نام ونسب
اسم گرامی : م ح م د
لقب : مھدی ، قائم ، حجت
کنیت : ابو القاسم
والد کا نام : حسن
والدہ کانام : نرجس خاتون
تاریخ ولادت : ۱۵ / شعبان ۲۵۵ھء
جائے ولادت : سامرا (عراق )
مدت امامت : ماشاء اللہ بھت زیادہ طولانی
عمر : اس وقت حضرت با حیات ھیں اور لوگوں کی نگاھوں سے پوشیدہ ۔جس وقت بھی خدا چاھے گا ظھور فرمائیںگے اور ظلم و جور سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے
القاب وخطابات
غالباً ائمہ معصومین میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے بعد سب سے زیادہ القاب امام مھدی علیہ السّلام کے ھیں جن میں زیادہ مشھور ذیل کے خطابات ھیں .
۱۔ المھدی
یہ ایک ایساخطاب ھے جو نام کاقائم مقام بن گیا ھے ۔ آپ کے وجود کے متعلق پیشین گوئیاں جو پیغمبر اکرم(ص)اور دیگر آئمہ معصومین علیھم السّلام کی زبان مبارک پر آئی ھیں وہ زیادہ تر اسی لفظ کے ساتھ ھیں اسی لئے آنے والے مھدی کا اقرار تقریباً ضروریاتِ اسلام میں داخل ھوگیا ھے جس میں اگر اختلاف ھوسکتا ھے تو اوصاف وحالات کے تعین میں لیکن اصل مھدی کے ظھورکا عقیدہ مسلمانوں میں ھر شخص کو رکھنا لازمی ھے .
مھدی کے معنی »ھدایت پائے ھوئے «کے ھیں , اسی لحاظ سے کہ »اصل ھادی ذات خالق ھے جس کے لحاظ سے خود پیغمبر سے خطاب کرکے قران کریم میں یہ آیت آتی ھے (انک لاتھدی من آج بت ولکن الله یھدی من یشاء ) تمھارے بس کی بات نھیں ھے کہ جس کو چاھو تم ھدایت کردو بلکہ الله جسے چاھتا ھے ھدایت کرتا ھے اور اسی کے اعتبار سے سورۂ الحمد میں بارگاہ الٰھی میں دعا کی گئی ھے : اھدنا الصراط المستقیم یعنی ھم کو سیدھے راستے پر لگا دے . اس فقرہ کو خود پیغمبر اور ائمہ معصومین بھی اپنی زبان پر جاری کرتے تھے اس لئےخداوند عالم کی ھدایت کے لحاظ سے ا ن رھنما یانِ دین کو مھدی کھناصحیح تھا جو صفت کے لحاظ سے سب ھی بزرگوار تھے اور خطاب کے لحاظ سے حضرت امام منتظر علیہ السّلام کے ساتھ مخصوص ھوگیا ۔
۲۔ القائم
یہ لقب ان احادیث سے ماخوذ ھے جن میں پیغمبر نے فرمایا ھے کہ »دنیا ختم نھیں ھوسکتی جب تک میری اولاد میں سے ایک شخص قائم ( کھڑا )نہ ھو جو دنیا کو عدل وانصاف سے بھردے .
۳۔صاحب الزمان
اس اعتبار سے کھا جاتا ھے کہ آپ ھمارے زمانے کے رھنمائے حقیقی ھیں ۔
۴۔ حجتِ خدا
ھرنبی اورامام اپنے دور میں خالق کی حجت ھوتا ھے جس کے ذریعہ ھدایت کی ذمہ داری جو الله پر ھے وہ پوری ھوتی ھے اور بندوں کے پاس کوتاھیوں کے جواز کی کوئی سند نھیں رھتی . چونکہ ھمارے زمانے میں رھنمائی خلق کی ذمہ داری حضرت کے ذریعے سے پوری ھوئی ھے اس لئے تاقیامِ قیامت آپ »حجت خدا « ھیں .
۵۔منتظر
چونکہ امام مھدی علیہ السّلام کے ظھور کی بشارتیں برابر رھنمایانِ دین دیتے رھے ھیں , یھاں تک کہ صرف مسلمانوں میں نھیں بلکہ دوسرے مذاھب میں بھی چاھے نام کوئی دوسرا ھو مگر ایک آنے والے کا آخر زمانہ میں انتظار ھے .ولادت کے قبل سے پیدائش کاانتظار رھا اور اب غیبت کے بعد ظھور کاانتظار ھے ا س لئے آپ خود حکم الٰھی کے منتظر ھوتے ھوئے تمام خلق کے لئے منتظر یعنی مرکز انتظار ھیں .
آپ کے دنیا میں آنے سے پھلے متواتر طریقہ سے پیغمبراسلام اور ائمہ معصومین علیہ السّلام کی زبانوں پر پیشن گوئیاں آتی رھی تھیں جن میں سے ھر معصوم کی صرف ایک خبر اس موقع پر درج کی جاتی ھے .
حضرت خاتم النبین محمد مصطفےٰ (ص)
اس معضوع پر حضرت کی زبان مبارک سے احادیث ا س کثرت سے وارد ھوئی ھیں کہ صحابی ومسانید ان سے معمور ھیں اور متعدد علمائے اھلسنت نے اُن کو مستقل تصانیف میں جمع کیا ھے جیسے حافظ محمد بن یوسف کنجی شافعی نے البیان فی اخبار صاحب الزمان میں،حافظ ابو نعیم اصفھانی نے ذکر » لغت المھدی میں ، اس کے علاوہ ابو داؤد سجستانی نے اپنی سنن میں جس کا صحاح ستہ میں شمارھوتا ھے کتاب»المھدی«کا مستقل عنوان قائم کیا ھے، اس طرح ترمذی نے صحیح میں اور ابن ماجہ قزوینی نے اپنی کتاب »سنن«میں اور حاکم نے »مستدرک « میں بھی ان احادیث کو وارد کیا ھے.
صرف ایک حدیث یھاں درج کی جاتی ھے جسے محمد بن ابراھیم حموی شافعی نے اپنی کتاب فرائد السمطین میں درج کیاھے , ابن عباس نے روایت کی ھے کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا :اناسیدالنبین وعلی سید الوصین وامااوصیائی بعدی اثناعشر اوّلھم علی وآخرھم المھدی .» میں انبیا کاسردار ھوں اور علی اوصیا کے سردار ھیں . میرے اوصیا (قائم مقام ) میرے بعد بارہ ھوں گے جن میں میں اوّل علی ھیں اور آخری »مھدی« ھوں گے ,, .
حضرت سیدة النساء فاطمہ سلام الله علیھا
کافی کلینی میں جابر بن اعبدالله انصاری کی روایت ھے کہ حضرت فاطمہ زھرا علیھا السّلام کے پاس ایک لوح تھی جس میں تمام اوصیائے ائمہ کے نام درج تھے , جناب سیّدہ علیھا السّلام نے ا س لوح سے بارہ اماموں کے ناموں کی خبر دی جن میں تین محمد اور چار علی , ان کاآخری فرد آپ کی اولاد میں سے وہ ذات ھے جو قائم ھوگا .
حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السّلام
جناب شیخ صدوق محمد بن علی بن بابویہ قمی نے » اکمال الدین,, میں امام رضا علیہ السّلام کی حدیث آپ کے آبائے طاھرین کے ذریعہ سے نقل کی ھے کہ جناب امیر علیہ السّلام نے ا پنے فرزند امام حسین علیہ السّلام کو مخاطب کرکے فرمایا : تمھاری نسل میں نواں وہ ھوگا جوحق کے ساتھ، قائم , دین کو ظاھر کرنے والااور عدل وانصاف کاپھیلانے
والاھوگا .
امام حسنِ مجتبیٰ علیہ السّلام
(صدوق اکمال الدین) میرے بھائی حسین کی نسل سے نواں جب پیدا ھوگا تو خدا وند عالم اس کی عمر کو غیبت کی حالت میں طولانی کرے گا پھر جب وقت آئے گا تو اسے اپنی قدرت کاملہ سے ظاھر کرے گا اور وہ زمین کو موت کے بعد زندگی عطا کرے گا -
سید الشھداء امام حسین علیہ السّلام
میری نسل سے نواں وہ امام ھے جو حق کے ساتھ قائم ھو گا - جس کے ذریعے دینِ حق کو تمام مذاھب پر غلبہ حاصل ھوگا اس کی ایک طولانی غیبت ھوگی جس میں بھت سے گمراہ ھوجائیں گے جنھیں ایذائیں برداشت کرنا پڑیں گی اور ان سے لوگ کھیں گے کہ اگر سچے ھو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ھوگا . جب وہ اس غیبت کے زمانہ میں اس اذیت اور انکار پر صبر کریں گےتو انھیں رسول کے ھمراہ رکاب جھاد کرنے کاثواب حاصل ھوگا .
امام زین العابدین علیہ السّلام
ھم میں سے قائم وہ ھوگا جس کی ولادت لوگوں سے پوشیدہ رھے گی . یھاں تک کہ عام لوگ کھیں گے وہ پیدا ھی نھیں ھوا .
امام محمد باقر علیہ السّلام
(کافی کلینی ) حسین کے بعد نو امام معیّن ھیں جن میں سے نواں امام قائم ھوگا .,,
امام جعفر صادق علیہ السّلام
علل الشرائع شیخ الصدوق میں روایت ھے کہ حضرت نے فرمایا کہ میرے موسی کی نسل سے پانچواں قائم ھوگا .
امام موسیٰ کاظم
(کمال الدین صدوق) کسی نے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سے کھا کہ کیا آپ قائم بحق ھیں؟ حضرت نے فرمایا کہ حق کے ساتھ قائم وبرقرار تومیں بھی ھوں مگر اصل میں قائم وہ ھوگا جو زمیں کو دشمنان خدا سے پاک کردے گا اور اسے عدل وانصاف سے مملو کردے گا وہ میری اولاد میں سے پانچواں شخص ھوگا . ا س کی ایک طولانی غیبت ھوگی جس میں بھت سے مرتد ھوجائیں گے اور کچہ ثابت قدم رھیں گے .
امام علی رضاعلیہ السلام
دعبل (رض) نے آپ کے سامنے جب اپنامشھور قصیدہ پڑھا اور اس میں ان دوشعروں تک پھنچے.
خروج الامام لامحالة قائم
زمانہ میں ظھور قائم آلِ عبا ھوگا
یبین لناکل حق وباطل
جھاں میں امتیازِ حق وباطل کو ظاھر کردے گا
یقوم علی اسم اللهوالبرکات
جوخدا کے نام وبرکت کی مد د سے کھڑا ھوگا
ویجزی علی النعما والنفمات
مومن وکافر کو وہ دے گا ھر کردار کا بدلہ
یہ سنتے ھی امام رضا علیہ السّلام نے گریہ فرمایا اور پھر سر اٹھا کر کھا کہ اے دعبل یہ شعر تمھاری زبان پر روح القدس نے جاری کرائے ھیں . تمھیں معلوم بھی ھے کہ یہ امام کون اور کب کھڑا ھوگا ? دعبل نے کھا کہ یہ تفصیلات تو مجھے معلوم نھیں مگریہ سنتا ھوں کہ آپ میں سے ایک امام ایساھوگا جو زمین کو فساد سے پاک اور عدل وانصاف سے مملو کردے گا . حضرت نے فرمایا کہ اے دعبل میرے بعد امام میرا فرزند محمد ھوگا . اور ا س کے بعد اس کا فرزند علی اور علی کے بعد اس کا بیٹا حسن اور حسن کے بعد اس کا بیٹا قائم ھوگا جس کی غیبت کے دور میں اس کاانتظار رھے گا اور ظھور کے موقع پر دنیا اس کے سامنے سر تسلیم خم کرے گی .
امام محمدتقی علیہ السّلام
قائم ھم میں سے وھی مھدی ھوگا جو میری نسل میں تیسرا ھوگا .
امام علی نقی علیہ السّلام
میرا جانشین میرے بعد میرا فرزند حسن ھے مگر اس کے جانشین کے دور میں تمھارا کیا عالم ھوگا ؟ سننے والوں نے پوچھا کہ کیوں؟ اس کا کیا مطلب ؟ فرمایا ا س کا مطلب یہ ھے کہ تمھیں اسے دیکھنے کا موقع نہ ملے گا ۔ ا س کے نام لینے کی اجازت نہ ھوگی , عرض کیا گیا پھر ان کا نام کس طرح لیا جائے گا ? فرمایا: بس یوں کھنا کہ »الحجة من آلِ محمد.,,
امام حسن عسکری علیہ السلام
آُپ سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ کے آبائے طاھرین نے فرمایا ھے کہ زمین حجت خد اسے قیامت تک کبھی خالی نھیں ھوسکتی? اور جو مرجائے اور اپنے امام زمانہ کی معرفت اسے حاصل نہ ھوئی ھو وہ جاھلیت کی موت دنیا سے گیا. آپ نے فرمایا کہ بیشک یہ اسی طرح حق ھے جس طرح روز روشن حق ھوتا ھے . عرض کیا پھر حضور کے بعد حجت اور امام کون ھوگا ? فرمایا جو پیغمبر خدا کاھمنام ھے، میرے بعد امام وحجت ھوگا . جو شخص ا س کی معرفت حاصل کئے ھوئے بغیر دنیا سے اٹھاوہ جاھلیت کی موت مرا . بیشک اس کی غیبت کا دور اتنا طولانی ھوگا جس میں جاھل لوگ حیران اور سرگرداں پھریں گے اور باطل پرست ھلاکت ابدی میں گرفتار ھونگے . وقت مقرر کرکے پشین گوئیاں کرنے والے غلط گو ھونگے .
ان تمام احادیث سے معلوم ھوا کہ پیغمبراسلام کے وقت سے لے کر برابر ھر دور میں ا س ذات کی خبردی جاتی رھی تھی جومھدی دین ھوگا بلکہ دعبل کی روایت سے ظاھر ھے کہ یہ امر اتنا مشھور تھا کہ شعراء تک اسے نظم کرتے تھے .ا س کے ساتھ ساتھ تواریخ پر نظر کرنے سے اندازہ ھوتا ھے کہ دوست ودشمن سب ان حدیثوں سے واقف تھے.یھاں تک کہ بسا اوقات ان سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے . چنانچہ سلسلہ عباسیہ میں سے جس کا نام محمد تھا اس نے اپنا لقب مھدی اسی لئے اختیار کیا اور نسل امام حسین علیہ السّلام سے عبدالله محض کے فرزند محمد کے متعلق بھی مھدی ھونے کا عقیدہ قائم کیا گیا اور کیسانیہ نے محمد بن حنفیہ کے متعلق یھی خیال ظاھر کیا مگر آئمہ اھلبیت علیہ السّلام میں سے ایک معصوم ھستی کا وقت پر وجود خود ان خیالات کی رد کے لئےکافی تھا اور یہ حضرات ان غلط دعویداروں کے غلط بتانے کے ساتھ ساتھ اصل مھدی کے اوصاف اوراس کی غیبت کاتذکرہ برابر کرتے رھے اس سے یہ حقیقت صاف ظاھر ھوگئی کہ اصل مھدی کی تشریف آوری کا انتظار متفقہ طور پر موجود تھا . اس کے ساتھ پیغمبر کی وہ حدیثیں بھی متواتر صورت سے موجود تھیں کہ میری اولاد میں میرے بارہ جانشین ھوں گے یہ تعداد خود ان غلط مدعیوں کے دعوے کے بطلان کے لئے کافی تھی لیکن اب امام حسن عسکری علیہ السّلام تک گیارہ کی تعداد ائمہ کی پوری ھوگئی تو دنیا بے چینی کے ساتھ اسی امام کی طلبگار ھوگئی جو اپنی پیدائش کے قبل بھی منتظر تھا اور پیدائش کے بعد بھی غیبت کی بناپر مصلحت الٰھی کے تقاضا تک منتظر رھنے والا تھا .
ولادت
وہ وقت جس کا مصومین علیھم السّلام کو انتظار تھا آخر کار آھی گیا اور پندرہ شعبان 255ھ کی رات کو سامرہ میں اس مبارک ومقدس بچے کی ولادت ھوئی . امام حسن عسکری علیہ السّلام نے اس موقع پر کافی مقدار میں روٹیاں اور گوشت راہ خدا میں صدقہ کرایا اور عقیقہ میں کئی بکروں کی قربانی فرمائی .
نشوونمااورتربیت
ائمہ اھل بیت میں یہ کوئی نئی بات نھیں تھی کہ ان کو ظاھری حیثیت سے تعلیم وتربیت کاموقع حاصل نہ ھوسکا ھو اور وہ بچپن ھی میں قدرت کی طرف سے انتظام خاص کے ساتھ کمالات کے جوھر سے آراستہ کرکے امامت کے درجہ پر فائز کر دیئے گئے ھوں۔ اس کی نظیریں حضرت»امامِ منتظر « کے پھلے بھی کئی مرتبہ سامنے آچکی تھیں جیسے آپ کے جد بزرگوار حضرت امام علی نقی علیہ السّلام جن کی عمر اپنے والد امام رضا کے انتقال کے وقت آٹھ برس سے زیادہ نہ تھی . ظاھر ھے کہ یہ مدت عام افراد کے لحاظ سے بظاھر اسباب نشوونما اور تعلیم وتربیت کے لئے ناکافی ھے مگر جب خالق کی مخصوص عطا کو ان حضرات کے بارے میں تسلیم کرلیا تو اب سات اور چھ اور پانچ برس کے فرق کا بھی کوئی سوال باقی نھیں رہ سکتا . اگر سات اور چھ برس کے سن میں امامت کامنصب حاصل ھوسکتا ھےجس کی نظیریں قبل کے اماموں کے یھاں دنیا کی آنکھوں کے سامنے آچکیں تو پانچ یاچار برس میں بھی یہ منصب اسی طرح حاصل ھوسکتا ھے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش بھی نھیں ھے .
بارھویں امام کو اپنے والد کی آغوش شفقت وتربیت سے بھت کم عمر میں جدا ھونا پڑا یعنی پندرہ شعبان 255ھ میں آپ کی ولادت ھوئی اور ربیع الاوّل 260ھ میں آپ کے والد بزرگوار حضرت حسن عسکری علیہ السّلام کی وفات ھوگئی . اس کے معنٰی یہ ھیں کہ آپ کی عمر اس وقت صرف ساڑھے چاربرس کی تھی اور اسی کمسنی میں آپ کے سرپر خالق کی طرف سے امامت کا تاج رکھ دیا گیا .
حکومت وقت کاتجسس
بالکل اسی طرح جیسے فرعون مصر نے یہ پیشن گوئی سن لی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ھونے والابچہ میرے ملک کی تباھی کا باعث ھوگا تو اس نے کوشش شروع کردی تھی کہ کسی طرح وہ بچہ پیدا ھی نہ ھونے پائے اور پیدا ھو تو زندہ نہ رھنے پائے اسی طرح متواتر احادیث کی بنا پر عباسی سلطنت کے فرمانروا کو یہ معلوم ھوچکا تھا کہ حسن عسکری علیہ السّلام کے یھاں اس مولود کی پیدائش ھوگی جس کے ذریعے باطل حکومتیں تباہ ھوجائیں گی تو اس کی طرف سے انتھائی شدت کے ساتھ انتظاما ت کیے گئے کہ ایسے مولود کی پیدائش کا امکان ھی باقی نہ رھے اسی لئے امام حسن عسکری علیہ السّلام کو مسلسل قیدوبند میں رکھا گیا مگر قدرت الٰھی کے سامنے کوئی بڑی سے بڑی مادی قوت بھی کامیاب نھیں ھوسکتی .
جس طرح فرعون کی تمام کوششوں کے باوجود موسیٰ علیہ السّلام پیدا ھوئے اسی طرح سلطنت عباسیہ کے تمام انتظامات کے باوجود»امام منتظر علیہ السّلام « کی ولادت ھوئی مگر یہ قدرت کا انتظام تھا کہ آپ کی پیدائش کو صیغئہ راز میں رکھا گیا اور جسے قدرت اپنا راز بنائے اس کے افشاء پر کون قادر ھوسکتا ھے ؟ بیشک ذرا دیر کے لئےخوداس کی مصلحت ا س کی متقاضی ھوئی کہ راز پر سے پردہ ھٹایا جائے جب امام حسن عسکری علیہ السّلام کاجنازہ غسل وکفن کے بعد نمازجنازہ کے لئے رکھا ھوا تھا، شعیانِ خاص کامجمع تھا اور نماز کے لئے صفیں بندھ چکی تھیں , امام حسن عسکری علیہ السّلام کے بھائی جعفر نماز جنازہ پڑھانے کے لئے آگے بڑھ چکے تھے اور تکبیر کھنا چاھتے تھے کہ ایک دفعہ حرم سرائے امامت سے ایک کم سن بچہ برآمد ھو اور بڑھتا ھواصفوں کے آگے پھنچا اور جعفر کی عبا کو ہاتھ میں لے کر کھا »چچا ! پیچھے ھٹئیے . اپنے باپ کی نماز جنازہ پڑھانے کا حق مجھے زیادہ ھے .,, جعفر بے ساختہ پیچھے ھٹے اور صاحبزادے نے آگے بڑھ کر نماز جنازہ پڑھائی . پھر صاحبزادہ حرم سرا میں واپس چلا گیا . غیر ممکن تھا کہ یہ خبر خلیفہ کو نہ پھنچی ھو اور اب زیادہ شدت وقوت کے ساتھ تلاش شروع ھوگئی کہ ان صاحبزادہ کو گرفتار کرے کے قید کردیا جائے اور ان کی زندگی کاخاتمہ کیا جائے .
غیبت
حضرت امام منتظر علیہ السّلام کی امامت کازمانہ اب تک دو غیبتوں میں تقسیم رھا ھے. ایک زمانہ »غیبت صغریٰ « اور دوسراََََََََََََََََََََََََََ «'غیبتِ کبریٰ « اس کی بھی خبر معصومین علیھم السّلام کی زبان پر پھلے آچکی تھی جیسے پیغمبر خدا(ص) کاارشاد ھے»اس کے لئے ایک غیبت ھوگی جس میں بھت سی جماعتیں گمراہ پھرتی رھیں گی ,, اور اس کی غیبت کے زمانہ میں اس کے اعتقاد پر برقرار رھنے والے ,, گو گرد سرخ « سے زیادہ نایاب ھوں گے .حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کا ارشاد ھے. قائم آل محمد کے لئے ایک طولانی غیبت ھوگی , میری آنکھوں کے سامنے پھر رھا ھے وہ منظر کہ دوستانِ اھلبیت اس کی غیبت کے زمانے میں سرگرداں پھر رھے ھیں جس طرح جانور چارہ گاہ کی تلاش میں سرگرداں پھرتے ھیں .
دوسری حدیث میں ھے کہ اس کا ظھور ایک ایسی غیبت اور حیرانی کے بعد ھوگا جس میں اپنے دین پرصرف بااخلاص اصحاب ھی قائم رہ سکیں گے . امام حسن علیہ السّلام کا قول »الله اس کی عمر کو اس کی غیبت کی حالت میں طولانی کرے گا ,, امام حسین علیہ السّلام کاارشاد»اس کی غیبت اتنی طولانی ھوگی کہ بھت سے گمراہ ھوجائیں گے ,, امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا .»مھدی ساتویں امام کی اولاد میں سے پانچواں ھوگا . اس کی ھستی تمہاری نظروں سے غائب رھے گی .,, دوسری حدیث میں ھیکہ صاحب الامر کے لئے ایک غیبت ھونے والی ھے . اس وقت ھر شخص کو لازم ھے کہ تقویٰ اختیار کرے اور اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رھے .,, امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام فرماتے ھیں »ا س کی صورت لوگوں کی نگاھوں سے غائب ھوگی مگر اس کی یاد اھل ایمان کے دلوں سے غائب نہ ھوگی , وہ ھمارے سلسلے کا بارھواں ھوگا .,, امام رضا علیہ السّلام فرماتے ھیں کہ ا س کی غیبت کے زمانہ میں اس کا انتظار رھے گا .,, امام محمد تقی فرماتے ھیں کہ مھدی وہ ھے جس کی غیبت کے زمانہ میں اس کاانتظار اور ظھور کے وقت اس کی اطاعت لازم ھو گی۔ امام علی نقی فرماتے ھیں کہ صاحب الامروہ ھوگا جس کے متعلق بھت سے لوگ کھتے ھوں گے کہ وہ ابھی پیدا ھی نھیں ھوا ۔ امام حسن عسکری علیہ السّلام فرماتے ھیں کہ .»میرے فرزند کی غیبت ایسی ھوگی کہ سوائے ان لوگوں کے جنھیں الله محفوظ رکھے سب شک وشبہ میں مبتلا ھوجائیں گے .,, اسی کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السّلام نے بھی یہ بتا دیا تھا کہ »قائم آلِ محمد کے لئے دو غیبتیں ھیں: ایک بھت طولانی اور ایک اس کی بہ نسبت مختصر .,, امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ ایک دوسرے کی بہ نسبت طولانی ھوگی .,, ان ھی احادیث کے پھلے سے موجود ھونے کا نتیجہ تھا کہ امام حسن عسکری علیہ السّلام کے بعد ان کے اصحاب اور مومنین مخلصین کسی شک وشبہ میں مبتلا نھیں ھوئے اور انھوں نے کسی حاضر الوقت مدعی امامت کو تسلیم کرنے کے بجائے امام غائب کے تصور کے سامنے سرتسلیم خم کردئے .
غیبت صغریٰ
پھلی غیبت کا دور 260ھ سے 329ھ تک انھتر سال قائم رھا . اس میں سفرائے خاص موجود تھے یعنی ایسے حضرات جن کو مخصوص طور پر امام علیہ السّلام کی جانب سے نائب بتایا گیا تھا کہ شیعوں کے مسائل امام تک پھنچائیں . ان کے جوابات حاصل کریں، اموال زکوٰة وخمس کو جمع کرکے انھیں مصارف خاصہ میں صرف کریں او جو قابل اعتماد اشخاص ھوں ان تک خود امام کی توقیعات کو بھی پھنچادیں ورنہ خودحضرت سے دریافت کرکے ان کے مسائل کا جواب دے دیں . یہ حضرات علم وتقویٰ اور رازداری میں اپنے زمانے کے سب
سے زیادہ ممتاز اشخاص تھے اس لئےان کو امام کی جانب سے اس خدمت کا اھل سمجھا
جاتا تھا , یہ حسبِ ذیل چار بزرگوار تھے
۱۔ ابو عمر عثمان بن سعید عمر عمری اسدی یہ پھلے امام علی نقی علیہ السّلام کے بھی سفیر رھے تھے پھر امام حسن عسکری علیہ السّلام کے زمانے میں بھی اس خدمت پر مامور رھے اور پھر حضرت امام منتظر علیہ السّلام کی جانب سے بھی سب سے پھلے اسی عھدہ پر یھی قائم رھے . چند سال ا سی خدمت کو انجام دے کر بغدادمیں انتقال کیا اور وھیں دفن ھوئے .
۲۔ ان کے فرزند ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری کو امام حسن عسکری علیہ السّلام نے ان کے منصب سفارت پر برقرار ھونے کی خبر دی . پھر ان کے والد نے اپنے وفات کے وقت بحکم امام علیہ السّلام ان کی نیابت کا اعلان کیا , جمادی الاوّل 305ھ میں بغداد میں وفات پائی .
۳۔ ابو القاسم حسین بن روح نوبختی . علم وحکمت،کلام ونجوم میں خاص امتیاز رکھتے ھوئے مشھور خاندان نوبختی کی یاد گار اورخود بڑے جلیل المرتبت پرھیز گار عالم تھے . ابو جعفر محمد بن عثمان نے اپنی وفات کے بعد امام علیہ السّلام کے حکم سے ان کو اپنا قائم مقام بنایا .پندرہ برس کے عھدہء سفارت انجام دینے کے بعد شعبان 320ھ میں ان کی وفات ھوئی ۔
۴۔ ابو الحسن علی بن محمد سمری(رض) یہ آخری نائب تھے . حسین بن روح(رض) کے بعد بحکم امام علیہ السّلام ان کے قائم مقام ھوئے اور صرف نو برس اس فریضہ کو انجام دینے کے بعد 15شعبان329ھ میں بغداد میں انتقال کیا . وقت آخر جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے بعد نائب کون ھوگا تو انھوں نے کھہ دیا کہ اب الله کی مشیت ایک دوسری صورت کاارادہ رکھتی ھے جس کی آخری مدت اسی کو معلوم ھے .
اب اس کے بعد کوئی نائب خاص باقی نہ رھا . اسی 329ھ کے اندوھناک سال میں اصول کافی کے مصنف ثقة الاسلام محمد بن یعقوب کلینی (رح) اور شیخ صدوق (رح) کے والد بزرگوار علی بن بابویہ قمی نے بھی انتقال فرمایا تھااور ان حوادث کے ساتھ غیرمعمولی طور پر یہ منظر دیکھنے میں آیا کہ آسمان پر ستارے اس کثرت سے ٹوٹ رھے ھیں کہ ا یک محشر معلوم ھوتا ھے اس لئے اس کا نام رکہ دیا گیا »عام ثناالنجوم« یعنی ستاروں کے انتشار کا بد سال .اس کے بعد اندھیرا چھا گیا .سخت اندھیرچھا گیا.سخت اندھیرا, یہ اس لئے کہ کوئی ایسا شخص سامنے نہ رھا جو امام علیہ السّلام کی خدمت میں پھنچنے کاوسیلہ ھو۔
غیبتِ کبریٰ
329ھ کے بعد کے زمانے کو »غیبت کبریٰ« کھتے ھیں . اس لئے کہ اب کوئی خاص نائب بھی باقی نھیں رھا تھا . اس دور کے لئے خود حضرت»امام عصر علیہ السّلام,,نے یہ ھدایت فرمادی تھی کہ »اس صورت میں دیکھنا جو لوگ ھماری احادیث پر مطلع ھوں اور ھمارے حلال وحرام یعنی مسائل سے واقف ھوں ان کی طرف رجوع کرنا .یہ ھماری جانب سے تمھارے اوپر حجت ھیں ,, اس حدیث کی بنا پر علمائے شیعہ اورمجتھدین کو "نائب امام « کھا جاتا ھے مگر یہ نیابت باعتبار صفات عمومی کی حیثیت سے ھے . خصوصی طور پر باعتبار نامزدگی نھیں ھے . یھی خاص فرق ھے ان میں اور نائبین میں جو »غیبت صغریٰ« کے زمانہ میں اس منصب پر فائز تھے . اس زمانہ میں بھی یقیناً امام علیہ السّلام ھدایت خلق اورحفاظت حق کافریضہ انجام دیتے ھیں اور ھماری کسی نہ کسی صورت سے رھنمائی فرماتے ھیں خواہ وہ ھمارے سامنے نہ ھوں اور ھمیں محسوس ومعلوم نہ ھو. یہ پردہ اس وقت تک رھے گا جب تک مصلحت الٰھی متقاضی ھے . اور جلدی ھی ایک ایسا آئے گا (خواہ وہ ھمیں کتنی ھی دور معلوم ھوتا ھو) یہ پردہ ھٹے گا اور امام علیہ السلام ظاھر ھوں گے اور دنیا کو عدل وانصاف سے معمور فرمائیں گے . اسی طرح جس طرح وہ اس سے پھلے ظلم وجور سے مملوھوچکی ھوگی ی
.اللھم عجل الله فرجہ وسھّل مخرجہ