www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

جب پندرہ شعبان کی رات آتی ہے تو تقریبا تمام مسلمان مختلف عناوین سے جشن مناتے اور محفلیں سجاتے ہیں بعض لوگ شب برات کے عنوان 

سے اور یہ کہ اس ایک رات کی عبادت سے ھی دوزخ کی آگ سے برات ملتی ہے اور بعض لوگ اس رات کو جشن میلاد امام زمانہ (عج) کے عنوان سے جشن مناتے ہيں اور فرق صرف تھوڑا سا ھی ھوتا ہے معنی و مفھوم اور روح عبادت و انتظار سے عاری عبادت و دعا۔
بعض لوگ عریضے لکھتے ہيں لیکن ان عریضوں میں بھی صرف اپنے مسائل کے حل کی التجا ھوتی ہے کہ اے امام زمانہ (عج) ھمارے لئے اللہ کی بارگاہ میں دعا فرمانا تا کہ ھماری شادی ھوجائے، ھمیں روزگار ملے، ھمیں اللہ تعالی فرزند عطا فرمائے، ھمارے گھریلو مسائل حل ھوجائیں، ھمیں گھربار ملے یا شاید بعض لوگ ان عریضوں کے ذریعے ملک و ملت کے مسائل حل ھونے کی دعا کریں جن شاذ و نادر ھی ھوتے ہیں تا ھم ان عریضوں میں امام زمانہ(عج) کے ظھور کی التحا کم ھی ھوتی ہے اور ان میں کم ھی ایسا مواد ھوتا ہے جو امام زمانہ(عج) کی معرفت کی دلیل ھو۔
سب سے پھلا سوال انتظار ظہھور یا اعتقاد ظھور؟
انتظار کا مطلب یہ نھیں ہے کہ انھیں ظھور کی قبولیت کے لئے تیار کرے بلکہ اس کے لئے ظھور کے بارے میں سوچنا اور اس کی آرزو کرنا بھی ضروری ہے۔
مثال: ھوسکتا ہے کہ ھم ایک مھمان کی پذیرائی اور آؤ بھگت کے لئے تیار ھوں اور ھمارے پاس یہ مھم سر کرنے کے وسائل بھی ھوں لیکن ھم نے کسی کو دعوت نہ دی ھو اور کسی مھمان کے آنے کی توقع ھی نہ رکھتے ہيں۔ ایسی صورت میں یہ کھنا بےجا ھوگا کہ "ھم مھمان کے منتظر ہیں"۔ کیونکہ اس صورت میں ھم نہ تو مھمان کے آنے کے منتظر ہیں اور نہ ھی اس کے نہ آنے سے فکرمند، مغموم اور پریشان ھوتے ہیں۔
ھم ان چند سطروں ھی سے سمجھ سکتے ہیں کہ خودسازی اور تھذیب نفس بھی اس وقت تک کامل نھیں ہے جب تک انتظار کا مسئلہ انسان کے لئے حل نہ ھوا ھو یعنی تھذیب و تزکیہ کرنے والے کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس زمانے اور اس عصر کا منتظر ھو جب پوری دنیا ظلم و ستم سے پاک ھوگی اور اس مقصد کا حصول ممکن ھوگا جس کی طرف حرکت انسان کے پیدائشی فرائض ميں سے ہے۔
بالفاظ دیگر: اصلاح نفس و تطھیر نفس صرف اس صورت میں عروج تک پھنچتی ہے کہ انسان پوری دنیا کی تطھیر کے بارے میں سوچتا ھو، پوری دنیا کی تطھیر کے لئے فکرمند ھو اور صرف اپنی ذات کی اصلاح ھی کے بارے میں نہ سوچے چنانچہ جو اصلاح نفس کی کوشش کرتا ہے اس کو عالمی مصلح کے ظھور پر اعتقاد پر ھی اکتفا نھیں کرنا چاھئے بلکہ عالمی منتظَر اور ان کے ظھور کا بھی انتظار کرنا چاھئے۔
حقیقت یہ ہے کہ ظھور پر عقیدہ رکھنے اور ظھور کا انتظار کرنے میں بھت زيادہ فرق ہے کیونکہ نہ صرف تمام شیعیان آل محمد (ص) ھی ظھور کا عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ غیر شیعہ حتی کہ غیر مسلم مکاتب کی اکثریت بھی اس حقیقت پر عقیدہ رکھتے ہیں لیکن اس کے منتظر نھيں ہیں بالفاظ دیگر وہ ایک حقیقتِ منتظَر کے آنے کے معتقد ضرور ہیں لیکن اس حقیقت کے آنے کا انتظار نھیں کررھے ہیں۔ وہ جو معتقد ھوں اور منتظر بھی ھوں اور انھيں امید بھی ھو آنے کا بقیۃاللہ الاعظم علیہ السلام کے اور انتظار و امید کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں وہ حقیقی منتظر بھی ہیں اور تزکیہ نفس میں کامیاب ھونا بھی ان کے مقدر میں مقرر ہے۔
انتظار کے بارے میں وارد ھونے والی روایات میں جھاں انتظار کو بھترین عبادت قرار دیا گیا ہے اور منتظرین کی تعریف ھوئی ہے وھاں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ امید رکھیں، اس امر عظیم کے رونما ھونے کو ممکن سمجھنا اور ظھور مولا کے ادراک کو بھی ضروری سمجھا گیا ہے کیونکہ اگر امید اور انتظار نہ ھو اور انتظار زمان ظھور کے واقعات و فرائض سے بے خبر ھو تو وہ منتظر کیوں کر ھوسکتا ہے؟ کیا اس نے ان روایات پر عمل کیا ہے جن کے توسط سے ھمیں امید و آرزو کا درس دیا گیا ہے؟ (ماخوذ از صحیفہ مھدیہ)
 

Add comment


Security code
Refresh