قرآن کریم کی نگاه میں آسماني کتابوں نبیوں اور الهي نمایندے کے اس روۓ زمین پر بهیجنے کا ایک اهم مقصد متفرق پراکنده ،منتشر اور تقسیم شده إنسانیت کے اندر وحدت برقرار کرنا هے-
هر نبي نے آکر اپنے زمانے میں اُمت کو متحد کیا اور ان اختلافات کی نفی کی جو طبقائیت نژادیت ،لسانیت ُعلاقیت اور وطنیت کی شکل میں اُمتوں میں پهیل گئی تهیں ۔
اس حقیقت پر سب سے بڑی مستند پیامبر اکرم(ص) کا عمل اور آپکی سیرت هے آنحضرت ایک طبقاتي وتقسیم شده معاشرے میں مبعوث هوۓ لیکن آپ نے اپنی نبوت کا آغاز وحدت سے کیا اور"تآخوا فی اﷲ" کی بنیاد پر تمام مسلمانوں کو آپس یں بھائی بھائی بنایا اور بابرکت زندگي کے آخری خطبےمیں بھی جو که خطبئه حجۃ الوداع یا الغدیریۃ کے نام سے مشهور هے اسی وحدت کے موضوع پر زور دیا گیا ، اور مسلمانون کو در پیش مشکلات وخطرات کو پیش نظر رکهتے هوۓ ثقلین کو اس وحدت کا محور اور میزان قرار دیتےهوۓ یه واضح کر دیا که هر قسم کے إختلافات وانحرافات و نژادیت اور فرقه وارانیت سے بهچنے کا واحد ذریعه قرآن وعترت سے تمسک اور پیروی هے:
پیغمبر اعظم(ص) کی فرمائشات ارشادات اور عملي سیرت همارے سامنے هونے کے باوجود امت مسلمۃکو جس چیز نے سب سے زیاده نقصتان پهنچایا اور اب سخت نقصان دۓ رهی هے تفرقه إنتشار اور ناپاکی هے ،انتشار اور ناپاکی ایک ایسی بٹهيهے جسے متحده دشمن نے دین وثقافت کے خلاف حربے کے طور پر استعمال کر رها هے اپ جسکا ایندهن بهی مسلمان هیں اور جلانے والے بهی مسلمان هیں یعنی مسلمان هی کے وجود سے یه شعله نکلتاهے اور مسلمان هی کو جلاتا هے ،لیکن همارا دشمن تفرقه ختم کرکے جعرافیائی سرحدین،قومی سرحدیں اور ثقافتي سرحد یں مٹا کر ایک ایک پلیٹ فارم پر جمع هو کر ایک آفاقی نظام کو وجود میں لانے کی طرف جارها هے،تو عالم اسلام کو بهی چاهئےاسلامی تعلیمات کی روشنی میں هر طرح کی تفرقه بازي إختلافات اور ناپاکیوں کے بناوٹی سرحدوں کو توڑ کر ایک ایسے آفاقی الھی نظام کے وجود میں لانے کے لئے متحد هو جائے جسکا وعده اﷲ تعالی نے اپني لا ریب کتاب میں دیا هے ، اور یه وحدت صرف اور صرف فکر انتظار اور فلسفه انتظار کے سائے میں وجود میں آسکتا هے۔