مورخ شھیر ذاکرحسین تاریخ اسلام جلد ۱ ص۴۲ میں لکھتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان نے ۷۵ ھ میں امام محمدباقرعلیہ السلام کی
صلاح سے اسلامی سکہ جاری کیا اس سے پھلے روم و ایران کا سکہ اسلامی ممالک میں بھی جاری تھا۔
اس واقعہ کی تفصیل علامہ دمیری کے حوالہ سے یہ ہے کہ ایک دن علامہ کسائی سے خلیفہ ھارون رشید عباسی نے پوچھا کہ اسلام میں درھم ودینارکے سکے، کب اورکیونکر رائج ھوئے انھوں نے کھا کہ سکوں کا اجراخلیفہ عبدالملک بن مروان نے کیا ہے لیکن اس کی تفصیل سے نا واقف ھوں اور مجھے نھیں معلوم کہ ان کے اجراء اور ایجاد کی ضرورت کیوں محسوس ھوئی،ھارون الرشیدنے کھا کہ بات یہ ہے کہ زمانہ سابق میں جو کاغذ وغیرہ ممالک اسلامیہ میں مستعمل ھوتے تھے وہ مصر میں تیارھوا کرتے تھے جھاں اس وقت نصرانیوں کی حکومت تھی،اور وہ تمام کے تمام بادشاہ روم کے مذھب برتھے وھاں کے کاغذ پر جو ضرب یعنی (ٹریڈمارک) ھوتا تھا،اس میں بزبان روم(اب،ابن،روح القدس لکھاھواتھا ،فلم یزل ذلک کذالک فی صدرالاسلام کلہ بمعنی علوما کان علیہ ،الخ)۔
اوریھی چیز اسلام میں جتنے دور گذرے تھے سب میں رائج تھی یھاں تک کہ جب عبدالملک بن مروان کازمانہ آیا، تو چونکہ وہ بڑا ذھین اورھوشیار تھا،لھذا اس نے ترجمہ کرا کے گورنر مصر کو لکھاکہ تم رومی ٹریڈمارک کو موقوف و متروک کردو،یعنی کاغذ کپڑے وغیرہ جو اب تیارھوں ان میں یہ نشانات نہ لگنے دو بلکہ ان پر یہ لکھوادو "شھداللہ انہ لاالہ الاھو"چنانچہ اس حکم پر عمل درآمد کیاگیا جب اس نئے مارک کے کاغذوں کا جن پر کلمہ توحید ثبت تھا، رواج پایا تو قیصرروم کوبے انتھا ناگوار گزرا اس نے تحفہ تحائف بھیج کر عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت کو لکھاکہ کاغذ وغیرہ پر جو"مارک" پھلے تھا وھی بدستورجاری کرو، عبدالملک نے ھدایا لینے سے انکار کردیا اور سفیر کو تحائف وھدایا سمیت واپس بھیج دیا اور اس کے خط کاجواب تک نہ دیا قیصرروم نے تحائف کو دوگنا کرکے پھر بھیجااور لکھاکہ تم نے میرے تحائف کو کم سمجھ کر واپس کردیا،اس لیے اب اضافہ کرکے بھیج رھاھوں اسے قبول کرلو اور کاغذ سے نیا"مارک" ھٹادو، عبدالملک نے پھر ھدایا واپس کردیا اورمثل سابق کوئی جواب نھیں دیااس کے بعدقیصرروم نے تیسری مرتبہ خط لکھااورتحائف وھدایابھیجے اورخط میں لکھاکہ تم نے میرے خطوط کے جوابات نھیں دئیے ،اورنہ میری بات قبول کی اب میں قسم کھا کر کھتاھوں کہ اگرتم نے اب بھی رومی ٹریڈمارک کوازسرنو رواج نہ دیا اور توحیدکے جملے کاغذ سے نہ ھٹائے تو میں تمھارے رسول کو گالیاں،سکہ درھم ودینار پرنقش کراکے تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کردوں گا اورتم کچھ نہ کرسکو گے دیکھو اب جو میں نے تم کولکھاہے اسے پڑھ کر"ارفص جبینک عرقا"،اپنی پیشانی کاپسینہ پوچھ ڈالواور جومیں کھتاھوں اس پرعمل کرو تاکہ ھمارے اورتمھارے درمیان جورشتہ محبت قائم ہے بدستورباقی رھے۔
عبدالملک ابن مروان نے جس وقت اس خط کوپڑھا اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ،ھاتھ کے طوطے اڑگئے اورنظروں میں دنیاتاریک ھوگئی اس نے کمال اضطراب میں علماء فضلاء اھل الرائے اورسیاست دانوں کوفورا جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کیا اورکھاکہ کوئی ایسی بات سوچو کہ سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے یا سراسر اسلام کامیاب ھوجائے، سب نے سرجوڑکر بھت دیرتک غورکیا لیکن کوئی ایسی رائے نہ دے سکے جس پرعمل کیاجاسکتا"فلم یجد عنداحدمنھم رایایعمل بہ"جب بادشاہ ان کی کسی رائے سے مطمئین نہ ھوسکا تواور زیادہ پریشان ھوا اوردل میں کھنے لگا میرے پالنے والے اب کیا کروں ابھی وہ اسی تردد میں بیٹھا تھاکہ اس کا وزیراعظم "ابن زنباع" بول اٹھا،بادشاہ تو یقیناجانتاہے کہ اس اھم موقع پراسلام کی مشکل کشائی کون کرسکتاہے ،لیکن عمدا اس کی طرف رخ نھیں کرتا،بادشاہ نے کھا"ویحک من" خداتجھے سمجھے،توبتاتوسھی وہ کون ہے؟ وزیراعظم نے عرض کی "علیک بالباقرمن اھل بیت النبی" میں فرزند رسول امام محمدباقرعلیہ السلام کی طرف اشارہ کررھاھوں اور وھی اس آڑے وقت میں تیرے کام آسکتے ہیں ،عبدالملک بن مروان نے جونھی آپ کانام سنا "قال صدقت" کھنے لگا خداکی قسم تم نے سچ کھا اورصحیح رھبری کی ہے۔
اس کے بعداسی وقت فورااپنے عامل مدینہ کولکھا کہ اس وقت اسلام پرایک سخت مصیبت آگئی ہے اوراس کادفع ھوناامام محمدباقرعلیہ السلام کے بغیرناممکن ہے،لہذا جس طرح ہوسکے انھیں راضی کرکے میرے پاس بھیجدو، دیکھواس سلسلہ میں جو مصارف ھوں گے،وہ بذمہ حکومت ھوں گے۔
عبدالملک نے درخواست طلبی، مدینہ ارسال کرنے کے بعدشاہ روم کے سفیرکو نظر بندکردیا،اورحکم دیاکہ جب تک میں اس مسئلہ کوحل نہ کرسکوں اسے پایہ تخت سے جانے نہ دیاجائے۔
حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں عبدالملک بن مروان کاپیغام پھنچااورآپ فوراعازم سفرھوگئے اوراھل مدینہ سے فرمایاکہ چونکہ اسلام کاکام ہے لھذا میں تمام اپنے کاموں پراس سفرکو ترجیح دیتاھوں الغرض آپ وھاں سے روانہ ھوکرعبدالملک کے پاس جاپھنچے، بادشاہ چونکہ سخت پریشان تھا،اس لیے اسے نے آپ کے استقبال کے فورا بعدعرض مدعاکردیا،امام علیہ السلام نے مسکراتے ھوئے فرمایا:"لایعظم ھذاعلیک فانہ لیس بشئی" اے بادشاہ سن، مجھے بعلم امامت معلوم ہے کہ خدائے قادر وتوانا قیصرروم کواس فعل قبیح پر قدرت ھی نہ دے گا اور پھرایسی صورت میں جب کہ اس نے تیرے ھاتھوں میں اس سے عھدہ برآھونے کی طاقت دے رکھی ہے بادشاہ نے عرض کی یابن رسول اللہ وہ کونسی طاقت ہے جومجھے نصیب ہے اورجس کے ذریعہ سے میں کامیابی حاصل کرسکتاھوں؟
حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ تم اسی وقت حکاک اور کاریگروں کوبلاؤ اوران سے درھم ودینارکے سکے ڈھلواؤ اور ممالک اسلامیہ میں رائج کردو۔
اس نے پوچھاکہ ان کی کیا شکل وصورت ھوگی اور وہ کس طرح ڈھلیں گے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ سکہ کے ایک طرف کلمہ توحید دوسری طرف پیغمراسلام(ص) کانام نامی اور ضرب سکہ کا سن لکھاجائے اس کے بعداس کے اوزان بتائے آپ نے کھاکہ درھم کے تین سکے اس وقت جاری ہیں ایک بغلی جودس مثقال کے دس ھوتے ہیں دوسرے سمری خفاف جوچھ مثقال کے دس ھوتے ہیں تیسرے پانچ مثقال کے دس ،یہ کل ۲۱/ مثقال ھوئے اس کوتین پرتقسیم کرنے پرحاصل تقسیم ۷/ مثقال ھوئے،اسی سات مثقال کے دس درھم بنوا،اوراسی سات مثقال کی قیمت سونے کے دینارتیارکرجس کا خوردہ دس درھم ھو،سکہ کانقش چونکہ فارسی میں ہے اس لیے اسی فارسی میں رھنے دیاجائے ،اوردینارکاسکہ رومی حرفوں میں ہے لھذااسے رومی ھی حرفوں میں کندہ کرایاجائے اورڈھالنے کی مشین (سانچہ) شیشے کابنوایاجائے تاکہ سب ھم وزن تیارھوسکیں۔
عبدالملک نے آپ کے حکم کے مطابق تمام سکے ڈھلوالیے اور سب کام درست کرلیا اس کے بعدحضرت کی خدمت میں حاضرھوکردریافت کیاکہ اب کیاکروں؟ "امرہ محمدبن علی" آپ نے حکم دیاکہ ان سکوں کو تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کردے، اورساتھ ھی ایک سخت حکم نافذکردے جس میں یہ ھوکہ اسی سکہ کو استعمال کیاجائے اور رومی سکے خلاف قانون قراردیئے گئے اب جوخلاف ورزی کرے گااسے سخت سزادی جائے گی ،اوربوقت ضرورت اسے قتل بھی کیاجاسکے گا۔
عبدالملک بن مروان نے تعمیل ارشادکے بعد سفیرروم کو رھاکرکے کھا کہ اپنے بادشاہ سے کھناکہ ھم نے اپنے سکے ڈھلواکررائج کردیے اورتمھارے سکہ کوغیرقانونی قراردے دیا اب تم سے جوھوسکے کرلو۔
سفیرروم یھاں سے رھاھوکرجب اپنے قیصرکے پاس پھنچااوراس سے ساری داستان بتائی تووہ حیران رہ گیا،اورسرڈال کردیرتک خاموش بیٹھاسوچتارھا، لوگوں نے کھابادشاہ تونے جو یہ کھاتھا کہ میں مسلمانوں کے پیغمبرکو سکوں پرگالیاں کنداکرادوں گا اب اس پرعمل کیوں نھیں کرتے اس نے کھاکہ اب گالیاں کندا کرکے کیاکروں گااب توان کے ممالک میں میراسکہ ھی نھیں چل رھااورلین دین ھی نھیں ھورھا۔(۱)
حوالہ:
۱۔حیواة االحیوان دمیری المتوفی ۹۰۸ ھ جلد ۱ طبع مصر ۱۳۵۶ ھ۔