نام ونسب
اسم گرامی : حسین (ع)
لقب : سید الشھداء
کنیت : ابو عبد اللہ
والد کا نام : علی (ع)
والدہ کا نام : فاطمہ زھرا (س)
تاریخ ولادت : ۳/ شعبان ۴ھ
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت : ۱۲ / سال
عمر : ۵۷/ سال
تاریخ شھادت :۱۰ / محرم الحرام ۶۱ھ
شھادت کا سبب: یزید ابن معاویہ کے حکم سے شھید کیے گئے
روضہ اقدس : کربلائے معلّیٰ
اولاد کی تعداد : ۴ / بیٹے اور ۲ / بیٹیاں
بیٹوں کے نام : (۱) علی اکبر (۲) علی اوسط (۳) جعفر (۴) عبد اللہ ( علی اصغر )
بیٹیوں کے نام : ( ۱)سکینہ (۲) فاطمہ
ولادت
ھجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ کی ولادت ھوئی . اس خوشخبری کو سن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے , بیٹے کو گود میں لیا , داھنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کھی اور اپنی زبان منھ میں دی . پیغمبر(ص) کا مقدس لعاب دھن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا . ساتویں دن عقیقہ کیا گیا . آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جارھی تھی مگر آنے والے حالات کاعلم پیغمبر(ص) کی آنکھوں سے آنسو بھا تھا . اور اسی وقت سے حسین علیہ السّلام کے مصائب کاچرچا اھلیبت رسول(ص) کے زبانوں پر آنے لگا ۔
نشو و نما
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں جو اسلام کی تربیت کاگھوارہ تھی اب دن بھردو بچّوں کی پرورش ھونے لگی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ھی گھوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رھے تھے . ایک طرف پیغمبر اسلام(ص) جن کی زندگی کا مقصد ھی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پھنچانے کے لیے ھی قدرت کی طرف سے پیدا ھوئی تھیں، اس نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ھوئی .
رسول(ص) کی محبت
جیسا کہ حضرت امام حسن علیہ السّلام کے حالات میں لکھا جاچکا ھے کہ حضرت محمد مصطفےٰ (ص)اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتھائی محبت فرماتے تھے ، سینہ پر بٹھاتے تھے ، کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھ خاص امتیاز رکھتے تھے .ایسا ھوا ھے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین پشت مبارک پرآگئے تو سجدہ میں طول دے دیا اور جب بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علیٰحدہ ھوگیا اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ھوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ھونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نے اپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ "دیکھو یہ حسین ھے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو " رسول(ص) نے حسین علیہ السّلام کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ "حسین مجھ سے اور میں حسین سے ھوں" ۔ مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیا میں حسین کی بدولت قائم رھیگا .
رسول(ص) کی وفات کے بعد
امام حسین علیہ السّلام کی عمر ابھی چھ سال ھی کی تھی جب انتھائی محبت کرنے والے نانا کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام کی خانہ نشینی کادور ھے .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوار حالات امام حسین علیہ السّلام دیکھتے رھے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا بھی مطالعہ فرماتے رھے . یہ وھی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا۔35ھ میں جب حسین کی عمر۳۱ برس کی تھی عام مسلمانوں نے حضرت علی ا بن ابی طالب علیھما السّلام کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین علیہ السّلام کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میں جمل، صفین اور نھروان کی جنگ ھوئی اور امام حسین علیہ السّلام ان میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ھوئے اور شجاعت کے جوھر بھی دکھلائے ۴۰ھ میں جناب امیر علیہ السّلام مسجد کوفہ میں شھید ھوئے اور اب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن علیہ السّلام کے سپرد ھوئیں جو حضرت امام حسین علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے .حسین علیہ السّلام نے ایک باوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن علیہ السّلام کاساتھ دیااور جب امام حسن علیہ السّلام نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکے معاویہ کے ساتہ صلح کرلی تو امام حسین علیہ السّلام بھی اس مصلحت پر راضی ھوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعت میں مصروف رھے مگر معاویہ نے ان شرائط کو جو امام حسن علیہ السّلام کے ساتھ ھوئے تھے بالکل پورا نہ کیا بلکہ امام حسن علیہ السّلام کو زھر کے ذریعہ شھید بھی کرا دیا- حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے شیعوں کو چن چن کے قید کیا گیا، سر قلم کئے گئے اور سولی پر چڑھایا گیا اور سب سے آخر میں اس شرط کے بالکل خلاف کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر کرنے کا حق نہ ھو گا معاویہ نے یزید کو اپنے بعد کے لئے ولی عھد بنا دیا ۔ تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی اور زور و زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکوا دیا گیا-
اخلاق و اوصاف
امام حسین علیہ السّلام سلسلہ امامت کی تیسری فرد اور عصمت و طھارت کا باقاعدہ مجسمہ تھے- آپ کی عبادت، آپ کے زھد، آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال اخلاق کے دوست و دشمن سب ھی قائل تھے- آپ نےپچیس حج پاپیادہ کئے- آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ھے- چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رھتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نھیں ھوتا تھا- اسی وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ھو گیاتھا- راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھے اور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارک پر پڑ گئے تھے- حضرت ھمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمھارے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمھارے ہاتھ بیچ ڈالی- اب تمھارا فرض یہ ھے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو،کم سے کم اپنی ھی عزتِ نفس کا خیال کرو-
غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپ انھیں آزاد کر دیتے تھے- آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ھوا تھا- مذھبی مسائل اور اھم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا- آپ کی دعاؤں کا ایک مجموعہ صحیفہ حسینیہ کے نام سے اس وقت بھی موجود ھے ۔ آپ رحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے- ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہ راستے میں چند مساکین بیٹھے ھوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رھے تھے اور آپ کو پکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو حضرت فوراً زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہ کھانے میں شرکت نھیں فرمائی اس بناء پر کہ صدقہ آلِ محمد پر حرام ھے مگر ان کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نھیں ھوا-
اس خاکساری کے باوجود آپ کی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماھوتے تھے لوگ نگاہ اٹھا کر بات بھی نھیں کرتے تھے - جو لوگ آپ کے خاندان کے مخالف تھے وہ بھی آپ کی بلندی مرتبہ کے قائل تھے- چنانچہ ایک مرتبہ حضرت امام حسین علیہ السّلام نے حاکم شام معاویہ کو ایک سخت خط لکھا جس میں اس کے اعمال و افعال اور سیاسی حرکات پر نکتہ چینی کی تھی ۔ اس خط کو پڑھ کر معاویہ کو بڑی تکلیف محسوس ھوئی- پاس بیٹھنے والے خوشامدیوں نے کہا کہ آپ بھی اتنا ھی سخت خط لکھئے- معاویہ نے کہا، میں جو کچھ لکھوں گا وہ اگر غلط ھو تو اس سے کوئی نتیجہ نھیں اور اگر صحیح لکھنا چاھوں تو بخدا حسین میں مجھے ڈھونڈنے سے بھی کوئی عیب نھیں ملتا-
آپ کی اخلاقی جراَت ، راست بازی اور راست کرداری ، قوتِ اقدام، جوش عمل اور ثبات و استقلال ، صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ھیں- ان سب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کی کوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی مگر جو صحیح راستہ پہلے دن اختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ھٹے- آپ نے بحیثیت ایک سردار کے کربلا میں ایک پوری جماعت کی قیادت کی اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بے مثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی-
واقعہ کربلا
حضرت امام حسن علیہ السّلام اور حاکم شام معاویہ بن ابوسفیان میں جو صلح ھوئی تھی اس کی ایک خاص اھم شرط یہ تھی کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی جانشین کے مقرر کرنے کا حق نہ ھو گا مگر سب شرطوں کو عملی طور سے پائمال کرتے ھوئے معاویہ نے اس شرط کی بھی نھایت شدت کے ساتھ مخالفت کی اور اپنے بیٹے یزید کو اپنے بعد کے لئے نہ فقط نامزد کردیا بلکہ اپنی زندگی ھی میں ممالک اسلامیہ کا دورہ کر کے بحیثیت خلیفہ یزید کی بیعت بھی حاصل کر لی- اس وقت حضرت امام حسین علیہ السّلام نے بیعت سے انکار فرما دیا- حاکم شام نے آپ کو موافق بنانے میں ھر طرح کی کوشش کی مگر نتیجہ ناکامیابی ھوئی نہ صرف یہ کہ اصولی طور پر یزید کی خلافت ناجائز تھی بلکہ وہ اپنے اخلاق , اوصاف اور کردار کے لحاظ سے اتنا پست تھا کہ تختِ سلطنت پر اس کا برقرار رھنا اسلامی شریعت کے لئے سخت خطرے کا باعث تھا- شراب و جوا, بدکار اور ایسے اخلاقی جرائم کا مرتکب تھا جن کا ذکر بھی تھذیب اور شائستگی کے خلاف ھے- اس پر طرہ یہ کہ وہ حضرت امام حسین علیہ السّلام سے بیعت لینے پر مصر تھا گویا وہ اپنے غیر شرعی افعال کی صحت کے لئے پیغمبر اسلام کے نواسے سے سند حاصل کرنا چاھتا تھا-
معاویہ کے مرنے کے بعد جب یزید تخت پر بیٹھا تو سب سے پہلی فکر اس کو یھی ھوئی کہ حضرت امام حسین علیہ السّلام سے بیعت حاصل کی جائے- اس نے اپنے گورنر کو جو مدینہ میں تھا معاویہ کی خبر انتقال کے ساتھ بیعت کے لئے بھی لکھا ولید نے جو مدینہ کا گورنر تھا امام حسین علیہ السّلام کوبلا کر یزید کا پیغام پہنچایا- آپ پہلے ھی سے یہ طے کئے ھوئے تھے کہ یزید کی بیعت آپ کے لئے ھرگز ممکن نھیں ھے- بیعت نہ کرنے کی صورت میں جو نتائج ھوں گے انھیں بھی خوب جانتے تھے مگر دین خدا کی حفاظت اورشریعت اسلام کی خاطر آپ کو سب گوارا تھا- آپ ولید کو مناسب جواب دے کر اپنے مکان پر واپس آگئے- اس کے بعد مدینہ میں قیام کو نامناسب خیال فرما کر ھجرت کا مضبوط ارادہ کر لیا-
60ھ رجب کا مھینہ 28تاریخ تھی جب حضرت اپنے نانا کا جوار چھوڑ کر ظالموں کے جو روستم سے سفر غربت اختیار کرنے پر مجبور ھوئے- مکہ معظمہ عرب کے بین الاقوامی قانون اور پھر اسلامی تعلیمات کی روسے جائے پناہ اور امن و امان کی جگہ تھی- آپ نے مکہ میں ایک پناہ گزیں کی حیثیت سے قیام فرمایا آپ کے ساتھ آپ کے قریبی اعزہ بھی تھے جن میں خاندانِ رسول کی محترم بیبیاں اور کمسن بچے تھے - آپ اپنی طرف سے کسی خونریزی اور جنگ کا ارادہ نھیں رکھتے تھے- حج کا زمانہ بھی قریب تھا اور حضرت علیہ السّلام کی دلی تمنا بھی تھی کہ اس سال خانہ کعبہ کا حج ضرور فرمائیں جبکہ آپ مکہ ھی میں موجود تھے مگر ایسے اسباب پیدا ھوئے کہ وہ بزرگوار جو اس کے پھلے پچیس حج خانہ کعبہ کے اپنے وطن مدینہ سے آ کر پاپیادہ بجا لا چکا تھا اس وقت مکہ میں موجود ھونے پر بھی حج کرنے سے مجبور ھو گیا- شام کی ظالم حکومت طرف سے کچھ لوگ حاجیوں کے لباس میں بھیجے گئے کہ وہ جس حالت میں بھی موقع ملے حضرت امام حسین علیہ السّلام کو خانہ کعبہ کے پاس ھی قتل کر ڈالیں-
حضرت نہیں چاھتے تھے کہ آپ کی وجہ سے مکہ کے اندر خونریزی ھو اور خانہ کعبہ کی حرمت برباد ھو- دو روز حج کو باقی تھے جب آپ تمام اھل و عیال اور اعزہ کے ساتھ مکہ معظمہ سے روانہ ھو گئے- اب آپ کہاں جاتے- کوفہ کے لوگ برابر خط بھیج رھے تھے کہ آپ یھاں تشریف لائیں اور ھماری مذھبی رھنمائی فرمائیں جبکہ آپ مکہ سے نکلنے پر مجبور ھو چکے تھے تو اب کوفہ ھی وہ مقام ھو سکتا تھا جس کی طرف آپ رخ کرتے- یھاں کے حالات کو دیکھنے کے لئے آپ اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل علیہ السّلام کو بھیج چکے تھے- 8 ذی الحجہ کو حضرت مکہ معظمہ سے کوفہ کے ارادے سے روانہ ھوئے مگر یھی وہ وقت تھا جب کوفہ میں انقلاب برپا ھو چکا تھا- شروع میں تو کوفہ کے لوگوں نے حضرت مسلم علیہ السّلام کا خیر مقدم کیا اور ۱۸ھزار آدمیوں نے بیعت کی مگر جب یزید کو اس کی اطلاع ھوئی تو اس نے حاکمِ کوفہ نعمان ابن بشیر کو معزول کیا اور ابن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا-
یہ شخص بڑا ھی ظالم اور تشدد پسند تھا- اس نے کوفہ میں آ کر بڑے سخت احکام نافذ کئے اور تمام اھل کوفہ پر خوف و دھشت طاری ھو گئی- سب نے جناب مسلم کا ساتھ چھوڑ دیا اور آخر تن تنھا ھزاروں کا مقابلہ کرنے کے بعد بڑی مظلومی اور بے کسی کے ساتھ ۹ ۔۔ذی الحجہ کو جناب مسلم شھید کر ڈالے گئے- حضرت امام حسین علیہ السّلام عراق کے راستے میں منزل زبالہ میں تھے جب آپ کو مسلم علیہ السّلام کی خبر شھادت معلوم ھوئی اس کا حضرت پر بڑا اثر پڑا مگر عزم و استقلال میں ذرہ برابر فرق نہ آیا- واپسی کا بھی کوئی موقع نہ تھا - سفر جاری رھا- یھاں تک کہ ذوحسم کی منزل میں ابن زیاد کی فوج میں سے ایک ھزار کا لشکر حر بن یزید ریاحی کی سرداری میں آپ کا راستہ روکنے کے لئے پھنچ گیا- یہ دشمن کی فوج تھی مگر حضرت امام حسین علیہ السّلام نے ان کے ساتھ رحم و کرم کا وہ مظاھرہ فرمایا جو دنیائے انسانیت میں یادگار رھے گا- تمام فوج کو پیاسا دیکھ کر جتنا پانی ساتھ تھا وہ سب پلا دیا اور ان بے آب راستوں میں اپنے اھل حرم اور بچوں کی پیاس کے لحاظ سے پانی کا کوئی ذخیرہ محفوظ نہ رکھا- اس کے بعد بھی یزیدی فوج نے اپنے حاکم کی ھدایت کے موافق آپ کے ساتھ تشدد اختیار کیا- آپ کو آگے بڑھنے یا واپس جانے سے روک دیا- اپ 61ھ کا پہلا مھینہ شروع ھو گیا تھا- دوسری محرم کو حضرت کربلا کی زمین پر پھنچے اور یھیں اترنے پر مجبور ھو گئے- دوسرے دن سے یزید کا ٹڈی دل لشکر کربلا کے میدان میں آنا شروع ھو گیا اور تمام راستے بند کر دیئے گئے-
امام حسین علیہ السّلام کے ساتھ صرف 72جانباز تھے اور ادھر ھزاروں کا لشکر۔ پہلے سات دن تک امن قائم رکھنے کے لئے کوشش ھوتی رھی ۔ حضرت یھاں تک تیار ھوئے کہ عرب کا ملک چھوڑ دیں- کسی دور دراز زمین پر چلے جائیں اور اس طرح اپنے آپ کو بیعت یزید سے الگ رکھتے ھوئے بھی ایسی صورت پیدا کر دیں کہ جنگ کی ضرورت پیش نہ آئے- مگر نویں محرم کی سہ پھر کو صلح کے امکانات ختم ھو گئے- ابن زیاد کے اس خط سے جو شمر کے ھاتھ ابن سعد کے پاس بھیجا گیا اس میں لکھا تھا » یا حسین غیر مشروط طور پر اطاعت قبو ل کریں یا ان سے جنگ کی جائے-« اس خط کے پھنچتے ھی یزیدی فوج نے حملہ کر دیا-
باوجود یہ کہ ساتویں سے پانی بند ھو چکا تھا امام حسین علیہ السّلام کے سامنے ان کے اھل حرم اور چھوٹے بچوں کی بے تابی کے مناظر, العطش کی صدائیں اور مستقبل کے حالات سب ھی کچھ تھے مگر یزید کی بیعت اب بھی اسی طرح غیر ممکن تھی جس طرح اس کے پھلے ۔ بے شک آپ نے یہ چاھا کہ ایک رات کی مھلت مل جائے- آپ چاھتے تھے کہ یہ پوری رات آخری طور پر عبادت خدا میں بسر کریں- اس کے علاوہ دوست و دشمن دونوں کو جنگ کا قطعی فیصلہ ھو جانے کے بعد اپنے اپنے طرز عمل پر غور کرنے کا موقع مل جائے- آپ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے تقریر بھی فرمائی- آپ نے فرمایا »کل قربانی کا دن ھے ان ظالموں کو مجھ سے دشمنی ھے, کیا ضرورت ھے کہ تم لوگ بھی اپنی زندگی کو میرے ساتھ خطرے میں ڈالو, میں تم سے اپنی بیعت اٹھائے لیتا ھوں- اس رات کے پردے میں جدھر چاھو چلے جاؤ-« مگر ان جانبازوں نے ایک زبان ھو کر کھا کہ »ھم آپ کا ساتھ کبھی نھیں چھوڑیں گے-«
عاشورہ کی رات ختم ھوئی- دسویں محرم کو صبح سے عصر تک کی مدت میں ان بھادروں نے جو کچھ کہا تھا اسے کر کے دکھایا- اس وفاداری , استقلال اور بھادری کے ساتھ حضرت امام حسین علیہ السّلام کی نصرت میں دشمنوں سے مقابلہ کیا جو تاریخ میں یادگار رھے گا- ان میں حبیب ابن مظاھر, مسلم بن عوسجہ , سوید ابن عمرو, انس بن حارث اور عبدالرحمن ابن عبدالرب ایسے ساٹھ ستر اور اسی برس کے بوڑھے تھے اور متعدد اصحاب رسول بھی تھے- بریر ھمدانی، کنانہ ابن عتیق تغلبی, نافع ابن ھلال, حنظلہ ابن اسعد جیسے حافظ قرآن تھے اور بھت سے علماء اور راویا ن حدیث, بھت سے عابدِ شب زندہ دار اور بھت سے ایسے شجاعانِ روزگار تھے جن کی شجاعت کے کارنامے لوگوں کی زبان پر تھے-
جب مددگاروں میں کوئی باقی نہ رھا تو عزیزوں کی نوبت آئی- سب سے پھلے حضرت نے جوان بیٹے علی اکبرکو جو شبیہ پیغمبر بھی تھے مرنے کے لئے بھیج دیا۔ علی اکبر نے جھاد کر کے اپنی جان دین خدا پر نثار کی- امام حسین علیہ السلام کو شبیہ رسول کی جدائی کا صدمہ تو بھت ھوا مگر عمل کے راستے میں آپ کی ھمت کے حوصلے اور ولولے میں کوئی فرق نھیں آیا- عقیل کی اولاد عبداللہ ابن جعفر کے فرزند ایک ایک کر کے رخصت ھوئے- امام حسن علیہ السّلام کے یتیم فرزند قاسم کی جدائی آپ کو شاق ھوئی مگر اپنے بزرگ مرتبہ بھائی کی وصیت کو پورا کرتے ھوئے قاسم کو بھی رخصت کر دیا-
سب سے آخر میں فرزندان امیر المومنین علیہ السّلام میدان جھاد میں گئے - جب کوئی نہ رھا تو علمدار فوج کی باری آئی- قمر بنی ھاشم ابوالفضل العباس علیہ السّلام کو حضرت کسی طرح اجازت جھاد نہ دیتے تھے کیونکہ ان کے کاندھوں پر اسلام کا علم لھرا رھا تھا- مگر ایک طرف بچوں کی پیاس, دوسری طرف جوش جھاد, عباس پانی لینے کے لئے ایک مشک اپنے ساتھ لے کر فرات کی جانب بڑھے- انھوں نے علم کی حفاظت بھی کی- دشمنوں سے مقابلہ بھی کیا- فوج کو ھٹا کر نھر کا راستہ بھی صاف کیا اور مشک میں پانی بھی بھر لیا مگر افسوس کہ یہ پانی خیام حسینی تک پھنچنے بھی نھیں پایا تھا کہ بھادر عملدار کے شانے قلم ھوگئے- مشک تیر سے چھدی اور پانی زمین پر بھا- عباس کی قوت ختم ھو گئی-گرز کے صدمے سے زمین کی طرف جھکے اور علم عباس کے ساتھ زمین پرآ گیا- حسین کی کمر شکستہ ھو گئی- پشت جھک گئی مگر ھمت پھر بھی نھیں ٹوٹی- اب جھاد کے میدان میں حسین کے سوا کوئی نظر نہ آتا تھا مگر فھرست شھداء میں ابھی ایک بے مثال مجاھد کا نام باقی تھا جس کا جواب قربانی کی تاریخ میں نہ پھلے نظر آیا نہ بعد میں نظر آ سکتاھے- یہ چھ مھینے کا بچہ علی اصغر تھا جو گہوارہ میں پیاس سے جاں بلب تھا- حسین در خیمہ پر تشریف لائے اور اس بچہ کو طلب فرمایا - بچہ کی عطش اور اس کی حالت کا مشاھدہ فرمایا- یقینایہ منظر ھر حساس انسان کو متاثر کرنے کے لئے کافی تھا مگر کیسے بے رحم تھے وہ سخت دل فوج شام کے سپاھی جنھوں نے حسین کے ھاتھوں پر اس معصوم بچے کو دیکھ کر بجائے اس کے کہ رحم کھاتے بچے کو ایک قطرہ آب سے سیراب کرتے ظلم اور شقاوت کو انتھائی حد تک پہنچا دیا- سخت دل حرملہ کا تیر اور بچہ کا نازک گلا-
امام حسین علیہ السّلام نے یہ آخری ھدیہ بھی بارگاہ الھٰی میں پیش کردیا تو خود بہ نفس نفیس میدان جھاد میں قدم رکھا اور باوجود اس بے کسی اور شکستگی کے جب کہ تین دن کے بھوکے اور پیاسے تھے دن بھر اصحاب و اعزہ کی لاشیں اٹھائی تھیں اور اکھتر داغ سینہ پر کھا چکے تھے بھائی کے غم سے کمر شکستہ تھی اور اولاد کے داغ سے کلیجہ زخمی ھو گیا تھا مگر جب نصرتِ اسلام کے لئے تلوار نیام سے نکالی تو دنیا کو حمزہ علیہ السّلام اور جعفر علیہ السّلام کی شان اور حیدر صفدر علیہ السّلام کی شجاعت یاددلا دی- آخر قربانی کی منزل سامنے آ گئی- دشمنوں کی تلواریں، نیزے اور تیر اور وہ مقدس جسم، زخموں کی کثرت, خون کے بھنے سے گھوڑے پر سنبھلنے کی طاقت نہ رھی- دشمنوں نے ایذا رسانی کی کوئی حرمت باقی نہ رکھی ۔ شمر کا خنجر فرزندِ رسول کے گلے پر کیا پھرا گویا رسول کا سر قلم ھوا اور نام نھاد کلمہ اسلام پڑھنے والوں نے پیغمبر اسلام کے نواسے کا سر نیزہ پر بلند کیا- اتنا ھی نھیں بلکہ خیموں میں آگ لگا دی۔ خانوادۂ عصمت کی مقدس بیبیوں کے سروں سے چادریں اتاری گئیں- شھیدوں کی لاشیں گھوڑوں کے سموں سے پامال کی گئیں-
امام حسین علیہ السّلام کے بعد مردوں میں صرف ایک بیمار فرزند سید سجاد علیہ السّلام باقی تھے جنھیں طوق و زنجیر پہنایا گیا اور بیبیوں اور بچوں کے ساتھ قید کر کے شھر بشھر پھرایا گیا، کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام قیدیوں کی صورت سے لے جائے گئے، ابن زیاد اور یزید کے درباروں میں کھڑے کئے گئے -
ان نام نھاد مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کے فرزند کو دفن و کفن سے بھی محروم رکھا تھا مگر آس پاس کے رھنے والے قبیلہ بنی اسد کے لوگوں نے ظالم فوج کے چلے جانے کے بعد بارہ محرم کو یعنی شھادت سے تیسرے دن دفن کیا-
آ ج کربلائے معلی میں امام حسین علیہ السّلام کا روضہ انتھائی شان و شوکت کے ساتھ تمام دنیا کے لوگوں کا مرکز بنا ھوا ھے اور حسین کے نام کاتعزیہ اور ضریح اور علم اور مختلف مظاھرات دنیا کے ھر گوشے میں نظر آتے ھیں- حسین دنیا میں باقی ھیں اور حسین کی بدولت اسلام باقی ھے اور اسی طرح صداقت و استقلال اور حق پرستی کے لئے امام حسین علیہ السّلام کا اسوۂ حسنہ تاریخ انسانیت میں بے مثال حیثیت سے باقی ھے اور ھمیشہ باقی رھے گا-
اگر واقعہ کربلا سے دنیا صحیح سبق حاصل کرے اور سید الشھداء نے کربلا میں جو بے نظیر نمونہ پیش کیا ھے اس پر عمل پیرا ھونے کی کوشش بھی جاری رھے تو زندگی کے آثار نمایاں ھو جائیں-
ھم میں کیا کمی ھے؟ یھی ھے کہ بلند مقاصد کے سامنے اپنے وقتی مفادات، اپنی راحت و آرام, انپی زندگی , اپنی قرابتوں اور اپنے اھل و عیال اور اولاد نہ جانے کتنی رو پہلی سنھری مصلحتوں کا لحاظ کرتے ھیں-
امام حسین علیہ السّلام نے یہ مثال پیش کی ھے کہ تم بلند مقاصد کے لئے ھر چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار رھو, مبارک ھوں گے وہ افراد جو اس سے سبق حاصل کریں اور اپنے عملی حیثیت سے ویسا ھی پیش کریں جیساامام حسین علیہ السّلام دنیا کو بنانا چاھتے تھے-