ھر سال کی طرح امسال بھی رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے حج کے عظیم موقع پر ایک پیغام ارسال کر کے جھان اسلام کو امت مسلمہ کے
اھم ترین مسائل کی طرف متوجہ کیا اور ان مسائل کو حاجیوں کے اھم وظائف میں سے قرار دیا۔
رھبر انقلاب اسلامی نے امت مسلمہ کے درمیان اتحاد، مسئلہ فلسطین اور اسلام محمدی(ص) اور اسلام امریکی کے درمیان فرق سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کو جھان اسلام کے تین اھم مسائل قرار دیا اور امت مسلمہ سے تاکید کہ بصیرت آمیز اور گھرے تفکر کے ذریعے ان مسائل کے مقابلے میں اپنی ذمہ داریوں کو درک کریں۔
رھبر انقلاب اسلامی کے پیغام کو آج صبح میدان عرفات میں حج و زیارت میں معظم لہ کے نمائندے حجۃ الاسلام و المسلمین قاضی عسکر نے قرائت کیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین
اشتیاق و احترام کے ساتھ درود و سلام ھو آپ خوش نصیبوں پر جو دعوت قرآنی پر صدائے لبیک بلند کرتے ھوئے ضیافت پروردگار کے لئے آگے بڑھے۔
پھلی بات یہ کہ اس عظیم نعمت کی قدر کیجئے اور اس بے مثال واجب کے انفرادی، سماجی، روحانی اور عالمی پھلوؤں پر تدبر کے ساتھ، اس کے اھداف سے خود کو قریب کرنے کی کوشش کیجئے اور رحیم و قدیر میزبان سے اس سلسلے میں مدد مانگئے۔ میں بھی آپ کے جذبات سے اپنے جذبات اور آپ کی آواز سے اپنی آواز ملا کر پروردگار غفور و منان کی بارگاہ میں دعا کرتا ھوں کہ اپنی نعمتیں آپ پر مکمل کر دے اور جب سفر حج کی توفیق عطا فرمائی ہے تو کامل حج ادا کرنے کی توفیق بھی عنایت فرمائے اور پھر سخاوت مندانہ انداز میں شرف قبولیت عطا کرکے آپ کو بھرے دامن اور مکمل صحت و عافیت کے ساتھ اپنے اپنے دیار کو لوٹائے۔ ان شاء اللہ
ان پر مغز اور بے نظیر مناسک کے موقعے پر روحانی و معنوی طھارت و خود سازی کے ساتھ ھی جو حج کا سب سے برتر اور سب سے اساسی ثمرہ ہے، عالم اسلام کے مسائل پر توجہ اور امت اسلامیہ سے مربوط اھم ترین اور ترجیحی مسائل کا وسیع النظری اور دراز مدتی نقطہ نگاہ سے جائزہ، حجاج کرام کے فرائض اور آداب میں سر فھرست ہے۔
آج ان اھم اور ترجیحی مسائل میں ایک، اتحاد بین المسلمین، اور امت اسلامیہ کے مختلف حصوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی گرھوں کو کھولنا ہے۔
حج، اتحاد و یگانگت کا مظھر اور اخوت و امداد باھمی کا محور ہے۔ حج میں سب کو اشتراکات پر توجہ مرکوز کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کا سبق حاصل کرنا چاھئے۔ استعماری سیاست کے آلودہ ھاتھوں نے بھت پھلے سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے تفرقہ انگیزی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے، لیکن آج جب اسلامی بیداری کی برکت سے، مسلمان قومیں استکباری محاذ اور صھیونزم کی دشمنی کو بخوبی بھانپ چکی ہیں اور اس کے مقابل اپنا موقف طے کر چکی ہیں، تو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی کی سیاست میں اور بھی شدت آ گئی ہے۔
عیار دشمن اس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر، ان کے مجاھدانہ اور مزاحمتی جذبے کو انحرافی سمت میں موڑ دے اور صھیونی حکومت اور استکبار کے آلہ کاروں کے لئے، جو اصلی دشمن ہیں، محفوظ گوشہ فراھم کر دے۔
مغربی ایشیا کے ملکوں میں دھشت گرد تکفیری تنظیموں اور اسی طرح کے دوسرے گروھوں کو وجود میں لانا اسی مکارانہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
یہ ھم سب کے لئے انتباہ ہے کہ ھم اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو آج اپنے قومی اور عالمی فرائض میں سر فھرست قرار دیں۔
دوسرا اھم معاملہ مسئلہ فلسطین ہے۔ غاصب صھیونی حکومت کی تشکیل کے آغاز کو 65 سال کا عرصہ بیت جانے، اس کلیدی مسئلے میں گوناگوں نشیب و فراز آنے اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں خونیں سانحے رونما ھونے کے بعد دو حقیقتیں سب کے سامنے آشکارا ھو گئیں۔ ایک تو یہ کہ صھیونی حکومت اور اس کے جرائم پیشہ حامی، قسی القلبی، درندگی اور انسانی و اخلاقی ضوابط و قوانین کو پامال کرنے میں کسی حد پر رک جانے کے قائل نھیں ہیں۔ جرائم، نسل کشی، انھدامی اقدامات، بچوں، عورتوں اور بیکس لوگوں کے قتل عام اور ھر ظلم و جارحیت کو جو وہ انجام دے سکتے ہیں، وہ اپنے لئے مباح سمجھتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ حالیہ پچاس روزہ جنگ غزہ کے اندوہ ناک مناظر، ان تاریخی مجرمانہ اقدامات کی تازہ ترین مثال ہیں جو گزشتہ نصف صدی کے دوران بار بار دھرائے جاتے رھے ہیں۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ سفاکی اور یہ انسانی المئے بھی صھیونی حکومت کے عمائدین اور ان کے حامیوں کے مقاصد پورے نہ کر سکے۔ خبیث سیاست باز، صھیونی حکومت کے لئے اقتدار اور استحکام کی جو احمقانہ آرزو دل میں پروان چڑھا رھے ہیں، اس کے برخلاف یہ حکومت روز بروز اضمحلال اور نابودی کے قریب ھوتی جا رھی ہے۔
صھیونی حکومت کی طرف سے میدان میں جھونک دی جانے والی ساری طاقت کے مقابلے میں محصور اور بے سھارا غزہ کی پچاس روزہ استقامت، اور آخر کار اس حکومت کی ناکامی و پسپائی اور مزاحمتی محاذ کی شرطوں کے سامنے اس کا جھکنا، اس اضمحلال، ناتوانی اور بنیادوں کے تزلزل کی واضح علامت ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ؛ ملت فلسطین کو ھمیشہ سے زیادہ پرامید ھو جانا چاھئے، جھاد اسلامی اور حماس کے مجاھدین کو چاھئے کہ اپنے عزم و حوصلے اور سعی و کوشش میں اضافہ کریں، غرب اردن کا علاقہ اپنی دائمی افتخار آمیز روش کو مزید قوت و استحکام کے ساتھ جاری رکھے، مسلمان قومیں اپنی حکومتوں سے فلسطین کی حقیقی معنی میں پوری سنجیدگی کے ساتھ مدد کرنے کا مطالبہ کریں اور مسلمان حکومتیں پوری ایمانداری کے ساتھ اس راستے میں قدم رکھیں۔
تیسرا اھم اور ترجیحی مسئلہ دانشمندانہ زاویہ نظر کا ہے جسے عالم اسلام کے دردمند کارکن حقیقی محمدی اسلام اور امریکی اسلام کے فرق کو سمجھنے کے لئے بروئے کار لائیں اور ان دونوں میں خلط ملط کرنے کے سلسلے میں خود بھی ھوشیار رھیں اور دوسروں کو بھی خبردار کریں۔
سب سے پھلے ھمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان دونوں کے فرق کو واضح کرنے پر توجہ دی اور اسے دنیائے اسلام کے سیاسی لغت میں شامل کیا۔
خالص اسلام، پاکیزگی و روحانیت کا اسلام، تقوی و عوام کی بالادستی کا اسلام، مسلمانوں کو کفار کے خلاف انتھائی سخت اور آپس میں حد درجہ مھربان رھنے کا درس دینے والا اسلام ہے۔
امریکی اسلام، اغیار کی غلامی کو اسلامی لبادہ پھنا دینے والا اور امت اسلامیہ سے دشمنی برتنے والا اسلام ہے۔ جو اسلام، مسلمانوں کے درمیان تفرقے کی آگ بھڑکائے، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے دشمنوں کے وعدوں پر اعتماد کرے، صھیونزم اور استکبار کا مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمان بھائیوں سے بر سر پیکار ھو، اپنی ہی قوم یا دیگر اقوام کے خلاف امریکا کے استکباری محاذ سے ھاتھ ملا لے، وہ اسلام نھیں، ایسا خطرناک اور مھلک نفاق ہے جس کا ھر سچے مسلمان کو مقابلہ کرنا چاھئے۔
بصیرت آمیز اور گھرے تدبر کے ساتھ لیا جانے والا جائزہ، عالم اسلام میں ان حقائق اور مسائل کو حق کے ھر متلاشی کے لئے آشکارا کر دیتا ہے اور کسی بھی شک و تردد کی گنجائش نہ رکھتے ھوئے فریضے اور ذمہ داری کا تعین کر دیتا ہے۔
حج، اس کے مناسک اور اس کے شعائر، یہ بصیرت حاصل کرنے کا سنھرے موقعے ہیں۔ امید ہے کہ آپ خوش نصیب حجاج کرام اس عطیہ خداوندی سے مکمل طور پر بھرہ مند ھوں گے۔
آپ سب کو اللہ کی پناہ میں دیتا ھوں اور بارگاہ خداوندی میں آپ کی مساعی کی قبولیت کی دعا کرتا ھوں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
پنجم ذی الحجہ 1435 (ھجری قمری) مطابق، 8 مھر 1393 (ھجری شمسی)