www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اگرحکمرانوں کو حکومت کے دیگر معاملات کی مصروفیت کی وجہ سے دور دراز علاقوں میں جاکر ایسے افراد کی خبر گیری کرنا مشکل ہو تو اس کا م کے لیے ہر علاقہ میں باوثوق اورخوف ِخدا رکھنے والے افراد کو معین کیا جائے جو حکومت تک صحیح اطلاعات پہنچاتے رہیں :۔

'' ففرِّغْ الأولٰئک ثقتک من اہل الخشیة والتّواضح ، فلیرفع الیک امورہم ثمّ اعمل فیہم بالاعذار الی اﷲِ یوم تلقاہ۔'' (٢٥)

پس تم ان کے لیے اپنے کسی بھروسے کے آدمی کو جو خوفِ خدا رکھنے والا اور متواضع ہو مقرر کردیناکہ وہ ان کے حالات تم تک پہنچاتا رہے۔پھر ان کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا جس سے قیامت کے دن اﷲ کے سامنے حجت پیش کر سکو۔

پھر فرماتے ہیں :یہی لوگ سب سے زیادہ انصاف کے مستحق ہیں کیونکہ ان لوگوں کا کوئی اور سہارا نہیں:

''فاِنّ ھؤلآء من بین الرعیّةِ احرج الی الانصاف من غیرھم فکلّ فاَعْذر الی اﷲ فی تاْدیةِ حقّہ الیہ۔'' (٢٦)

کیونکہ عوام میںیہ لوگ دوسروں سے زیادہ انصاف کے محتاج ہیںاور یوں تو سب ہی ایسے ہیں کہ تمہیں ان کے حقوق سے عہدہ برآ ہو کر اﷲ کے سامنے سرخرو ہونا ہے۔

(و)یتیموں اور بوڑھوں کے حقوق:

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام میں سے جو یتیم ہیں یا یتیموں کی پرورش کرنے والے ہیں اور جو بہت ہی بوڑھے ہو چکے ہیں ان کے حقوق کا خاص خیال رکھے :۔

''وتعہّدْ اہل الیُتمِ و ذوی الرِّقَّةِ فی السّنّ ممّن لا حیلة لہ و لا ینصبُ للمسألةِ نفسہ۔و ذالک علی الولاةِ ثقیل، والحقُّ کلُّ ثقیل وقد یخفِّفُہ اﷲ علی اقوامٍ طلبوا العاقبة فصبروا انفسھم وَ وَثِقوا بصدق موعودِ اﷲِ لھمْ۔''(٢٧)

اور یتیموں (اور ان کے پالنے والوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا) اور ان کا بھی جو بہت بوڑھے ہو چکے ہیں جن کا کوئی سہارا باقی نہیں جو بھیک مانگنے کے بھی لائق نہیں رہے ،اور یہی وہ کام ہے جو حکام پر گراں گذرتا ہے۔

جبکہ حق سارے کا سارا بھاری ہوتا ہے۔ ہاں خدا ان لوگوں کے لیے جو آخرت کے طلبگار ہوتے ہیں

ان کی گرانیوںکو ہلکا کردیتا ہے وہ اسے اپنی ذات پر جھیل لے جاتے ہیں اور اﷲ نے جو ، ان سے وعدہ کیا ہے اس کی سچائی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔

(ھ)ملازمین کی تنخواہ کا معیار :

ملازمین کی تنخواہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

''اسبغ علیھم الازداتَ فاِنّ ذالک قوّة لھم علی استصلاح انفسھم ، و غنیً لھم عن تناول ما تحت ایدیھم و حجّة علیھم ان خالفوا امرک او ثلموا امانتک۔'' (٢٨)

ان کی تنخواہوں کا معیار بلند رکھنا کیونکہ اس سے انہیں اپنے نفوس کے درست رکھنے میں مدد ملے گی ، اور اس مال سے بے نیاز رہیں گے، جو ان کے ہاتھوں میں بطور امانت ہوگا۔ اس کے بعد بھی وہ تمہارے حکم کی خلاف ورزی یا امانت میں رخنہ اندازی کریں ، توتمہاری حجت ان پر تمام ہو گی۔


(ی)خائن ملازمین اور ان کی سزا:

خائن افسروں کی جانچ پڑتال کے لیے ضروری ہے کہ ان پر کچھ امین اور دیندار لوگوں کو مقرر کیا جائے تاکہ وہ ان کی خیانت کی خبر دیتے رہیں اور جو وہ خبر دیں وہ ان کے لیے کافی ہے:

''فاِن احد منہم بسط یدہ الی خیانةٍ اجتمعت بھا علیہ عندک اخبارُ عیونک اکتفیْتَ بذالکشاھدا، فبستتَ علیہ العقوبة فی بدنہ، واخذتَہ بما اصاب من عملہ،ثمّ نصبتَہ بمقامِ المذلَّةِ، و سمتْہ بالخیانةِ و قلّدْتَہ عار الثھمةِ۔''(٢٩ )

اگر ان میں سے کوئی خیانت کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے اور متفقہ طور پر جاسوسوں کی اطلاعات تم تک پہنچ جائیں ، تو شہادت کے لیے بس اسے کافی سمجھ لینا ، اسے جسمانی طور پر سزا دینااور جو کچھ اس نے اپنے عہدہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سمیٹا ہے اسے واپس لینااوراسے ذلت کی منزل پر کھڑا کر دینا ، خیانت کی رسوائیوں کے ساتھ اسے روشناس کرانااور رسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا۔

(١٨) حکمرانوں کے بارے میں عوام کی سیاسی ذمہ داریاں :

(الف) ظالم حکام کا مقابلہ:

عوام کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ظالم حکام کا مقابلہ کرے:۔

''وافضل من ذالک کلّہ کلمةُ عدلٍ عند امامٍ جائرٍ۔'' (٣٠)

ان سب سے بہتر وہ حق بات ہے جو کسی جابر حکمران کے سامنے کہی جائے۔

ظالم حکام کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ متکبر ہوگا لہٰذا ایسے متکبّر حکام کا مقابلہ کرناعوام کی ذمہ داریوں میں سے ہے

''فالحذرْ الحذر من طاعة ساداتکم و کبرائم الذین تکبّروا عن حسبھم ترفّعوا فوق نسبھم و القوا الھجینةَ علی ربّھم وجاحدوا اﷲ ما صَنَعَ بھم مکابرةً لقضائہ و مغالبةً لآلائہ۔'' (٣١ )

خبردار اپنے اُن سرداروں اور بڑوں کا اتباع کرنے سے ڈرو جو اپنے حسب پر تکبّر کرتے ہوں ۔ اپنے نسب کی بلندیوں پر فخر کرتے ہوں ۔اور بد نما چیزوں کو اﷲ کے سر ڈال دیتے ہوں ،اور اس کی قضاء و قدر سے ٹکر لینے اور اس کی نعمتوں پر غلبہ پانے کے لیے اس کے احسانات سے یکسر انکار کردیتے ہوں۔

جب پتا چل جائے کہ یہ ظالم حاکم ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ اس کے ظلم کو دل سے بُرا سمجھا جائے اور اس سے نفرت کی جائے

'' ایُّھا المؤمِنونَ !اِنّہ مَن رَأٰی عدوانا یُعمَلُ بہ و منکَرا یُدعٰی الیہ فانکر بقلبہ فقد سلم و بریَٔ و من انکرہ بلسانہ فقد اُجِرَ وھو افضل من صاحبہ۔و من انکرہ بالسّیفِ لتکون کلمةُ اﷲ ہی العُلیَاوکلمةُ الظالمین ہی السُّفلیٰ فذالک الذی اساب السّبیل الھدٰی وقام علی الطّریق و نوّرَ فی قلبہ الیقینُ۔''(٣٢)

اے مؤمنو!جو شخص دیکھے کہ ظلم پر عمل ہو رہا ہے اور برائی کی طرف دعوت دی جا رہی ہے اور وہ دل سے اسے برا سمجھے تو وہ محفوظ اور بَری ہو گیا،اور جو زبان سے اسے برا کہے وہ ماجور ہے اور صرف دل سے برا سمجھنے والے سے افضل ہے۔اور جو شخص تلوار سے اس برائی کو روکے تاکہ اﷲ کے کلمہ کا بول بالا ہو اور ظالموں کی بات گر جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کی راہ کو پالیا اور سیدھے راستے پر قائم ہو گیا اور اس کے دل میں یقین نے روشنی پھیلا دی۔


(ب) صالح حکمرانوں کی مدد:

نیک اور صالح حکام کی مدد کرنا عوام کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جو اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیتا ہے وہ ایسا ہے جیساکہ اس نے حق کو قائم کرنے میں مدد کی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے مددگاروں کی صفات بیان کرتے ہیں:

''وانتم الانصارُ علیٰ الحق ،والاخوانُ فی الدّین ،والجننُ یوم الباْسِ ، والبِطانةُ دون النّاسِ بکم اضربُ المدبر و اَرْجوطاعة المقْبلَ فاعینونی بمناصحة خلیَّة من الغشِّ سلیمة من الرّیبِ فَوَاﷲِ انِّی لاَوْلنّاسِ بالنّاسِ۔'' (٣٣ )

تم حق کے قائم کرنے میں میرے مددگار ہو، دین میں بھائی بھائی ہو،اور سختیوں میں سپر ہو،اور تمام لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی میرے رازدار ہو۔ہماری مدد سے روگردانی کرنے والے کو مارتا ہوںاور پیش قدمی کرنے والے کی اطاعت کی توقع رکھتا ہوں، ایسی خیر خواہی کے ساتھ میری مدد کرو کہ جس میں دھوکہ اور فریب کاشائبہ نہ ہو ، اﷲکی قسم میںتمام لوگوں میں سب سے زیادہ اولیٰ و مقدم ہوں۔

 

(ج)صالح حکام سے دوری کے نتائج:

 

نیک اور صالح حکام سے علیحدہ ہو جانے والے خود مصیبتوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی بداعمالیاں انہیں گھیر لیتی ہیں نتیجے میں وہ اپنے آپ کو ملامت ہی کرتے رہتے ہیں

''ایُّہا النّاسُ القوا ھذہ الازِمَّةُ الّتی تحملُ ظھورہا الاثقال من ایدیکم ولا تصدّعوا علی سلطانکم فتذمّوا غبّ فِعالِکُم۔ولا تقتحموا ما استقبلتم من فورنار الفتنة وامیطوا عن سَنَنِھاخَلُّوا قصد السَّبِیْلِ لھا لعمری یَھلِکُ فی لھبِھا المؤمنُ و سَلِم فیھا غیر المسلم۔'' (٣٤)

اے لوگو! ان سواروں کی باگیں اتار پھینکو کہ جن کی پشت نے تمہارے ہاتھ گناہوں کے بوجھ اٹھائے ہیں اپنے حاکم سے کٹ کر علیحدہ نہ ہو جاؤ ، ورنہ بد اعمالیوں کے انجام میں اپنے ہی نفسوں کو برا بھلا کہو گے۔

اور جو آتشِ فتنہ تمہارے آگے شعلہ ور ہے اس میں اندھا دھند کود نہ پڑو ، اس کی راہ سے مڑ کر چلو۔اور راہ کو اس کے لیے خالی کردو کیوں کہ میری جان کی قسم ! یہ وہ آگ ہے کہ مؤمن اس کی لپٹوں میں تباہ و برباد ہو جائے گا اور کافر اس میں محفوظ رہے گا۔

حضرت علی علیہ السلام لوگوں کے سامنے نیک اورصالح حاکم کی مثال کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں

''انَّما مِثلی بینکم مَثلُ السّراجِ فی الظلمةِ یَستضِیئُ بہ مَنْ وَلَجَھا فَاسْمَعُوا ایُّھا النّاسُ وَعُوْا واَحْضِرُوا اٰذانَ قُلوبِکم تَفْھمُوا ۔''(٣٥ )

تمہارے درمیان میری مثال ایسی ہے جیسے اندھیرے میں چراغ کی کہ جو اس میں داخل ہو گا وہ اس سے روشنی حاصل کرے گا ، اے لوگو! سنو اور یاد رکھو اور دل کے کانوں کو سامنے لاؤ تاکہ سمجھ سکو۔


(٢١)صالح حکمران سے انحراف کے نقصانات:

جو اپنے صالح حکام سے انحراف کرے گا اسے ذلت و خواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حضرت علی ـ اپنی رعیت کو، جو آپ علیہ السلام کی مدد سے منحرف ہونے کے نتیجے میں آنے والے وقت کی ابتلاؤں کے بارے میں خبردار کرتے ہیں

''امّا انّکم ستلقون بعدی ذُلّاً شامِلاً ، و سیفاً قاطعاً۔و اثرةًیتّخِذُہا الظالمون فیکم سنّةً ۔''(٣٦ )

یاد رکھو کہ تمہیں میرے بعد چھا جانے والی ذلت سے دوچار ہونا پڑے گا،اور کاٹنے والی تلوار سے بھی دوچارہونا پڑے گا ۔اور اس طریقہ کار کامقابلہ کرنا ہوگا جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت بنا لیں گے۔

حضرت علی ـ ایسے افراد کے لیے بنی اسرائیل کی مثال دیتے ہیںجو کئی سالوں تک صحرائے تیہ میں بھٹک رہی تھی صرف اس وجہ سے کہ وہ بار بار انبیاء علیہم السلام کی نافرمانی کر رہی تھی :

" ایّہا النّاسُ لو لَمْ تتخاذلوا عن نَّصر الحقِّ ، ولم تَھنوا عن توہینِ الباطِلِ لم یطمعْ فیکم من لیس مثلکم ، ولم یقْوَ مَن قویَ علیکم لٰکنَّکم تِھتُم متاة بنی اسرائیلَ ولعمری لیُضَّعَفنَّ لکم التِّیہَ من بعدی اضعافاً بِما خَلّفتمْ الحقَّ ورآء ظھورِکم و قطعْتُم الادنیٰ ووصلتم الابعدواعلموا انّکم ان اتّبعتم الدّاعی لکم سلک بکم منھاجَ الرسولِ صلّی اﷲ علیہ و آلہ وسلّم و کُفِیتم مؤونَةَ الاعْتِسافِ و نبذتم الثِّقْلَ الفادِحَ عن الاعْناقِ۔'' (٣٧ )

اے لوگو! اگر تم حق کی نصرت سے پہلو نہ بچاتے اور باطل کو کمزور کرنے سے سستی نہ دکھاتے تو جو تمہارا ہم پایہ نہ تھا وہ تم پر دانت نہ رکھتا اور جس نے تم پر قابو پالیا وہ تم پر قابو نہ پاتا۔لیکن تم تو بنی اسرائیل کی طرح صحرائے تیہ میں بھٹک گئے ہو۔اور اپنی جان کی قسم میرے بعد تمہاری سرگردانی و پریشانی بڑھ جائے گی ۔

کیونکہ تم نے حق کو پسِ پشت ڈال دیاہے اور قریبوں سے قطع تعلق کرلیا ہے اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیاہے۔ یقین رکھو کہ اگر تم دعوت دینے والے کی پیروی کرتے تو وہ تمہیں رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ و آلہ وسلّم کے راستے پر لے چلتا اور تم بے راہ روی کی زحمتوں سے بچ جاتے اور اپنی گردنوں سے بھاری بوجھ اتار پھینکتے۔


صالح حکام سے انحراف کا نتیجہ حسرت و اندوہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا:

" فانّ معصیة النّاصح الشّفیق العالم المجرب تورثُ الحسرة و تعقب النّدامة و قد کنت امرتکم فی ہٰذہ الحکومة امری و نخلت لکم مخزون رأیی لو کان یطاع لقصیر امرہ فابیتم علی اباء المخالفین الجفاة والمنابذین العصات ، حتّی ارتاتت النّاصح بنصحہ و ظنّ الزند بقدحہ۔'' (٣٨ )

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شفیق خیر خواہ اور تجربہ کار عالم کی مخالفت کا نتیجہ حسرت و افسوس ہوتا ہے اور اس کا انجام ندامت کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ میں نے تمہیں اس تحکیم کے بارے میں تمہیں اپنا حکم سنا دیا اور اپنی رائے کا نچوڑ تمہارے سامنے رکھ دیا تھا لیکن کان ہی کون دھرتا ہے ، بلکہ تم نے جفا کار مخالفوں اور عہد شکن نافرمانوں کی مانند مجھ سے منہ پھیر لیا یہاںتک کہ خود ناصح اپنی نصیحت کے متعلق سوچ میں پڑ گیا اور طبیعت اس چقماق کی طرح بجھ کر رہ گئی جس سے چنگاری نکلنا بند ہو گئی ہو۔

پھر فرماتے ہیں دشمن ان پر باآسانی غالب آجائے گا :۔

''امّا والذّی نفسی بیدہ لیظھرنّ ھؤلائِ القوم علیکم لیس لانّھم اَولَی بالحقِّ منکم ولٰکن لاسراعھم الی باطل صاحبھم وابطائکم عن حقی و لقد اصبحتْ الاممُ ظلمَ رعاتِھا و اصبحتُ اخاف ظلم رعیّتی۔''(٣٩)

اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ قوم تم پر کامیاب ہو جائے گی اس لیے نہیں کہ یہ لوگ حق کی نسبت تم سے زیادہ نزدیک ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ اپنے باطل کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اورتم اپنے حق کے سلسلے میں سستی دکھاتے ہو ۔ بلا شبہ قومیں اپنے حکام کے ظلم سے ڈرتی ہیں لیکن میں اپنی رعایا کے ظلم سے خوف زدہ ہوں۔

صالح حاکم سے انحراف کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اﷲ کی مددکرنے سے انحراف کر رہا ہو''اللّٰہمَّ ایُّما عبدٍ من عبادِکَ سمع مقالَتَنَا العادِلةَ غیرَ الجائِرةِ ، والمةصْلِحَةَ غیرَ المُفسِدةِ فی الدِّینِ والدُّنیا فاَبٰی بعدَ سمعِہ لھا الّا النُّکوصَ عن نصْرتِکَ والابطائِ عن اعزازِ دِینِکَ فَاِنّا نستشھدُکَ علیہِ بِاکْبرِ الشَّاھدینَ شھادةً ۔و نستشھدُ علیہِ جَمیعَ مَن اسکَنْتَہ ارضَکَ و سمٰواتِک ثُمَّ انتَ بعدَہ المُغْنی عن نصْرِہ والاٰخِذُ لہ بِذنبہ۔'' (٤٠)

خدایا تیرے بندوں میں سے جو بندہ ہماری ان باتوں کو سنے کہ جو عدل کے تقاضوں سے ہمنوا ، اور ظلم اور جور سے الگ ہیں ، اور جو دین و دنیا کی اصلاح کرنے والی ہیں اور شر انگیزی سے دور ہیں اور سننے کے بعد انہیں ماننے سے انکار کردے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تیری نصرت سے منہ موڑنے والا ہے اور تیرے دین کو ترقی دینے سے کوتاہی کرنے والا ہے۔ اے گواہوں میں سب سے بڑے گواہ !ہم تجھے اِس شخص کے خلاف گواہ کرتے ہیںاور ہم ان سب کو جنہیں تو نے زمین اور آسمانوں میں بسایا ہے اس شخص کے خلاف گواہ کرتے ہیں،پھر اس کے بعد تو ہی اس نصرت سے بے نیاز کرنے والا ہے اور اس کے اس گناہ کا مواخذہ کرنے والا ہے۔


(٥)حکومت کا عوام کے ساتھ حسن سلوک:

حکومت اور عوام کے درمیان موجود روابط و تعلقات میں سے اہم تعلق اخلاقی تعلق ہے جو انسانی ہمدردی اور ایمانی اصولوں پر استوار ہے اور سیاسی ہم آہنگی کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں حکام اور عہدیداروں کو عوام سے مہربانی ، نرمی اورخندہ پیشانی کا سلوک کرنے کی تاکید کرتے ہیں،جسے خود حکومت اور عوام کے درمیان بہترین تعلق و ربط کاراز کہا جا سکتا ہے :۔

''املک حمیّة انفک و سورة حدّک و وسطوة یدک و غرب لسانک ۔واحترس من کلّ ذالک بکفّ البادرة، و تاخیر السطوة حتٰی یسکنَ غَضَبُکَ فتملک الاختیار، و لن تحکم ذالک من نفسک حتّٰی تکثر ہمومک بذکر المعاد الٰی ربِّکَ۔''(٤١)

غضب کی تندی، سرکشی کے جوش ، ہاتھ کی جنبش اور زبان کی تیزی پر اپنے آپ کو قابو میں رکھو ، اور ان سب چیزوں سے بچنے کے لیے جلد بازی نہ کرو، اور سزا دینے میں دیر کرویہاں تک کہ تمہارا غصہ کم ہوجائے اور تم اپنے اوپر قابو پالو، اور کبھی یہ بات تم اپنے نفس میں پورے طور پر پیدا نہیں کر سکتے جب تک اﷲ کی طرف اپنی بازگشت کو یاد کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ان تصورات کو قائم نہ رکھو۔

امام علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق ، جلد بازی ،جذبات اورنفسانی خواہشات پر قابو پالینا ہی پسندیدہ اخلاق کا اصل سرچشمہ ہے اور نفس پرقابو پانے کی اساس اﷲ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان ہے ۔ ایسا اخلاقی نظام ہی پائدار ہوسکتا ہے یہی وہ چیز ہے جس پر حکومت اور عوام کے سیاسی روابط و تعلقات کے سلسلے میں انحصار کیا جا سکتا ہے ۔

حضرت علی ـ نے جب حضرت محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر مقرر کیاتو انہیں عوام کے ساتھ اخلاقی رویہ اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہوئے ہد ایات ارشاد فرمائیں:

''فاخفض لھم جناحک، و اَلِن لھم جانبک ، وابسط لھم وجھک ۔ وآس بینھم فی اللحظةِ والنّظرةِ حتّٰی لا یطمع العظماء فی حیفک لھم ولا ییئس الضعفاء من عدلک بھم فاِنَّ اﷲ تعالی یسائلکم معشر عبادہ عن الصغیرةِ من اعمالکم والکبیرةِ والظّاھرةِ والمستورةِ فاِن یعذب فانتم اظلمُ، واِن یَعُف فھواکرم۔''۔(٤٢

لوگوں سے تواضع و انکساری کے ساتھ ملنا۔ لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کرنا۔ ان سے کشادہ روئی سے پیش آنا،اور سب کو ایک نظر سے دیکھنا تاکہ بڑے لوگ تم سے اپنی ناحق طرفداری کی امید نہ رکھیںاور چھوٹے لوگ تمہارے عدل اور انصاف سے ان کے مقابلے میں نا امید نہ ہو جائیں ۔بیشک اﷲ تعالی چھوٹے ، بڑے ،ظاہری اور پوشیدہ اعمال کی تم سے باز پرس کرے گا اور اس کے بعد اگر وہ عذاب کرے تویہ خود تمہارے ظلم کا نتیجہ ہے، اور اگر وہ معاف کردے تو وہ اس کے کرم کا تقاضا ہے۔

جب حضرت علی علیہ السلام نے عبد اﷲ بن عباس کو بصرے کا گورنر بنا کر بھیجا تو ان کو عوام کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی تاکید کرتے ہوئے مندرج ذیل ہدایات ارشاد فرمائیں:

''سع النّاس بوجہک و مجلسک و حکمک ، و ایّاک والغضب فاِنّہ طیرة من الشیاطین۔واعلم ان ما قرّبک من اﷲ یباعدک من النّاروما باعدک من اﷲ یقرّب من النّار۔'' (٤٣ )

لوگوں سے کشادہ روئی سے پیش آؤ، اور اپنی مجلس میں لوگوں کو راہ دو اور حکم میں تنگی روا نہ رکھو۔غصہ سے پرہیز کرو کیونکہ یہ شیطان کے لیے شگون نیک ہے،اور اس بات کو جانوکہ جو چیز تمہیں اﷲ کے زیادہ قریب کرتی ہے وہ دوزخ سے دور کرتی ہے۔ اور جو چیز اﷲ سے دور کرتی ہے وہ دوزخ سے قریب کرتی ہے۔


حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے مالک اشتر کو عوام کے ساتھ اخلاق سے پیش آنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

''وایّاک والمنَّ علیٰ رعیّتک باحسانک ، فاِنّ المنّ یبطل الاحسان او التّزّید فیما کان من فعلک والتّزّید یذہب بنور الحقاو ان تعد ہم فتتبع موعدک بخلفک والخلف یوجب المقت عنداﷲ والنّاس۔'' (٤٤)

اور عوام کے ساتھ نیکی کر کے کبھی نہ جتا نا کیونکہ احسان جتانا نیکی کو اکارت کردینا ہے۔ جو ان سے حسن سلوک کرنا اسے زیادہ نہ سمجھنا کیونکہ اپنی بھلائی کو زیادہ خیال کرنا حق کی روشنی کو ختم کردینا ہے اور ان سے وعدہ کر کے بعد میں وعدہ خلافی نہ کر نا کیونکہ وعدہ خلافی سے اﷲ بھی ناراض ہوتا ہے اور بندے بھی ،عوام کے ساتھ روابط و تعلقات میں اخلاقی اصولوں کی رعایت اس حد تک ضروری ہے کہ حاکم کو ایک معلم اخلاق کی حیثیت سے اپنے ہم نشینوں اور تمام رعایا کے لیے نمونہ عمل ہونا چاہیے ، وہ حاکم جس کی سیرت یا طرز عمل لوگوں پر براہ راست یا بالواسطہ اثر انداز ہوتی ہے اسے لوگوں کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنی چاہیے کہ لوگ اس کے عمل سے اخلاق کا سبق حاصل کریں۔

حضرت علی علیہ السلام، مالک اشتر کوایسے افراد سے، جو لوگوں کی عیب جوئی میں لگے رہتے ہیں،دوری اختیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''ولیکن ابعد رعیّتک منک و اشنئہم عندک اطلبہم لمعایب النّاس فانّ فی النّاس عیوبا الوالی احق من سترہا فلا تکشفنّ عمّا غاب منہا فاِنّما علیک تطہیرما ظہر لک واﷲ یحکم علی ما غاب عنک فاستر العورة مااستطعت یستراﷲ منک ما تحبُّ سترہ من رعیّتک اطلق عن النّاس عقدة کلّ حقد واقطع عنک سبب کل وتر و تغاب عن کل ما لا یضح لک و لاتعجلنّ الی تصدیق صاع فاِنّ الساعی غاش وان تشبہ بالنّٰصحین۔''(٤٥ )

تم سے سب سے زیادہ دُور اور ناپسندیدہ وہ شخص ہونا چاہیے جو لوگوں کی عیب جوئی میں لگا رہتا ہے کیونکہ لوگوں میں عیب تو ہوتے ہی ہیںاور حاکم ان کی پردہ پوشی کا سب سے زیادہ سزاوار ہے۔ پس پوشیدہ عیوبکو برملا نہ کرو،اور جو عیب ظاہر ہو گئے ہیں ان کی بھی صفائی اور توجیہ کردو اور جو عیب چھپے ہوئے ہیں ان کا فیصلہ خدا کے حوالے کردینا اور جہاں تک ہو سکے دوسروں کے رازوں کو پوشیدہ رکھو تاکہ تم اپنے جن اسرار کو چھپانا چاہتے ہو اﷲ انہیں پوشیدہ رکھے ۔ لوگوں سے کینہ کی ہر گرہ کوکھول دو اور اپنے انتقام کی ہر رسی کو کاٹ دو، جو چیز تمہاری نظر میں درست نہ ہو اس سے دوری اختیار کرو۔ چغل خور کی باتوں کی جلدی سے تصدیق نہ کیا کرو کیونکہ چغل خور خود فریب کار ہوتا ہے چاہے وہ نصیحت کرنے والوں میںسے ہی کیوں نہ ہو۔


(٦)اقلیتوں کے ساتھ حکومت کے روابط و تعلقات :

حکومت اور عوام کے درمیان روابط و تعلقا ت میں سے ایک خاص اور اہم بحث یہ ہے کہ اسلامی حکومت کا اقلیتوں کے ساتھ تعلق کس نوعیت کا ہونا چاہیے۔ اس کوواضح کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

'' فانّہم صنفان امّا اخ لک فی الدین و امّا نظیر لک فی الخلق ،یفرط منہم الزّلل ، و تعرض لہم العلل و یؤتیٰ علی ایدیہم فی العمد والخطاء فاَعطہم من عفوک و صفحک مثل الذی تحبّ ان یعطیَک اﷲ من عفوہ و صفحہ۔'' (٤٦)

عوام میں دو قسم کے لوگ ہیں یا تو تمہارے دینی بھائی ہیںیا تمہاری جیسی مخلوق جو اقلیتی غیر مسلم ہیں۔

ان سے لغزشیں بھی ہونگی اورخطاؤں سے بھی انہیں سابقہ پڑے گا اور ان کے ہاتھوں سے عمداً یا سہواً غلطیاں بھی ہوں گی تم ان سے اسی طرح عفو و درگذر سے کام لینا جس طرح اﷲ سے اپنے لیے عفو و درگذر کو پسند کرتے ہو۔

اس مکتوب میں حضرت علی علیہ السلام واضح طور پرمسلمان اورغیر مسلمان دونوں کو برابری کا درجہ دیتے ہوئے ایک ہی صف میں کھڑا کرتے ہیں ، اور دونوں کے ساتھ ایک ہی طرح کے تعلق روا رکھنے کی تاکید کرتے ہیں کہ آخر غیر مسلمان بھی تو انسان ہی ہیں وہ جس معاشرے میں رہتے ہیں اسی معاشرے کا حصہ ہیں لہٰذا ان سے تعلق بھی اس طرح کا ہی ہونا چاہیے۔ایک اور مقام پر اپنے ایک گورنر کو جس نے اقلیتوں پر زیادہ سختی کی تھی ارشاد فرماتے ہیں:

''فاِنّ دہاقین اہل بلدک شکوا منک غلظة و قسوة واحتقارا و جفوة و نظرت فلم ارہم اہلا لان یدونوا لشرکہم ولا ان یقصوا و یجفوا لعہدہم فالبس لہم جلبابا من اللین تشوبہ بطرف من الشدّة وداول لہم بین القسوة والّرافة وامزج لہم بین التّقریب والادناء والابعاد والاقصاء ان شاء اﷲ۔'' (٤٧ )

بے شک تمہارے شہر کے کاشتکاروں نے تمہاری سختی ،سنگدلی حقارت آمیز برتاؤ اور ظلم و تشدد کے رویہ کی شکایت کی ہے میں نے اس کی تحقیق کی تو ان کو ان کے شرک کی بنا پر اس لائق بھی نہیں سمجھا کہ انہیں نزدیک کرلیا جائے۔ نہ انہیں دھتکارا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں لائق ظلم قرار دیا جا سکتا ہے، اس معاہدے کے پیشنظر جو انہوں نے کر رکھا ہے۔۔ لہٰذا ان کے لیے نرمی کا ایسا شعار اختیار کرو جس میں کہیں کہیں سختی کی جھلک ہو۔ قرب و بعد اور دور ی و نزدیکی کو سمو کر درمیانہ راستہ اختیار کروانشاء اﷲ ایسا ہی کروگے۔

اس مکتوب کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ مفتی جعفر حسین لکھتے ہیں:۔''یہ لوگ مجوسی تھے اس لیے حضرت کے عامل کا رویہ ان کے ساتھ ویسا نہ تھا جو عام مسلمانوں کے ساتھ تھا جس سے متاثر ہو کر ان لوگوں نے امیرالمؤمنین ـ کو شکایت کا خط لکھا اور اپنے حکمران کے تشدد کا شکوہ کیا جس کے جواب میں حضرت علیہ السلام نے اپنے عامل کو تحریر فرمایا کہ وہ ان سے ایسا برتاؤ کرے کہ جس میں نہ تشدد ہو اور نہ اتنی نرمی کہ وہ اس سے نا جائز فائدہ اٹھا کر شرانگیزی پر اتر آئیں۔'' (٤٨

اس خط میں چند نکتے قابل ذکر ہیں:

(١) امام علیہ السلام نے اس شکایت کا بھر پور اثر لیا اور اس سے لاتعلقی و بے اعتنائی کا اظہارنہیں فرمایا اور یہ بات خود حکومت کے ذمہ دار افراد کے لیے راہ نما ثابت ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے شرکائے کارا ور ماتحتوں پر اعتماد رکھنے کی وجہ سے لوگوں کی درخواستوں اور شکایتوں پر کان ہی نہ دھریں اور انہیں خاطر میں نہ لائیں اس طرح وہ عوام کے جذبات و احساسات کی توہین نہ کریں چاہے شکایت کرنے والے آتش پرست ہی کیوں نہ ہوں۔

(٢) اس شکایت کے بعد امام علیہ السلام مسئلہ کا جائزہ لیتے ہیں اورتحقیق فرماتے ہیں اور ان تحقیقات و اطلاعات کی روشنی میں ضروری اقدام فرماتے ہیں۔

(٣) امام علیہ السلام کی ہدایت کے مطابق شکایت کرنے والے چونکہ مشرک ہیں لہٰذا حاکم سے اتنا زیادہ قریب نہ ہونے پائیں کہ نظام حکومت کا اعتبار ہی خطرہ میں پڑ جائے ، لیکن چونکہ '' ذمی '' بھی ہیں اور مسلمانوں سے ایک معاہدہ رکھتے ہیں لہٰذا اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ ان کی حمایت کرے اور انہیں ان کے عمومی اور مشترک حقوق دلائے ، منجملہ ان کے کام کی آزادی ،اجتماعی و اخلاقی عزت و وقار کا تحفظ وغیرہ ۔

(٤) اس ہدایت کے مطابق ، اسلامی نظام کے ذمہ دار افراد کو بہت ہی نپا تلا، معتدل اور اخلاقی رویہ اختیار کرنا چاہیے اور امام علیہ السلام کی فرمائش کے پیش نظر نہ لوگوں کو اتنی چھوٹ دے دیں کہ وہ حکومت اور اس کے محترم قوانین کے سلسلہ میں لا پرواہ ہو جائیں اور نہ سب سے اس قدر قطع تعلق کر لیں کہ اس سے عوام بد دل اور نا امید ہو جائیں اور ان دلوں میں حاکم کے لیے بغض اور کینہ پیدا ہو جائے ۔

حجۃ الاسلام عالی جناب مولانا روشن علی صاحب قبلہ


حوالہ جات

١۔ خطبہ نمبر٢١٦۔

٢۔ ایضا ً۔

٣۔ ایضا ً۔

٤۔ ایضا ً۔

٥۔ ایضا ً۔

٦۔ ایضا ً۔

٧۔ نھج البلاغہ (شارح مفتی محمد عبدہ) ، خطبہ نمبر: ٢١٦، جلد نمبر:٢ ، ص١٩٨ تا١٩٩۔

علامہ محمد باقر مجلسی (متوفی): ''بحار الانوار'' ، جلد ٢٧، ص ٢٥١۔٢٥٢۔

٨۔ سورة العصر،آیت ١۔٣۔

٩۔ سورة المائدہ، آیت ٢۔

١٠تا ١٥۔ نہج البلاغہ (شارح مفتی محمد عبدہ) ، خطبہ نمبر: ٢١٦، جلد نمبر:٢ ، ص٢٠٠ تا٢٠١۔

علامہ محمد باقر مجلسی (متوفی): ''بحار الانوار'' ، جلد ٢٧، ص ٢٥٢۔٢٥٣۔

١٦۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٠، جلد ٣، ص٧٩، علامہ محمد باقر مجلسی (متوفی): ''بحار الانوار'' ، جلد ٣٣، ص٧٦۔

١٧۔ نہج البلاغہ ،خطبہ:٣٤، جلد١، ص ٨٤، ابراہیم ابن محمد الثقفی (متوفی ٢٨٣ھ)، ''الغارات''، جلد ٢، ص٦٩٢، طبع ثانی

١٨۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٠، جلد ٣، ص٧٩، تحفول العقول ، ص ١٢٦

١٩۔ نہج البلاغہ ،خطبہ:٣٤، جلد١، ص ٨٤، ابراہیم ابن محمد الثقفی (متوفی ٢٨٣ھ)''الغارات''، جلد ٢، ص٦٩٢، طبع ثانی۔

٢٠۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٣، جلد ٣، ص٨٩تا ٩٠، تحف العقول ، ص ١٣١۔

٢١۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٣، جلد ٣، ص ٩٠، تحف العقول ، ص ١٣١۔

٢٢۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٣، جلد ٣، ص٩٩ تا ١٠٠، مستدرک الوسائل ، جلد ١٣، ص١٦٧

٢٣۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٣، جلد ٣، ص ١٠٠،مستدرک الوسائل ، جلد ١٣،ص ١٦٧ تا ١٦٨۔

٢٤۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٣، جلد ٣، ص ١٠٠ تا ١٠١، مستدرک الوسائل ، جلد ١٣،ص ١٦٨۔

٢٥۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٣، جلد ٣، ص ١٠١، مستدرک الوسائل ، جلد ١٣،ص ١٦٨۔

٢٦۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٣، جلد ٣، ص ١٠١،مستدرک الوسائل ، جلد ١٣،ص ١٦٨۔

٢٧۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٣، جلد ٣، ص ١٠١، مستدرک الوسائل ، جلد ١٣،ص ١٦٨۔

٢٨۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٣، جلد ٣، ص ٩٥ تا ٩٦۔

٢٩۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٣، جلد ٣، ص ٩٦۔

٣٠۔ نہج البلاغہ ، قول ٣٧٤، جلد ٤، ص ٩٠۔

٣١۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ١٩٢، جلد ٢، ص١٤٢۔

٣٢۔ نہج البلاغہ ، قول ٣٧٣، جلد ٤، ص٨٩۔

٣٣۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ١١٨، جلد ١، ص٢٣١۔

٣٤۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ١٨٧، جلد ٢، ص١٢٧۔

٣٥۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ١٨٧، جلد ٢، ص١٢٧۔

٣٦۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ٥٨، جلد ١، ص١٠٧۔

٣٧۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٦٦، جلد نمبر ٢، ص ٧٩۔

٣٨۔ نہج البلاغہ ، خطبہ٣٥ ، جلد نمبر ١ ، ص٨٥۔٨٦۔

٣٩۔ نہج البلاغہ ، خطبہ :٧٩، جلد نمبر:١، ص:١٨٧۔

٤٠۔ نہج البلاغہ ، خطبہ :٢١٢، جلد نمبر:٢، ص:١٩٣۔

٤١۔ نہج البلاغہ ، مکتوب نمبر٥٣ ، جلد نمبر٣، ص١٠٩۔

٤٢۔ نہج البلاغہ ، مکتوب نمبر٢٧ ، جلد نمبر٣، ص٢٧۔

٤٣۔ نہج البلاغہ ، مکتوب نمبر٧٦، جلد نمبر٣، ص١٦٣۔

٤٤۔ نہج البلاغہ ، مکتوب نمبر٥٣ ، جلد نمبر٣، ص١٠٩۔

٤٥۔ نہج البلاغہ ، مکتوب نمبر٥٣ ، جلد نمبر٣، ص٨٦) ابن شعبہ الحرانی ابو محمد الحسن ابن علی ابن الحسین (متوفی٤ھ)، تحف العقول عن آل الرسول ۖ ، الطبع الثانی: ١٤٠٤ھ، موسسة النشر الاسلامی، قم، ایران،ص ١٢٨۔

٤٦۔ نہج البلاغہ ، مکتوب ٥٣ ، جلد نمبر٣، ص٨٦)، ابن شعبہ الحرانی (متوفی ٤ھ)، تحف العقول عن آلالرسول ۖ ، الطبع الثانی: ١٤٠٤ھ، موسسة النشر الاسلامی، قم، ایران،ص ١٢٧۔

٤٧۔ نہج البلاغہ ، مکتوب نمبر١٩ ، جلد نمبر٣، ص١٨۔

٤٨۔ مفتی جعفر حسین، مترجم نہج البلاغہ، ص٦٧٩۔


المراجع و المصادر

(١) القرآن الکریم

(٢) امام علی :نہج البلاغہ، شارح : مفتی محمد عبدہ ، ٤ جلد، ناشر :دار المعرفت بیروت لبنان

(٣) امام علی : نہج البلاغہ(مترجم مفتی جعفر حسین)، امامیہ پبلی کیشنز لاہور

(٤) ابراہیم ابن محمد الثقفی (متوفی ٢٨٣ھ)، ''الغارات''، المطبعة : بہمن

(٥) ابن شعبہ الحرانی ابو محمد الحسن ابن علی ابن الحسین (متوفی ٤ھ)، تحف العقول عن آل الرسول ۖ ، الطبع

الثانی: ١٤٠٤ھ، موسسة النشر الاسلامی، قم، ایران

(٦) ابن شہر آشوب(متوفی ٥٨٨ھ) :''مناقب آل ابی طالب''، مطبعة الحیدریة النجف الشرف۔

(٧) الشیخ الصدوق(٣٨١ھ):''من لا یحضر الفقیہ''،طبع الثانیہ ١٣٠٣ھ ایران۔

(٨) الشیخ محمد یعقوب الکلینی(متوفی ٣٢٩ھ)، طبع الثالث ١٣٦٧ھ، دارالکتب الاسلامیہ، ایران

(٩) عبد الواحد آمدی متوفی(٥٥٠): ''غرر الحکم و دررالکلم'' ، ناشر مکتبة الاعلام الاسلامی قم، سنة ١٣٦٦ھ ش

(١٠) علامہ محمد باقر مجلسی (متوفی ١١١١ھ): ''بحار الانوار'' ، مؤسسة الوفاء بیروت لبنان، طبع ثانی سال

١٤٠٣ھ ش

(١١) میرزا حسین نوری الطبرسی (متوفی: ١٣٢٠ھ)،''مستدرک الوسائل ''، الطبع الثانی : ١٤٠٨ھ

موسسہ آل بیت لاحیاء التراث ، بیروت لبنان۔

 

Add comment


Security code
Refresh