں نہ ھوا تاكہ وہ على (ع) كے بعد مسلمانوں ميں دوسرے نمبر پر ھوتا۔(۳)
نيز جب آنحضرت(ص) كے چچا حضرت ابوطالب(ع) نے آپ(ص) سے قوم كى شكايت كا سبب پوچھا تو آپ(ص) نے فرمايا: ''ميں ان كو ايك كلمے (يعنى مقصد) پر متحد كرناچاھتا ھوں جس كے نتيجے ميں عرب ان كے مطيع اور عجم ان كے خراج گزار بن جائيں۔(۴)
اسى طرح يہ بھى منقول ہے كہ آپ(ص) نے بكر بن وائل سے قبائل كو دعوت اسلام دينے كے سلسلے ميں فرمايا: ''اور تم خدا سے يہ عھد كروگے كہ اگر تم زندہ رھو تو ان (عجم)كے گھروں ميں داخل ھوگے ان كى عورتوں سے نكاح كروگے اور ان كے بيٹوں كو غلام بنالوگے"۔
شيبان بن ثعلبہ سے بھى آپ(ص) نے تقريباً اسى قسم كى بات اس وقت كى جب آپ(ص) نے اپنے قريبى رشتہداروں كو عذاب الھى سے ڈرايا۔(۵)
اس نكتے كى خوب وضاحت اس بات سے ھوتى ہے جو قبيلہ بنى عامر بن صعصعہ كے ايك فرد نے اس وقت كھى جب رسول(ص) (ص) الله ان كو دعوت اسلام دينے آئے تھے۔ اس نے كہا ''الله كى قسم اگر يہ قريشى جوان ميرے ھاتھ آتا تو ميں اس كے ذريعے عرب كو ھڑپ كرجاتا'' اس كے بعض مآخذ كا پھلے تذكرہ ھوچكا ہے۔
مختصر يہ كہ جب مذكورہ منافقت كا مقصد ذاتى اغراض كيلئے اس دعوت كے قبول كرنے كو آلہ كار قرار دينا ھو تو (اس منافق كيلئے) سوائے اس كے چارہ نہيں كہ وہ اس دعوت كى وہاں تك حفاظت كرے جہاں تك وہ اپنے مفادات ومقاصد كى حفاطت پر مجبور ھو، يعنى جب تك وہ اس دعوت كے ذريعے اپنى آرزؤوں كى تكميل اور اپنے مقاصد تك رسائي كى اميد ركھتا ھوگا تب تك وہ اس دعوت اورتحريك كى حفاظت كرے گا۔
يھيں سے يہ نكتہ بھى واضح ھوتا ہے كہ ضرورى نھيں منافق اس دعوت (جس پر وہ ايمان نھيں ركھتا) كے خلاف مكروسازش كرنے اور اس كو خراب وبرباد كرنے كى كوشش كرے بلكہ بسا اوقات اس كا پورا لگاؤ اس كے ساتھ ھوتا ہے، اس كيلئے مال و متاع اور جاہ و حشمت كى قربانى ديتا ہے ھاں اس صورت ميں كہ بعد ميں اس سے بھتر نتائج حاصل كرنے كى اسے توقع ھو۔ ليكن جان كى قربانى نھيں ديتا اس حقيقت كا مشاھدہ مكے كے بعض مسلمانوں كى حالت سے بخوبى ھوتا ہے جو دعوت اسلامى كى حمايت اس وقت تك كرتے رھے جب تك موت سے روبرو نہ ھونا پڑا ليكن جب موت كا مرحلہ پيش آيا تو وہ جنگوں سے بھاگ جاتے، پيٹھ پھيرتے اور نبى اكرم(ص) كو اپنے حال پر چھوڑ ديتے تھے۔ اس نكتے كا مشاھدہ بھت سے موقعوں پر ھوتا ہے البتہ بعض اوقات اس قسم كے لوگوں ميں سے بعض كے اوپر بتدريج جذبہ دينى غالب آتا ہے اور وہ آھستہ آھستہ منزل اطمينان كو پھنچ جاتے ہيں بعد ميں ھم غزوہ احد پر بحث كے دوران اس جانب انشاء الله اشارہ كريں گے۔ بحث كا نتيجہ يہ نكلاكہ:
الف): بعض لوگوں کا بنیادی ھدف اور ان کا معیار ذاتی مفاد ھوتا ہے ۔ بنابریں جب تک دین کے ذریعےان كے مفادات حاصل ھوتے رھيں وہ بھى اس دين كا ساتھ ديتے ہيں ليكن جونھى وہ دين كو اپنے مفادات كى راہ ميں ركاوٹ اور ان كيلئے باعث خطر سمجھتے ہيں تو پھر وہ اس كے خلاف مكر وسازش اور اسے تباہ وبرباد كرنے كيلئے كسى قسم كى سعى وكوشش سے دريغ نھيں كرتے اور ھر قسم كا وسيلہ اپناتے ہيں۔
ب): دوسرے سبب كى طرف علامہ طباطبائي نے يوں اشارہ كيا ہے كہ يہ بات ممكن ہے كہ كوئي شخص ابتدائے بعثت ميں ايمان لے آئے پھر وہ كسى ايسے امر سے روبرو ھو جس كے باعث اس كاايمان متزلزل ھو، وہ دين ميں شك كرے اور مرتد ھوجائے ليكن اس كى نظر ميں اھميت كے حامل بعض مفادات مثال كے طور پر دشمنوں كى شماتت سے بچاؤ يا خانداني، قبائلى اور تجارتى روابط كى حفاظت يا نسلى تعصب اور غيرت وغيرہ جن كے باعث سارے يا كچھ مسلمانوں سے رابطہ ضرورى ھو يا كسى خاص قسم كے جاہ ومقام يا اس سے مربوط كسى اور مسئلے كى بناء پر اس كى پردہ پوشى كرتا ھو۔(۶)
بسا اوقات ھم تاريخ ميں ايسے افراد كا مشاھدہ كرتے ہيں جو اس بات كا اعتراف كرتے ہيں كہ وہ اس امر ميں اكثر شك كيا كرتے تھے اور يوں وہ مذكورہ حقيقت كى تائيد كرتے ہيں۔ يھاں تك كہ صلح حديبيہ كے موقع پر وہ ايسے شك كا شكار ھوئے جس كا شكار مسلمان ھونے كے بعد كبھى بھى نہ ھوئے تھے۔(۷)
ادھر غزوہ احد ميں جب انھوں نے سنا كہ آنحضرت(ص) شھيد ھوگئے تو وہ معركہ جنگ سے فرار اختيار كرگئے اور ان ميں سے بعض تو يہ كھتے ہيں كہ ھم ان كى طرف (دوستى كا) ھاتھ بڑھاتے ہيں كيونكہ وہ ھمارى قوم كے ھى افراد اور ھمار ے چچازاد بھائي ہيں۔(۸)
ج): مسلمانوں كى مكى زندگى كے دوران منافقوں كى موجودگى پر دلالت كرنے والى بعض آيات كى طرف علامہ طباطبائي نے بھى اشارہ كيا ہے مثال كے طور پر خداوند متعال كا يہ ارشاد: " ليقول الذين فيقلوبھم مرض والكافرون ما ذا اراد الله بھذا مثلاً" (۹) يعنى تاكہ دل كے بيمار اور كفار يہ كھيں كہ بھلا الله كا اس عجيب مثال سے كيا مطلب ھوسكتا ہے؟ يہ آيت ايك مكى سورہ كى ہے۔
نيز الله تعالى كا يہ ارشاد "ومن الناس من يقول آمنا بالله فاذا اوذى فى الله جعل فتنة الناس كعذاب الله ولئن جاء نصر من ربك ليقولن انا كنا معكم اوليس الله باعلم بما فى صدور العالمين وليعلمن الله الذين آمنوا وليعلمن المنافقين"(۱۰)
يعنى لوگوں ميں سے كوئي ايسا بھى ہے جو كھتا ہے كہ ھم الله پر ايمان لے آئے ليكن جب راہ خدا ميں اسے تكليف دى گئي تو اس نے لوگوں كى طرف سے ڈالى ھوئي آزمائش كو عذاب الھى كے برابر قرار ديا۔ اب اگر تيرے رب كى طرف سے فتح و نصرت آگئي تو يھى شخص كھے گا ھم تو تمھارے ساتھ تھے كيا دنيا والوں كے دلوں كا حال الله كو بخوبى معلوم نہيں۔ الله تو ضروريہ جانتا ہے كہ ايمان والے كون ہيں اور منافق كون؟۔
ياد رھے كہ سورہ عنكبوت بھى مكى ہے۔ يہ آيت راہ خدا ميں ايذاء رسانى اور آزمائش كے بارے ميں گفتگو كرتى ہے يہ باتيں مكہ كى ہيں نہ كہ مدينہ كي۔ اس آيت ميں الله كا يہ فرمان"ولئن جاء نصر من ربك" يعنى اگر تيرے رب كى طرف سے فتح و نصرت آگئي اس آيت كے مدنى ھونے پر دلالت نھيں كرتا كيونكہ فتح ونصرت كى مختلف شكليں ھوسكتى ہيں۔
يھاں اس نكتے كا اضافہ كرتا ھوں كہ الله تعالى اس آيت ميں بطور عام مستقبل كے منافقين كى بھى تصوير كشى فرما رھا ہے۔
اس كے بعدعلامہ طباطبائي كھتے ہيں: ''اس بات كا احتمال كہ شايد فتنہ (آزمائش) سے مراد ھجرت كے بعدمكہ ميں مسلمانوں كو پيش آنے والى مشكلات ھوں تو اس كى گنجائش ہے كيونكہ ھجرت كے بعد مكہ ميں ستائے جانے والے لوگ ھجرت سے قبل رسول(ص) الله پر ايمان لاچكے تھے اگرچہ انھيں بعد ميں اذيت دى گئي''۔(۱۱)
حوالہ جات:
۱۔ تفسير الميزان ج ۱۹ ص ۲۸۹۔
۲۔ الميزان ج ۱۹ ص ۲۸۹۔
۳۔ ذخائر العقبى ص ۵۹، دلائل النبوة ج ۱ ص ۴۱۶، لسان الميزان ج ۱ ص ۳۹۵ ابويعلى اورخصائص نسائي سے، الكامل ابن اثير ج ۲ ص ۵۷ مطبوعہ صادر اور تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۷ نيز حياة الصحابہ ج۱ ص ۳۳۔
۴۔ سنن بيھقى ج ۹ ص ۸۸ و مستدرك الحاكم ج ۲ ص ۴۳۲ حاكم اور ذہبى نے تلخيص ميں اسے صحيح قرار ديا ہے نيز تفسير ابن كثير ج ۴ ص ۲۸ و حيات الصحابہ ج ۱ ص ۳۳ كہ ترمذى نيز تفسير طبري، احمد، نسائي اور ابن ابى حاتم سے نقل كيا ہے۔
۵۔رجوع كريں : الثقات ج۱،ص ۸۸، البدايہ و النھايہ ج ۳ ص ۱۴۰۔۱۴۲ اور ۱۴۵ كہ دلائل النبوة (ابن نعيم) حاكم اور بيھقى سے نقل كيا ہے۔ حيات الصحابة ج ۱ ص ۷۲ و ۸۰ از البداية و النھاية اور كنز العمال ج ۱ ص ۲۷۷ سے منقول ہے۔
۶۔ تفسير الميزان ج ۱۹ ص ۲۸۹۔
۷۔ مغازى واقدى ج ۲ص ۶۰۷۔
۸۔السيرة الحلبية ج ۲ ص ۲۲۷ جنگ احد كے واقعے ميں اس سلسلے ميں مزيد گفتگو مآخذ كے ذكر كے ساتھ ھوگي۔
۹۔ سورہ مدثر آيت ۳۱۔
۱۰۔ سورہ عنكبوت، آيت ۱۱۔
۱۱۔ تفسير الميزان ج ۲۰ ص ۹۰۔۹۱۔