حضرت امام على ابن ابى طالب (ع) فرماتے ہيں كہ ميں ايك دن ايك جماعت كے ساتھ جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں بيٹھا ھوا تھا
آپ نے اپنے اصحاب سے فرمايا كہ عورت كى مصلحت كس ميں ہے؟ آپ كو كوئي صحيح جواب نہ دے سكا، جب اصحاب چلے گئے اور ميں بھى گھر گيا تو ميں نے پيغمبر(ص) كے سوال كو جناب فاطمہ (س) كے سامنے پيش كيا۔ جناب فاطمہ (س) نے فرمايا كہ ميں اس كا جواب جانتى ھوں، عورت كى مصلحت اس ميں ہے كہ وہ اجنبى مرد كو نہ ديكھے اور اسے اجنبى مرد نہ ديكھے۔ ميں جب جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں حاضر ھوا تو ميں نے عرض كى كہ آپ كے سوال كے جواب ميں جناب فاطمہ (س) نے يہ فرمايا ہے۔ پيغمبر(ص) نے آپ كے اس جواب سے تعجب كيا اور فرمايا كہ فاطمہ (س) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے۔
اس ميں كوئي شك نھيں كہ دين مقدس اسلام نے عورتوں كى ترقى اور پيشرفت كے لئے بلند قدم اٹھائے ہيں اور ان كے حقوق كو پورا كرنے كے لئے ان كے لئے عادلانہ قوانين اور احكام وضع كئے ہيں، اسلام نے عورت كو علم حاصل كرنے كى آزادى دے ركھى ہے اس كے مال اور كام كا محترم قرار ديا ہے، اجتماعى قوانين وضع كرتے وقت عورتوں كے واقعى منافع اورمصالح كى پورى طرح مراعات كى ہے۔
ليكن يہ بات قابل بحث ہے كہ آيا عورت كى مصلحت اجتماع اورمعاشرے ميں اجنبى مردوں كے ساتھ مخلوط رھنے ميں ہے يا عورت كى مصلحت اس ميں ہے كہ وہ بھى مردوں كى طرح عمومى مجالس اورمحافل ميں بيگانوں كے ساتھ گھل مل كر پھرتى رھے؟ كيا يہ مطلب واقعاً عورتوں كے فائدے ميں ہے كہ وہ زينت كر كے بغير كسى بند و بار كے مردوں كى مجالس ميں شريك ھو اور اپنے آپ كو انظار عمومى ميں قرار دے؟ كيا يہ عورتوں كے لئے مصلحت ہے كہ وہ بيگانوں كے لئے آنكھ مچولى كرنے كا موقع فراہھم كرنے اور مردوں كے لئے امكانات فراھم كرے كہ وہ اس سے ديدنى لذت اورمفت كى لذت حاصل كرتے رھيں؟ كيا يہ عورتوں كى منفعت ميں ہے كہ كسى پابندى كو اپنے لئے جائز قرار نہ ديں اور پورى طرح اجنبى مردوں كے ساتھ گھل مل كر رھيں اور آزادانہ طور سے ايك دوسرے كو ديكھيں؟ كيا عورتوں كى مصلحت اسى ميں ہے كہ وہ گھر سے اس طرح نكلے كہ اس كاتعاقب اجنبى لوگوں كى نگاہيں كر رھى ھوں۔
يا نہ بلكہ عورتوں كى مصلحت معاشرے ميں اس ميں ہے كہ اپنے آپ كو مستور كر كے سادہ طريقے سے گھر سے باھر آئيں اور اجنبى مردوں كے لئے زينت ظاھر نہ كريں نہ خود بيگانوں كوديكھيں اور نہ كوئي بيگانہ انھيں ديكھے۔
آيا پھلى كيفيت ميں تمام عورتوں كى مصلحت ہے اور وہ ان كے منافع كو بھتر طور پرمحفوظ كرسكتى ہے يا دوسرى كيفيت ميں؟ آيا پھلى كيفيت عورتوں كى روح اور ترقى اور پيشرفت كے بھتر اسباب فراھم كرسكتى ہے يا دوسرى كيفيت ؟ پيغمبر اسلام(ص) نے اس مھم اوراجتماع اور معاشرے كے اساسى مسئلہ كواپنے اصحاب كے افكار عمومى كے سامنے پيش كيااور ان كى اس ميں رائے طلب كى ليكن اصحاب ميں سے كوئي بھى اس كا پسنديدہ جواب نہ دے سكا، جواب اس كى اطلاع حضرت زھراء (س) كو ئي تو آپ نے اس مشكل موضوع ميں اس طرح اپنا نظريہ بيان كيا كہ عورتوں كى معاشرے ميں مصلحت اس ميں ہے كہ نہ وہ اجنبى مردوں كو ديكھيں اور نہ اجنبى مرد انھيں ديكھيں۔وہ زھراء (س) جو وحى اور ولايت كے گھر ميں تربيت پاچكى تھى اس كا اتنا ٹھوس اور قيمتى جواب ديا اوراجتماعى موضوع ميں سے ايك حساس اور مھم موضوع ميں اپنے نظريئے اورعقيدے كااظھار كيا كہ جس سے رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے تعجب كيا اور فرمايا كہ فاطمہ (س) ميرے جسم كاٹكڑا ہے۔
اگر انسان اپنے ناپختہ احساسات كو دور ركھ كر غير جانبدارانہ اس مسئلے ميں سوچے اور اس كے نتائج اور عواقب پر خوب غور اور فكر كرے تو اس بات كى تصديق كرے گا كہ جو جواب جناب فاطمہ (س) نے ديا ہے وہ بھترين دستورالعمل ھوسكتا ہے جو عورتوں كے منافع كا ضامن ھو۔ اور اس كے مقام اور رتبے كو معاشرے ميں محفوظ كردے گا كيونكہ اگر عورتيں گھر سے اس طرح نكليں اور اجنبيوں كے ساتھ اس طرح ميل جول ركھيں كہ مرد ان سے ھر قسم كى تمتعات حاصل كرسكيں اور عورتيں ھر جگہ مردوں كے لئے آنكھ مچولى كے اسباب فراھم كريں تو پھر جوان دير سے شادى كريں گے اور وہ زندگى اور ازدواج كے زيربار نھيں ھوں گے، ھر روز لڑكيوں اور عورتوں كى تعداد ميں جو بے شوھر ھوں گى اضافہ ھوتا جائے گا اور يہ علاوہ ازين كہ معاشرے كے لئے مضر ہے اور ماں، باپ كے لئے مشكلات اور محذورات كا موجب ہے خود عام عورتوں كے اجتماع كے لئے بھى موجب ضرر ھوگا، اور اگرعورتيں اپنى خوبصورتى كو تمام نگاھوں كے لئے عام قرار دے ديں اور اجنبيوں ميں دلربائي كرتى رھيں تو ايك بھت بڑے گروہ كا دل اپنے ساتھ لئے پھريں گى اور چونكہ مرد محروميت سے دوچار ھوں گے اوران تك دست رسى اور وصال بغير قيد اور شرط كے حاصل نہ كرسگيں گے قھراً ان ميں نفسياتى بيمارياں اور ضعف اعصاب اورخودكشى اور زندگى سے مايوسى عام ھوجائے گي۔
اس كا نتيجہ بلاواسطہ خود عورتوں كى طرف لوٹے گا، يھى عام لطف نگاہ ہے كہ بعض مرد مختلف قسم كے حيلے اور فريب كرتے ہيں اورمعصوم اور سادہ لوح لڑكيوں كو دھوكا ديتے ہيں اور ان كى عفت و آبرو كے سرمايہ كو برباد كرديتے ہيں اور انھيں فساد اور بدبختى اورتباھى كى وادى ميں ڈھكيل ديتے ہيں۔
جب شوھردار عورت ديكھے كہ اس كا شوھر دوسرى عورتوں كے ساتھ آتا جاتا ہے، اورعمومى مجالس اورمحافل ميں ان سے ارتباط ركھتا ہے توغالباً عورت كى غيرت كى حس اسے اكساتى ہے كہ اس ميں بدگمانى اور سو ظن پيدا ھوجائے اور وہ بات بات پراعتراض شروع كردے، بے جھت باصفا اور گرم زندگى كو سرد اور متزلزل بنا كر ركھ دے گى اور نتيجہ،جدائي اور طلاق كى صورت بس ظاھر ھوگا يا اسى ناگوار حالت ميں گھر كے سخت قيدخانے ميں زندگى گزارتی رھے گى اور قيد خانے كى مدت كے خاتمہ كا انتظار كرنے ميں زندگى كے دن شمار كرتى رھی گى اورمياں، بيوى دو سپاھيوں كى طرح ايك دوسرے كى مراقبت ميں لگے رھيں گے۔
اگر مرد اجنبى عورتوں كو آزاد نہ ديكھ سكتا ھو تو قھراً ان ميں ايسى عورتيں ديكھ لے گا جو اس كى بيوى سے خوبصورت اور جاذب نظر ھوں گى اور بسا اوقات زبان كے زخم اورسرزنش سے اپنى بيوى كے لئے ناراحتى كے اسباب فراھم كرے گا اور مختلف اعتراضات اور بھانوں سے باصفا اور گرم زندگى كوجلانے والى جھنم ميں تبديل كردے گا۔
جس مرد كوآزاد فكرى سے كسب و كار اور اقتصادى فعاليت ميںمشغول ھونا چاھيئے،جب آنے جانے ميں يا كام كى جگہ نيم عریاں اور آرائشے كى ھوئي عورتوں سے ملے گا تو قھراً غريزہ جنسى سے مغلوب ھوجائے گا اور اپنے دل كو كسى دل رباء كے سپرد كردے گا، ايسا آدمى كبھى آزاد فكرى كسب و كار ميں يا تحصيل علم ميں مشغول نھيں ھوسكتا اور اقتصادى فعاليت ميں پيچھے رہ جائے گا اس قسم كے ضرر ميں خود عورتيں بھى شريك ھوں گي۔ اور يہ ضرر ان پر بھى وارد ھوگا۔
اگر عورت پردہ نشين ھو تو وہ اپنى قدر اور قيمت كو بھتر مرد كے دل ميں جاگزين كرسكتى ہے اور عورتوں كے عمومى منافع كو معاشرے ميں حفظ كرسكتى ہے اور اجتماعى كے نفع كے لئے قدم اٹھاسكتى ہے۔
اسلام چونكہ عورت كو اجتماع اور معاشرے كا ايك اھم جز جانتاہے اور اس كى رفتار اور سلوك كومعاشرے ميں موثر جانتا ہے، لہذا اس سے يہ بڑا وظيفہ طلب كيا گيا ہے كہ وہ پردے كے ذريعے فساد اور انحراف كے عوامل سے بچے اورملت كى ترقى اورعمومى صحت اور بھداشت كو برقرار ركھنے ميں مدد كرے۔ اس لئے اسلام كى نمونہ اور مثالى خاتون نے جو وحى كے گھر كى تربيت يافتہ تھي، عورتوں كے معاشرے كے متعلق اس قسم كے عقيدہ كا اظھار كيا ہے كہ عورتوں كى مصلحت اس ميں ہے كہ وہ اس طرح سے زندگى بسر كريں كہ نہ انھيں اجنبى مرد ديكھ سكيں اور نہ وہ اجنبى مردوں كو ديكھ سكيں۔