www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

915111
جو سرخی ھم نے جمائی ہے، یہ بھت بڑے موضوع کی حکایت کرتی ہے اور ضرورت بھی ہے کہ اس امر پر کماحقہ بات کی جائے۔ ھمارے کئی محققین نے اس موضوع پر قلم بھی اٹھایا ہے اور صدر اول اسلام سے لے کر آج تک کے اکابر علمائے اھل سنت کے نظریات اس باب میں نقل کئے ہیں۔ یھاں تک کے محدثین نے اس حوالے سے خصوصی باب باندھے ہیں۔
امام احمد ابن حنبل نے اپنی مسند میں اس حوالے سے 136 احادیث نقل کی ہیں۔ بھت سے علمائے اھل سنت نے امام مھدیؑ پر گراں قدر تصنیفات بھی یادگار چھوڑی ہیں، البتہ آج اس موضوع کے حوالے سے ھم مختصراً چند باتیں اپنے قارئین کی خدمت میں اس پس منظر میں پیش کرنا چاھتے ہیں کہ 27 نومبر کو لاھور میں متحدہ جمعیت اھل حدیث کے زیراھتمام اتحاد امت کانفرنس بعنوان ’’حضرت الامام محمد المھدی علیہ السلام کی تشریف آوری اور عالمی اسلامی حکومت کا قیام‘‘ منعقد ھوئی۔
دعوت نامے کی پیشانی پر ابی داؤد کی سنن اور حاکم کی مستدرک کے حوالے سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے، جسے شیخ البانی نے صحیح الجامع میں حسن قرار دیا ہے۔ وہ حدیث یہ ہے: ’’المھدی منی اجلی الجبھۃ، اقنی الأنف، یملأالارض قسطاوعدلاً، کما ملئت ظلماً وجوراً، یملک سبع سنین‘‘
اس کا ترجمہ یہ ہے: "مھدی مجھ سے ھوں گے، روشن کشادہ پیشانی والے، اونچی ناک والے، وہ دنیا کو عدل و انصاف سے یوں بھر دیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ھوگی، ان کی حکومت سات برس ھوگی۔"
اس کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر کے نامور اور لائق احترام علماء نے شرکت کی۔ علماء کے علاوہ عوام کی ایک کثیر تعداد اس میں موجود تھی، خاص طور پر جماعت اھل حدیث کے سربراہ مولانا عبدالغفار روپڑی، ھدیۃ الھادی پاکستان کے سربراہ پیر سید ھارون علی گیلانی، جماعت الدعوۃ کے سینیئر نائب صدر پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی، جمعیت اتحاد العلماء کے ناظم اعلٰی قاری ضمیر اختر منصوری اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی راھنما علامہ شیخ محمد امین شھیدی بھی اس موقع پر موجود تھے۔
متحدہ جمعیت اھل حدیث کے سربراہ حضرت علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری جو میزبان تھے، نے کانفرنس کے مقاصد بیان کرتے ھوئے کھا کہ یہ کانفرنس ملی یکجھتی کونسل کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے مشترکہ عقائد و نظریات کو اجاگر کرنے، اتحاد امت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے اور استحکام پاکستان کے مقاصد کو سامنے رکھتے ھوئے منعقد کی گئی ہے۔
جناب علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری جب سے ملی یکجھتی کونسل میں اپنی جماعت کی سربراھی کرتے ھوئے شامل ھوئے ہیں، اتحاد امت کے لئے ان کی مساعی اور جوش و جذبہ ھمارے لئے باعث تقویت ثابت ھوا ہے۔ انھوں نے بڑے خلوص کے ساتھ اتحاد امت کے اس پلیٹ فارم پر اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا ہے۔ یہ مذکورہ کانفرنس بھی ان کے اسی جذبے کا نتیجہ ہے، جس کے تحت وہ امت اسلامیہ کے درمیان عقیدتی مشترکات کو نمایاں کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ وہ علم و خلوص کے ساتھ ساتھ جدوجھد کی بھی علامت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس موقع پر اس کانفرنس میں تمام علمائے کرام نے حضرت امام مھدیؑ کے حوالے سے اپنے اس ایمان کا اظھار کیا کہ وہ دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے ظھور فرمائیں گے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمۃ الزھراؑ کی اولاد میں سے ھوں گے، حضرت عیسٰی علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور وہ خانۂ کعبہ کی دیوار کے ساتھ کھڑے ھو کر اپنی دعوت کا آغاز کریں گے۔ وہ ظلم کے خلاف جھاد کریں گے اور آخر کار فتح مند ھوں گے۔
جھاں تک امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں عقیدے کا تعلق ہے تو تمام مسلمان اس پر متفق ہیں اور تمام مکاتب فکر کے محققین نے ایسی شاذ آرا کو اپنی تحقیق کی بنیاد پر مسترد کر دیا ہے، جنھوں نے اس سلسلے میں غلط فھمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے علماء بھی ہیں، جنھوں نے حضرت امام مھدیؑ کے بارے میں صرف اپنے عقیدے اور ایمان کا اظھار نھیں کیا بلکہ ان سے والھانہ عشق کے نمونے پیش کئے ہیں۔
ھم اپنے قارئین کی خدمت میں اس سلسلے میں برصغیر پاک و ھند کے چند اکابر اھل سنت کی عبارات اور ایمان افروز نمونے ذیل میں پیش کرتے ہیں:
امام مھدیؑ کے متعلق شاہ ولی اللہ محدث دھلویؒ کا موقف
شاہ ولی اللہ اپنی کتاب ازالۃ الخفا میں لکھتے ہیں: "ھم یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نص فرمائی ہے کہ امام مھدی قرب قیامت میں ظاھر ھوں گے اور وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک امام برحق ہیں اور وہ زمین کو عدل و انصاف کے ساتھ بھر دیں گے، جیسا کہ ان سے پھلے ظلم اور بے انصافی کے ساتھ بھری ھوئی تھی۔۔۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد سے امام مھدی کے خلیفہ ھونے کی پیش گوئی فرمائی اور امام مھدی کی پیروی کرنا، ان امور میں واجب ھوا جو خلیفہ سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ ان کی خلافت کا وقت آئے گا، لیکن یہ پیروی فی الحال نھیں بلکہ اس وقت ھوگی جبکہ امام مھدی کا ظھور ھوگا اور حجر اسود اور مقام ابراھیم کے درمیان ان کے ھاتھ پر بیعت ھوگی۔‘‘
حضرت مھدی علیہ الرضوان کے نام ایک عجیب خط
خطبات حکیم الاسلام جامع کے مولف لکھتے ہیں کہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی صاحب رحمۃ اللہ کے خطبات میں ایک عجیب قصہ لکھا ھوا ہے، جس میں نیکی کی حرص اور جستجو کی ایک ایسی مثال ہے، جس کی نظیر ملنا مشکل ہے، ان اکابر علماء رحمھم اللہ کا ذھن نیکی کے معاملات میں وھاں تک پھنچا، جھاں ھر ایرے غیرے کی رسائی ممکن نھیں، ذیل میں وہ قصہ جوں کا توں نقل کیا جاتا ہے:
’’دارالعلوم دیوبند کے سب سے پھلے مھتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ ظاھری و باطنی علوم کے جامع تھے، نقشبندیہ خاندان کے اکابر میں سے تھے، آخر عمر میں ھجرت فرما کر مکہ مکرمہ آئے، وھیں ان کی وفات بھی ھوئی اور وھیں ان کی قبر بھی ہے، آپ کو آخر زمانے میں علامات قیامت کے ظھور خصوصاً حضرت مھدی کی قیادت میں عالمی ایمانی جدوجھد سے خصوصی دلچسپی تھی، حضرت مھدی کا ظھور مکہ مکرمہ میں ھونا تھا، دوسری طرف انھیں یہ حدیث بھی معلوم تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شیبی خاندان کو فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ کی کنجیاں سپرد کی ہیں اور بیت اللہ چونکہ قیامت تک باقی رھے گا، اس لئے مکہ میں چاھے سارے خاندان اجڑ جائیں، لیکن شیبی کا خاندان قیامت تک باقی رھے گا۔ چنانچہ! مولانا رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ کی جب آخری عمر ھوئی اور انھیں شدید اشتیاق تھا کہ حضرت مھدی کے ھاتھ پر بیعت اور ان کی قیادت میں جھاد نصیب ھو جائے، تو ان کو ایک عجیب ترکیب سوجھی کہ جب یہ خاندان قیامت تک باقی رھے گا، تو لا محالہ ظھور مھدی کے زمانے میں بھی رھے گا، جب حضرت مھدی کا ظھور ھوگا اور وہ کعبۃ اللہ کی دیوار سے ٹیک لگائے مسلمانوں کو بیعت کریں گے، تب کعبۃ اللہ کی کنجیاں شیبی خاندان کے کسی فرد کے ھاتھ میں ھوں گی۔ چنانچہ اسی کے پیش نظر انھوں نے ایک حمائل شریف اور ایک تلوار لی اور ایک خط حضرت مھدی علیہ الرضوان کے نام لکھا۔"
اس خط کا مضمون یہ ہے:
’’فقیر رفیع الدین دیوبندی مکہ معظمہ میں حاضر ہے اور آپ جھاد کی ترتیب کر رھے ہیں، ایسے مجاھدین آپ کے ساتھ ہیں، جن کو وہ اجر ملے گا، جو غزوہ بدر کے مجاھدین کو ملا تھا، سو! رفیع الدین کی طرف سے یہ حمائل تو آپ کے لئے ھدیہ ہے اور یہ تلوار کسی مجاھد کو دے دی جائے کہ وہ میری طرف سے جھاد میں شریک ھو جائے اور مجھے بھی وہ اجر مل جائے۔‘‘ انھوں نے یہ تینوں چیزیں شیبی خاندان والوں کے سپرد کیں اور ان سے کھا کہ تمھارا خاندان قیامت تک رھے گا، یہ حضرت مھدی کے لئے امانت ہے، جب تمھارا انتقال ھو تو تم اپنے قائم مقام کو وصیت کر دینا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے قائم مقام کو وصیت کرے اور ھر ایک یہ وصیت کرتا جائے، یھاں تک کہ یہ امانت حضرت مھدی علیہ الرضوان تک پھنچ جائے۔‘‘(خطبات حکیم الاسلام:۲/۹۸)
جامعہ فاروقیہ/lib/ur/farooqia.com//http:۱۴۳۵/۰۱p/۲۲php
مولانا حسین احمد مدنیؒ کا ایک اھم اقدام
دارالعلوم دیوبند کے سابق سربراہ مولانا سید حسین احمد مدنی نے ایک کتاب ’’الخلیفۃ المھدی فی الاحدیث الصحیحہ‘‘ لکھی ہے۔ اس کے ابتدائیہ میں وہ لکھتے ہیں: ’’بعض مجالس علمیہ میں مھدئ موعود کا ذکر آیا تو کچھ ماھرین علم نے مھدئ موعود سے متعلق وارد حدیثوں کی صحت سے انکار کیا تو مجھے یہ بات اچھی لگی کہ اس موضوع سے متعلق مروی حسن و ضعیف روایتوں سے قطع نظر صحیح حدیثوں کو جمع کر دوں، تاکہ لوگ اس سے نفع اٹھائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تبلیغ بھی ھوجائے۔ نیز ان حدیثوں کے جمع و تدوین سے ایک غرض یہ بھی ہے کہ بعض ان مصنفین کے کلام سے لوگ دھوکہ نہ کھا جائیں، جنھیں علم حدیث سے لگاؤ نھیں ہے، جیسے علامہ ابن خلدون وغیرہ یہ حضرات اگرچہ فن تاریخ میں معتمد و مستند ہیں، لیکن علم حدیث میں ان کے قول کا اعتبار نھیں ہے۔‘‘
سید نفیس الحسینی کا اظھار ایمان
عصر حاضر کے معروف دیوبندی عالم و بزرگ صوفی سید نفیس الحسینی نے ایک کتاب ’’الامام المھدی رضوان اللہ علیہ وسلامہ‘‘ پر ایک مختصر سی تقریظ لکھی ہے۔ یہ کتاب معروف دیوبندی عالم مولانا سید محمد بدر عالم مھاجر مدنی کی تالیف ہے، جو مولانا محمد انور شاہ کشمیری کے شاگرد رشید ہیں۔ سید نفیس الحسینی کی یہ مختصر عبارت بھت ایمان افروز ہے: ’’ایک سال سے زائد عرصہ ھو رھا ہے کہ پاکستان کے عوام و خواص میں ’’سیدنا الامام المھدی‘‘ رضوان اللہ علیہ و سلامہ، کی ذات اقدس مختلف انداز سے موضوع گفتگو بنی ھوئی ہے۔ ’’الامام المھدی‘‘ کے بارے میں سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشنگوئی حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نھیں کہ اس میں تکرار کرے۔‘‘
امام مھدی علیہ السلام کے موضوع پر راقم کے پیش نظر بھت زیادہ سرمایہ فکر و نظر اور ثروت ایمان و ایقان موجود ہے، جو امت اسلامیہ کے ایک مشترکہ اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ امت کو جوڑنے کے لئے ایسے موضوعات کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے والے عناصر کا سدباب کیا جاسکے۔ ایسے عناصر کا بھترین جواب اتفاق و اتحاد ھی ہے اور اتفاق و اتحاد کی بنیاد امت اسلامیہ کے مشترکہ اعتقادات اور اعلٰی اسلامی مقاصد ھی ھوسکتے ہیں۔
تحریر: ثاقب اکبر

Add comment


Security code
Refresh