آپ (ع) كے سات سالہ زمانہ امامت ميں آپ (ع) كے ھم عصر ،مامون اور معتصم نامى دو خلفا ء تھےان كى حكومت كے زمانہ ميں آپ كا موقف امام على ابن موسى الرضا (ع) كے موقف كو جارى ركھنا تھا ،
اور اس كى وجہ يہ تھى كہ خلافت كى مشينرى كے موقف ميں اتحاد پايا جاتا تھاجيسا كہ اس سے پھلے بيان ہو چكا ہے كہ امام رضا(ع)كى وليعھدى سے امامت كا موقف بنى عباس كى طاقت كے مركز تك پھنچ گيا تھا ۔ اور چونكہ حكومت نے اپنے موقف كو تبديل نھيں كيا اس بنا پر بيٹھے رھنا درست نہ تھا۔
خلافت كى مشينرى نے بھى اس مسئلہ كو بخوبى درك كرليا تھا اور امام رضا(ع) كو نماز عيد سے روك دينا بھى اسى حقيقت كى بنا پر تھا ۔مامون اس سے ڈرتا تھا كہ ايك نماز پڑھا كر خلافت پر تصرف كرنے كے لئے امام (ع) كھيں زمينہ ھموار نہ كرليں۔
شادى كى سازش
مامون نے بھت كوشش كى كہ امام رضا (ع) كو زھر ديا جانيوالا واقعہ بھت خفيہ اور پوشيدہ طور پر انجام پاجائے ليكن تمام پردہ پوشيوں اور ريا كاريوں كے باوجود آخر كار علويوں پر يہ بات آشكار ھو گئي كہ امام (ع) كا قاتل اس كے علاوہ اور كوئي نھيں تھا لھذا مامون بھت ناراض ھوا اور انتقام پر اترآيا۔
انقلابيوں كى چارہ جوئي كرنے اور ان كى رضامندى حاصل كرنے كے لئے مامون نے آٹھويں امام كے فرزند كے لئے مھربانى اور دوستى كا اظھار كيا اور زيادہ فائدہ حاصل كرنے كے لئے اس نے يہ ارادہ كيا كہ اپنى بيٹى '' ام الفضل'' كى شادى امام جواد (ع) سے كردے ۔ اور اس نے كوشش كى كہ امام رضا (ع) پر ولى عھدى تھوپ كر اس نے جو فائدہ حاصل كرنے كى كوشش كى تھى اس رشتہ كو قائم كر كے وھى فائدہ حاصل كرلے ۔
بنى عباس كو مامون كے اس ارادہ سے خوف محسوس ھوا اور صورت حال كو قبل از وقت روكنے كے لئے جو امام رضا(ع) كے زمانہ ميں پيدا ھو گئي تھى ، جمع ھو كر ايك وفد كى صورت ميں مامون كے پاس پھنچے اور كھنے لگے گذشتہ زمانہ ميں ھمارے اور علويوں كے درميان جو كچھ ھوا آپ اس سے اچھى طرح واقف ہيں اور آپ يہ بھى جانتے ہيں كہ گذشتہ خلفاء نے ان كو شھر بدر كيا اور ان كى توھين كى ہے ۔ ھم اس سے پھلے امام رضا (ع) كى ولى عھدى سے فكرمند تھے ليكن خدا نے وہ مشكل حل كردى ۔
اب ھم آپ كو خدا كا واسطہ ديتے ہيں كہ آپ ھم كو دوبارہ غمگين نہ كريں اور اس شادى سے صرف نظر كريں اور اپنى بيٹى كو بنى عباس كے كسى ايسے فرد سے بياہ ديں جو اس رشتہ كے لائق ھو ، '' مامون نے ان كے جواب ميں علويوں كى بزرگى ، خلفاء سابقين كى خطا اور ولى عھدى كے مسئلہ كى تائيد كرتے ھوئے امام جواد(ع) كى تعريف كى اور بزرگى بيان كى اور كھا كہ ميں اس جوان كو تم سے زيادہ جانتا ھوں يہ ايسے خاندان سے ہيں جن كا علم خداداد ہے ، ان كے آباء و اجداد ھميشہ علم دين و ادب ميں لوگوں سے بے نياز تھے۔(۱)
يہ دوستى كا مظاھرہ اور مكارانہ رياكاريوں كے ذريعہ اس شادى سے سياسى مقصد حاصل كرنے كے علاوہ مامون كا اور كوئي مقصد نہ تھا ، جو مقاصد وہ حاصل كرنا چاھتا تھا ان ميں سے چند كى طرف اشارہ كيا جاتا ہے :
۱۔اس كا ارادہ تھا كہ اس رشتہ سے دامن پر لگے ھوئے قتل امام رضا (ع) كے داغ كو صاف كردے اور اپنے خلاف علويوں كے اعتراضات اور قيام كو روك دے اور اھل بيت(ع) كے دوستدار و طرفدار كے عنوان سے اپنا تعارف كرائے ۔
۲۔ اپنى بيٹى كو امام (ع) كے گھر بھيج كر ھميشہ كے لئے حضرت كے كاموں كى نگرانى كرنا ۔
۳۔مامون كا خيال خام يہ تھا كہ اس ازدواج كے ذريعہ امام (ع) كو عيش و عشرت كے دربار سے وابستہ كرديگا اور ان كو لھو ولعب اور عيش و عشرت والى زندگى گذار نے پر آمادہ كردے گا ۔ تا كہ اس راستہ سے امام (ع) كى عظمت اور تقدس كو ٹھيس پھنچائے اور آپ (ع) كو عصمت و امامت كے بلند مقام سے گرا كر لوگوں كى نظروں ميں حقير كردے ۔
'' محمد ابن ريان'' نقل كرتے ہيں كہ مامون نے بھت كوشش كى كہ امام كو لھو و لعب كے لئے آمادہ كرے ليكن كامياب نھيں ھوا ۔ اس كى بيٹى كى شادى كے جشن ميں سو ايسى خوبصورت كنيزيں جو جواھرات سے بھرے ھوئے جام اپنے ھاتھوں ميں لئے تھيں ، مامون نے ان سے كھا كہ امام(ع) كے آنے كے بعد ان كے استقبال كو بڑھيں ، وہ كنيزيں استقبال كو بڑھيں ليكن امام جواد (ع) بغير كوئي توجہ ديئے وارد ھوئے اور آپ(ع) نے عملى طور پر يہ بتاديا كہ ھم ان كاموں سے بيزار ہيں۔(۲)
مامون ان مقاصد اور دوسرے مقاصد تك پھنچنے كے لئے امام رضا(ع) كى شھادت كے ايك سال بعد ۲۰۴ھ ق ميں امام جواد (ع) كو مدينہ سے بغداد لے آيا اور اس نے اپنى بيٹى كى ان سے شادى كردى اور اس بات پر اصرار كيا كہ امام بغداد ھى ميں اس كے مزيّن محلوں ميں زندگى گذاريں ۔
ليكن امام (ع) نے مدينہ واپس جانے پر اصرار كيا ، تا كہ مامون كے بنائے ھوئے نقشہ كو نقش بر آب كرديں اس وجہ سے آپ (ع) اپنى بيوى كے ساتھ مدينہ پلٹ گئے اور ۲۲۰ ھ ق تك مدينہ ميں مقيم رھے ۔
حوالہ جات:
۱۔"انى اعرف بھذاالفتى منكم و انّ اھل ھذالبيت علمھم من اللہ و موادہ و الھامہ ،لم تزل آبائہ اغنياء فى علم الدين و الادب عن الرعايا الناقصہ عن حد الكمال ''بحار ۔ج۵۰،ص۷۵۔۷۴،ارشاد ،ص۳۱۸۔۳۱۹،كشف الغمہ جلد ۳،ص۱۴۴۔ ۱۴۳ ؛مناقب جلد ۴،ص۳۸۱۔۳۸۰؛اعلام الورى ،ص۱۵۱۔ اسى جلسہ ميں مامون نے ايك مناظرہ كا انعقاد كيا تھا اس واقعہ كو ''علمى اور ثقافتى كوششيں ''كے عنوان كے ذيل ميں بيان كيا گيا ہے۔
۲۔بحارجلد ۵۰،ص۶۳۔۶۱؛مناقب جلد ۴،ص۳۹۶؛كافى جلد ۱؛۴۱۴۔۴۱۳۔