حجة اوداع میں پیغمبر اسلام(ص) کا خطبہ اور فلسفہ حج
حج خانہٴ خدا و دوسری عبادتوں کی مانند کچھ ظاھری فقھی احکام و قوانین اور کچھ باطنی و معنوی اسرار و رموز پر مشتمل ھے اور چونکہ حضرت خاتم الانبیاء(ص) وہ انسان کامل ھیں جن میں ظاھری کمالات کے ساتہ معنوی مقامات بھی بدرجہٴ اتم موجود ھیں لھذا آپ نے لوگوں کو حج کے فقھی قوانین اور علمی احکام دیتے ھوئے فرمایا:
"خذوا عنّی مناسککم" مجھ سے اپنے اعمال و مناسک یاد کرو۔
بالکل یوں ھی جیسے آپ نے احکام نماز کی تعلیم کے سلسلہ میں فرمایا تھا:
"صلّوا کما راٴیتمونی اصلّی" یوںنماز پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ھوئے دیکھتے ھو۔
اسی طرح آپ نے اسرار حج اور اس کے بعض باطنی خصوصیات کی تعلیم کے سلسلہ میں اپنے آخری حج میں بھی بھت سے مطالب بیان فرمائے ھیں ، جن کے کچھ نمونے ذیل میں پیش کئے جارھے ھیں:
۱۔ توحید کے دائرہ میں تھذیب نفس اور روح کا تزکیہ ، امام سے ربط ، اتحاد و اتفاق رائے اور اھل ایمان کے درمیان باھمی ھماھنگی بر قرار رکھنا۔
۲۔ لوگوں کے لئے ھر طرح سے امن وا ماں قائم کرنا اور راھزنون کے حملوں سے ان کی جان ومال کی حفاظت کرنا۔
۳۔ اجتماعی وانفرادی ونسلی مساوات اور برابری کی حفاظت کرنا یعنی تمام افراد قانون اسلام کی نگاہ میں برابر ھیں یوں ھی تمام قومیں اور قبیلے اسلام کی نظر میں برابر و یکساں ھیں۔
۴۔ خون کا بدلہ لینا اور خون بھانا جو زمانہٴ جاھلیت میں جابرانہ انتقام اوردشمنانہ کینہ توزیوں کی بنیاد پر رائج تھا ختم کردیا جائے اور ماضی کی سود خوری جو اقتصادی طور پر خون چوسنے کے مترادف تھی کالعدم سمجھی جائے پیغمبر اسلام (ص) نے ربا کی حرمت اور زمانہٴ جاھلی کی خونخواری کی اھمیت کے پیش نظر سود خوروں کی تمام سودی اسناد کو لغو اور بے اثر قرار دیتے ھوئے فرمایا: سب سے پھلے ربا کی سند جسے میں اپنے قدموں تلے روندتا ھوں اور اس کے باطل ھونے کا اعلان کرتا ھوں میرے چچا عباس ابن عبد المطلب کی سودی سند ھے۔
۵۔ عورتوں کے حقوق کی رعایت کرنا، انکے ساتہ نیکی کا سلوک کرنا اور ان کی زحمتون کے عوض انھیں برابر سے اس کا صلہ دینا یا حسن سلوک کے ذریعہ ان کی زحمتون کا جبران کرنا۔
۶۔ خدمت گزاروں، کا ریگروں اور ماتحتوں کو محترم جاننا اور اپنی طرح غذا اور لباس سے متعلق ان کی ضرورتیں پوری کرنا۔
۷۔ اپنے اسلامی بھائی کے ساتہ برادرانہ اصول اور اخلاقی خوبیوں کی رعایت کرنا، ان کی حیثیت اور عزت و آبرو کا احترام کرنا ان کی جان و مال کے ساتہ تجاوز اور ظلم نہ کرنا۔
۸۔ قرآن کریم عترت معصومین علیھم السلام اور اھلبیت وحی و رسالت کو لائق صد احترام جاننا ان دونوں گرانقدر چیزوں سے کسب فیض کرنا اور ان سے جدانہ ھونا۔
۹۔ سب کو الٰھی قانون کے مقابل ذمہ دار سمجھنا ، اسلامی احکام کی حفاظت کرنا اور حجة الوداع میں پیش آنے والے واقعات کی تبلیغ کرنا اور انھیں حج و زیارت کعبہ کے تحفہ کے عنوان سے ان افراد تک پھنچانا جو موجود نھیں تھے۔
۱۰۔ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت و امامت کا ذکر کرنا ، امت کو امام سے متعارف کرانا اور امام کو امت کی نظر میں پھچنوانا اس کی اطاعت کو پیغمبر اکرم (ص) کی اطاعت کے مانند جاننا تنیجہ میں معاشرہ کو جاھلی زندگی سے نجات دلاکر ایک معقول اور اسلامی زندگی فراھم کرنا:
"من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ، اللّٰھم وال من والاہ و عاد من عاداہ "۔(۲۶)
تا ھم اس بحث کو یھیں ختم کرتے ھیں ۔ اس سلسلہ میں مزید اور جدید عنوانات کے تحت مباحث کا انتظار فرمائیے۔