حضرت امام زين العابدين عليہ السلام كا نام نامى، اسم گرامي روحاني اقدار كے ھيرو كے طور پر ھمارے سامنے آتا ھے۔ زھد وتقويٰ
اور عبادت سميت انسان كي تمام خوبيوں اور اعليٰ صفات و كمالات كو ديكھا جائے تو وہ ايك ايك كر كے امام سجاد عليہ السلام ميں واضح طور پر موجود ھيں، جب خاندان رسالت پر نظر ڈالتے ھيں تو امام سجاد عليہ السلام چودھويں كے چاند كي مانند چمكتے ھوئے نظر آتے ھيں۔ اس عظيم خاندان كا ھر فرد اپنے اپنے عھد كا بے مثال انسان ھوتا ھے۔ ايسا انسان كہ انسانيت اس پر فخر كرے۔ اگر ھم ان كے كردار و عمل كو ديكھيں تو ھميں ماننا پڑے گا اسلام كي تمام تر جلوہ آفرينياں، ايمان كي ساري ساري ضوفشانياں آپ ميں موجود ھيں۔ جب ھم حضرت علي ابن ابي طالب عليہ السلام كي ذات گرامي كو ديكھتے ھيں تو آپ كے كمالات وصفات كو ديكھ كر حيران ھو جاتے ھيں كہ آپ كا ھر كام اتنا بلند ھے كہ اس تك پھنچنا تو در كنار آدمي ان كے بارے سوچ بھي نھيں سكتا اس كي وجہ كيا ھے؟ وجہ صاف ظاھر ھے جو پيغمبر اسلام (ص) كي حفاظت كيلئے معجزانہ طور پر پيدا ھوا ھو اور اس كي تربيت بھي خود رسالتمآب (ص) نے كي ھو پھر ساري زندگي سروركائنات كے نام وقف كردي ھو۔ بھلا اس عظيم انسان كي عظمت و رفعت كا كيسے انداز لگايا جاسكتا ھے ۔ سايہ بن كر ساتھ چلنے والا علي عليہ السلام پيغمبر السلام (ص) كي ضرورت بن چكا تھا۔ گويا ايك جان دو قالب ھوں۔ جب انسان علي عليہ السلام كو ديكھتا ھے تو ان كي سيرت طيبہ كے آئينہ ميں حضور (ص) پر نور كي سيرت نظر آتي ھے (اسي طرح آپ كي تمام اولاد ميں ايك جيسي صفات ھيں۔ زمانہ ھزار رنگ بدلے علي عليہ السلام اور اولاد علي (ع) كبھي اور كسي دور ميں نھيں بدل سكتي۔ كيونكہ يہ حضرات اللہ تعاليٰ كي تقدير كا اٹل فيصلہ ھيں اور اس كا ھر فيصلہ ھميشہ قائم و دائم رھتا ھے۔
عبادت امام سجاد علیہ السلام
اھل بيت عليھم السلام كي عبادت كا انداز بھي ايك جيسا ھے دنيا كي ھر چيز ميں دھوكے كا امكان ھے ليكن آل محمد (ص) ايك ايسي مسلمہ حقيقت ھيں كہ جن ميں حقيقت كے سوا كچھ نھيں نظر آتا۔ انسان جب امام زين العابدين عليہ السلام كو ديكھتا ھے تو آپ كو صحيح معنوں ميں خدا كا مخلص بندہ پاتا ھے، اور بيساختہ كھہ اٹھتا ھے كہ بندہ ھو تو ايسا ھو اور بندگي ھو تو ايسي۔ آپ كي نماز خالص بندگي سے خالص عبادت تھي۔ آپ كي دعاؤں كا سوز اڑتے ھوئے پرندوں كو روك ليتا۔ راہ گزرتے لوگ رك كر فرزند حسين عليہ السلام كي رقت آميز آواز كو سن كر گريہ كرتے۔ مسٹر كارل كھتا ھے كہ انسان كي روح اللہ كي طرف پرواز كرتي ھے (بيشك اگر كوئي نمازي كعبہ كي طرف رخ كركے نماز پڑھے اور اس كي روح ادھر ادھر اڑتي پھرے تو يہ ايسي روح ھے كہ جو اس جسم سے جاچكي ھو) انسان جب سيد سجاد (ع) كے سجدوں، كو ديكھتا ھے تو بے ساختہ كھہ اٹھتا ھے كہ اسلام كيا ھے؟ روح انسان كا حسن كيا ھے؟
اينھمه آواز ھا از شہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
"يعني يہ تمام آوازيں مولا ھي كي تھيں اگر چہ وہ ان كے فرزند شير خوار كے حلق سے آرھي تھيں۔"
جب كوئي انسان حضرت زين العابدين عليہ السلام كو ديكھتا ھے تو يوں محسوس كرتا ھے جيسے پيغمبر اكرم (ص) محراب عبادت ميں محو عبادت ھوں، يا رات كے تيسرے پہر ميں كوہ حرا ميں اپنے رب سے راز و نياز كر رھے ھوں۔ ايك رات آپ عبادت الہٰي ميں مصروف تھے كہ آپ كا ايك صاجزادہ كھيں پہ گر پڑا اور اس كي گڈياں چور چور ھو گئيں۔ اب اس بچے كو پٹيوں كي ضرورت تھي آپ كے گھر والوں نے مناسب نہ سمجھا كہ آپ كي عبادت ميں مخل ھوں۔ گھر ميں ايك جراح كو بلايا گيا اس نے جب بچہ كو پٹي باندھي تو وہ چلا اٹھا اور درد سے كراہ رھا تھا۔ اس كے بعد خاموش ھو گيا اور رات كا سارا واقعہ آپ كو بتايا گيا آپ اس وقت عبادت كر رھے تھے اس سے معلوم ھوتا ھے كہ امام زين العابدين عليہ السلام عبادت خداوندي ميں اس قدر منھمك ھوتے اور آپ كي روح خدا كي طرف اس طرح پرواز كرتي تھي كہ عبادت كے وقت آپ كے كانوں پر كوئي بھي آواز نہ پڑتي تھي۔
امام سجاد (ع)پيكرِ محبت
امام زيں العابدين عليہ السلام خلوص و محبت كا پيكر تھے۔ جب بھي آپ كھيں پر جاتے اور راستے ميں كسي غريب وفقير اور مسكين كو ديكھتے تو آپ كے قدم رك جاتے اور فوراً اس بيكس كي مدد كرتے اور بيكسوں، بے نواؤں كي دلجوئي كرنا، ان كو سھارا دينا اور ان كي ضرورت پوري كرنا آپ كے فرائض منصبي ميں شامل تھا۔ جن كا كوئي نھيں ھوتا تھا آپ اس كي دوسروں سے بڑھ كر ڈھارس بندھاتے۔ اس كو اپنے در دولت پر لے آتے اور اس كي ضرورت پوري كرتے تھے ايك روز آپ كي نظر ايك جذامي شخص (كوڑھ كے مريض) پر پڑى، لوگ اس سے نفرت كرتے ھوئے آگے گزرجاتے تھے۔ كوئي بھي اس سے بات كرنا گوارا نہ كرتا تھا، آپ اس كو اپنے گھر ميں لے آئے۔ اس كي خوب خاطر مدارت كي۔ آپ ھر مسكين وضرورت مند سے كھا كرتے تھے كہ آپ لوگوں كو جب بھي كوئي مشكل آئے تو سيد سجاد (ع) كا دروازہ آپ كيلئے كھلا ھے۔
امام زين العابدين عليہ السلام كا گھر مسكينوں، يتيموں اور بے نواؤں كا مركز ھوا كرتا تھا (آپ ايك سايہ دار شجر كي طرح دوسروں پر سايہ كرتے، مھرباني و عطوفت سے پيش آتے اور ان كي مشكل وپريشاني كو دور كرتے تھے) ۔
امام سجاد (ع) کاكاروان حج كي خدمت كرنا
امام سجاد عليہ السلام حج پر تشريف لے جارھے تھے آپ نے اس قافلہ كو جانے ديا جو آپ كو جانتے تھے اور ايك اجنبي قافلہ كے ساتھ ايك مسافر اور پرديسي كے طور پر شامل ھو گئے۔ آپ نے ان سے كھا كہ ميں آپ لوگوں كي خدمت كرتا جاؤں گا۔ انھوں نے بھي مان ليا۔اونٹوں اور گھوڑوں كے سفر ميں بارہ دن لگتے تھے، امام عليہ السلام اس مدت ميں تمام قافلہ والوں كي خدمت كرتے رھے۔ اثناء سفر ميں يہ قافلہ دوسرے قافلہ كے ساتھ جا ملا ان لوگوں نے امام عليہ السلام كو پھچان ليا اور دوڑ كر آپ كي خدمت ميں آئے عرض كي مولا (ع) آپ كھاں؟ امام نے سب كي خيرت دريافت كي انھوں نے اس قافلے سے پوچھا كيا تم اس نوجوان كو پھچانتے ھو؟ انھوں نے كھا نھيں يہ ايك مدني نوجوان ھے اور بھت ھي متقي اور پرھيز گار ھے۔ وہ بولے تمھيں خبر نھيں يہ حضرت امام زيں العابدين عليہ السلام ھيں، اور آپ ھيں كہ امام سے كام لئے جارھے ھيں۔ يہ سن كر وہ لوگ امام كے قدموں ميں گر پڑے عرض كي مولا آپ ھميں معاف كر ديجئيے كہ ھم نے لا علمي كي بناء پر آپ كي شان ميں گستاخي كي كھاں آپ كي عظمت ورفعت اور كھاں ھماري پستى؟
ھم پر كھيں عذاب الہٰٰي نہ آپڑے۔ آپ ھمارے آقا و مولا (ع) ھيں۔
آپ كو سرداري كي مسند پر بيٹھنا چاھيے تھا۔ اب آپ تشريف ركھيں ھم آپ كي خدمت كريں گے۔ آپ نے فرمايا كہ ميں انجان اور اجنبي بن كر آپ لوگوں كے قافلہ ميں اس لئے شامل ھوا تھا كہ آپ زائرين بيت اللہ ھيں، آپ كي خدمت كر كے ثواب حاصل كروں، آپ فكر نہ كريں ميں نے جو بھي خدمت كي ھے اس ميں اللہ تعاليٰ كي طرف سے ثواب مجھ كو ملے گا۔
امام سجاد(ع) كا دعا مانگنا اور گريہ كرنا
جس طرح آپ كے پدر بزرگوار حضرت حسين عليہ السلام كو كام كرنے كا موقعہ نہ ديا گيا اسي طرح آپ بھي مصيبتوں، آرمانوں اور پريشانيوں كي وجہ سے وہ نہ كرسكے جو كرنا چاھتے تھے۔ ليكن كچھ وقت امام جعفر صادق عليہ السلام كو ميسر ھوا اور آپ نے بھت كم مدت ميں علم و عمل كي ايك دنيا آباد كردي۔ آپ نے علوم آل محمد (ص) كو دنيا بھر ميں پھيلايا۔ بھر كيف جو شخص اسلام كا سچا خدمت گزار ھو وہ تمام كلمات ميں رضائے الھٰي كو مد نطر ركھتا ھے، وہ مشكلات اور سھوليات كو نھيں ديكھتا، بس كام كرتا جاتا ھے۔ يھاں تك كہ رب العزت كي طرف سے بلاوا آجاتا ھے۔ امام زين العابدين عليہ السلام كي عبادت كو ديكھ كر اور دعاؤں كو پڑھ كر ملت جعفريہ كا سر فخر سے بلند ھو جاتا ھے، آپ كي دعا ميں التجا بھي ھے اور دشمنوں كے خلاف احتجاج بھي۔ آپ كي دعا ميں تبليغ بھي ھے اور خوشخبري بھي۔ گويا بركتوں، رحمتوں كي ايك موسلا دھار بارش برس رھي تھي۔
بعض لوگوں كا زعم باطل ھے كہ چونكہ امام سجاد عليہ السلام نے والد بزرگوار كي شھادت كے بعد تلوار كے ذريعہ جھاد نہ كيا اس لئے آپ نے دعاؤں پر اكتفاء كي اور غموں كو دور كرنے كيلئے ھر وقت دعا مانگا كرتے تھے؟ ايسا ھر گز نھيں ھے آپ نے اپنے والد گرامي كو زندہ كرنے كيلئے اس كي ياد كو ھر وقت تازہ كيے ركھا۔ دنيا والوں كو معلوم ھونا چاھيے كربلا كو كربلا بنايا ھي سيد سجاد (ع) نے ھے۔ آپ كا اپنے پياروں كي ياد ميں گريہ كرنا بھي جھاد تھا۔ آپ دنيا والوں كو بتانا چاھتے تھے كہ امام حسين عليہ السلام كا مقصد قيام كيا تھا۔ آپ نے اتني تكليفيں پريشانياں برداشت كيوں كى؟ آپ پر ظلم كيوں ھوا اور كس نے كيا؟ يہ سب كچھ سيد سجاد (ع) ھي نے بتايا ھے۔ (ميرے نزديك امام سجاد عليہ السلام كي مصيبت كا باب ھي سب ائمہ (ع) كے مصائب سے الگ اور انوكھا ھے۔ خدا جانے كتنا مشكل وقت ھوگا جب يزيد ملعون منبر پر بيٹھ كر نشے سے مدھوش ھو كر امام مظلوم كے سر اقدس كي توھين كر كے اپنے مظالم كو فتح و كاميابي سے تعبير كر رھا تھا۔ پھر كتنا كٹھن مرحلہ تھا وہ جب محذرات عصمت كي طرف اشارہ كركے پوچھتا تھا كہ يہ بي بي كون ھے اور وہ بي بي كون؟يہ جناب سيد سجاد عليہ السلام ھي كا دل تھا جو نہ سھنے والے غم بھي بڑي بے جگري سے سھتا رھا۔ يہ وہ غم تھے كہ پھاڑ بھي برداشت نہ كرسكتے تھے۔ پھر والد گرامي اور شھدائے كربلا كي شھادت كے بعد آپ نے جس انداز ميں يزيديت كا جنازہ نكالا اور اپنے عظيم بابا كا مقصد شھادت بيان كيا كہ كائنات كا ذرہ ذرہ بول اٹھا سيد سجاد (ع) ! تيري عظمتوں كا كيا كھنا۔
آپ واقعہ كربلا كے بعد ھر وقت گريہ كرتے رھتے۔اشكوں كا سيلاب تھا جو ركتا نھيں تھا۔ آنسو تھے كہ بھتے رھتے تھے، ھائے حسين عليہ السلام، ھائے ميرے عزيز جوانو، ھائے راہ حق ميں قربان ھو جانے والو! سجاد تمھاري بے نظير قربانيوں اور بے مثال وفاؤں كو سلام پيش كرتا ھے۔ آہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غم كا وہ كوہ گراں! جب تك يہ دنيا باقي ھے غم شبير سلامت رھے گا۔ ايك روز آپ كے ايك غلام نے پوچھ ھي ليا كہ آقا آخر كب تك روتے رھيں گے۔ اب تو صبر كيجيئے۔ اس نے خيال كيا تھا كہ امام (ع) شايد اپنے عزيزوں كو ياد كر كے روتے رھتے ھيں۔ آپ نے فرمايا تو كيا كھتا ھے؟ حضرت يعقوب (ع) كا ايك بيٹا يوسف (ع) ان كي نظروں سے اوجھل ھوا تھا كہ قرآن مجيد كے بقول:
"وابيضت عيناہ من الحزن" (سورہ یوسف /۸۴)
"كہ روتے روتے ان كي آنكھيں سفيد ھو گئي تھيں۔"
ميں نے اپني آنكھوں سے اٹھارہ يوسف تڑپتے ھوئے ديكھے ھيں۔ ميں كس طرح ان كو بھلادوں۔
سيرت آل محمد (عليهم السلام)مؤلف :شھید مطھرى)