امام زین العابدین علیہ السلام کا ایک خاندانی شخص امام علیہ السلام کے پاس آیا اور آپ کے سامنے چلایا اور اس نے آپ کو کچھ ناسزا باتیں کھیں!
لیکن امام علیہ السلام نے اس کی ایک بات کا بھی جواب نہ دیا یھاں تک کہ وہ شخص اپنے گھر واپس ھوگیا۔
اس کے جانے کے بعد امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: تم لوگوں نے سنا کہ یہ شخص کیا کھہ رھا تھا؟ میں چاھتا ھوں کہ میرے ساتھ چلو تاکہ میں جو اس کو جواب دوں وہ بھی سن لو، انھوں نے کھا: ٹھیک ھے ، ھم آپ کے ساتھ چلتے ھیں ، چنانچہ امام علیہ السلام نے نعلین پھنے اور اس کے گھر کی طرف روانہ ھوئے، اور فرمایا:
"۔۔۔ وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنْ النَّاسِ وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ"(۱)
"۔۔۔اور غصہ کو پی جاتے ھیں اور لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ھیں اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے"۔
(آپ کے ساتھی کھتے ھیں:) ھمیں معلوم ھوگیا کہ امام علیہ السلام اس سے کچھ نھیں کھیں گے، بھر حال اس کے گھر پر پھنچے ، اور بلند آواز میں کھا: اس سے کھو؟ یہ علی بن حسین (علیھما السلام) آئے ھیں، وہ شخص جو فساد کرنے کے لئے تیار تھا اپنے گھر سے باھر نکلا اور اُسے شک نھیں تھا کہ آپ اس کی توھین آمیز گفتگوکابدلہ لینے آئے ھیں، امام سجاد علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے بھائی! کچھ دیر پھلے تم نے میرے سامنے میرے بارے میں کچھ باتیں کھیں، اگر مجھ میں وہ باتیں پائی جاتی ھیں تو میں خدا کی بارگاہ میں طلب بخشش چاھتا ھوں، اور اگر وہ باتیں مجھ میں نھیں پائی جاتیں تو خدا تجھے معاف کردے، (یہ سننا تھا کہ) اس شخص نے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور کھا: جو چیزیں میں نے کھی ھیں وہ آپ میں نھیں ھیں بلکہ میں خود ان باتوں کا زیادہ سزاوار ھوں۔
راوی کھتا ھے: وہ شخص حسن بن حسن آپ کا چچا زاد بھائی تھا!(۲)
جذام کے مریضوں سے محبت
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: ایک روز حضرت اما م سجاد علیہ السلام جذام والوں کے پاس سے گزر رھے تھے ، اس وقت آپ اپنی سواری پر سوار تھے، اور وہ لوگ کھانا کھا رھے تھے، انھوں نے آپ کو کھانا کھانے کی دعوت دی، امام علیہ السلام نے فرمایا: تمھیں معلوم ھونا چاھئے کہ اگر میں روزہ سے نہ ھوتا تو تمھارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا، اور جب آپ اپنے گھر پھنچے تو حکم دیا کہ کھانا بنایا جائے اور سلیقہ سے اچھا کھانا بنایا جائے اور پھر ان لوگوں کو کھانے کی دعوت دی اور خود بھی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا۔(۳)
حاکم کو معاف کردینا
ھشام بن اسماعیل، عبد الملک مروان کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، واقدی، امام علی علیہ السلام کے پوتے عبد الله سے روایت کرتے ھیں کہ انھوں نے کھا: ہشام بن اسماعیل، میرا بُرا پڑوسی تھا اور امام سجاد علیہ السلام کو بھت زیادہ اذیت پھنچاتا تھا، جب وہ معزول ھوگیا، اور ولید بن عبد الملک کے حکم سے اُسے اس کی تلافی کے لئے لوگوں کے درمیان دست بستہ کھڑا کردیا گیا، وہ مروان کے گھر کے پاس کھڑا کیا گیا تھا، امام سجاد علیہ السلام اس کے پاس سے گزرے اور اس کو سلام کیا۔ اما م سجاد علیہ السلام نے اپنے خاص افراد کو تاکید کی تھی کہ کوئی اُسے کچھ نہ کھے۔(۴)
امن و امان کی فضا
حضرت امام علی بن الحسین علیھما السلام نے ایک روز اپنے غلام کو دو بار آواز دی لیکن اس نے جواب نھیں دیا، آپ نے اس سے تیسری بار فرمایا: اے میرے بیٹے! کیا تو نے میری آواز نھیں سنی؟غلام نے کھا: سنا تھ، آپ نے فرمایا: تو پھر جواب کیوں نھیں دیا؟ اس نے کھا: آپ کی طرف سے امان کا احساس تھا، امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: خدا کا شکر ھے کہ میرا خدمتگار میری نسبت امن و امنیت کا احساس رکھتا ھے۔ (۵)
مخفی طور پر احسان کرنا
مدینہ میں کچھ ایسے گھرانے تھے کہ جن کی روزی اور ان کی زندگی کا ضروری سامان امام علیہ السلام کی طرف سے جاتا تھا لیکن ان کو یہ نھیں معلوم تھا کہ یہ سامان کھاں سے آتا ھے؟ جب امام سجاد علیہ السلام کی شھادت ھوگئی ، (تو ان کو معلوم ھوا کہ وھی مخفی طور پر امداد کیا کرتے تھے!)
اسی طرح بیان ھوا ھے کہ امام سجاد علیہ السلام ھمیشہ رات کی تاریکی میں چرمی تھیلیوں کو درھم و دینار سے بھر کر باھر نکلتے تھے ،فقیروں اور ناداروں کے دروازے پر جاکر دق الباب کیا کرتے تھے اور ھر گھر میں ایک مقدار درھم و دینار دیا کرتے تھے، آپ کی شھادت کے بعد لوگوں کو معلوم ھوا کہ یہ سب کچھ امام سجاد (علیہ السلام) کی طرف سے آتا تھا۔(۶)
نماز اور احسان
ابوحمزہ ثمالی کھتے ھیں: میں امام سجاد علیہ السلام کو نماز کی حالت میں دیکھا کہ آپ کی ردا آپ کے شانے سے گر جاتی ھے لیکن اس کو روکنے کے لئے توجہ نھیں کرتے یھاں تک کہ آپ کی نماز تمام ھوئی،میں نے نماز میں آپکی ردا پر بے توجھی کا سبب معلوم کیا؟ تو امام علیہ السلام نے جواب دیا: وائے ھو تم پر! کیا تمھیں معلوم ھے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ھوا تھا؟ انسان کی کوئی نماز قبول نھیں ھوتی مگر جو دل سے پڑھی جائے۔
قرآنی عفو و بخشش
حضرت امام سجاد علیہ السلام کیا ایک کنیز نماز کی وضو کے لئے آپ کے ھاتھ پر پانی ڈال رھی تھی اچانک اس کے ھاتھوں سے لوٹا آپ کے چھرہ مبارک پر گر گیا اور آپ کی پیشانی زخمی ھوگئی! امام سجاد علیہ السلام نے اپنا سر مبارک جھکا لیا، (اس موقع پر) کنیز نے کھا: خداوندعالم فرماتا ھے: "۔۔۔اور غصہ کو پی جاتے ھیں۔۔۔"(۷) امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے اپنے غصہ کو پی لیا، اس کنیز نے کھا: "۔۔۔اور لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ھیں۔۔۔۔"(۸) امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کردیا، کنیز نے کھا: "۔۔۔ اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے۔۔۔۔"(۹)امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: جا، میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کردیا۔(۱۰)
بازیگروں کے نقصان کا دن
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: مدینہ میں ایک بازی گر اور بے ھودہ شخص تھا، (ایک روز) اس نے کھا: یہ شخص (علی بن الحسین علیھما السلام) کو میں ھنسانے میں ناکام ھوں، امام علیہ السلام اپنے دو خدمت گاروں کے ساتھ جا رھے تھے، چنانچہ وہ بھی آپ کے ساتھ چل دیا یھاں تک کہ وہ آپ کے شانوں سے آپ کی ردا اتار کر روانہ ھوگیا، امام علیہ السلام نے اس پر توجہ نہ کی، لیکن لوگ اس کے پیچھے روانہ ھوئے اور اس سے وہ ردا لے کر واپس آئے اور آپ کے مبارک شانوں پر ڈال دی، امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ کون ھے؟ لوگوں نے جواب دیا: یہ ایک بازی گر ھے جواھل مدینہ کو ھنساتا پھرتا ھے، امام علیہ السلام نے فرمایا: اس سے کھو کہ خداوندعالم کے یھاں ایک ایسا دن ھے جس میں بیھودہ لوگوں کو خسارہ اور نقصان ھوگا۔(۱۱)
قافلہ میں نا آشنا
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: علی بن الحسن علیھما السلام کبھی بھی سفر پر نھیں جاتے تھے مگر ایسے لوگوں کے ساتھ جو آپ کو نہ پھنچانتے ھوں اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ضرورت کے وقت آپ ان کی مدد کریں گے۔
ایک بار ایک قافلہ سفر کے لئے روانہ ھوا، ایک شخص نے امام سجاد علیہ السلام کو دیکھا تو پھچان لیا، اس نے کھا: کیا تمھیں معلوم ھے کہ یہ کون ھیں؟ انھوں نے کھا: نھیں، اس نے کھا: یہ علی بن الحسین (علیہ السلام) ھیں، چنانچہ سب لوگ آپ کی طرف دوڑے اور آپ کے ھاتھ اورپیر کا بوسہ دینے لگے، اور انھوں نے کھا: یابن رسول الله! کیا آپ ھمیں اپنے ھاتھوں اور زبان کے ذریعہ دوزخ میں بھیجنا چاھتے ھیں؟ اگر ایسا ھوجاتا تو ھم آخر عمر تک ھلاک اور بدبخت ھوجاتے! کس چیز نے آپ کو ایسے سفر کے لئے مجبور کیا ھے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: میں ایک بار ایسے قافلہ کے ساتھ سفر پر گیا جو مجھے پھچانتے تھے، اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کی وجہ سے مجھ سے ایسا سلوک کیا کہ جس کا میں حقدار نھیں ھوں، میں ڈرا کہ تم بھی مجھ سے ایسا ھی سلوک کرو گے، اسی وجہ سے میں نے خود کو نا آشنا رکھااوریہ مجھے پسند ھے۔(۱۲)
حیوانوں کے ساتھ نیک برتاؤ
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: علی بن الحسین (امام سجاد) علیہ السلام نے اپنی شھادت کے وقت اپنے فرزند امام محمد باقر علیہ السلام سے فرمایا: میں اس اونٹ پر ۲۰ بار حج کے لئے گیا ھوں اور اس کو ایک تازیانہ تک نھیں مارا، جب یہ مر جائے تو اس کو دفن کرنا تاکہ درندے اس کے گوشت کو نہ کھائیں، کیونکہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: کوئی بھی اونٹ ایسا نھیں ھے جو مقام عرفہ میں سات بار لے جایا گیا ھو مگر یہ کہ خداوندعالم اس کو جنت کی نعمتوں میں سے قرار دے اور اس کی نسل کو بابرکت قرار دے، چنانچہ جب امام سجاد علیہ السلام کا اونٹ مر گیا تو امام محمد باقر علیہ السلام نے اس کو دفن کردیا۔(۱۳)
افطاری بخش دینا
ایک روز حضرت امام سجاد علیہ السلام روزہ سے تھے، آپ نے حکم دیاکہ ایک گوسفند ذبح کیا جائے چنانچہ گوسفند ذبح کیا گیا اور اسے پکایا گیا جب غروب کا وقت آگیا تو آپ دیگ کے پاس پھنچے اور آبگوشت کی خوشبو کو سونگھا اور اس کے بعد فرمایا: ظرف لائے جائیں، (چنانچہ جب ظرف آگئے تو آپ نے فرمایا: ان ظروف میں فلاں فلاں کے لئے گوشت بھر کر لے جاؤ، یھاں تک کہ پوری دیگ خالی ھوگئی، اس موقع پر امام سجاد علیہ السلام کے لئے روٹی اور کھجور لائی گئی اور آپ نے اس سے افطار کیا۔(۱۴)
غریبوں کی مدد
جب رات کی تاریکی بڑھ جاتی تھی اور لوگ سوجایا کرتے تھے تو امام علیہ السلام اٹھتے تھے اور گھر میں اپنے اھل و عیال سے بچا ھوا رزق و روزی جمع کیا کرتے تھے اور تھیلیوں میں رکھ کر اپنے شانوں پر رکھتے تھے اور اپنے منھ کو چھپالیا کرتے تھے تاکہ کھیں پھنچانے نہ جائیں، اور پھر غریبوں کے گھر جاکر ان کے درمیان تقسیم کردیا کرتے تھے۔
بسا اوقات ایسا ھوتا تھا کہ لوگوں کے دروازوں پر انتظار میں کھڑے رھتے تھے تاکہ وہ آئیں اور اپنا حصہ لے جائیں، لوگ جب آپ کو دیکھتے تھے اورآپ کا مشاھدہ کیا کرتے تھے فوراً آپ کی خدمت میں جاتے تھے اور کھا کرتے تھے: تھیلیوں والے آگئے ھیں!!(۱۵)
انگور کا واقعہ
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: علی بن الحسین علیھما السلام ھمیشہ انگور پسند فرماتے تھے، (ایک روز) بھترین انگور مدینہ میں لائے گئے، آپ کی کنیز جو امّ ولد تھی اس نے آپ کے لئے کچھ انگور خریدے اور افطار کے وقت آپ کے لئے حاضر کئے، امام علیہ السلام کو انگور پسند آئے، ابھی ان کی طرف ھاتھ بڑھانا ھی چاھتے تھے کہ ایک غریب نے دق الباب کیا اور مدد کی درخواست کی، امام علیہ السلام نے امّ ولد سے فرمایا: یہ سارے انگور اس سائل کو دیدو، اس کنیز نے عرض کیا: اس میں سے تھوڑے انگور اس کے لئے کافی ھوں گے ، فرمایا: نھیں، خدا کی قسم! سب کے سب اس کو دیدو۔
دوسرے دن بھی آپ کے لئے انگور خریدے گئے اس روز بھی ایک غریب آیا اور امام علیہ السلام نے سارے انگور اس کو دلادئے۔
تیسرے روز کوئی سائل نھیں آیا، چنانچہ امام علیہ السلام نے انگور کھائے اور فرمایا: ھمارے ھاتھ سے کچھ نھیں گیا، اور خدا کا شکر ادا کیا۔(۱۶)
بچپن میں آپ کی عظمت کمال
عبد الله بن مبارک کھتے ھیں: ایک سال میں مکہ گیا، حاجیوں کے ساتھ چل رھا تھا کہ اچانک ایک سات یا آٹھ سال کے بچہ کو دیکھا جو حاجیوں کے ساتھ ساتھ چل رھا ھے اور اس کے پاس کوئی زاد راہ بھی نھیں ھے، میں اس کے پاس گیا اوراُسے سلام کیا اس کے بعد اس سے کھا: تم نے کس کے ساتھ جنگل و بیابان طے کیا ھے، اس نے کھا: خداوندمھربان کے ساتھ۔
میری نظر میں ایک بزرگ انسان معلوم ھوا، میں نے کھا: اے میرے بیٹے! تمھارا زاد راہ کھاں ھے؟ اس نے کھا: میرا زاد راہ میرا تقویٰ اور میرے دو پیر ھیں اور میرا ھدف میرا مولا ھے۔
میرے نزدیک اس کی اھمیت بڑھ گئی، میں نے کھا: کس گھرانے سے تعلق رکھتے ھو؟ اس نے کھا: علوی اور فاطمی گھرانے سے میں نے کھا: اے میرے سید و سردار! کیا کچھ اشعار بھی کھے ھیں؟ اس نے کھا: جی ھاں، میں نے کھا اپنے کچھ اشعار سنائیے، چنانچہ اس نے اس مضمون کے اشعار پڑھے:
ھم حوض کوثر پر وارد ھوں گے تو ایک گروہ کو وھاں سے ھٹایا جائے گا اور ھم حوض کوثر پر وارد ھونے والوں کو پانی پلائیں گے۔ کوئی بھی ھمارے وسیلہ کے بغیر نجات نھیں پاسکتا، اور جو شخص ھمیں دوست رکھتا ھو اس نے اپنی کوشش اور زاد راہ میں نقصان نھیں اٹھایا، جو شخص ھمیں خوش کرے تو ھماری طرف سے اس کو خوشی پھنچے گی، اور جو شخص ھمیں رنجیدہ کرے تو اسکا مطلب ھے کہ اس کی ولادت بُری تھی اور جو شخص ھمارا حق غصب کرے تو اس کے عذاب کو دیکھنے کا وعدہ روز قیامت ھے!
(راوی کا کھنا ھے کہ ) اور پھر وہ میری نظروں سے غائب ھوگیا یھاں تک کہ میں مکہ پھنچا اور اپنا حج تمام کیا اور واپس پلٹ گیا، مقام "بطحا"میں دیکھا کہ لوگ ایک جگہ جمع ھیں گردن اٹھاکر دیکھا کہ یہ لوگ کس وجہ سے جمع ھوئے ھیں، دیکھا تو وھی بچہ ھے جس سے میں نے گفتگو کی تھی، میں نے سوال کیا: یہ کون ھے؟ تو مجھے بتایا گیا: یہ زین العابدین ھیں!!(۱۷)
بخشش کی درخواست
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: ھمارے والد بزرگوار نے اپنے غلام کو کسی کام سے بھیجا اور جب اس نے اس کام میں تاخیرکی تو آپ نے اس کو ایک تازیانہ مارا، غلام نے کھا: اے علی بن الحسین! خدا کا واسطہ، پھلے آپ مجھے کام کے لئے بھیجتے ھیں اورپھر مجھے مارتے ھیں!
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: ھمارے والد نے رونا شروع کیا، اور فرمایا: اے میرے بیٹے! قبر رسول (صلی الله علیه و آله و سلم) پر جاؤ اور دو رکعت نماز پڑھو اور پھر یہ دعا کرو! خداوندا! قیامت کے دن علی بن الحسین (علیہ السلام) کے اس کام کو بخش دے، اور پھر غلام سے فرمایا: جا تو راہ خدا میں آزاد ھے۔ ابوبصیر کھتے ھیں: میں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی: میں آپ پر قربان، گویا آزاد کرنا مارنے کا کفار ہ ھے! لیکن اما م علیہ السلام نے خاموشی اختیار کی۔(۱۸)
مارنے کی تلافی مار کے ذریعہ
حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ھیں: علی بن الحسین علیھما السلام نے (ایک دفعہ) اپنے غلام کو مارا، اس کے بعد گھر میں وارد ھوئے اور تازیانہ نکالا نیز اپنے بدن سے لباس بھی اتار دیا، اور پھر غلام سے کھا: اس تازیانہ سے علی بن الحسین کو مارو! لیکن غلام نے آپ کو مارنے سے انکار کردیا، چنانچہ امام سجاد علیہ السلام نے اس کو پچاس دینار عطا کئے۔(۱۹)
والدہ کا حق
حضرت امام سجاد علیہ السلام سے کھا گیا: آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیکوکار ھیں لیکن آپ اپنی والدہ کے ساتھ کھانا نھیں کھاتے جبکہ وہ ساتھ میں کھانا چاھتی ھیں! تو امام علیہ السلام نے فرمایا: مجھے یہ بات پسند نھیں ھے کہ میں اس لقمہ کی طرف ھاتھ بڑھاؤں کہ جس کی طرف میری والدہ کی آنکھیں پھل کرچکی ھوں جس کے نتیجہ میں عاق ھوجاؤں۔ اس کے بعد آپ اپنی والدہ گرامی کے ساتھ کھانا کھاتے وقت کھانے کو ایک طبق سے ڈھک دیا کرتے تھے اور اس طبق کے نیچے سے ھاتھ لے جاتے اور کھانا کھاتے تھے۔(۲۰)
قرض ادا کرنے کی ضمانت
عیسیٰ بن عبد الله کھتے ھیں: جب عبد الله کی موت کا وقت آگیا تو اس کے طلبگار جمع ھوگئے اور اپنے اپنے مال کا مطالبہ کرنے لگے، چنانچہ اس نے کھا: میرے پاس کچھ نھیں ھے تاکہ تمھیں ادا کروں، میرے چچا زاد بھائیوں، یا علی بن الحسین یا عبد الله بن جعفر پر راضی ھوجاؤ کہ وہ تمھارا قرض ادا کردیں گے۔
قرض داروں نے کھا: عبد الله بن جعفر تو ایسے شخص ھیں کہ لمبے لمبے وعدہ دیتے ھیں اور وہ لاؤ بالی شخص ھیں اور علی بن الحسین علیہ السلام کے پاس کچھ نھیں ھے، لیکن بھت سچے ھیں، لہٰذا یھی ھماری مشکل کو آسان کرنے کے لئے زیادہ بھتر ھیں۔
جب یہ خبر امام علیہ السلام تک پھنچی تو آپ نے فرمایا: میں غلّہ کی فصل کٹنے کے وقت ان کا قرض ادا کردوں گا جبکہ آپ کے پاس کوئی فصل بھی نھیں تھی، لیکن جب غلّہ کی فصل کٹنے کا وقت آیا تو آپ نے سبھی قرضداروں کا قرض ادا فرمادیا۔(۲۱)
بے نظیر بُردباری
ایک شخص نے حضرت امام سجاد علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی، چنانچہ آپ کے غلاموں نے اس کو مارنا چاھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کو چھوڑو، جو چیز ھم سے مخفی ھے اس سے کھیں زیادہ ھے جو ھمارے بارے میں کھتے ھیں، اور پھر اس شخص سے فرمایا: کیا تمھیں کسی چیز کی ضرورت ھے؟ چنانچہ وہ شخص شرمندہ ھوگیا، امام علیہ السلام نے اپنا لباس اس کو عطا کیا اور حکم دیا کہ ایک ہزار درھم اس کو عطا کردو، (یہ دیکھ کر) اس شخص نے بلند آواز میں کھا: میں گواھی دیتا ھوں کہ آپ فرزند رسول الله ھیں!(۲۲)
غیبت کے مقابل ردّ عمل
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک گروہ کے پاس پھنچے جو آپ کی غیبت کر رھے تھے، ان کے پاس کھڑے ھوگئے اور ان سے کھا: اگر تم اپنے قول میں سچے ھو تو خداوندعالم مجھے بخش دے اور اگر تم جھوٹ کھہ رھے ھو تو خداوندعالم تمھیں بخش دے!۔(۲۳)
غیر عمدی قتل (سے در گزر)
حضرت امام سجاد علیہ السلام کے یھاں چند مھمان تھے، امام علیہ السلام نے اپنے خادم سے کھا: تنوری بریاں گوشت جلدی لے کر آؤ، خادم اس لوھے کو جلدی سے لے کر چلا جس پر بریاں گوشت تھا کہ اچانک اس کے ھاتھ سے چھوٹ گیا، اور آپ کے ایک بیٹے کے سر پر جا گرا جو نچلی منزل میں تھا اور آپ کا وہ فرزند مر گیا، (غلام حیرت زدہ اور لرز رھا تھا) آپ نے اس غلام سے فرمایا: اس کام کو تو نے جان بوجھ کر نھیں کیا ھے، لہٰذا تو راہ خدا میں آزاد ھے، اور پھر امام علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اپنے ھاتھوں سے غسل و کفن کیا۔(۲۴)
بے انتھا اخلاص
امام سجاد علیہ السلام کا ایک چچا زاد بھائی بھت زیادہ غریب تھا کہ امام علیہ السلام رات کی تاریکی میں نا آشنا کی صورت میں اس کے دروازہ پر آکر دینار عطا کیا کرتے تھے، وہ کھتا تھا: علی بن الحسین میرے ساتھ صلہٴ رحم نھیں کرتے، خداوندعالم ان کو میری طرف سے جزائے خیر نہ دے، امام علیہ السلام نے اس کی باتوں کو سنا اور برداشت کیا اور صبر سے کام لیا اور اپنا تعارف نہ کرایا، چنانچہ جب آپ اس دنیا میں نہ رھے تو اس کو معلوم ھوگیا کہ جو شخص رات کی تاریکی میں مدد کیا کرتا تھا وہ امام سجاد علیہ السلام تھے!! چنانچہ وہ آپ کی قبر کے پاس آیا اور آپ کی شھادت پر بھت زیادہ رویا، اور اپنی غلطی و گستاخی پر نادم ھوا۔(۲۵)
حوالہ جات:
۱۔ سورہٴ آل عمران (۳)، آیت۱۳۴۔
۲۔ ارشاد، مفید، ج۲، ص۱۴۵؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۵۴۵، باب۵، حدیث۱۔
۳۔ اصول کافی، ج۲، ص۱۲۳، باب التواضع، حدیث۸؛ وسائل الشیعة، ج۱۵، ص۲۷۷، باب۳۱، حدیث ۲۰۵۰۷؛ بحارالانوار، ج۴۶، ص۵۵، باب۵، حدیث۲۔
۴۔ ارشاد، مفید، ج۲، ص۱۴۷؛ بحارالانوار، ج۴۶، ص۵۶، باب۵، حدیث۵۔
۵۔اعلام الوریٰ، ص۲۶۱، چوتھی فصل؛ کشف الغمة، ج۲، ص۸۷؛ مشکاة الانوار، ص۱۷۸، فصل ۲۲؛ بحار الانوار، ج۴۶، باب۵، حدیث۶۔
۶۔علل الشرائع، ج۱، ص۲۳۱، باب۱۶۵، حدیث۸؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۶۶، باب۵، حدیث۲۸۔
۷۔ وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ۔۔۔> (سورہٴ آل عمران، آیت۱۳۴)۔
۸۔ ۔۔۔وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ۔۔۔> (سورہٴ آل عمران، آیت۱۳۴)۔
۹۔۔۔۔وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِین> (سورہٴ آل عمران، آیت۱۳۴)۔
۱۰۔امالی، صدوق، ص۲۰۱، مجلس ۳۶، حدیث۱۲؛ روضة الواعظین، ج۲، ص۳۷۹؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۶۷، باب۵، حدیث۳۶۔
۱۱۔امالی، صدوق، ص۲۲۰، مجلس۳۹، حدیث۶؛ امالی، مفید، ص۲۱۹، مجلس ۲۵،حدیث۷؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۶۸، باب۵، حدیث۳۹۔
۱۲۔عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۱۴۵، باب۴۰، حدیث۱۳؛ وسائل الشیعة، ج۱۱، ص۴۳۰، باب۴۶، حدیث ۱۵۱۷۷؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۶۹، باب۵، حدیث۴۱۔
۱۳۔ ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، ص۵۰؛ المحاسن، ج۲، ص۶۳۵، باب۱۵، حدیث ۱۳۳؛ وسائل الشیعة، ج۱۱، ص۵۴۱، باب۵۱، حدیث ۱۵۴۸۶؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۷۰، باب۵، حدیث۴۶۔
۱۴۔اصول کافی، ج۴، ص۶۸، باب من فطر صائماً، حدیث۳؛ مناقب، ج۴، ص۱۵۵؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۷۱، باب۵، حدیث۵۳۔
۱۵۔ مناقب ، ج۴، ص۱۶۳؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۸۹، باب۵، حدیث۷۷۔
۱۶۔ مناقب ، ج۴، ص۱۵۴؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۰، باب۵، حدیث۷۷۔
۱۷۔مناقب ، ج۴، ص۱۵۵؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۱، باب۵، حدیث۷۸۔
۱۸۔ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۲، باب۵، حدیث۷۹۔
۱۹۔ الزھد، ص۴۵، باب۷، حدیث۱۱۹؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۲، باب۵، حدیث۸۰۔
۲۰۔ مناقب ، ج۴، ص۱۶۲؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۳، باب۵، حدیث۸۲۔
۲۱۔اصول کافی، ج۵، ص۹۷، باب قضاء الدین، حدیث۷؛ مناقب، ج۴، ص۱۶۴؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۴، باب۵، حدیث۸۴۔
۲۲۔ مناقب، ج۴، ص۱۵۷؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۵، باب۵، حدیث۸۴۔
۲۳۔ الخصال، ج۲، ص۵۱۷، حدیث۴؛ مناقب، ج۴، ص۱۵۸؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۶، باب۵، حدیث۸۴۔
۲۴۔ کشف الغمة، ج۲، ص۸۰؛ مسکن الفوٴاد، ص۵۷؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۹، باب۵، حدیث۸۷۔
۲۵۔ کشف الغمة، ج۲، ص۱۰۶؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۱۰۰، باب۵، حدیث۸۸۔