غزوہ خيبر کي جنگ ميں رسول خدا(ص) نے قلعہ فتح کرنے کے ليۓ پھلے ابوبکر کو پرچم ديا مگر انھيں اس مقصد ميں کاميابي نصيب نہ ھوئي اگلے دن عمر کو سپاہ کي فرمانداري دي گئي ليکن وہ بھي کامياب نہ ھو سکے-
تيسرے دن حضرت علي عليہ السلام کو قلعہ فتح کرنے کے ليے مقرر کيا گيا- آپ نے پرچم سنبھالا اور دشمن پر حملہ کرنے کے ليے روانہ ھوگئے-
يھود کے بھادروں ميں "مرحب" کا نام شجاعت و دليري ميں شھرت يافتہ تھا وہ زرہ و فولاد ميں غرق قلعے سے نکل کر باھر آيا- دو جانبازوں کے درميان نبرد آزمائي شروع ھوئي- دونوں ايک دوسرے پر وار کرتے اور کاري ضرب لگاتے رھے- اچانک حضرت علي(ع) کي شمشير براں مرحب کے سر پر پڑي- جس کے باعث اس کے خود اور استخوانِ سر کے دو ٹکڑے ھوگئے- مرحب کے ساتھيوں نے جب يہ منظر ديکھا تو ان کے حوصلے پست ھوگئے چنانچہ فرار کرکے قلعے ميں پناہ گزيں ھوئے- جھاں انھوں نے اپنے اوپر اس کا دروازہ بھي بند کرليا اور حضرت علي عليہ السلام نے اپني روحاني طاقت اور قدرت خدا کي مدد سے قلعے کے اس دروازے کو جسے کھولنے اور بند کرنے پر بيس آدمي مقرر تھے اکھاڑ ليا اور اسے باھر بني ھوئي خندق پر رکھ ديا تاکہ سپاھي اس پر سے گزر کر قلعے ميں داخل ھوسکيں-
اميرالمومنين حضرت علي(ع) نے دشمن کے سب سے زيادہ محکم و مضبوط قلعہ کو فتح کرکے فتنہ خيبر کا خاتمہ کر ديا اور يھوديوں نے اپني شکست تسليم کرلي-
عن جابر ابنِ سَمْرَةَ قَالَ: قِيْلَ يَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ يَحْمِلُ ٰرايَتَکَ يَوْمَ القِيٰامَۃِ؟ قٰالَ: مَنْ کَانَ يَحْمِلُھَا فِي الدُّ نْيٰاعلي-
"جابر ابن سمرہ سے روايت ہے کہ رسولِ خدا(ص) کي خدمت ميں عرض کيا گيا:يا رسول اللہ! قيامت کے روز آپ کاعَلَم کون اٹھائے گا؟‘آپ نے فرمايا جو دنيا ميں ميرا علمبردار ہے يعني علي"-
حوالہ جاتِ روايت اھلِ سنت کي کتب سے:
۱۔ابن کثير، کتاب البدايہ والنھايہ، جلد۷،صفحہ۳۳۶(بابِ فضائل حضرت علي )-
۲۔ابن عساکر، تاريخ دمشق ، شرح حالِ علي ، ج۱،ص۱۴۵،حديث۲۰۹،شرح محمودي-
۳۔ابن مغازلي، کتاب مناقب ِ امير المومنين عليہ السلام ميں، حديث۲۳۷،صفحہ۲۰۰-
۴۔علامہ اخطب خوارزمي، کتاب مناقب،صفحہ۲۵۰-
۵۔علامہ عيني، کتاب عمدة القاري،۱۶-۲۱۶-