www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:"ھمیشہ سچ بولو اور امانت کی ادائیگی میں کوتاھی نہ کرو چاھے وہ امانت مومن کی ھو یا گناھگار کی۔ 

بیشک یہ دو چیزیں رزق کی کنجیاں ہیں"۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور کے لوگ امام کے علمی اور معنوی مقام سے بخوبی آشنا تھے اسی وجہ سے جب بھی انھیں ملاقات کا شرف حاصل ھوتا تھا تو آپ سے پند و نصیحت کی درخواست کرتے تھے۔ اسلام کے گرانبھا علمی خزانوں میں سے ایک خزانہ امام صادق علیہ السلام کی یھی مواعظ اور نصیحتیں ہیں جو آپ نے وقتا فوقتا فرمائیں۔ جن میں سے بعض تو زمانے کے حادثات کی نذر ھو گئیں لیکن بعض علماء اسلام کی زحمتوں سے شیعوں کی حدیثی اور روائی کتب میں محفوظ ہیں۔ ذیل میں امام علیہ السلام کی پانچ گرانبھا نصیحتوں کو بیان کیا گیا ہے:
پھلی نصیحت:
ایک شخص حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا اور عرض کیا: اے فرزند رسول! مجھے موعظہ کیجئے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "لا یَفْقِدُكَ اللَّهُ حَیْثُ أَمَرَكَ وَ لَا یَرَاكَ حَیْثُ نَهَاكَ۔"(۱)
جھاں اللہ نے تمھیں حاضر ھونےکا حکم دیا ھو وھاں غائب نہ ھونا اور جھاں سے منع کیا ھو وھاں حاضر نہ ھونا۔
اس مختصر اور گراں قیمت جملے کا مطلب یہ ہے کہ انسان واجبات کو انجام دے اور محرمات سے پرھیز کرے۔ اگر خداوند عالم نے کسی چیز کا حکم دیا ہے تو ایسا نہ ھو کہ شیطان ھمیں اس کے انجام دینے سے روک دے اور ھم خدا کی اطاعت اور بندگی سے محروم ھو جائیں۔ اور اگر خدا نے کسی چیز سے منع کیا ہے تو ھرگز شیطان کے فریب میں آکر اسے انجام نہ دیں بلکہ کوشش کریں کہ خداوند بصیر ھمیں گناہ کی حالت میں نہ دیکھے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس موعظے کے بعد اس شخص نے عرض کیا: مجھے اس سے زیادہ موعظہ کریں۔ امام (ع) نے فرمایا: “لَا أَجِدُ” ؛ یعنی اس سے زیادہ کوئی بات کھنے کے لیے میرے پاس نھیں ہے جو کچھ مجھے کھنا تھا وہ اس ایک جملے میں کھہ دیا اگر انسان اسی ایک جملے پر عمل کر لے تو اس نے گویا سارے دین پر عمل کر لیا ہے۔
دوسری نصیحت:
ابو بصیر کھتے ہیں: میں ام حمیدہ( امام صادق علیہ السلام کی زوجہ اور امام کاظم علیہ السلام کی والدہ گرامی) کی خدمت میں حاضر ھوا کہ آپ امام صادق علیہ السلام کے غم میں عزادار تھیں اور گریہ کر رھی تھیں۔ میں بھی گریہ کرنے لگا۔ اس کے بعد انھوں نے مجھ سے کھا: اگر امام صادق علیہ السلام کے زندگی کے آخری لمحوں میں تم ھوتے تو حیرت انگیز کیفیت کا مشاھدہ کرتے۔ آپ(ع) نے آخری لمحوں میں آنکھیں کھولیں اور فرمایا:" اجمَعوا لی كُلَّ مَن بَینی وَ بَینَهُ قَرابَةٌ " تمام قرابتداروں اور رشتہ داروں کو بلاو۔
زوجہ امام نے فرمایا: ھم نے سب کو جمع کیا، اس کے بعد امام علیہ السلام نے سب سے فرمایا: :" إنّ شفاعَتَنا لا تَنالُ مُستَخِفّاً بِالصَّلاة " ھماری شفاعت اس شخص کے نصیب نھیں ھو گی جو نماز کو ھلکا سمجھے گا۔(۲)
لغوی اعتبار سے "استَخَفَّ به"، "أَهانه"(۳)کے معنی میں ہے یعنی اس نے اس کی بے احترامی کی اور اس کی طرف توجہ نھیں کی۔ اس معنی سے واضح ھو جاتا ہے کہ "مَستَخِفّ بالصلاة "وہ شخص ہے جس کی نظر میں نماز کوئی اھمیت نہ رکھتی ھو اس وجہ سے وہ نماز کے ساتھ توھین آمیز برتاو کرے۔ یعنی یا بالکل نماز نہ پڑھے یا اگر پڑھے تو بے توجھی کے ساتھ پڑھے یا اول وقت نہ پڑھے۔
بھر حال امام صادق علیہ السلام نے ان لمحوں میں جب ھر کوئی اپنی اھم ترین باتیں کرتا ہے اور اپنی اولاد کو اپنے مال و ثروت کی وصیت کرتا ہے، نماز کی اھمیت کی طرف توجہ دلائی کہ ھم اھلبیت(ع) کی شفاعت ان لوگوں کے نصیب نھیں ھو سکتی جو نماز کو اھمیت نہ دیں۔
تیسری نصیحت:
سفیان ثوری امام صادق علیہ السلام سے ملاقات میں عرض کرتے ہیں: یابن رسول اللہ مجھے موعظہ کیجئے۔ امام نے فرمایا: "یا سُفیانُ، لَا مُرُوءَةَ لِكَذُوبٍ وَ لَا أَخَ لِمُلُوكٍ (لِمَلُولٍ‏) وَ لَا رَاحَةَ لِحَسُودٍ وَ لَا سُۆْدُدَ لِسَیِّئِ الْخُلُق"‏.(۴)
اے سفیان! جو شخص جھوٹ بولنے کی عادت رکھتا ہے اس کے پاس انسانیت نام کی کوئی چیز نھیں اور جو شخص صاحب قدرت ہے اس کا کوئی دوست نھیں اور جو شخص حاسد ہے اسے آرام و چین نھیں مل سکتا اور جو شخص بد اخلاق ہے وہ ھرگز شرافت اور بزرگی نھیں رکھ سکتا۔
سفیان نے مزید نصیحت کرنے کا تقاضا کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: "یا سُفیانُ، ثِقْ بِاللَّهِ تَكُنْ مُۆْمِناً وَ ارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ غَنِیّاً وَ أَحْسِنْ مُجَاوَرَةَ مَنْ جَاوَرْتَهُ تَكُنْ مُسْلِماً وَ لَا تَصْحَبِ الْفَاجِرَ فَیُعْلِمَكَ مِنْ فُجُورِهِ وَ شَاوِرْ فِی أَمْرِكَ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ اللَّهَ عَزَّ وَ جَل‏".
اے سفیان! خدا پر بھروسہ کرو تاکہ مومنین کی صف میں شامل ھو سکو، اور جو کچھ خدا نے تمھارے لیے مقسوم کیا ہے اس پر راضی رھو تاکہ بےنیازی کا احساس کر سکو، اپنے ھمسائیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو تاکہ تم مسلمان کھلا سکو۔ جو شخص اھل گناہ ہے اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہ کرو اگر ایسا کیا تو وہ تمھیں اپنے گناھوں سے آگاہ کر کے تمھیں بھی آلودہ کر دے گا اور اپنے کاموں میں ان لوگوں کے ساتھ مشورہ کرو جو خوف خدا رکھتے ہیں یعنی حلال و حرام الھی کی طرف توجہ رکھتے ہیں۔
سفیان ثوری پھر امام (ع) سے موعظہ کرنے کی درخواست کرتے ہیں اور امام علیہ السلام بھی مزید فرماتے ہیں:" یا سُفیانُ، مَنْ أَرَادَ عِزّاً بِلَا عَشِیرَةٍ وَ غِنًى بِلَا مَالٍ وَ هَیْبَةً بِلَا سُلْطَانٍ فَلْیَنْقُلْ مِنْ ذُلِّ مَعْصِیَةِ اللَّهِ إِلَى عِزِّ طَاعَتِه‏".
اے سفیان! جو شخص بغیر قوم و قبیلے کے عزت چاھے اور بغیر مال کے بے نیازی چاھے اور بغیر قدرت کے ھیبت و شوکت چاھے تو اس نے اللہ کی معصیت کی ذلت سے اس کی اطاعت کی عزت کی طرف روگردانی کر لی ہے۔
پھر سفیان ثوری نے امام علیہ السلام سے نصیحت کی التجا کی تو آنحضرت نے فرمایا: اے سفیان! میرے بابا (خدا کا درود و سلام ھو ان پر) نے مجھ سے فرمایا :" یَا بُنَیَّ مَنْ یَصْحَبْ صَاحِبَ السَّوْءِ لَا یَسْلَمْ وَ مَنْ یَدْخُلْ مَدَاخِلَ السَّوْءِ یُتَّهَمْ وَ مَنْ لَا یَمْلِكْ لِسَانَهُ یَنْدَمْ".
بیٹا! جو شخص برے انسان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اس کا اخلاق و ایمان سالم نھیں رہ سکتا۔ جو شخص ایسی بدنام جگھوں پر رفت و آمد رکھے تو اس پر بھی برائی کی تھمت لگ سکتی ہے۔ اور جو شخص اپنی زبان پر کنٹرول نہ کرے اسے پشیمانی اور ندامت کے علاوہ کچھ نھیں ملتا۔
اس کے بعد آپ نے دو اشعار پڑھے: اپنی زبان کو اچھی باتیں کرنے کی عادت دو تاکہ وہ تمھارے لیے فائدہ مند ثابت ھو اس لیے کہ زبان جس چیز میں ھمیشہ مشغول ھو اس کی عادت کی جاتی ہے۔ زبان کو جو تم سکھاو گے وہ وھی کھے گی اچھا سکھاو گے تو اچھا کھے گی برا سکھاو گے تو برا کھے گی۔ لھذا دیکھو کہ اسے کس چیز کی عادت ڈال رھے ھو۔(۵)
چوتھی نصیحت:
امام صادق علیہ السلام کے دو اصحاب یحییٰ اور اسحاق نقل کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام ھمیشہ دو چیزوں کی نصیحت کرتے تھے: "عَلَیْكُمْ بِصِدْقِ الْحَدِیثِ وَ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ إِلَى الْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ، فَإِنَّهُمَا مِفْتَاحُ الرِّزْقِ".(۶)
فرماتے تھے کہ ھمیشہ سچ بولو اور امانت کی ادائیگی میں کوتاھی نہ کرو چاھے وہ امانت مومن کی ھو یا گناھگار کی۔ بیشک یہ دو چیزیں رزق کی کنجیاں ہیں۔
پانچویں نصیحت:
ایک شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا اور عرض کیا کہ اے فرزند رسول مجھے موعظہ کیجیے، حضرت نے فرمایا:" أعِدَّ جِهازَكَ وَ قَدِّم زادَكَ لِطولِ سَفَرِكَ وَ كُن وَصِیَّ نَفسِكَ وَ لا تَأمَن غَیرَكَ أن یَبعَثَ إلَیكَ بِما یُصلِحُكَ." (۷)
سفر کا سامان مھیا کرو اور جو چیزیں ایک لمبے سفر کے لیے ضروری ھوتی ہیں انھیں اپنے جانے سے پھلے بھیج دو اور اپنے کاموں کو خود انجام دو دوسروں پر مت ڈالو کہ کوئی آئے اور تمھارے کام انجام دے۔
حوالہ جات:
۱۔السرائر ۳/۶۵۰۔
۲۔ المحاسن ۱/۸۰ ؛ امالی صدوق (ره)، ص۵۷۲۔
۳۔ لسان العرب ۹/۸۰۔
۴۔ مجمع البحرین ۳/۷۳۔
۵۔ الخصال ۱/۱۶۹۔
۶۔ امالی طوسی(ره)، ص۶۷۶۔
۷۔ وھی حوالہ، ص۳۵۵۔


 

Add comment


Security code
Refresh