www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 پیغمبر اسلام ﷺ جوانوں کے تئیں خاص احترام کے قائل تھےاورہمیشہ ان سے محبت کرتے تھے اور ان کی عزّت کرتے تھے۔لیکن گھری تحقیق کے بعد پیغمبر اسلام ﷺکی سیرت میں ایک اور موضوع ملتا ہے،جو قابل غور واھمیت کا حامل ہے اور وہ موضوع گناھگار اور خطا کار جوانوں سے آپ کے برتاؤ کا طریقہ ہے ۔ھم اس کے چند نمونے ذیل میں بیان کرتے ہیں:

امام محمد باقر علیہ السلام نے فر مایا:
"فضل ابن عباس ایک خوبصورت جوان تھے۔عید قربان کے دن پیغمبر اکرم ﷺکے ساتھ( آپ کے مرکب پر)سوار تھے۔اسی اثناء میں قبیلۂ خثعم کی ایک خوبصورت عورت اپنے بھائی کے ھمراہ پیغمبر اسلام ﷺسے احکام شرعی سے متعلق چند مسائل پوچھنے کے لئے آپ کے پاس آئی۔اس عورت کا بھائی شرعی مسائل کے سلسلے میں سوال کررھاتھا اورفضل ابن عباس اس عورت کو دیکھ رھا تھا!
رسول خدا ﷺنے فضل کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کے رخ کواس عورت سے موڑ دیاتاکہ اس پر نگاہ نہ کر سکے۔لیکن اس جوان نے دوسری طرف سے دیکھنا شروع کیا،یھاں تک کہ پیغمبر ﷺنے اس طرف سے بھی اسے موڑ دیا۔
جب رسول خدا ﷺاس عرب کے سوالات کا جواب دینے سے فارغ ھوئے،توفضل ابن عباس کے شانوں کو پکڑ کر فر مایا:’’کیا تم نھیں جانتے ھوکہ وقت گزرنے والا ہے ،اگر کوئی اپنی آنکھ اور زبان پر کنٹرول کرے،تو خداوند متعال اس کے اعمال نامہ میں ایک قبول شدہ حج کا ثواب لکھتا ہے۔(بحارالانوار،ج۹،ص۳۵۱،ح۳)۔
ایک دوسری روایت میں نقل ھوا ہے:
’’پیغمبر اسلام ﷺکے چچا،عباس نے(آنحضرت سے مخاطب ھو کر)کھا:کیا آپ نے اپنے چچا زادبھائی کا رخ موڑ دیا؟ رسول خدا ﷺنے فرمایا:میں نے ایک جوان عورت اور ایک جوان مرد کو دیکھا کہ گناہ سے محفوظ نھیں تھے(اسی لئے یہ کام انجام دیا)۔
’’ایک دن ایک جوان رسول خدا ﷺکی خدمت میں حاضر ھوا اور عرض کی :اے رسول خدا ﷺ!مجھے زنا کرنے کی اجازت دیجئے۔لوگ یہ سن کرمشتعل ھوئے اور بلند آواز میں اعتراض کیا ،لیکن رسول خدا ﷺنے نرمی سے فر مایا:
نزدیک آؤ۔وہ جوان رسول خدا ﷺکے نزدیک گیا اور آپکے روبرو بیٹھا۔پیغمبراسلام ﷺنے محبت سے اس سے پوچھا:کیا تم یہ پسند کروگے کہ کوئی تیری ماں سے ایساھی فعل انجام دے؟
جوان نے کھا:آپ پر قربان ھو جاؤں نھیں!آنحضرت نے فرمایا:لوگ بھی اسی طرح تیرے اس فعل پر راضی نھیں ھوں گے!
اس کے بعد آنحضرت نے یھی سوال اس جوان کی بھن اور بیٹی کے بارے میں کیا اور جوان نے اسی طرح جواب دیا۔
اس کے بعدرسول خدا ﷺنے اس جوان سے فرمایا :کیا تم پسند کروگے کہ لوگ تیری بھن سے یھی فعل انجام دیں؟اس نے جواب دیا :نھیں۔رسول خدا ﷺنےفر مایا:لوگ بھی ایسا ھی سو چتے ہیں۔اس کے بعد پیغمبر ﷺنے
پو چھا:کیا تم پسند کروگے کہ کوئی تیری بیٹی کے ساتھ یھی فعل انجام دے؟
اس نے کھا:نھیں۔پیغمبر ﷺنے فرمایا:اگر کوئی ان کی بیٹی سے ایسا فعل انجام دے تو لوگ بھی تیری طرح ناراض ھوں گے۔‘‘
اس جوان اور رسول خدا ﷺکے در میان گفتگو کے بعد آنحضرت نے اس جوان کے سینہ پر اپنا ھاتھ رکھ کر فرمایا :
’’پر ور دگارا!اس کے دل کوگناہ سے پاک کر دے اور اس کے گناھوں کو بخش دے اور اسے زنا سے محفوظ رکھ۔پیغمبراکرم ﷺکے اس بر تاؤ کے نتیجہ میں اس کے بعد اس جوان کی نظر میں سب سے برا کام زنا تھا۔(روش تبلیغ ص۶۳)۔
پیغمبر اسلام ﷺکا گناھگار جوان سے بر تاؤ ،مسلما نوں کے لئے بذات خود ایک بھترین مثال ہے ۔لیکن پیغمبر اکرم ﷺکی اس سیرت میں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ صحیح طریقے پر گناہ کو روکنا امر بالمعروف اور نھی عن المنکر میں سے ہے۔
 

Add comment


Security code
Refresh