جنب البقیع میں سب سے پھلے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخلص صحابی اور حضرت علی ابن ابیطالب علیھم السلام کے قریبی ساتھی اور دوست "جناب عثمان بن مظعون" دفنائے گئے
جن کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام اپنے گفتگو کے درمیان بھت زیادہ یاد کرتے اور حضرت علی علیہ السلام کا حضرت عثمان بن مظعون کے بارے میں ان کی محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے ایک بیٹے کا نام عثمان رکھا تھا ۔
جنت البقیع ھر اعتبار سے تاریخی ، مھم اور مقدس ہے ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ احد کے بعض شھداء کو اور اپنے بیٹے "ابراھیم " کو بھی جنت البقیع میں دفنایا ہے ۔ اس کےعلاوہ محمد و آل محمد صلوات اللہ علیہ و علیھم اجمعین کے مکتب یعنی مکتب اھل بیت کے پیروکاروں کیلئے بقیع کے ساتھ اسلامی اور ایمانی وابستگی ہے کیونکہ یھاں پر چار معصومین دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیھم السلام ، چوتھے امام حضرت علی بن حسین زین العابدین علیھم السلام ، پانچویں امام حضرت محمد بن علی الباقر علیھم السلام اور چھٹے امام حضرت جعفر بن محمد صادق علیھم السلام کا جائے مدفن ہے ۔
اس کے علاوہ ازواج رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، زوجہ ولی خدا علی مرتضی، ام البنین فاطمہ بنت اسد والدہ مکرمہ علمدار کربلا حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام، حضرت کے چچا "عباس" اور کئی بزرگ صحابی حضرات مدفون ہیں ۔
تاریخ اسلام کا گھوارہ" مکہ مکرمہ" اور" مدینہ منورہ" رھا ہے جھاں تاریخ اسلامی کے کلیدی آثار ھونا طبیعی امر ہے لیکن وھابیت کی آمد سے "شرک"کے عنوان سے بے منطق و برھان قرآنی ان تمام تاریخی اسلامی آثار کو محو کرنے کا سلسلہ بھی شروع ھوا جس پرعالم اسلام میں مکتب اھل بیت علیھم السلام کو چھوڑ کر سبھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ھوئے ہیں ۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے اور سیّاحوں اور سفرناموں سے تاریخ اسلام کے آثار قدیمہ کی حفاظت اور موجودگی کا پتہ ملتا ہے از جملہ جنت البقیع کہ جس کی دور وھابیت تک حفاظت کی جاتی تھی اور قبروں پر کتیبہ لکھے پڑے تھے جس میں صاحب قبر کے نام و نشانی ثبت تھے وھابیوں سے سب محو کردیا ہے۔یھاں تک ائمہ معصومین علیھم السلام کے قبروں پر جو روضے تعمیر تھے ان کو بھی مسمار کردیا ہے ۔
جنت البقیع کے آثار کے بارے میں "مصر" کے " محمد لبیب مصری" نامی شخصیت کے سفر نامے میں بھی ملتا ہے جنھوں نے 1327 ھجری قمری میں سعودی عربیہ کا سفر کیا تھا۔ وہ اپنے سفرنامے میں جنت البقیع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:وھاں (جنت البقیع میں )پر "قبہ البین" نامی معروف گنبد ہے جھاں پر ایک کمرہ ہے جس میں ایک گھڑا ہے جس کے بارے میں کھا جاتا ہے کہ وھاں پر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک گرے ہیں ۔ اور قبہ کے اندر امام حسن علیہ السلام کا ضریع ہے جو کہ سٹیل کا بنا ھوا ہے جس پر فارسی خطاطی سے لکھا ھوا ہے ۔ میرے خیال سےعجم(غیر عرب) شیعوں کے آثار ھوں گے ۔
وھابی جس بارے میں زیادہ حساس ہیں وہ قبروں پر تعمیر کا ہے خاص کر پیغمبروں ، اولیاء الھی اور صالحین کی قبروں کا مسئلہ ہے ۔ اس کے بارے میں سب سے پھلے "ابن تیمیہ" اور اسکے معروف شاگرد"ابن قیّم" نے اپنی رائے ظاھر کرکے روضوں اور آستانوں کو منھدم کرنے کا فتوی صادر کیا تھا ۔
ابن قیّم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے : "جو تعمیرات قبور پر بنائی گئ ہیں انھیں منھدم کرنا واجب ہے اور منھدم کرنے پر قبر پر حتی ایک دن کیلئے آثار کا باقی رکھنا جائز نھیں ہے "جب سعودیوں نے 1344 ھجری قمری میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر تسلط حاصل کیا انھوں نے "بقیع" اور حضرت رسول خدا صلی اللہ آلہ وسلم ان کے اھلبیت علیھم السلام اور اصحابہ منتجبین کے آثارکو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کیا جس کی آغاز 8شوال 1343 مطابق مئی 1925 کو ھوا ہے جو کہ ابھی تک جاری ہے ۔
عالم اسلام کے حکام کس کس بات پر خاموش تماشائی بن کررھیں گے۔ کیا اسلام صرف ایرانی حکام کا ہے دیگر اسلامی حکام کا نھیں ہے ۔ جبکہ مسلمان عوام شیعہ ھو یا سنی ھر وقت اسلام کے خلاف ھونے والی ھر سازش پر اپنے غم و غصے کا اظھار کرتا رھتا ہے لیکن اسلامی ایران کو چھوڑ کر سبھی اسلامی ممالک استکبار کے غلام ھونے کا بین ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ وھابی اسلامی شبیہ کو مسخ کرنے پے تلے ھوئے ہیں اس پر بھی خاموش ہیں ،فلسطین کے مسئلے پر ایران کو چھوڑ کر باقی اسلامی ممالک بزدلی کا مظاھرہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح عراق ، افغانستان اور دیگر اسلامی مسائل ایک طرف بھی خونخوار استکبار خاص کر امریکا اور اسرائیل ایجنٹ ثابت ھورھے ہیں ۔یھاں تک کہ رشدی ملعون نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اھانت کی اس پر بھی خاموشی اختیار کی اور صرف اسلامی ایران صرف استکبار پر فدا ھونے کے بجائے اسلام پر فدا ھونے کیلئے قائم رھا ۔ کارٹون کے ذریعہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اھانت ھوئی یھاں پر بھی صرف اسلامی ایران نے غیرت اسلامی کا مظاھر کیاہے ۔غرض ھر وقت جب بھی اسلام پر انگلی اٹھتی ہے صرف اسلامی ایران عام مسلمان کے مانند غیرت اسلامی کا مظاھرہ کرتا ہے لیکن باقی اسلامی حکام خاموش تماشائی بن جاتے ہیں ۔ آخر کیوں ! اگر اس کیوں کا اسلامی حکام جواب نھیں دیتے عوام مسلمان تو اپنی رائے کا اظھار کرسکتا ہے خاص کر اھل قلم حضرات۔
کیونکہ مسلمانوں کو اس بات کا فیصلہ کرنا ھوگا کہ اسلامی ایران کے بغیر کیوں باقی اسلامی ملکوں کے سربراہ اسلامی غیرت کا مظاھر نھیں کرتے ہیں وہ اس لئے کے اسلامی ایران کو چھوڑ کر دیگر تمام اسلامی ملکوں کے سربراہ نام نھاد مسلمان ہیں اسلام شناس اعتقادی مسلمان نھیں ہیں اس لئے جب بھی سیاسی لیڈروں کا انتخاب کرنا ھو تو ایک ایسے مسلمان کو انتخاب کرنے کی ضرورت ہے جسے قرآن کی تعلیمات پر ایمان ھو ، اعتقاد ھو ۔ اسلامی تعلیمات کو سمجھ چکا ھو ۔اگر ایسا نہ ھو تو مسلمانوں کی ذلت بری زندگی کی داستان اسی طرح چلتی رھے گی اور ظالموں کا اسی طرح بول بالا رھے گا کیونکہ اس با بین ثبوت قرآن کی بے حرمتی کرنے سے آشکار ھو گیا ہے کہ اسلامی ایران کو چھوڑ کر تمام اسلامی حکام امریکا اور اسرائیل کے ذر خرید غلام ہیں ۔
امریکا نے پھلے قرآن سوزی کو گیارہ ستمبر کے حوالے سے تشھیر کیا کہ ایک پادری اس دن قرآن کو جلانے جارھا ہے اس پر عالمی رائے عامہ حاصل کی پھر اسی پادری کی طرف قرآن کی بے حرمتی سے باز آنے کی خبر شایع کی اور دوسری طرف دو دوسرے پادریوں کی طرف سے میڈیا کے سامنے قرآن کو جلایا گیا اور اس خبر کو پھلے نشر کیا گیا اور جس کی فوٹیج ابھی تک "http://www.youtube.com/watch?v=3WaB2GH88js"اس ویب لینک پر موجود ہے اور پھر کھا کہ یہ خبر غلط ہے امریکا میں کوئی قرآن سوزی نھیں ھوئی اور دنیا بھر میں اس خبر پر سنسر لگایا گیا تا کہ معلوم کرسکیں کہ ھم نے مسلمانوں کس قدر اپنا اثر و رسوخ حاصل کیا ھوا ہے اور مسلمان حکام کتنا استکبار کی نمک خواری کا حق ادا کرتے ہیں اور وہ یہ امتحان کرنے میں کامیاب ھوئے ۔ یھاں پر بھی صرف اسلامی ایران قرآن کی بے حرمتی کو کسی بھی حالت میں قبول کرنے کیلئے تیار نھیں ھوا جبکہ باقی اسلامی حکام نے اس بات کا اعلان کیا کہ امریکا جب تک ان کی جیب گرم رکھتا ہے امریکا اور اسرائيل عالم اسلام کے ساتھ ھر قسم کا استحصال کرنے کا جواز رکھتا ہے ۔ جس پر عام مسلمان نھایت ھی شرمسار ہے اور حکام ٹس سےمس نھیں ھوتے ہیں ۔
اگر ھم سب مسلمان متحدہ طور پر اپنے اسلامی غیرت کا اظھار کرتے رھیں گے وہ دن دور نھیں جب اسلامی ایران کی طرح ھر اسلامی ملک کے حکام بھی ھمارے ساتھ ھم صدا ھو جائيں گے جس سے استکبار کی نابودی کا آغاز ھو جائے گا اور عدل و انصاف پر مبنی ماحول دنیا بھر میں حاکم رھے گا ۔ پھر نہ اسلامی آثار محو کئے جائيں گے نہ مسلمانوں کا داخلی اختلاف رھے گا اور نہ ھی دیگر مذاھب کے ماننے والوں کے ساتھ کسی قسم کی ناچاکی موجود رھے گی ۔
اے اللہ اب دولت کریمہ ھمیں جلد سے جلد نصیب فرما جس سے اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی حاصل ھو جائے اور کفار اور منافقین ذلیل ھو جائيں ۔
آمین یا رب العالمین۔
سیدعبدالحسین بڈگامی