اتحاد کی ضرورت
اتحاد بین المسلمین کیوں ضروری ھے ؟یہ ایک ایسا سوال ھے کہ جس کے جواب کے لئے نہ کسی دانشور کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور نہ ھی کسی کتب خانے میں جاکر کتابوں کی چھان بین کرنی ھوگی، بلکہ آج کا بے چارہ مسلمان اگر اپنے ارد گرد ایک نظر ڈالے تو اسے خود بخود اس اھم سوال کا جواب بآسانی حاصل ھو جائے گا ۔
مملکت کفر تو بھت دور کی بات ھے حتی اسلامی مملکت کھے جانے والے ملکوں میں بھی مسلمان بے بس نظرآرھا ھے۔ لیکن ایسا کیوں؟کیوں ایک مسلمان اپنی ھی اسلامی مملکت میں لاچار ھے؟کیوں ایک مسلمان اپنی ھی اسلامی مملکت میں تبعیض، تحقیراور استحصال کا شکار ھے ؟کیوں ایک مسلمان اپنی ھی اسلامی مملکت میں فقیر ونادارھے جبکہ دوسرے ادیان کے پیرو کاروں کا اقتصاد کافی مضبوط ھے ؟
ان تمام سوالوں کا جواب وہ استکباری نظام ھے جس کے شیطانی شعلوں سے پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام جھلس رھا ھے ۔یہ نظام ایسا ھی ھے جس کا لازمہ مسلمانوں کی تباھی ھے ۔اسلام مخالف عناصر کی مطلق العنان ریشہ دوانیاں دور حاضر میں زندگی بسر کرنے والے کسی شخص سے پوشیدہ نھیںھیں ۔ استکباری طاقتوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے پیکر اسلام کمزور و ناتواں ھوتا چلا جارھا ھے ۔ یہ استکباری نظام جب چاھتا ھے کسی بھی اسلامی ملک پر اقتصادی پابندی عائد کر دیتا ھے ، جب چاھتا ھے اسے جنگ کی دھمکی دے دیتا ھے اور دوسری طرف سے اسلامی ممالک پر اسکی ثقافتی یلغاروں کا سلسلہ بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری ھے جس کی طرف نہ صرف یہ کہ بیشتر اسلامی ممالک کی کوئی توجہ نھیں ھے بلکہ افسوسناک بات تو یہ ھے کہ خود یھی ممالک اس زھریلی یلغار میں دشمنان اسلام کے برابر کے سھیم نظر آتے ھیں لیکن یقین کے ساتھ یہ کھا جا سکتا ھے کہ دشمنان اسلام کے مذکورہ تمام اسلام مخالف حربے ان کے اس حربے کے سامنے پھیکے دکھائی دیتے ھیں جس کے ذریعہ انھوں نے سالھاسال مختلف ملکوں کو اپنا غلام بنائے رکھاھے اور وہ حربہ یہ نعرہ ھے "پھوٹ ڈالو حکومت کرو"۔
اسی نعرہ اور حربہ پر عمل کرنے کی وجہ سے ھی ان کا استکباری نظام دنیا پر آج تک قائم و دائم ھے ۔ اسی نعرہ کے رائج اور نافذ ھونے کی وجہ سے آج کا مسلمان علمی، ثقافتی ،اقتصادی اور اجتماعی میدانوں میں کافی پیچھے رہ گیا ھے۔
لھذا اگر مسلمانوں کی پسماندگی کی سب سے اھم وجہ ان کے درمیان پایا جانے والا اختلاف ھے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ اس پسماندگی کو قبر تاریخ میں دفن کرکے ھمہ جھتی ترقیاتی منزلوں تک پھونچنے کا سب سے بھترین اور پر امید راستہ اتحاد ھے۔
عصر حاضر میں اتحاد بین المسلمین کی اھمیت و ضرورت کو بھتر طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ھے کہ ان خطرات پر مزید نظر ڈالی جائے جو عالم اسلام کو عالم استکبار سے لاحق ھیں۔
خطرات یا استکباری سازشیں
۱۔ ثقافتی یلغار:گزشتہ سطور میں اس مھلک حرب کی طرف اشارہ کیا جا چکا ھے ۔ثقافتی یلغار کے اھم آلات ووسائل درج ذیل ھیں :اخبارات، کتابیں،رسالے،ریڈیو ،ٹیلیویژن،فلمیں اور انٹرنیٹ وغیرہ۔
۲۔علمی یلغار :مغربی طاقتیں اپنی اخلاقی پسماندگی کے باوجود علم اور ٹکنولوجیکل لحاظ سے مسلسل ترقیاتی منزلوں کو طے کر رھی ھےں جس کی وجہ سے یہ طاقتیں اور حکومتیں دنیائے علم و تمدن کا قبلۂ آمال بنی ھوئی ھیں اور اس کے مقابلے میں ھم مسلمانوں کی پسماندگی اس بات کاباعث بنتی ھے کہ گزشتہ کی طرح آئندہ بھی مغربی طاقتوں کا تسلط ھم پر باقی رھے۔
۳۔عالم اسلام کے خلاف مغربی طاقتوں کا اتحاد:مغربی ممالک اپنے ما بین موجود ہ تمام اختلافات کے باوجود، مسلمانوں کی تضعیف اور غارتگری کی خاطر ھم پیمان ھیں اور وہ ھمیں علمی ،سیاسی ،اقتصادی اور ثقافتی لحاظ سے کمزور بنانے پر متحد ھیں ۔
۴۔ زمینوں پر قبضہ:دشمنان اسلام اور مغربی طاقتوں نے اسلامی سرزمینوں اور ملکوں پر ناجائز طریقہ سے قبضہ کر رکھا ھے اور آج تک ان کا یہ سلسلہ جاری ھے ۔عراق اور فلسطےن کی سلگتی سر زمین اور افغانستان کے مسلمانوں کی بے بسی اسی بات کو واضح کر رھی ھے ۔
۵۔اسلام مخالف فرقوں کا ظھور :ان میں سے بیشتر فرقے دشمنان اسلام کے ناپاک اھداف کے پےدا کردہ ھیں۔ قادیانیت اور بھائیت جیسے دیگر فرقے دشمنان اسلام کی ناپاک اولادیں ھیں جو مسلمانوں کے درمیان گمراہ کنندہ افکار کی سم افشانی کرتے ھیں اور ایسے اےسے حربوں کا استعمال کرتے ھیں جسکا فریب سب سے پھلے ھمارے جوان کھاتے ھیں ۔
۶۔علماء اور متفکرین اسلام کی غفلت:غیر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی اقلیتیں اور بالخصوص ان کے جوان رفتہ رفتہ دینی اقدار اور شریعت و احکام کو فراموشی کے سپرد کرتے جارھے ھیں اور یہ سب کچہ مسلمانوں کی دوسری امتوں کے ساتھ بلا قید وشرط باھمی تعلقات اور علماء و متفکرین اسلام کی غفلت کی وجہ سے ھو رھا ھے۔
۷۔اسلام کو دھشت گرد دین کے نام سے مشھور کرنا :استکباری نظام اور مغربی طاقتیں اسلام کے نام پر دھشت گرد تنظیموں کو وجود میں لاتی ھیں اور ان کو جنگی تربیت دینے کے بعد اسلامی ممالک میں بھیج دیتی ھیں پھر انھیں خود ساختہ تنظیموں سے اپنے ملک پر حملہ کرواتی ھیں تاکہ اسلام اور دھشت گردی کو لازم و ملزوم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں اور ساتھ ھی اسلامی ملک پر حملہ آور ھو نے کا بھانہ تلاش کر سکیں۔
اسلامی ممالک کی اندرونی مشکلات
اسلامی ممالک کی مختلف اندرونی مشکلات کے پیش نظر بھی اس پر آشوب ماحول میں اتحاد بین المسلمین اشد ضروری ھے ۔یہ داخلی مشکلات بھی بظاھر داخلی مشکلات ھیں ورنہ انکے اصل اسباب کی بازگشت بھی استکباری نظام اور مغربی طاقتوں کی طرف ھوتی ھے ۔وہ مشکلات مندرجہ ذیل ھیں جن سے اکثر و بیشتر اسلامی ممالک روبرو ھیں:
۱۔ مسلمانوں کا مغربی تمدن میں ڈھل جانا اور انکی جدید ٹیکنولوجی سے مرعوب ھوجانا۔
۲۔ بعض اسلامی ممالک کی حکومتوں کا مستقل نہ ھونا اور استکباری طاقتوں سے ھم پیمانی کو ، اسلامی عزت واقتدار پر ترجیح دینا۔
۳۔ فقر و غربت کا رواج اور اقتصادیات کی بدترین حالت جسکی وجہ سے علمی اور ثقافتی پسماندگی مسلمانوںکاجزء لاینفک بن گئی ھے نیز روحی ،جسمی اور نفسیاتی امراض بھی غربت اور فقر کا ھی نتیجہ ھیں ۔
۴۔اسلامی ممالک کے مابین اختلافات کا وجود اور ایک دوسرے کے لئے ان کی سیاسی قدرت نمائیاںیا ایک اسلامی ملک کا دوسرے اسلامی ملک کے خلاف اپنا کاندھا اسلام دشمن عناصر کے حوالے کر دیناتاکہ وہ دشمن اس پر بندوق رکہ کر گولی چلا سکے ۔یہ اسلامی ممالک بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کی امداد کرتے ھوئے ظلم و استکبار کا دنداںشکن جواب دیتے ،اسرائیل ، امریکہ ،فرانس ،بر طانیہ اور روس جیسی اسلام مخالف طاقتوں کے سامنے اسلامی ممالک کے خلاف دوستی کا ھاتہ بڑھا دیتے ھیں ۔
۵۔ مسلمانوں کے درمیان مذھبی اختلافات کا وجود جو اکثر اوقات علمی بحث و گفتگو سے باھر نکل کر جنگ کے میدان تک پھونچ جاتا ھے اور ھزاروں بے گناہ جانیں چلی جاتی ھیں ، بچے یتیم ،عورتیں بےوہ اور مائیں بے اولاد ھوجاتی ھیں ۔ ایک دوسرے پر کفر وفسق کا الزام لگایا جاتا ھے حتی یہ نادان مسلمان اسقدر اندھے ھو جاتے ھیں کہ مسجدوں اور زیارت گاھوں کو خون سے رنگین کرنے میں بھی ذرا ساتاٴمل نھیں کرتے ۔
بیشک اس طرح کی نادانیاں دشمنان اسلام کی مسرت اور اسلام و مسلمین کی بربادی کا باعث بنتی ھیں۔اگر مذاھب کے بعض نظریات ایک دوسرے سے مختلف ھیں تو انھیں جدال احسن اور علمی مناظروں اور نشستوں سے برطرف کرنا چاھئے "و جدالھم بالتی ھی احسن "،مسجدوں ،زیارت گاھوں اور امام باڑوں میںخودکش حملوں اور ایک دوسرے پر لعنت وملامت کرنے سے نہ کوئی سنی، شیعہ ھوجائے گا اور نہ کوئی شیعہ سنی بلکہ انتقام کی آگ اور بھی زیادہ شعلہ ور ھوتی جائے گی ۔بعض مسلمانوں کی یہ نادانیاں تو بری ھیں ھی لیکن اس سے زیادہ برا کام وہ دانا مگر غافل مسلمان کر رھے ھیں جو قرآن مجید کی اس آیت پر عمل نھیں کرتے:"وان طائفتان من الموٴمنین اقتتلوافاصلحوابینھمافان بغت احداھما علیٰ الاخریٰ فقاتلوا التی تبغی حتیٰ تفیٴ الیٰ امر اللہ فان فائت فاصلحوا بینھما بالعدل واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین"( سورۂ حجرات/۹)
(اور اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کرےں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراوٴ اور اس کے بعد اگر ایک گروہ دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ھے یھاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے پھر اگر پلٹ آئے تو عدل وانصاف کے ساتھ اصلاح کرو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ھے۔)
مذکورہ آیت ھر مسلمان کو حکم دے رھی ھے کہ مسلمانوں کے دو مختلف گروھوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں ان کے درمیان صلح برقرار کرو ۔
کیا اسلام اور مسلمین کی ٹھیکہ داری کا دم بھرنے والے لوگ اس آیت پر عمل کر رھے ھیں ؟ کیا دو اسلامی ملکوں کے باھمی اختلافات کو ختم کرنے کی غرض سے کوئی تیسرا سلامی ملک ثالثی کرنے کو تیار ھے ؟یا یہ کہ ھر مسلمان ،ھر اسلامی ملک اور ھر اسلامی گروہ صرف اپنے شخصی و ذاتی مفاد کو مد نظر رکھے ھوئے ھے؟
۶۔اسلام دشمن عناصر کے جانب سے مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان قومیت پرستی کی آگ کو شعلہ ور کرنا ۔اس مرحلے میں بھی مسلمان فریب کا شکار ھو چکا ھے جو اپنے آپ میں ایک زھریلی بیماری ھے جبکہ اسلام نے کسی طرح کی برتری کو فضیلت شمار نھیں کیا ھے بلکہ فضیلت اور برتری کا معیار صرف اورصرف تقویٰ الھی کو جانا ھے۔"ان اکرمکم عنداللہ اتقیٰکم"۔
اے کاش !یہ مسلمان عصر حاضر کے تقاضوں کو درک کرلیتا اور قوم پرستی اور نسلی و نژادی تعصبات سے کنارہ گیری اختیار کرکے اسلامی غیرت کو اپنا سرمایۂ حیات بنا لیتا!!
۷۔اسلامی معاشروں میں طبقاتی فاصلوں کا وجود اور اسی طرح کی دیگر مشکلات۔