مکتوب نمبر 11:
دشمن کی طرف بھیجے ہوئے ایک لشکر کو یہ ہدایتیں فرمائیں
جب تم دشمن کی طرف بڑھو یا دشمن تمہاری طرف بڑھے تو تمہارا ٹیلوں کے آگے
یا پہاڑ کے دامن میں یا نہروں کے موڑ میں ہونا چاہیے تاکہ یہ چیز تمہارے لیے پشت پناہی اور روک کا کام دے, اور جنگ بس ایک طرف یا (زائد سے زائد دو طرف سے ہو) اور پہا ڑوں کی چوٹیوں اور ٹیلوں کی بلند سطحوں پر دید بانوں کو بٹھا دو تاکہ دشمن کسی کھٹکے کی جگہ سے یا اطمینان والی جگہ سے (اچانک) نہ آپڑے اور اس بات کو جانے رہو کہ فوج کا ہر اوّل دستہ فوج کا خبر رساں ہوتا ہے. اور ہر اوّل دستے کو اطلاعات ان مخبروں سے حاصل ہوتی ہیں (جو آگے بڑھ کر سراغ لگاتے ہیں) دیکھو تتر بتر ہونے سے بچے رہو, اترو تو ایک ساتھ اترو, اور کوچ کرو تو ایک ساتھ کرو, اور جب رات تم پر چھا جائے تو نیزوں کو (اپنے گرد ) گاڑ کر ایک دائرہ سا بنا لو, صرف اونگھ لینے اور ایک آدھ جھپکی لے لینے کے سوا نیند کا مز ہ نہ چکھو .
مکتوب نمبر 10: معاویہ کی طرف
معاویہ کی طرف
تم اس وقت کیا کرو گے جب دنیا کے یہ لباس جن میں لپٹے ہوئے ہو تم سے اتر جائیں گے . یہ دنیا جو اپنی سج دھج کی جھلک دکھاتی اور اپنے خط و کیف سے ور غلاتی ہے. جس نے تمہیں پکار ا تو تم نے لبیک کہی اس نے تمہیں کھینچا تو تم اس کے پیچھے ہو لیے اوراس نے تمہیں حکم دیا تو تم نے اس کی پیروی کی. وہ وقت دور نہیں کہ بتانے والا تمہیں ان چیزوں سے آگاہ کرے کہ جن سے کو ئی سپر تمہیں بچا نہ سکے گی .
لہٰذا اس دعویٰ سے باز آجاؤ . حساب و کتا ب کا سر و سامان کرو اور آنے والی موت کے لیے دامن گردان کر تیار ہو جاؤ, اور گمراہوں کی باتوں پر کان نہ دھرو. اگر تم ایسا نہ کیا تو پھر میں تمہاری عقلوں پر (جھنجھوڑ کر ) تمہیں متنبہ کروں گا, تم عیش و عشرت میں پڑے ہو , شیطان نے تم میں پانی گرفت مضبوط کر لی ہے. وہ تمہارے بارے میں اپنی آرزوئیں پوری کر چکا ہے اور تمہارے اندر روح کی طرح سرایت کر گیا اورخون کی طرح (رگ و پے میں ) دوڑرہا ہے .
اے معاویہ! بھلا تم لوگ (امیہ کی اولاد ) کب رعیت پر حکمرانی کی صلاحیت رکھتے تھے, اور کب امت کے امور کے والی و سر پرست تھے بغیر کسی پیش قدمی اور بغیر کسی بلند عزت و منزلت کے ہم دیرینہ بدبختیوں کے گھر کر لینے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں میں اس چیز پر تمہیں متنبہ کئے دیتا ہوں کہ تم ہمیشہ آرزوؤں کے فریب پر فریب کھاتے ہو اور تمہارا ظاہر باطن سے جدا رہتا ہے.
تم نے مجھے جنگ کے لیے للکارا ہے تو ایسا کرو کہ لوگو ں کو ایک طرف کردو اور خود (میرے مقابلے میں) باہر نکل آؤ. دونوں فریق کو کشت و خون سے معا ف کرو تاکہ پتہ چل جائے کہ کس کے دل پر زنگ کی تہیں چڑھی ہوئیں اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے .میں (کوئی اور نہیں) وہی ابو الحسن ہوں کہ جس نے تمہارے نانا بیعت شکنی کرنے والی ہے۔
مکتوب نمبر 9: معاویہ کے نام
معاویہ کے نام:
ہماری قوم (قریش) نے ہمارے نبی کو قتل کرنے اور ہماری جڑ اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ کیا اور ہمارے لیے غم و ابدوہ کے سرو سامان کئے, اور برے برتاؤ ہمارے ساتھ روا رکھے. ہمیں آرام و را حت سے روک دیا اور مستقل طور پر خوف و دہشت سے دو چار کر دیا اور ایک سنگلاخ و ناہموار پہاڑ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا اور ہمارے لیے جنگ کی آگ بڑکا دی مگر اللہ نے ہماری ہمت باندھی کہ ہم پیغمبر کے دین کی حفاظت کریں اور ان کے دامن حرمت پر آنچ نہ آنے دیں. ہمارے مومن ان سختیوں کی وجہ سے ثواب کے امید وار تھے. اور ہمارے کافر قرابت کی بناء پر حمایت ضروری سمجھتے تھے. او ر قریش میں جو لو گ ایمان لائے تھے وہ ہم پر آنے والی مصیبتوں سے کوسوں دور تھے اس عہد و پیمان کی وجہ سے کہ جو ان کی حفاظت سے کرتا تھا یا اس قبیلے کی وجہ سے کہ اب کی حفاظت کو اٹھ کھڑا ہو تا تھا لہٰذا وہ قتل سے محفوظ تھے اور رسالت مآب کا یہ طریقہ تھا کہ جب جنگ کے شعلے بھڑ کتے تھے اور لوگو ں کے قدم پیچھے ہٹنے لگتے تھے تو پیغمبر اپنے اہل بیت کو آگے بڑھا دیتے تھے اور یوں انہیں سینہ سپر بنا کر اصحاب کو نیزہ و شمشیر کی مار سے بچا لیتے تھے. چنانچہ عبیدہ ابن حارث بدر میں, حمزہ احد میں اور جعفر جنگ موتہ میں شہید ہو گئے ایک او ر شخص نے بھی کہ اگر میں چاہوں تو اس کا نام لے سکتا ہو ں. انہیں لو گوں کی طرح شہید ہو نا چاہا. لیکن ان کی عمریں جلد پوری ہو گئیں اور اس کی موت پیچھے جا پڑی. اس زمانہ (کج رفتار) پر حیرت ہوتی ہے کہ میرے ساتھ ایسوں کا نام لیا جاتا ہے. جنہوں نے میدان سعی میں میری سی تیز گامی کبھی نہیں دکھائی اور نہ ان کے لیے میرے ایسے دیرینہ اسلامی خدمات ہیں ایسے خدمات کہ جن کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتا. مگر یہ کہ کو ئی مدعی ایسی چیز کا دعویٰ کربیٹھے کہ جسے میں نہیں جانتا ہو ں اور میں نہیں سمجھتا کہ اللہ اسے جانتا ہوگا (یعنی کچھ ہو تو وہ جانے) بہر حال اللہ تعالیٰ کا شکر ہے .
اے معاویہ ! تمہارا یہ مطابعہ جو ہے کہ میں عثمان کے قاتلوں کو تمہارے حوالے کر دوں تو میں نے اس کے ہر پہلو پر غور و فکر کیا اوراس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ انہیں تمہارے یا تمہارے علاوہ کسی اور کے حوالے کرنا میرے اختیار سے باہر ہے, اور میری جا ن کی قسم ! اگر تم اپنی گمراہی اور انتشار پسندی سے باز نہ آئے تو بہت جلد ہی انہیں پہچان لو گے وہ خود تمہیں ڈھونڈتے ہوئے آئیں گے اور تمہیں جنگلوں, دریاؤں, پہاڑوں اور میدانوں میں ان کے ڈھونڈنے کی زحمت نہ دیں گے. مگر یہ ایک ایسا مطلوب ہوگا, جس کا حصول تمہارے لیے ناگواری کا باعث ہو گا اور وہ آنے والے ایسے ہوں گے جن کی ملاقات تمہیں خوش نہ کر سکے گی .سلام اس پر جو سلام کے لائق ہو .
- Prev
- Next >>