www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو بصرہ میں ایک سال قید رکھنے کے بعد ھارون الرشید نے والی بصرہ عیسٰی بن جعفر کو لکھا کہ موسٰی بن جعفر (امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ) کو قتل کرکے مجھ کو ان کے وجود سے سکون دے۔

اس نے اپنے ھمدردوں سے مشورہ کرنے کے بعد ھارون رشید کو لکھا، میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام میں اس ایک سال کے اندر کوئی برائی نھیں دیکھی۔
 امام موسیٰ کاظم علیہ السلام روز و شب نماز اور روزہ میں مصروف و مشغول رھتے ہیں اور عوام و حکومت کے لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور ملک کی فلاح و بھبود کے خواھشمند ہیں۔ کس طرح ایسے شخص کو قتل کر دوں، میں ان کے قتل کرنے میں اپنے انجام اور اپنی عاقبت کی تباھی دیکھ رھا ھوں لھذا تو مجھے اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے معاف کر بلکہ تو مجھے حکم دے کہ میں ان کو اس قید بامشقت سے آزاد کر دوں۔ اس خط کو پانے کے بعد ھارون الرشید نے اس کام کو سندی بن شاھک کے حوالے کیا۔
مختصر حالات
اسم مبارک :۔ موسیٰ
القاب :۔ کاظم، عبد صالح، نفس زکیہ، صابر، امین، باب الحوائج وغیرہ
کنیت:۔ ابو الحسن، ابو ابراھیم، ابو علی، ابو عبداللہ
پدر بزرگوار:۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
والدہ گرامی:۔ حمیدہ خاتون
تاریخ ولادت:۔ ٧ صفر ۲۸ھ
تاریخ شھادت :۔ ۲۵ رجب ۱۸۳ھ
مدفن :۔ کاظمین (بغداد) عراق
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام، رسول مقبول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتویں جانشین ہیں۔ آپ کے والد محترم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ جناب حمیدہ خاتون تھیں، جو بربر یا اندلس کی رھنے والی تھیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام جناب حمیدہ خاتون کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں، آپ دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہیں۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنے اباء اجداد کی طرح امام منصوص من اللہ، معصوم، اعلم زمانہ اور افضلِ کائنات تھے۔ آپ دنیا کی تمام زبانیں جانتے تھے اور باذن اللہ علم غیب سے آگاہ تھے، آپ دنیا کے عابدوں میں سے سب سے بڑے عبادت گزار اور سخاوت میں سب سے زیادہ سخی تھے۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ٧صفر المظفر ۸۲۱ھ مطابق ۱۰نومبر ۷۴۵ع شنبہ کے روز ابوا کے مقام جو مدینہ و مکہ کے درمیان واقع ہے پیدا ھوئے۔ ولادت کے فوراً بعد ھی آپ نے اپنے ھاتھوں کو زمین پر ٹیک کر آسمان کی طرف رخ کرکے کلمہ شھادتین زبان پر جاری فرمایا۔ یہ عمل آپ نے بالکل اسی طرح انجام دیا جس طرح آپ (ع) کے جد بزرگوار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انجام دیا تھا۔ آپ کے داھنے بازو پر یہ کلمہ "تمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا" لکھا ھوا تھا۔ ۱۴۸ھ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو شھید کیا گیا۔ باپ کی شھادت کے بعد آپ منصب امامت پر فائز ھوئے اور امامت کے تمام فرائض کے ذمہ دار ھوئے۔ اس وقت منصور دوانقی کی حکومت تھی۔ یہ وھی ظالم و جابر بادشاہ تھا جس کے ھاتھوں لاتعداد سادات موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے یا دیوار میں چنوا دیئے گئے۔
۱۵۸ھ کے آخر میں منصور دوانقی واصل جھنم ھوتا ہے، اس کے بعد اس کا بیٹا مھدی تخت سلطنت پر بیٹھتا ہے۔ شروع میں اس نے امام علیہ السلام کو کسی قسم کی اذیت نہ دی اور نہ ھی بے احترامی کی لیکن چند سال بعد اس میں بھی اولاد پیغمبر کی مخالفت کا جذبہ ابھرا اور ۱۶۴ھ میں حج کے بھانے حجاز کی جانب روانہ ھوا۔ وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو بھی اپنے ساتھ مکہ سے بغداد لے گیا اور بغداد میں امام علیہ السلام کو قید کر دیا۔ ایک سال امام علیہ السلام اس کی قید میں رھے۔ بعد میں اس کو اپنی غلطی کا احساس ھوا اور امام علیہ السلام کو آزاد کر کے مدینہ واپس بھیج دیا۔
مھدی کے بعد اس کا بھائی ھادی ۱۶۹ھ میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال اس نے حکومت کی۔ اس کے بعد ھارون رشید کا زمانہ آیا۔ اس کے دور میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو آزادی کی سانس لینا نصیب نھیں ھوا۔
علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں کہ جس وقت آپ درجہ امامت پر فائز ھوئے اس وقت آپ کی عمر مبارک بیس سال تھی ۔( اعلام الوریٰ ،ص ۱۷۱)
امام علیہ السلام کی شھادت
امام علیہ السلام کو بصرہ میں ایک سال قید رکھنے کے بعد ھارون الرشید نے والی بصرہ عیسٰی بن جعفر کو لکھا کہ موسٰی بن جعفر (امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ) کو قتل کرکے مجھ کو ان کے وجود سے سکون دے۔ اس نے اپنے ھمدردوں سے مشورہ کرنے کے بعد ھارون رشید کو لکھا، میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام میں اس ایک سال کے اندر کوئی برائی نھیں دیکھی۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام روز و شب نماز اور روزہ میں مصروف و مشغول رھتے ہیں اور عوام و حکومت کے لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور ملک کی فلاح و بھبود کے خواھشمند ہیں۔ کس طرح ایسے شخص کو قتل کر دوں، میں ان کے قتل کرنے میں اپنے انجام اور اپنی عاقبت کی تباھی دیکھ رھا ھوں لھذا تو مجھے اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے معاف کر بلکہ تو مجھے حکم دے کہ میں ان کو اس قید بامشقت سے آزاد کر دوں۔
اس خط کو پانے کے بعد ھارون الرشید نے اس کام کو سندی بن شاھک کے حوالے کیا اور اسی ملعون کے ذریعہ امام علیہ السلام کو زھر دلوا کر شھید کر دیا۔
علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں ھارون رشید نے آپ کو بغداد میں قید کر دیا "فلم یخرج من حبسہ الا میتا مقیدا" اور تاحیات قید رکھا، آپ (ع) کی شھادت کے بعد آپ کے ھاتھوں اور پیروں سے ھتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹی گئیں۔ آپ کی شھادت ھارون رشید کے زھر سے ھوئی جو اس نے سندی ابن شاھک کے ذریعہ دلوایا تھا۔ (صواعق محرقہ،ص۱۳۲)
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شھادت ۲۵ رجب المرجب بروز جمعہ ۱۸۳ھ میں واقع ھوئی۔ اس وقت آپ کی عمر ۵۵ سال کی تھی۔ آپ نے ۱۴سال ھارون الرشید کے قید خانہ میں گزارے۔ شھادت کے بعد آپ کے جنازہ کو قید خانہ سے ھتھکڑی اور بیڑی سمیت نکال کر بغداد کے پل پر ڈال دیا گیا تھا اور نھایت ھی توھین آمیز الفاظ میں آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو یاد کیا گیا۔
سلیمان بن جعفر ابن ابی جعفر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ھمت کرکے نعش مبارک کو دشمنوں سے چھین کر لے گئے اور غسل و کفن دے کر بڑی شان سے جنازہ کو لے کر چلے۔ ان لوگوں کے گریبان امام مظلوم کے غم میں چاک تھے، انتھائی غم و اندوہ کے عالم میں جنازہ کو لے کر مقبرہ قریش میں پھنچے۔ امام علی رضا علیہ السلام کفن و دفن اور نماز کے لئے مدینہ منورہ سے با اعجاز پھنچ گئے۔ آپ نے اپنے والد ماجد کو سپرد خاک فرمایا۔ تدفین کے بعد امام علیہ السلام مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔ جب مدینہ والوں کو آپ کی شھادت کی خبر ملی تو کھرام برپا ھو گیا۔ نوحہ و ماتم اور تعزیت کا سلسلہ مدتوں جاری رھا۔
مرزا دبیر کھتے ہیں:
مولا پہ انتھائے اسیری گزر گئی
زندان میں جوانی و پیری گزر گئی
اقوال امام علیہ السلام
• صالح افراد کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا فلاح اور بھبود کی طرف دعوت دیتا ہے۔ علماء کا ادب کرنا عقل میں اضافہ کا سبب ہے۔
• جو شخص اپنے غیظ و غضب کو لوگوں سے روکے تو قیامت میں خدا اس کو اپنے غضب سے محفوظ رکھے گا۔
• معرفت الٰھی کے بعد جو چیزیں انسان کو سب سے زیادہ خدا سے نزدیک کرتی ہیں وہ نماز، والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ، حسد نہ کرنا، خود پسندی سے پرھیز کرنا، فخر و مباھات سے اجتناب کرنا۔
• مخلوقات کا نصب العین اطاعت پروردگار ہے۔ اطاعت کے بغیر نجات ممکن نھیں۔ اطاعت علم کے ذریعہ حاصل ھوتی ہے۔ علم سیکھنے سے حاصل ھوتا ہے۔ علم عقل کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے۔ علم تو بس عالم ربانی کے پاس ہے۔ عالم کی معرفت اس کی عقل کے ذریعہ سے ہے۔
• تمھارے نفس کی قیمت تو بس جنت ہے۔ بس اپنے کو جنت کے علاوہ کسی اور سے نہ فروخت کرو۔
• نعمت اس شخص کے پاس رھی ہے جو میانہ روی اور قناعت کو اپناتا ہے اور جو شخص بےجا مصرف اور اسراف کرتا ہے تو اس سے نعمت دور ھو جاتی ہے۔
• امانت داری اور سچائی رزق مھیا کرتے ہیں۔ خیانت اور جھوٹ فقر اور نفاق پیدا کرتے ہیں۔
• عاقل وہ ہے جسے رزق حلال شکر سے باز نھیں رکھتا اور نہ کبھی حرام اس کے صبر پر غالب آتا ہے۔
• علی بن یقطین سے فرماتے ہیں، ظالم بادشاہ کی نوکری کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ تم اپنے بھائیوں کے ساتھ احسان کرو۔
•۔ جو شخص حمد و ثنائے پروردگار اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود و سلام بھیجے بغیر دعا مانگتا ہے وہ بالکل اس شخص کے مانند ہے، جو بغیر ھدف کے تیر چلائے۔
• غور و فکر کرنا نصف راحت ہے اور لوگوں سے محبت کرنا نصف عقل ہے، کیوں کہ لوگ تمھیں تمھارے عیوب سے آگاہ کریں گے۔ اور یھی لوگ تمھارے حقیقی مخلص ہیں۔
• وہ شخص ھم سے نھیں ہے (ھمارا دوست نھیں ہے) جو اپنی دنیا کو دین کے لئے ترک کر دے یا اپنے دین کو دنیا کے خاطر ترک کر دے۔
خدایا تو ھمیں توفیق عطا فرما کہ ھم اپنے امام علیہ السلام کی سیرت کو اپنا سکیں اور تیرے پیغام کو لوگوں تک پھنچا سکیں۔
 

Add comment


Security code
Refresh