شھادت امام علی نقی علیہ السلام کے موقع پر آپ تمام محبان اھل بیت علیھم السلام پر تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔
امام علی نقی علیہ السلام حکام کے ظلم وجور کے خلاف مستعدی سے ڈٹے رھے یھاں تک کہ ان کے آباء واجداد کی مانند ان کے لئے بھی زھر منگوایا گیا اور ان کوکھلایا گیا۔
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:ھم اھل بیت میں سے کوئی نھیں سوائے یہ کہ اس کو یا قتل کیا گیا ھو یا زھر دیا گیا ھو۔(١)
طبرسی ،اور ابن صباغ مالکی کھتے ہیں کہ ولی خدا حضرت علی بن محمد ، معتز کے آخری دور خلافت میں شھید کئے گئے ۔(٢)
ابن بابویہ فرماتے ہیں:خلیفہ عباسی معتمد نے آپ کو زھر دیا۔(٣)
مسعودی کھتے ہیں:''کھا جاتا ہے کہ حضرت زھر کے ذریعہ شھید ھوئے۔(٤)
اور اس بات کی تائید وہ دعا ہے جو ماہ رمضان میں وارد ھوئی۔
''وضاعف العذاب علی من شرک فی دمہ.''۔''اپنے عذاب کو اس شخص پر دو برابر کر جو ان کےخون میںشریک رھا۔''(۵)
سراج الدین رفاعی اپنی صحاح الاخبار میں لکھتے ہیں کہ امام علی نقی علیہ السلام معتز عباسی کے دور خلافت میں زھر کے ذریعہ شھید کئے گئے۔
محمد بن عبد الغفار حنفی اپنی کتاب ''ائمہ الھدیٰ '' میں لکھتے ہیں :چونکہ حضرت علی نقی علیہ السلام کی شھرت آفاقی ھوگئی تھی اس لئے متوکل نے ان کو مدینہ سے بلوالیا کیونکہ اس کوا س بات کا خوف تھا کہ کھیں اس کی حکومت اس کے ھاتھوں سے نکل نہ جائے اورپھر اس نے امام کو زھر دے ڈالا ۔
لیکن یہ صحیح ہے کہ معتز نے امام کو زھر دے کر شھید کیا۔
ظاھراً امام کو جو زھر دیا گیا تھا اس کے سبب آپ بیمار ھوئے اور کچھ دنوں بعد دار فانی سے کوچ کر گئے ۔جیسا کہ محمد بن فرج اور ابودعامہ کی روایت اس بات پر تائید ہے ۔ وہ کھتے ہیں، جو بیماری امام کی شھادت کا سبب بنی اس کے دوران ھم امام کی عیادت کو گئے، جب آپ سے مل کر واپس آرھے تھے تو امام نے فرمایا: ''یا ابا دعامة! قد وجب علیّ حقک ،الااحدّثک بحدیث تسرّبہ.''
''اے ابو دعامہ میری گردن پر تمھارا حق ہے لھذاکیا کسی ایسی حدیث کو سننا نھیں چاھوگے جو تم کو خوش کردے۔میں نے عرض کی اے فرزند رسول ! میں ایسی حدیث کا بھت نیاز مندھوں۔
آپ نے فرمایا:''حدثنی ابی محمد بن علی ،قال:حدثنی ابی علی بن موسی،قال:حدیثنی ابی موسیٰ بن جعفر، قال:حدثنی ابی جعفر بن محمد،قال:حدثنی ابی محمد بن علی ،قال:حدثنی ابی علی بن الحسین ،قال:حدثنی ابی الحسین بن علی،قال:حدثنی ابی علی ابن ابی طالب ،قال:قال لی رسول اللہ :یاعلی!اکتب :فقلت وما أکتب ؟فقال:اکتب بسم اللہ الرحمن الرحیم الایمان وماوقرتہ القلوب وصدقتہ الاعمال ،والاسلام ماجری علی اللسان،وحلت بہ المناکحة.''
''میرے والد محمد بن علی نے میرے جد علی رضا(ع)سے انھوں نے موسیٰ کاظم(ع) سے انھوں نے جعفر صادق(ع) سےانھوں نے محمد باقر(ع) سے انھوں نے زین العابدین(ع) سے انھوں نے حسین بن علی(ع) سے انھوں نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خدا (ص)نے مجھ سے فرمایا:اے علی ! لکھو: میں نے کھا کیا لکھوں؟کھا لکھو! "بسم اللّہ الرحمن الرحیم"ایمان اس چیز کا نام ہے جس کو دل قبول کرے اور انسان کا کردار اس کی تائید کرے لیکن اسلام وہ ہے جوزبان پر جاری ھوتا ہے اور اس کے ذریعہ نکاح جائز ھوتا ہے ۔
ابو دعامہ کھتے ہیں:اے فرزند رسول خدا کی قسم! مجھے نھیں معلوم کہ دونوں میں کون بھتر ہے حدیث یاسند حدیث تو آپ نے فرمایا:یہ رسول کی زبانی علی مرتضیٰ کی تحریر ہے جس کو ھم نسلاً بعد نسلٍ بطور میراث پاتے رھے ہیں۔(۶)
مسعودی کھتے ہیں:کہ اس بیماری کے دوران جس میں علی نقی علیہ السلام نے دار فانی کو وداع کیا ہے اپنے فرزند حسن عسکری علیہ السلام کو طلب کیا اور نور حکمت ،میراث انبیاء اور اسلحہ (جو اماموں سے مخصوص تھا)ان کو عطا کیا ۔(۷)
آپ نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کی تاکید کی اور اپنے بھروسہ مند اصحاب کو ان کی امامت کی وصیت کی اور چالیس سال کی عمرمیں دنیا سے کوچ کر گئے ۔
امام(ع) کی تشییع جنازہ اور عوام وخواص کی شرکت
جب حضرت علی نقی علیہ السلام نے اپنی جان خالق حیات کے سپرد کر دی تو ان کے فرزند حسن عسکری علیہ السلام نے ان کو غسل وکفن دیا اور ان کی نماز جنازہ ادا کی اور ان کے سوا کوئی دوسرا یہ کام کر بھی نھیں سکتا تھا کیونکہ ایک معصوم کی تجھیز وتکفین ونماز صرف ایک معصوم ھی پڑھا سکتا ہے جوں ھی امام کی شھادت کی خبر لوگوں میں پھیلی عوام وخواص سب امام کے گھر ٹوٹ پڑے اور پورے سامراء سے گریہ وشیون کی آواز آرھی تھی۔
مسعودی کھتے ہیں:اس دن جو افراد امام کے گھر گئے تھے انھوں نے روایت کی ہے کہ اس وقت امام کے گھر میں بنی ھاشم، فرزندان ابو طالب ،عباسی سپہ سالاران لشکر اور دوسری شیعہ جماعتیں موجود تھیں۔
اس وقت وھاں موجودہ افراد میں کوئی بھی امام حسن عسکری(ع) کی امامت سے آگاہ نہ تھا کیونکہ امام نے یہ پیغام صرف مخصوص اصحاب کو دیا تھا جس میں امام نے امام حسن عسکری(ع) کی امامت کی تصریح کی تھی۔ وھاں موجودہ افراد نقل کرتے ہیں کہ اس وقت سب مصیبت زدہ گریہ میں مشغول تھے کہ اچانک ایک غلام نکلا جس نے دوسرے غلام کو آواز دی اے (ریاش)!اس خط کو لواورامیر المومنین کے گھر جا کر فلاں شخص کو دیدینا اور کھنا کہ یہ حسن بن علی عسکری کی طرف سے ہے اس کام نے لوگوں کو چونکادیا ۔اس کے بعد بالا خانہ کا پردہ اٹھا اور ایک سیاہ فام خادم نکلا اس کے پیچھے حسن عسکری(ع) سرو پا برھنہ گربیان چاک باھر آئے۔
آپ کا چھرہ بالکل اپنے والد کی شبیہ تھا، اس وقت متوکل کے لڑکے بھی وھاں بیٹھے تھے جو کہ صاحبان مقام ولی عھدی تھے اور اس وقت کوئی ایسا نھیں بچا جو ان کے احترام کے لئے کھڑا نہ ھواھو۔اس وقت ابو احمد محمد موفق امام کی جانب بڑھے امام بھی ا ن کی جانب چلے اور دونوں گلے ملے اس کے بعد فرمایا:اے ابن عم !خوش آمدید اور وہ دونوں رواق کے بیچ بیٹھ گئے سارے لوگ ان کے سامنے بیٹھ گئے ۔قبل اس کے کہ امام اندر سے باھر تشریف لائیں وھاں اتنا شور ھو رھا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نھیں دیتی تھی لیکن جوں ھی امام حسن عسکری(ع) باھر تشریف لائے سبھی لوگ خاموش ھوگئے صرف کھانسی اور چھینک کی آواز کے علاوہ کوئی دوسری آواز سنائی نھیں دے رھی تھی ۔اتنے میں ایک کنیز گھر سے باھر نکلی اور اس نے مرثیہ خوانی شروع کر دی اس وقت ابو محمد نے فرمایا:کیا یھاں کوئی ایسا نھیں جو ھمیں اس نادان عورت سے پناہ دے۔
شیعہ حضرا ت اٹھے اور اس عورت کو اندر بھیجا۔
اس کے بعد ایک دوسرا خادم نکلا جو امام کے آگے آکر کھڑا ھو گیا امام بھی کھڑے ھوگئے اس وقت امام علی نقی علیہ السلام کا جنازہ گھر سے باھر نکلا،امام حسن عسکری علیہ السلام بھی جنازہ کے ساتھ چلے یھاں تک وہ کہ گلیوں سے ھوتا ھوا موسیٰ بغاکے گھر کے مقابل رکا۔جنازہ باھر آنے سے قبل امام حسن عسکری علیہ السلام نے اس پر نماز ادا کی تھی اور جب جنازہ باھر آگیا تھا تو معتمد نے نماز پڑھی ۔
مسعودی کھتے ہیں :میں نے سنا ہے کہ حضرت کے جنازے پر ایک سیاہ فام کنیز کھہ رھی تھی ھم دوشنبہ کو کتنی مصیبت اٹھا چکے ہیں۔(۸)
امام علی نقی علیہ السلام سامرا میں اپنے ھی گھر میں دفن کر دیئے گئے، سامرا میں آپ نے بیس سال کچھ ماہ زندگی گذاری تھی۔
مسعودی کھتے ہیں:اس دن لوگوں کے اژدھام اور شدت کی گرمی کے سبب امام حسن عسکری علیہ السلام تھک گئے تھے امام درمیان راہ ایک بقّال کی دکان میں جس کے سامنے پانی ڈالا ھوا تھا گئے اور اس کو سلام کر کے چند لمحہ وھاں رکنے کی اجاز ت چاھی اس نے اجازت دی آپ نے وھاں کچھ لمحہ قیام کیا اور دوسرے افراد آپ کو گھیرے کھڑے تھے۔
اتنے میں ایک خوش شکل وخوش لباس جوان جو ایک خاکی رنگ کے خچر پر سوار تھا امام کے لئے ایک سفید گھوڑا لایا اور امام سے اس پر سوار ھونے کو کھا امام اس پر سوار ھو کر گھر آئے ۔اس رات بھی امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر سے وھی سب کچھ سامان لوگوں تک پھنچا جو ان کے والد بزرگوار کی حیات میں محتاج لوگوں تک جایا کرتا تھا۔(۹)
امام علی نقی علیہ السلام کیوں اپنے گھر میں دفن ھوئے
عوام وخواص میں یہ رسم تھی کہ اگر کوئی شخص دنیا سے چلا جاتا تو اس کو قبرستان میں دفنایا جاتا تھا جیسا کہ آج ھمارے زمانے میں بھی یہ رائج ہے اور وہ کسی بھی مقام ومنزلت پر فائز ھو یہ رسم بدلتی نھیں ۔شھر مدینہ میں مردوں کو دفنانے کے لئے قبرستان بقیع تھا۔یہ قبر ستان ائمہ اھل بیت ازواج رسول و فرزندان رسول اور بزرگ اصحاب و تابعین کے لئے تھا ۔اسی طرح سے بغداد میں دو بزرگ امام حضرت کاظم وامام جواد علیھما السلام قریش کے قبرستان میں دفن کئے گئے ۔
لیکن امام کواپنے گھر میں دفن کرنے کی وجہ شیعوں کا رد عمل تھا جو امام کی شھادت کے دن ظاھرھواجس وقت امام کی شھادت ھوئی سارے شیعہ جمع ھوگئے اوروہ گریہ کی آواز بلند کر تے ھوئے حکومت کے خلاف غم وغصہ کا اظھار کر رھے تھے یہ در حقیقت خلیفہ کے ذریعہ شھادت امام کے جرم کا اعلان تھا ،امام کی تشیع جنازہ جس شا ھراہ پر ھوئی اس کابھی اس میں بھت دخل ہے کیونکہ اس شاھراہ کے بارے میں آیا ہے کہ بھت سارے محبان اھل بیت اس شاھراہ کے ارد گرد رھتے تھے۔جیسا کہ اس سڑک کے بارے میں آیا ہے:
دوسری شاھراہ جو ابو حمد کے نام سے معروف تھی ۔مشرق سے یہ سڑک (بختیشوع)نامی طبیب کے گھر سے شروع ھوئی جس کے گھر کو متوکل نے بنوایا تھا۔
اس کے بعد وہ علاقہ خراسان کے سپہ سالاروں اور کارمندوں کو جو اھل قم واصفھان و قزوین وجبل وآذرئیجان کے تھے ان کو بخش دی گئی جو کہ جنوب قبلہ کی طرف جاتی ہے ۔(١۰)
مظفری اپنی تاریخ میں سامرا میں موجود شیعیان آل محمد کے بارے میں کھتے ہیں:فوج،سپہ سالاران لشکر ،گورنر ،منشی ان سب میں بھت سارے ایسے افراد تھے جو دل میں محبت آل محمد چھپائے تھے۔(۱۱)
یہ سارے مسائل اس بات کا سبب بنے کہ حکومتی مشینری آپ کو آپ کے گھر میں دفن کرے ۔ھر چند کہ یہ مسئلہ تاریخ میں ذکر نھیں ہے ۔
البتہ یعقوبی نے اپنی تاریخ میں ٢٥٤ھ کے حوادث میں امام علی نقی علیہ السلام کی وفات سے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس سے یھی سمجھ میں آتا ہے ، وہ لکھتے ہیں:
معتز نے اپنے بھائی احمد بن متوکل کو بھیجا اور اس نے ابو محمد نامی مشھور شاھراہ پر جا کر امام علی نقی علیہ السلام کی نماز جنازہ ادا کی ۔جب کہ لوگوں کا جم غفیر وھاں موجود تھا اور سب رورھے تھے امام کے جنازے کو گھر میں واپس لا کر دفن کردیا گیا۔(۱۲)
انھوں نے اس طرح لوگوں کے انقلابی آتش فشاں کو خاموش کر دیا اور ان کے جذبات پر قابو پا لیا۔جواس پُر آشوب اور گھٹن بھرے حالات میں بھی جو حکومت کی جانب سے پیدا کئے گئے تھے، شیعہ حضرات کی بیداری پر دلالت کرتا ہے۔
شھروں میں شھادت امام علی نقی علیہ السلام کی گونج
حسین بن حمدان حضینی اپنی کتاب''الھدایة فی الفضائل ''میں لکھتے ہیں :کہ احمد بن داؤد قمی ومحمد بن عبد اللہ طلحی راوی ہیں کہ ھمارے پاس خمس و نذورات کا ڈھیر سارا مال جس میں جواھرات وآلات ولباس تھے اورجس کو قم اور اس کے اطراف سے جمع کیا تھا موجود تھا ھم اس کو لے کر امام علی نقی(ع) کی خدمت میں جارھے تھے جب ھم ''دسکرة الملک'' نامی مقام پر پھنچے تو ایک شتر سوار مرد ھم سے ملا، ھم بھت بڑے قافلہ میں تھے وہ ھمارے ساتھ ھو لیا، ھم لوگوں کے ساتھ چل رھے تھے، وہ ھم لوگوں کے سامنے آیا اور کھا اے احمد بن داؤد اور محمد بن عبد اللہ طلحی تم دونوں کے نام ایک پیغام ہے، ھم لوگوں نے کھا خدا تم پررحمت نازل کرے کس کا پیغام ہے؟ اس نے کھا :تمھارے مولا و آقا علی نقی(ع) کا ۔
انھوں نے تم لوگوں سے فرمایاہے ،کہ آج کی رات میری آخری رات ہے لہٰذا جھاں ھو، وھیں رک جاؤ، جب تک میرے فرزند حسن عسکری(ع) کا پیغام تم تک نہ پھنچے ۔یہ خبرسنتے ھی ھم لوگ غمگین ھو گئے اور آنکھوں سے اشک نکل پڑے ۔ھم لوگوں نے یہ خبر دوسرے لوگوں سے چھپائے رکھا اور ''دسکرة الملک'' میں ایک گھر کرایہ پر لے کر قیام کیا او ر جو کچھ تھا اس کو اس گھر میں چھپادیاکہ اچانک دیکھا امام کی شھادت کی خبر اس دیھات میں پھیل گئی ۔ھم لوگوں نے کھا:''لا الہ الا اللہ .''وہ خبر رساں جو امام کی شھادت کی خبر لایا تھا اس نے یہ بات سب میں پھیلادی۔
جب دن تھوڑا اور بڑھا تو دیکھا دیگر شیعہ حضرات ھم سے زیادہ پریشان حال نظر آرھے تھے لیکن ھم لوگوں نے پیغام کی بات کسی کو نھیں بتائی۔
امام علی نقی علیہ السلام کی تاریخ شھادت
مورخین نے امام علی نقی علیہ السلام کی تاریخ شھادت میں اختلاف نظر کیا ہے حتیٰ کہ کچھ نے امام کو زھر دینے والے کے بارے میں بھی اختلاف کیا۔
لیکن جو بات تحقیق شدہ ہے وہ یہ ہے کہ امام معتز عباسی کی خلافت کے آخری دنوں میں شھید ھو ئے ،جیسا کہ بھت سارے مورخین نے اس بات کی تصریح و تائید کی ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ امام علی نقی علیہ السلام اس وقت کے حاکم پر بھت گراں گذرتے تھے ۔اور چونکہ ان کی سر گرمیاںحاکم وقت کے لئے نقصان دہ تھی لہٰذا اس کا حکم بھی وھی دے سکتا ہے۔اس لئے معتز نے اس بات کا حکم صادر کیا۔ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ اس جرم میں اس نے معتمد کو بھی شریک کر لیا ھو۔ ابن طلحہ کے بقول جو انھوں نے ''مطالب ا لسؤل'' میں تحریر کیا ہے، آپ کی تاریخ شھادت ٢٥ جمادی الثانی ہے ۔ابن خشاب نے بھی ابن طلحہ کی اس بات کی تائید کی ہے۔(١۳)
کلینی فرماتے ہیں کہ امام کی تاریخ شھادت ٢٦ جمادی الثانی ہے۔(۱۴)
مسعودی بھی اس قول کے موافق ہیں۔(۱۵)
شیخ مفید نے'' ارشاد'' میں اربلی نے ''کشف الغمہ'' میں طبری نے ''اعلام الوریٰ'' میں لکھا ہے کہ آپ رجب میں شھید ھوئے اور حادثہ کا دن معین نھیں کیا ہے۔(۱۶)
ابو جعفر طوسی نے ''مصابیح'' میں اور ابن عیاش و صاحب دروس نے کھا ہے کہ آپ سامرا میں تیسری رجب کو دوشنبہ کے دن شھید ھوئے ۔(۱۷)
فتال نیشاپوری نے ''روضة الواعظین'' میں اسی قول سے موافقت کی ہے کہ امام نے سامرا میں ٣ رجب کو دارفانی کو وداع کھا۔(۱۸)
زرندی کا دوسرا نظریہ ہے وہ کھتے ہیں امام ١٣ رجب دوشنبہ کے دن شھید ھوئے۔(۱۹)
لیکن یہ سارے مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ امام ٢٥٤ھجری میں شھید ھوئے ۔(۲۰)
حضینی سے روایت ہے کہ ابو الحسن علی بن بلال اور دوسرے بھائیوں نے روایت کی ہے کہ امام علی نقی علیہ السلام کی شھادت کے چوتھے دن معتز نے حکم دیا کہ حسن عسکری(ع) کو میرے پاس لایا جائے ۔تاکہ وہ امام حسن عسکری علیہ السلام کو ان کے باپ کا پرسہ دے اور ان سے کچھ پوچھے۔امام سوار ھو کر معتز کے پاس گئے جب اس کے پاس گئے تو اس نے امام کو خوش آمد کھا اپنے پاس بیٹھایا اور تسلیت و تعزیت پیش کی ۔اس نے حکم دیا کہ حسن عسکری(ع) کو اسی گھر اور ان کے باپ کے عھدے پر برقرار رکھا جائے ،۔جوکوئی بھی امام حسن عسکری(ع) کو دیکھتا تھا وہ ذرہ برابر شک نھیں کرتا تھا کہ یہ اپنے باپ کی شبیہ نھیں ہیں۔
تمام شیعہ حضرات آپ کی امامت کے قائل تھے سوائے فارس بن حاتم بن ماھویہ کے ساتھیوں کے جو کہ ابو جعفر محمد بن ابو الحسن صاحب عسکر کی امامت کے معتقد تھے۔(۲۱)
البتہ معتز نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا،وہ ایک طرح کی چال تھی تاکہ وہ جرم جو اس نے امام علی نقی علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا اس پرپردہ ڈال سکے اوریہ کام تو گذشتہ سارے ظالم وجابر حکام کا رھا ہے کہ انھوں نے اھل بیت(ع) سے محبت کا دکھاوا کیا تاکہ اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈال سکیں۔
حوالے جات:
١۔بحار الانوار ،ج٢٧،ص٢١٦۔
٢۔اعلام الوریٰ ،ص٣٣٩؛فصول المہمہ ،ص٢٨٣۔
٣۔بحار الانوار،ج٥٠،ص٢٠٦؛مناقب ،ج٤ ،ص٤٠١۔
٤۔مروج الذہب ،ج٤،ص١٩٥۔
۵۔بحارالانوار،ج٥٠،ص٢٠٦۔
۶۔ بحار الانوار ج،٥٠،ص٢٠٨؛مروج الذہب ،ج٤،ص١٩٤۔
۷۔ اثبات الوصیہ،ص٢٥٧۔
۸۔بحار الانوار ،ج٥٠،ص٢٠٧؛مروج الذہب ،ج٤،ص١٩٣۔
۹۔ اعلام الوریٰ،ص٣٣٩۔
١۰۔موسوعہ العتبات المقدسہ ج١٢،ص٨٢۔
۱۱۔ تاریخ شیعہ ،ص١٠١۔
۱۲۔تاریخ یعقوبی ،ج٢،ص٥٠٣۔
١۳۔ الدمعة الساکبہ ج٨،ص٢٢٣۔
۱۴۔کافی ج١،ص٢٧٦۔
۱۵۔مروج الذہب ج٤ ،ص١٩٣۔
۱۶۔ الدمعة الساکبہ ج٨،ص٢٢٦۔٢٢٧؛اعلام الوریٰ ،ص٣٣٩؛کشف الغمہ ج٢،ص٣٧٦۔
۱۷۔الدمعة الساکبہ ج٨،ص٢٤٥؛بحار الانورا ،ج٥٠،ص٢٠٦۔
١۸۔روضہ الواعظین ج١، ص٢٤٦۔
۱۹۔الدمعة الساکبہ ج٨،ص٢٢٦۔
۲۰۔لمحات من حیاة الامام الہادی علیہ السلام ،ص١١٢۔١٢٠ محمد رضا سیبویہ۔
۲۱۔الدمعة الساکبہ ج٨،ص٢٢٥۔