(١٠)عوام کی ذمہ داریاں :
عوام کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ کہ وہ حکومت کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کرے:۔
''وامّا حقّی علیکم فالوفآء بالبیعةِ، و النّصیحةُ فی المشہدِ والمغیبِ ،والاجابةُ حین ادعوکُمْ والطّاعةُ حینَ اٰمرُکم۔''(١٩)
اور میرا تم پر یہ حق ہے کہ بیعت کی ذمہ داریوں کی وفاداری کرو، حکومت کی سامنے اور پس پشت خیر خواہی کرو، جب بلاؤں تو میری صدا کا جواب دو اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو ۔
پس آپ نے صالح حکام کے سامنے عوام کی چار اھم ذمہ داریوں کو بیان کیا ہے۔
١۔ بیعت کی وفاداری
٢۔ خیر خواہی
٣۔ حکومت کی مدد
٤۔ اطاعت
(١١)عوام کے طبقات اور ان کے حقوق اور ذمہ داریاں:
(الف) عوام کے طبقات:
عوام کے متعلق حکومت کی ذمہ داریوں کو زیاہ واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے تمام طبقات کو واضح کیا جائے تاکہ ہر طبقہ کے حقوق اور ان کے متعلق حکومت کی ذمہ داریوں کو بیان کیا جاسکے۔
حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں عوام کے آٹھ طبقات بیان کرتے ہیں کہ:
''و اعلم انّ الرّعیّة طبقات، لا یصلح بعضھا الّا ببعضٍ ، ولا غنی ببعضھا عن بعضٍ فمنھا جنود اﷲو منھا کتّابُ العامّةِ والخاصّةِ و منھا قضاة العدلِ و منھا عمّالُ الانصافِ والرّفقِ ومنھا اھل الجزیة والخراجِ من اھل الذَّمّةِ و مُسلمةِ النّاسِ و منھا التّجّار و اھل الصناعات و منھا الطّبقة السفلٰی من ذوی الاجاجة و المسکنةِ۔''(٢٠)
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ رعیت کے کئی طبقات ہوتے ہیں۔ان میں سے ہر طبقے کی فلاح و بہبود ایک دوسرے سے وابستہ ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہو سکتے، ان میںپہلا طبقہ وہ ہے جو اﷲ کی راہ میں کام آنے والے فوجیوں کا ہے ،دوسرا طبقہ :عمومی اور خصوصی تحریروں کا کام انجام دیتا ہے، تیسراطبقہ : عدل کرنے والے قاضیوں کا ہے، چوتھا طبقہ: حکومت کے وہ اعمال ہیں جن سے انصاف اور امن قائم ہوتا ہے،پانچواں طبقہ: جزیہ اور خراج دینے والوں کا ہے ،چھٹا طبقہ: جزیہ دینے والے ذمی اقلیتوں کا یا خراج دینے والے مسلمانوں کا ہے، ساتواں طبقہ: تاجروں اور صنعت گروں کاہے،آٹھواں طبقہ سب سے کمزور ترین طبقہ ہے جو فقراء اور مساکین کا ہے ۔ ان تمام طبقات میں سے ہر ایک کا بیت المال میں حصہ معیّن ہے :۔
''و کلًّا قد سمّی اﷲُ سہمہ لہ، ووضع علی حدّہ فریضتہ فی کتابہ او سنّةِ نبیّہ صلّی اﷲ علیہو اٰلہ وسلّم عہدا منہ عندنا محفوظا۔'' (٢١ )
اور اﷲ نے ہر ایک کا حق معین کردیا ہے اور اپنی کتاب یا سنت نبوی میں اس کی حد بندی کر دی ہے اور وہ دستور ہمارے پاس محفوظ ہے۔
(ب)تاجر اور صنعت گر کے حقوق:
حضرت علی علیہ السلام تاجروں اور صنعت گروں کی تین اقسام بیان کی ہیں ۔ ان میں سے ایک قسم ان تاجروں ا ور صنعت گر وں کی ہے جو ایک جگہ رہ کر تجارت کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو تاجروں اور صنعت گروں کے بارے میں حکم دیتے ہیں:
'' ثُمَّ استوصِ بِاالتُّجَّارِ و ذوی الصَّناعاتِ و اوصِبِھم خَیراً: المقیمُ منھم والمضطرب بمالہ والمترفِّق ببدنہ ، فاِنّھم موادّ المنافعِ و اسباب المرافق، وجلّابھا من المباعد والمطارح ، فی بَرِّک و بحرک و سھلک و جبلک و حیث لا یلتئم النّاسُ بمواضعھا ولا یجترؤن علیھا، فاِنّھم سلم لا تخاف بائقتہ و صلح لاتخشی غائلتہ و تفقّد امورھم بحضرتک و فی حواشی بلادِکَ۔'' (٢٢)
پھر تمہیں تاجروں اور صنعت گروںکے خیال رکھنے کی اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کی ہدایت کی جاتی ہے، خواہ وہ ایک جگہ رہ کر بیو پار کرنے والے ہوں، یا پھیری لگا کر بیچنے والے ہوں یا جسمانی مشقت سے کمانیوالے ہوں، اور تمہیں دوسروں کو ان کے متعلق ہدایت کرنا ہے کیونکہ یہی لوگ منافع کا سرچشمہ اور ضروریات کے پورا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ان ضروریات کو خشکیوں، تریوں ،میدانی علاقوںاور پہاڑوں ایسے دور افتادہ مقامات سے درآمد کرتے ہیں اور ایسی جگہوں سے جہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے اور نہ وہاں جانے کی ہمت کر سکتے ہیں ، بے شک یہ لوگ امن پسند اور صلح جو ہوتے ہیں، ان سے کسی شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ تمہارے سامنے ہوں یا جہاں جہاں دوسرے شہروں میں پھیلے ہوئے ہوں تم ان کی خبر گیری کرتے رہنا ۔