www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

کعبہ طھارت کا محور اور پاکیزہ لوگوں کے طواف کی جگہ

جس طرح کعبہ کی تعمیر وحی کے حکم سے ھوئی تھی، یوں ھی اسے ھر شرک و آلودگی سے پاک کرنے اور ھر طرح کے عناد و تمرد کے غبار سے صاف رکھنے کا حکم بھی وحی الٰھی کے حکم سے تھا، تا کہ وہ گھر آلودگی و عصیان سے پاک رھے اور شرک و عناد سے منزہ متقی پرھیز گار افراد اس کے حریم میں آسکیں۔

"و طھّر بیتی للطائفین و القائمین و الرّکع السجود" (۷)

"وعھدنا الیٰ ابراھیم و اسماعیل ان طھّر بیتی للطائفین و العاکفین و الرّکع السجود"( ۸)

 لھذا کعبہ ھر طرح کی آلودگی سے پاک گھر ھے اوراس کے حریم کا طواف طھارت و پاکیزگی کا سبق دیتا ھے۔ وھی لوگ اس کی زیارت سے مشرف ھوتے ھیں جنھوں نے ھر شرک و عیب سے اور ھر رجس و کثافت جیسے نقائص سے دور ھوکر اس کی طرف ھجرت کی ھو۔

حج کے سلسلہ میں اسلامی حکومت کی ذمہ داری

کعبہ کی زیارت اور اعمال کی انجام دھی دین کے اھم ترین و واجبات میں سے ھے اگر کوئی مسلمان بلا کسی عذر کے فریضہ حج کو انجام نہ دے تو موت کے وقت اس سے کھا جائے گا کہ وہ مسلمانوں کی صف سے خارج تھا اوراسے دوسروں کی صف میں کھڑا کیا جائے گا۔ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی وصیت سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ اگر الله کے گھر کی زیارت ترک کردی جائے تو الله کا عذاب فوراً اور بغیر مھلت کے نازل ھوجائے گا۔

"الله الله فی بیت ربّکم لا تخلوہ ما بقیتم فانّہ ان ترک کم تناظر"(۹)

دیکھو اپنے پروردگارکے گھر کے بارے میں الله سے ڈرتے رھنا اسے جیتے جی خالی نہ چھوڑنا ، کیونکہ  اگرخالی چھوڑدیا گیا تو تم ( عذاب سے) مھلت نہ پاؤ گے۔

اگر کسی سال لوگ کعبہ،حج کیلئے نہ جائیں اور ا لله کا گھر سونا رھے تو اسلامی حکومت پر واجب ھے کہ کچھ لوگوں کو اعمال حج بجالانے کی غرض سے مکہ روانہ کرے اور اس کا خرچ بیت المال سے دے ۔

بنابر ایں حج، اسلام کا عبادی، سیاسی پھلو ھے( اگر چہ ھمارا دین عین سیاست اور ھماری سیاست ھی عین دین ھے)اور حج کا عبادی، سیاسی ھونا ان فرائض کے جائزہ سے بخوبی ظاھر ھوجاتا ھے جواس سلسلہ میں امام مسلمین پر عائد ھوتے ھیں۔

کعبہ توحید و اتحاد کے رواج کا مرکز

کعبہ دو پیغمبر وںکے ھاتھوں تعمیر ھوا تاکہ توحید کے رواج کا مرکز قرار پائے اور جس وقت حضرت خاتم الانبیاء (ص)کے زمانے میں اس کی دوبارہ تعمیر کی ضرورت ھوئی ،دیواریں جب ایک حد تک بلند ھوگئیں اور حجر اسود نصب کرنے کے سلسلہ میں عرب قبائل کے درمیان یہ اختلاف ھوا کہ یہ شرف کس قبیلہ کو نصیب ھو تو سب نے حضرت محمد (ص) کو غیر جانبدار عاقل اور بے غرض صاحب نظر کی حیثیت سے تسلیم کیا آپ(ص) جو فیصلہ کریں گے اسی پر عمل ھوگا۔ لوگوں نے جب آنحضرت(ص) کی طرف رجوع کیا تو آپ(ص) نے حکم دیا کہ ایک چادر بچھائی جائے اور حجر اسود کو اس میں رکہ کر ھر قبیلہ چادر کا ایک گوشہ پکڑ کر اٹھائے اس اقدام کے ذریعہ حضرت(ص) نے حجر اسود کو بلند کر کے اس نصب کرنے کی جگہ تک لانے کے سلسلہ میں لوگوں میں عمومی اتحاد کی فضاقائم کی پھر خود اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو موجودہ جگہ پر نصب فرمایا۔ اس طرح آنحضرت(ص) کی رھنمائی میں حجر اسود کے نصب کے سلسلہ میں پیدا ھونے والاقومی اختلاف، نسلی امتیاز اور جاھلانہ قبائلی فخر و مباھات کافی حد تک بر طرف ھوگیا۔

اور حجر اسود کو اس طریقہ سے اس کے نصب کئے جانے کی جگہ تک بلند کیا گیا کہ قبائلی خصوصیات جنھیں قومی تعصبات اور دشمنی کھا جاتاھے، اتحاد، برابری اور برادری میں تبدیل ھوگئی جو ایمانی محبت کا نمونہ ھے، بالکل یوں ھی جیسے گناہ،نیکیوں میں تبدیل ھوجاتے ھیں۔ اسی وجہ سے ھمیں اس الٰھی گھر سے اتحاد و یکجھتی کا سبق ملتا ھے۔

Add comment


Security code
Refresh