حکمرانوں کو امر با لمعروف اورنھی عن المنکر کرنا:
لوگ حاکموں ،بادشاہوں اور افسروں سے ، ان کے عہدے کی وجہ سے ، ڈرتے ہو ئے بات کرتے ہیںلِہٰذا حضرت علی علیہ السلام اپنے لیے اس طرح کے رویے لوگوں کو منع کرتے ہیں:
''فلاتکلّمونی بِما تُکلّمُ بہ الجبابرة ، ولا تتحفّظوا منّی بما یتحفّظُ بہ عند اہل البادرة، و لاتخالطونی بالمصانعة۔ولا تظنوا بی استثقالا فی حقٍّ قیل لی، ولا التماس اِعظامٍ لنفسی، فاِنّہ من استثقل الحقّ ان یقال لہ اوالعدل ان یعرض علیہ کان العمل بہما اثقل علیہ فلا تکفّوا عن مقالة بحقّ او مشورة بعدل۔"(١٤)
مجھ سے اس طرح باتیں نہ کیا کرو جس طرح جابر اور سرکش حکمرانوں سے کی جاتی ہیں، اور نہ مجھ سے اس طرح بچاؤ کرو جس طرح طیش کھانے والے حاکموں سے بچ بچاؤ کیا جاتا ہے،مجھ سے اس طرح کا میل جول نہ رکھو جس سے چاپلوسی اور خوشامد کا پہلو نکلتا ہو، میرے بارے میں یہ گمان نہ کرو کہ میرے سامنے حق بات کہی جائے گی تو مجھے گراں گذرے گی ،اور نہ یہ خیا ل کرو کہ میں یہ درخواست کروں گا کہ مجھے بڑھا چڑھا دو۔ کیونکہ جو اپنے سامنے حق کے کہے جانے یا عدل کے پیش کیے جانے کو گراں سمجھتا ہو ،اسے حق وعدل پر عمل کرنا کہیں دشوار ہوگا ۔تم اپنے آپ کو حق بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے نہ روکو ۔
ارباب اختیار اپنے آپ کو یہ نہ سمجھیں کہ وہ عوام کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں بلکہ وہ اس امت کے امین ہیں اور اﷲ کے بندے ہیں لہٰذا ان پر بھی اور عوام پر بھی صرف اﷲ کی ذات کا اختیار ہے کسی اور کا کوئی اختیار نھیں ہے:
''فاِنّما انا و انتم عبید مملوکون لربّ لا ربّ غیرہ یملک منّا مالا نملک من انفسنا و اخرجنا ممّا کنّا فیہ الی ما صلحنا علیہ ،فابدلَناضلالة بالہدی و اعطانا البصیرة بعد العمٰی۔'' (١٥)
ہم اور تم اسی ربّ کے بے اختیار بندے ہیں کہ جس کے علاوہ کوئی ربّ نہیں ، وہ ہم پر اتنا اختیار رکھتا ہے کہ خود ہم اپنے نفسوں پر اتنا اختیار نہیں رکھتے۔ اسی نے ہمیں پہلی حالت سے نکال کر جس میں ہم تھے بہبودی کی راہ پر لگایا اور اسی نے ہماری گمراہی کو ہدایت سے بدلا اور بے بصیرتی کے بعد بصیرت عطا کی۔
(٨) منصب کی وجہ سے عوام سے بے رُخی نہ کرنا :
حضرت علی علیہ السلام اپنی فوج کے کچھ سرداروں کے نام لکھے ہوئے ایک خط میں حکومت اور عوام کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرما تے ہیں:
''فاِنَّ حقّا علی الوالی ان الّا یغیّرَہ علی رعیّتہ فضل'' نالہ ولا طول'' خصّ بہ و ان یزیدہ ما قسم اﷲ لہ من نعمہ دنوًّا من عبادہ و عطفًا علی اخوانہ۔'' (١٦)
بے شک حاکم پر فرض ہے کہ وہ اپنے رویہ میں جو رعایا کے ساتھ ہے تبدیلی پیدا نہ کرے اس فضیلت اور برتری کی وجہ سے جس کو اس نے پایا ہے اور نہ اس خصوصیت کی وجہ سے جس کو اس نے پایا ہے۔ بلکہ اﷲ نے جونعمت اس کے نصیب میں کی ہے وہ اسے بندگان ِخدا سے نزدیکی اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی میں اضافہ ہی کا باعث سمجھے۔