www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

۱۔ وہ چیزجو خود اپنے وجود کے لئے تیری محتاج ھے، تیرے وجود کے لئے کس طرح دلیل ھو سکتی ھے؟

کیا تیری ذات سے بڑہ کر بھی کوئی آشکار چیز ھو سکتی ھے کہ جو تجھے آشکار کرے؟تو کب پوشیدہ ھے کہ مجھے ڈھونڈھنے کے لئے اس دلیل کی ضرورت پڑے جو مجھ پر دلالت کرے ؟ اور اب تو کب دور ھے کہ تیرے آثار کے ذریعے مجھ تک پھونچائے ؟ نابینا ھو جائے وہ آنکہ جو تجھے اپنی طرف ناظر نہ سمجھے ۔ (۱)
۲۔جس نے تجھے پا لیا اس نے کیا کھویا، اور جس نے تجھے کھودیا اس نے کیا پایا؟ جو انسان تیرے علاوہ کسی اور چیز کو دوست رکھتا ھو اور اسی پر راضی وخوشنود ھو، وہ یقینا گھاٹے میں ھے۔(۲)
۳۔ جو لوگ خدا کی خوشنودی کو بندوں کی رضایت کے بدلے خریدتے ھیں، وہ کبھی کامیاب نہ ھوں گے۔(۳)
۴۔ روز قیامت کسی بھی شخص کے لئے امان نھیں ھے مگر وہ شخص کہ جو باتقویٰ ھو۔(۴)
۵۔خداوند عالم فرماتا ھے: مومن مردو وعورت ایک دوسرے کے ساتھی ھیں، جو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرتے ھیں۔
خدا وند عالم نے سب سے پھلے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کو ایک فریضے کے طور پربیان کیا ھے، اس لئے کہ وہ یہ جانتا ھے کہ اگر یہ فرائض انجام پا جائیں تو دوسرے تمام وظائف بھی خواہ وہ سخت ھوں یا آسان، انجام پا ھی جائیں گے۔ کیونکہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکردین اسلام کی تبلیغ کا ایک بھترین ذریعہ ھے، جومظلوموں کو، ظالموں کے مقابلہ میں اپنا حق لینے کے لئے اکساتا رھتاھے۔(۵)
۶۔ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! جو شخص ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ جو حرام خدا کو حلال کررھا ھے، خداوند عالم کے حکم کی خلاف ورزی کررھا ھے، الله کے رسول کے لائے ھوئے قوانین کی مخالفت کررھا ھے، بندگان کے درمیان ظلم وستم، معصیت ونافرمانی اور دشمنی کا بازار گرم کئے ھوئے ھے، اور وہ شخص اپنے فعل و عمل کے ذریعہ اس کی مخالفت نہ کرے، تو خداوند عالم پر لازم ھے کہ اس شخص کا ٹھکانہ بھی اسی ظالم کے ساتھ قرار دے۔ (۶)
۷۔ لوگ دنیاکے غلام ھیں، اور دین کو اپنی زندگی کے وسائل فراھم کرنے کے لئے ایک لعاب کے طور پر استعمال کرتے ھیں،جو ان کی زبانوں سے چمٹا ھوا ھے۔ لیکن جب آزمائش وامتحان کا وقت آجاتا ھے تو دیندار لوگ کم یاب ھو جاتے ھیں۔(۷)
۸۔ جوشخص گناھوں کے ذریعہ اپنے مقصد تک پھونچنا چاھتا ھے، اس کی آرزوئیں بھت دیر سے پوری ھوتی ھیں، اور جس چیز سے ڈرتا ھے سب سے پھلے اسی میں گرفتار ھوجاتا ھے۔ (۸)
۹۔ کیا تم نھیں دیکہ رھے ھو کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کیا جا رھا ھے، اور کوئی باطل کا مقابلہ کرنے والا نھیں؟ لھٰذا ایسے میںمومن اگر حق پر ھے تو اس کو چاھئے کہ خدا سے ملاقات کی تمنا کرے۔ (۹)
۱۰۔ موت سے بڑہ کر میرے لئے کوئی سعادت نھیں ھے، ستمگروں اورظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے بڑھ کر میرے لئے کوئی عذاب نھیں ھے۔ (۱۰)

۱۱۔ تمھاری مصیبتیں وپریشانیاں تمام لوگوں سے زیادہ اس لئے ھیں کہ دانشمندوں کا عھدہ ( اگر تم سمجھتے ھو یا بالفرض اگر تمھارے اندر اس کی لیاقت ھے تو) تمھارے ھاتھوں سے لے لیا گیا ھے۔
یہ مصیبتیں وپریشانیاںاس وجہ سے ھیں چونکہ حل وعقد امور اور نفاذ احکام الٰھی ان خدا شناس دانشمندوں کے ھاتھ میں ھونا چاھئے جو حلال وحرام الٰھی کے امین ھیں۔
لیکن یہ مقام ومنزلت تم سے اس لئے لے لیا گیا ھے کہ تم نے حق سے کنارہ کشی اختیار کی،واضح اور آشکار دلیلوں کے باوجود تم نے سنت پیغمبر(ص) میں اختلاف پیدا کردیا۔ اگرتم ان آزار واذیت کے مقابلہ میں صبر سے کام لیتے اور ان مصیبتوں اور سختیوں کو خدا کی راہ میں قبول کر لیتے تو تمام امور الٰھی کی باگڈور تمھارے ھاتھوں میں تھما دی جاتی اور اس کا مرجع و مآخد تم ھی قرار پاتے۔ لیکن تم نے ظالموں اور ستمگروں کواپنے اوپر مسلط کرلیا اور تمام امور الٰھی کی باگڈور ان کے ھاتھ میں تھما دی جب کہ وہ شبھات پر عمل کرتے ھیں اور شھوت وھوس رانی کو اپنا پیشہ بنائے ھوئے ھیں، تمھاراموت سے فرار اور اس ناپائدار زندگی پر راضی ھونا،ھی ستمگاروں کی قدرت طلبی کا باعث بنا ھے۔ (۱۱)
۱۲۔ خداوندا ! تو گواہ رھنا کہ ھم نے جو کچہ انجام دیا ھے نہ مقام ومنزلت حاصل کرنے کے لئے انجام دیا ھے اور نہ ھی دنیا کی پست اور بیکار چیزوں کے حاصل کرنے کے لئے۔ ھم نے جو کچہ انجام دیاصرف اس لئے تاکہ لوگ تیرے دین کی نشانیوں کو سمجھیں، اور تیرے شھروں میں بسنے والے بندوں کو مفاسد سے روکیں ، تاکہ تیرے مظلوم بندے امن وامان میں رھیں اور تیرے احکام کی پابندی کرسکیں۔ ( ۱۲)
۱۳۔ حق یہ ھے کہ میں بے مقصد ایک باغی، ظالم اورستمگرکی حیثیت سے قیام نھیںکر رھاھوں، بلکہ میں نے اپنے جد محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی امت کی اصلاح کے لئے قیام کیا ھے ، میں چاھتا ھوں کہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر انجام دوں ، اوراپنے جد محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور اپنے بابا علی مرتضی علیہ السلام کی روش پر گامزن رھوں۔ (۱۳)
۱۴۔ اگر دنیا کو باارزش سمجھ لیا جائے تو جان لو کہ منزل آخرت اور خداوند عالم کی جانب سے ملنے والا ثواب اس سے کھیں زیادہ ارزشمند اور بھتر ھے۔
انسان اگر مرنے کے لئے ھی پیدا کیا گیا ھے تو خدا کی قسم شھادت سے بڑہ کر کوئی اور موت بھتر نھیں ھوسکتی۔
جب انسان کا رزق معین ھو چکا ھے تو انسان کے لئے بھتر یھی ھے کہ وہ رزق و روزی کی طلب میںحرص سے کام نہ لے ۔
اگر مال کو جمع کرنے کا مقصد اس کو ترک کرنا ھی ھے تو پھر کیوںایک آزاد انسان ان چیزوں کے سلسلہ میں بخل سے کام لیتا ھے کہ جو باقی رھنے نھیں والی ھیں۔ (۱۴)
۱۵۔ای آل ابی سفیان تم پر وائے ھو! اگر تمھارا کوئی دین نھیں ھے اور اگر معاد اور روز قیامت کا تمھیں کوئی خوف نھیںھے تو کم از کم دنیا میں ھی آزاد اور جوانمردانسان بن کر زندگی گزارو۔ (۱۵)
۱۶۔ کچہ لوگ حرص ولالچ کی بنا پر خدا کی عبادت کرتے ھیں، یہ سودا گروں کی عبادت ھے۔
کچہ لوگ ڈر اور خوف کی وجہ سے خدا کی عبادت کرتے ھیں، یہ غلاموں کی عبادت ھے۔
کچہ لوگ خدا وندعالم کا شکر بجا لانے کے لئے اس کی عبادت کرتے ھیں،یہ عبادت سب سے بھترین اور آزاد مردوں کی عبادت ھے۔ (۱۶)

۱۷۔ آگاہ ھو جاؤ! لوگوں کا تمھارے پاس اپنی حاجتوں کا لے کر آنا، یہ خداوند عالم کی بھترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ھے۔ لھٰذا اس نعمت سے غافل نہ رھو، کھیں ایسا نہ ھو کہ یہ نعمت تمھارے پاس سے پلٹ کر کسی اور کے پاس چلی جائے۔(۱۷)
۱۸۔ ای لوگو!ان ملامت وسرزنش سے عبرت حاصل کرو جو خدا وند نے علماء یھود کو پند ونصیحت کے طور پر کی تھیں۔جب خداوند عالم فرمایا: ”علمائے یھود نے اھل یھود کو گناہ آلود باتوں سے کیوں نھیں روکا ؟“ اور ارشاد فرماتا ھے: ”گروہ بنی اسرائیل سے وہ لوگ جو کافر ھوگئے،(جناب داؤد اور جناب عیسیٰ کی زبان پر)ملعون قرار پائے۔“ یھاں تک کہ ارشاد ھوتا ھے: ”وہ کتنے ناپسندیدہ کاموں کو انجام دیتے تھے۔“ یھی وجہ تھی کہ خدا وندعالم کو ان کی یہ بات ناگوار گذری کہ وہ ستمگروں اور ظالموں کے ناروا افعال کو دیکھتے تھے اور اس سے منع نہ کرتے تھے، کیونکہ وہ ستمگروں کی طرف سے ملنے والے مال پر حریص ھو جاتے، اور اعتراض کی صورت میں وہ اس کے انجام سے ڈرتے تھے۔ اسی لئے خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے: ”مجھ سے ڈرو لوگوں سے نہ ڈرو۔“ اور یہ بھی فرماتا ھے: ” مومن مردو عورت ایک دوسرے کے بھائی ھیں، جو نیکی کا حکم دیتے ھیں اور برائیوں سے روکتے ھیں۔“ (۱۸)
۱۹۔اگر کوئی شخص لوگوں کی رضایت وخوشنودی حاصل کرنے کے لئے خداوند عالم کے غیض وغضب کا باعث بنے تو خداوند عالم بھی اس کو لوگوں کے حوالے کردیتا ھے۔ (۱۹)
۲۰۔اس شخص پر ظلم وستم کرنے سے ڈرو جس کا خدا کے علاوہ کوئی اور مدد گار نہ ھو۔ (۲۰)
۲۱۔ جوتم پر زیادہ تنقید کرتا ھے وہ تمھارا واقعی اور حقیقی دوست ھے ، اور جو تمھاری تعریفیں کرتا ھے وہ گویا تمھارا دشمن ھے۔ (۲۱)
۲۲۔ حق کی پیروی سے ھی عقل کامل ھوتی ھے۔ (۲۲)
۲۳۔ فاسقوں کی صحبت اختیار کرنا، انسان کو معرض اتھام میںکھڑا کر دیتا ھے۔ (۲۳)
۲۴۔ خدا وند متعال کے خوف کی وجہ سے گریہ کرنا، آتش جھنم سے نجات کا باعث ھوتاھے۔ (۲۴)
۲۵۔ ایک شخص امام حسین علیہ السلام کے پاس آیا اور کھنے لگا: ”میں ایک گناگار انسان ھوں اور خدا کی معصیت سے پرھیز نھیں کرتا، مجھے کچہ نصیحت کیجئے۔“ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ”پانچ کام بجا لاؤ اس کے بعد جو چاھے کرو۔ پھلے یہ کہ خداوند عالم کا عطا کردہ رزق استعمال نہ کرو اور جو تمھارا دل چاھے گنا ہ کرو۔ دوسرے یہ کہ خداوند عالم کی حکومت سے خارج ھو جاؤ اس کے بعد جو تمھارا دل چاھے کرو ۔ تیسرے یہ کہ کسی ایسی جگہ چلے جاؤ کہ خدا تمھیں نہ دیکہ سکے اور جو تمھارا دل چاھے گناہ کرو۔ چوتھے یہ کہ جب عزرائیل تمھاری روح قبض کرنے کے لئے آئیں تو انھیں اپنے پاس سے بھگا دو پھر جو تمھارا دل چاھے گناہ انجام دو۔ پانچویں یہ کہ جس وقت جھنم کا مالک وحاکم تمھیں آگ میں ڈالے ، تم آگ میں نہ کودو اس کے بعد جو تمھارا دل چاھے گناہ کرو۔ (۲۵)
۲۶۔ جس کام کے سلسلہ میں تمھیں عذر خواھی کرنا پڑے اس کام سے پرھیز کرو، مومن نہ بدی کرتا ھے اور نہ عذر خواھی کرتا ھے۔ اور منافق ھر روز بدی کرتا ھے اور ھر روز عذر خواھی کرتا ھے۔ (۲۶)
۲۷۔ جلدی کرنا کم عقلی کی علامت ھے۔ (۲۷ )
۲۸۔ کسی بھی شخص کواس وقت تک بات کرنے کی اجازت نہ دو جب تک کہ وہ سلام نہ کرلے۔ (۲۸)
۲۹۔فکر نہ کرنے والے افراد کے ساتھ بحث وتکرار کرنا، جھل ونادانی کی ایک علامت ھے۔ (۲۹)
۳۰۔تنقید، فکر اور مختلف نظریات کے سلسلہ میں جاننا، عالم کی نشانیوں میں سے ایک ھے۔ (۳۰)
۳۱۔ امام حسین علیہ السلام سے پوچھا گیا: یابن رسول الله (ص) آپ روز وشب کیسے گزارتے ھیں؟؟ آپ نے فرمایا: اس حالت میںکہ خداوند متعال ھمارے اعمال پر ناظر ھوتا ھے اور ھم آتش جھنم کو اپنی آنکھوں سے مشاھدہ کرتے ھیں، موت ھمارا پیچھا کررھی ھے،اپنے اعمال کے سلسلہ میں حساب وکتاب سے کوئی چھٹکارا نظر نھیں آتا، اپنی دلخواہ چیزوں پر دسترس نھیں رکھتا، اپنے اندر اپنے ارد گرد کی تکالیف کو دور کرنے کی قدرت نھیںپاتا، تمام امور کسی اور کے ھاتھ میں ھیں، اگر وہ چاھے تو مجھ پر عذاب نازل کرسکتا ھے اور اگر چاھے تو مجھے معاف کرسکتا ھے، اس بنا پر ایسا کون مسکین ھے جو مجھ سے بھی زیادہ ناتواں اور عاجز ھو۔(۳۱)
۳۲۔ جو بخش دے وہ بزرگ سمجھا جاتا ھے اور جو شخص بخل سے کام لیتا ھے وہ ذلیل ورسوا ھو جاتا ھے۔ (۳۲)
۳۳۔ لوگوں میں سب سے زیادہ مھربان شخص وہ ھے جو ایسے شخص کو معاف کردے جو اس سے اس بات کی امید نہ رکھتا ھو۔ (۳۳)
۳۴۔ جو شخص ایک برادر مومن کی مشکل کو حل کرے اور اسے اضطراب سے نجات دلائے تو خداوند عالم دنیا وآخرت کے اضطراب وپریشانیوں کو اس سے دور کردیتا ھے۔ (۳۴)
۳۵۔ جب کسی شخص کو دیکھو کہ لوگوں کی عزت و آبرو پر حملہ کررھا ھے تو کوشش کرو کہ وہ تمھیں نہ پھچانے۔ (۳۵)
۳۶۔ اپنی حاجتوں کو متدین ، جواں مرد اور نجیب وشریف انسان سے بیان کرو۔ (۳۶)
۳۷۔ اس شخص کی طرح عمل کرو جو گناھوں پر عذاب اور نیکی پر اجرو ثواب کا عقیدہ رکھتا ھو۔ (۳۷)
۳۸۔ سلام کرنے کا اجروثواب ستر نیکیوں کے برابر ھے، جس میں سے ۶۹/ اس شخص کے لئے ھیں جو سلام کرتا ھے اور ایک نیکی سلام کا جواب دینے والے کے لئے ھوتی ھے۔ (۳۸)
۳۹۔ اگر یہ تین چیزیں ، فقر، مرض اور موت نہ ھوتی تو بنی آدم کسی کے سامنے سر نہ جھکاتا۔(۳۹)
۴۰۔ تمھاری قیمت بھشت کے سوا اور کچہ نھیں ھے، پھر کیوں اپنے آپ کو اس کے غیر سے بیچتے ھو۔ اس لئے کہ جو شخص دنیا پر راضی ھو جائے ( گویا اس کا مقصد صرف اور صرف دنیا ھے) وہ ایک پست چیز پر راضی ھوا ھے۔ (۴۰)
۴۱۔ گذشتہ نعمتوں پر شکر ، خداوند متعال کی طرف سے نئی اور تازہ نعمتوں کے عطیہ کا سبب ھوتا ھے۔ ( ۴۱)
۴۲۔ جو شخص خوف خدا رکھتا ھو وھی امین ھو سکتا ھے۔(۴۲)
۴۳۔ آنحضرت سے پوچھا گیا فضیلت کیا ھے؟ تو آپ نے فرمایا: ” زبان کو قابو میں رکھنا اور نیکی کرنا۔“ (۴۳)
۴۴۔ ای لوگو! نیک اور اچھے صفات میں ایک دوسرے کے رقیب ھو جاؤ، اچھے وقت کو ھاتھ سے نہ جانے دو، وہ عمل خیر جس کی انجام دھی میں تم نے سستی سے کام لیا، اسے اچھا نہ گردانو۔ کامیابی اور کامرانی حاصل کر کے دوسروں کا شکریہ اور ستائش حاصل کرو۔ نیک کاموں میںسستی اور کاھلی کی وجہ سے اپنے آپ کو مورد ملامت قرار نہ دو۔ (۴۴)
۴۵۔ وہ تمام بڑی نعمتیں جو خدا نے تمھیں عطا کی ھیں جان لو کہ یہ ان ضروریات میں سے ھیں جس کی لوگ تم سے توقع رکھتے ھیں۔بچو! کھیں ایسا نہ ھو کی ضرورتمندوں کی طرف سے بے توجھی تم سے یہ نعمتیں واپس لے لے اور یہ بلا اور مصیبت کی صورت اختیار نہ کر لیں۔ جان لو کہ نیک کام کی انجام دھی کے بعد لوگوں کے لئے حمدوستائش کا سبب بننے کے علاوہ خدا وند عالم کی طرف سے بھی اس کے اجروثواب کے حقدار ھو۔اگرکسی نیک کام کو انسانی شکل میں مشاھدہ کرتے تو اس کو بھت ھی نیک اور بھت ھی خوبصورت شکل میں دیکھتے اس طرح سے کہ ھر دیکھنے والا اس کو دیکھتا ھی رہ جائے۔اور اگر تم کسی برے کام کو کسی انسانی شکل میں دیکھتے تو تمھاری نظر میں اس کا تصور ایک بد صورت اور بھدی شکل والے انسان کا ھوتااس طرح سے کہ دلوں میں اس سے نفرت پیدا ھوجاتی اوراس نحس شکل کو دیکھتے ھی آنکھیں بند کرلیتے۔ (۴۵)
۴۶۔ لوگوں میں قدرتمند ترین شخص وہ ھے جو اپنے دشمن پر غلبہ پانے کے باوجود اسے معاف کردے۔ (۴۶)
۴۷۔ صلہ رحم میںوہ شخص سب سے اچھا ھے جو ان رشتہ داروں کی بہ نسبت دلجوئی اور صلھٴ رحم کرے جنھوں نے اس سے قطع رحم کیا ھے۔( ۴۷)
۴۸۔ جان لو کہ جو شخص برادر مومن کے غم کو ھلکا کرے تو خداوند عالم بھی دنیا وآخرت کے غموں کو اس سے دور کردے گا۔ اور جو شخص دوسروں کے ساتھ نیکی کرے تو خداوند عالم بھی اس کے ساتھ نیکی کرے گا اس لئے کہ خداوند عالم نیک افراد کو دوست رکھتا ھے۔ (۴۸)
۴۹۔ بردباری انسان کی زینت ھے، اور وعدہ کو وفاکرنا جوان مردی کی علامت ھے۔ (۴۹)
۵۰۔ تکبر،ایک طرح کی خود پسندی اور بے جا خود ستائی ھے۔ کاموں میں جلدی کرنا، کم عقلی کی علامت ھے۔ کم عقلی روح کی کمزوری کی علامت ھے۔ ھر چیز میں زیادہ روی سے کام لینا ھلاکت کا باعث ھوتا ھے۔ (۵۰)
۵۱۔آگاہ ھو جاؤ، جنگ ایک ایسا فتنہ ھے جس کی سختیاں انسان کو خوف میں مبتلا کردیتی ھیں جس کا مزہ حد سے زیادہ تلخ اور کڑوا ھوتا ھے کہ جسے گھونٹ گھونٹ کرکے پیا جاتا ھے۔ مرد میدان اور جنگ کا فاتح وھی ھوتا ھے جو ھر وقت جنگ کے لئے آمادہ ھو، لشکر کی کثرت ،جنگ کے سازوسامان اور جنگ شروع ھونے سے پھلے ھی دشمن سے خوف زدہ نہ ھو جائے، اور جنگ میں جو بھی شخص وقت کے آنے سے پھلے ،کام میں دقت نظری اور سازوسامان پر نظر رکھنے سے پھلے میدان میں آجائے اس نے اپنی قوم وقبیلہ کو کوئی فائدہ نہ پھونچایا ھوچاھے خواہ وہ اپنی جان جوکھم میں ھی کیوں نہ ڈال دے۔ (۵۱)
۵۲۔ میں تمھیں خدا سے ملاقات کے دن (روز قیامت) سے ڈراتے ھوئے تمھیں تقویٰ و پرھیزگاری کی وصیت کرتا ھوں ،اس وقت کا تصور کرو کہ جب موت ایک وحشتناک شکل وصورت میں آئے گی، اس کا آنا اچانک اور ناگوار انداز میں ھوگا، تمھاری روح کو اپنے پنجوں میں جکڑ لے گااس وقت تمھارے اور عمل کے درمیان فاصلہ پیدا ھو جائے گا، لیکن پھر بھی تم طول عمر اور اپنے تن کی فکر میں ھو۔ میں تمھیں دیکہ رھا ھوں کہ اچانک موت نے تمھارا گریبان پکڑ لیا ھے اور تمھیں زمین سے اپنے اندر کھینچ رھی ھے، تمھیں زمین کی بلندی سے پستی پر لا پٹخا ھے ، دنیا کی الفت ومحبت سے تمھیں قبر کی تاریکی میںڈھکیل دیا ھے، دنیا کی خوبصورتی اور چکاچوندھنی سے قبر کی ظلمت وتاریکی کی طرف لے جا رھی ھے ، کشادگی سے قبر کی تنگی کی طرف کھینچ رھی ھے ،ایک ایسے زندان میں جھاں کسی نزدیک ترین عزیز سے بھی ملاقات ناممکن ھے، اس جگہ جھاں بیماری کی عیادت بھی نھیں کی جاسکتی، جھاں کسی کی نالہ وفریاد نھیں سنی جاتی۔
ان مشکل ایام میںپروردگار ھمیں اور تمھیں کامیابی عطا فرمائے۔ ھمیں اور تمھیں اس دن کے عذا ب سے نجات عطا فرمائے، اور ھم سب کو ایک عظیم انعام سے نوازے۔ (۵۲)

۵۳۔ میں وصیت کرتا ھوں تقویٰ الٰھی اختیار کرو، اس لئے کہ خداوند عالم نے اس بات کی ضمانت لی ھے کہ وہ افراد جو با تقویٰ ھیں انھیں ناپسندیدہ چیزوں سے نیک اور اچھی چیزوں کی طرف رھنمائی کرے۔ ”اور وہ اس طرح سے تمھیں روزی عطا کرتا ھے کہ جس کا تم تصور بھی نھیں کرسکتے۔“ (۵۳)
۵۴۔ کھیں ایسا نہ ھو جائے کہ تم گناھگار لوگوں سے پرھیز کرو اور خود اس کام کے انجام سے غافل رھو۔ اس لئے کہ خدا وندعالم بھشت دے کرکے دھوکہ نھیں کھائے گا، اس نے جن انعامات کا وعدہ کیا ھے سوائے اس کے فرمانبرداروں کے کوئی اور اس کا حقدار نھیں ھوسکتا۔ (۵۴)
۵۵۔ اے بنی آدم! تھوڑا سا سوچو ، غور کرو اور یہ بتاؤ کہ دنیا پر حکومت کرنے والے بادشاہ وحکمراں کھاں ھیں؟جنھوں نے دنیا کی سونی جگھوں کو آباد کیاھے۔
حوالےجات:
۱۔دعائے عرفہ ، بحار الانوار ج/ ۹۸ ص/۲۶۶۔
۲۔دعای عرفھ/بحار الانوار،ج/۹۸، ص/۲۲۸۔
۳۔مقتل خوارزمی، ج/۱، ص/۲۳۹۔
۴۔بحارالانوار/ج/۴۴، ص/۱۹۲۔
۵۔تحف العقول، ص/۲۳۷۔
۶۔مقتل خوارزمی: ج/۱،ص/۲۳۴۔
۷۔بحارالانوار، ج/۷۸، ص/۱۱۷۔
۸۔بحارالانوار،ج/۷۸، ص/۱۲۰۔
۹۔بحارالانوار، ج/۷۸،ص/۱۱۶۔
۱۰۔تحف العقول، ص/۲۴۵۔
۱۱۔تحف العقول، ص/۲۳۸۔
۱۲۔تحف لالعقول، ص/۲۳۹۔
۱۳۔بحارالانوار، ج/۴۴، ص/۳۲۹۔
۱۴۔بحارالانوار، ج/۴۴، ص/۳۷۴۔
۱۵۔بحارالانوار، ج/۴۵، ص/۵۱۔
۱۶۔بحارالانوار، ج/۷۸، ص/۱۱۷۔
۱۷۔بحارالانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۱۔
۱۸۔تحف العقول، ص/۲۳۷۔
۱۹۔بحارالانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۶۔
۲۰۔بحارلانوار، ج/۷۸، ص/۱۱۸۔
۲۱۔بحار الانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۸۔
۲۲۔بحارالانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۷۔
۲۳۔بحارالانوا، ج/۷۸، ص/۱۲۲۔
۲۴۔مستدرک الاوسائل، ج/۱۱، ص/۲۴۵۔
۲۵۔بحارالانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۶۔
۲۶۔تحف العقول، ص/۲۴۸۔
۲۷۔بحار الانوار، ج/۷۸،ص/۱۲۲۔
۲۸۔بحار الانوار، ج/۷۸، ص/۱۱۷۔
۲۹۔بحار الانوار، ج/۷۸، ص/۱۱۹۔
۳۰۔بحار الانوار، ج/۷۸، ص/۱۱۹۔
۳۱۔بحار الانوار، ج/۷۸، ص/۱۱۶۔
۳۲۔بحار الانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۱۔
۳۳۔بحار الانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۱۔
۳۴۔بحار الانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۲۔
۳۵۔ بلاغت الحسین( ع)، ص/۲۸۴۔
۳۶۔بحار الانوار، ج/۷۸، ص/۱۱۸۔
۳۷۔بحار الانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۷۔
۳۸۔بحار الانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۰۔
۳۹۔ نزھة الناظر وتنبیہ الخاطر،ص/۸۰۔
۴۰۔بلاغة الحسین (ع)، ص/۳۰۸۔
۴۱۔نزھة الناظر وتنبیہ الخاطر، ص/۸۰۔
۴۲۔ بلاغة الحسین (ع) ص/۲۹۲۔
۴۳۔بلاغة الحسین (ع)، ص/۳۳۲۔
۴۴۔بحارالانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۱۔
۴۵۔بحارالانوا، ج/۷۸، ص/۱۲۱۔
۴۶۔بحارالانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۱۔
۴۷۔بحارالانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۱۔
۴۸۔بحار الانوار، جب۷۸، ص/۱۲۲۔
۴۹۔بحارالانوا، ج/۷۸، ص/۱۲۲۔
۵۰۔بحارالانوار،ج/۷۸، ص/۱۲۲۔
۵۱۔بحارالانوار، ج/۳۲، ص/۴۰۵۔
۵۲۔بحارالانوار، ج/۷۸، ص/۱۲۰۔
۵۳۔بحارالانوا، ج/۷۸، ص/۱۲۱۔
۵۴۔بحارالانوا، ج/۷۸، ص/۱۲۱۔
 

Add comment


Security code
Refresh