حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے دادا کی
حدیث امام حسین علیہ السلام کی حدیث ہے اور امام حسین علیہ السلام کی حدیث امام حسن علیہ السلام کی حدیث ہے اور امام حسن علیہ السلام کی حدیث امیرالمؤمنین علیہ السلام کی حدیث ہے اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث قول اللہ عز و جلّ ہے۔ ( بحارالا نوار: ج 2، ص 178، ح 28)
۱۔ قال سلیمان: فقلت للصادق علیه السّلام : "فكیف ینتفع الناس بالحجه الغائب المستور؟ قال: كما ینتفعون بالشمس اذا سترها السحاب"(بحارالانوار، ج 52، ص 92)
سلیمان کھتے ہیں: میں نے امام صادق علیه السّلام سے عرض کیا: لوگ نظروں سے اوجھل غائب حجت سے کیونکر فیض اٹھائیں گے؟۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: بالکل اسی طرح جس طرح وہ بادلوں کے پیچھے چھپے ھوئے سورج کی روشنی سے استفادہ کرتے ہیں۔
۲۔عن ابی عبدالله قال: رسول الله صلّی الله علیه و آله:" لابد للغلام من غیبه. فقیل له: و لم یا رسول الله ، قال: یخاف القتل"(بحارالانوار، ج 52، ص 90)
امام صادق علیه السّلام نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: مھدی (عج) ایسے حال میں غائب ھونگے جب وہ بـچے ھی ھونگے۔
کسی نے کھا: یارسول اللہ (ص)! غائب کیوں ھونگے؟
فرمایا: انھیں خوف ھوگا کہ کھیں قتل نہ کر دیئے جائیں۔
۳۔عن ابی عبدالله علیه السّلام قال:" صاحب هذا الامور تعمی ولادته علی (هذا) الخلق لئلا یكون لاحد فی عنقه بیعه اذا خرج".(بحارالانوار، ج 52، ص 95)
امام صادق علیه السّلام نے فرمایا: صاحب الامر (عج) کی ولادت لوگوں سے مخفی ھوگی تا کہ جب ظھور اور خروج فرمائیں تو کسی کی بیعت کے پابند نہ ھوں۔
۴۔ عن الصادق علیه السّلام :"للقائم غیبتان: احداهما طویله و الاخری قصیره، فالاولی یَعلَمُ بمكانه فیها خاصه من شیعته و الاخری لا یعلم بمكانه فیها (الا) خاصّهُ موالیهِ فی الدینه"(بحارالانوار، ج 52، ص 155)
امام صادق علیه السّلام نے فرمایا: قائم علیہ السلام کے لئے دو غیبتیں ہیں: ایک غیبت طویل المدت ھوگی اور دوسری قلیل المدت ھوگی۔ پھلی غیبت میں خاص خاص شیعہ ان کی منزل سے واقف ھونگے لیکن دوسری غیبت میں ان کے دینی دوستوں کے خواص کے سوا کوئی بھی ان کی منزل سے آگاہ نہ ھوگا۔
۵۔عن یمان التمار قال: كنا عند ابی عبدالله علیه السّلام جلوساً فقال لنا:" انَّ لِصاحِبِ هذا الامر غیبهٌ المتمسك فیها بدینه كا لخارط للقتاد".(اصول كافی، ج 1، ص 335)
یمان بن تمار کھتے ہیں کہ ھم امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھے کہ آپ (ع) نے فرمایا: بے شک صاحب الامر کے لئے ایک غیبت ہے جس کے دوران اپنا دین بچا کر رکھنے کا عمل کانٹوں کو ھاتھ سے تراشنے کی مانند سخت اور دشوار ھوگا۔
۶۔عن زاره قال: سمعت ابا عبدالله علیه السّلام : .... اذا ادركتَ هذا الزمان فادع بهذا الدعاء اللهمَّ عَرِّفنی نفسَكَ فانَّك اِن لم تُعرِّفْنی نفسَك لم اعرِف نَبیَّكَ، اللهمَّ عرَّفْنی ..." ـ(اصول كافی، ج 1، ص 337)
زارہ بن اعین کھتے ہیں: میں نے امام صادق علیه السّلام کو فرماتے ھوئے سنا کہ: جب آپ نے غیبت کے دور کا ادراک کیا اور اس زمانے میں واقع ھوئے تو یہ دعا پڑھتے رھا کریں: خداوندا! تو مجھے اپنی ذآت باری کی شناخت عطا فرما کیونکہ جب تک تو مجھے انک شناخت نھیں کرائے گا میں تیرے نبی (ص) کو نھیں پھچان سکوں گا؛ خدایا! تو مجھے اپنے نبی (ص) کی معرفت و شناخت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے نبی (ص) کی معرفت عطا نھیں کرے گا تو میں تیرے حجت (امام زمانہ (عج)) کو نھیں پھچان سکوں گا؛ خداوندا! مجھے اپنے حجت کی شناخت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنے حجت کی شناخت و معرفت عطا نھیں فرمائے گا تو میں اپنے دن سے گمراہ ھوجاؤنگآ۔
۷۔ قال ابوعبدالله علیه السّلام:" ان قائمنا اذا قام مد الله عزوجل لشیعتنا فی اسماعهم و ابصارهم حتی لا یكون بینهم و بین القائم برید، یكلمهم فیسمعون و ینظرون الیه و هو فی مكانه"(روضه كافی، ص 241)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب ھمارے قائم قیام کریں خداوند متعال ھمارے پیروکاروں کی آنکھیں اور کان تیز کر دے گا اور حالت یہ ھوگی کہ ھمارے پیروکاروں اور حضرت قائم علیہ السلام کے درمیان کوئی قاصد نھیں ھوگا تاھم جب وہ بات کریں گے شیعہ سارے سن لیں گے اور آپ (عج) کو دیکھ لیں گے جبکہ آپ (عج) اپنے مقام پر ھونگے۔
۸۔ عن ابی عبدالله علیه السّلام قال:" السفیانی من المحتوم و خروجه فی رجب. "(اثبات الهداه، ج 7، ص 340)
امام صادق علیہ السّلام نے فرمایا: سفیانی کی بغاوت امور حتمیہ میں سے ہے اور وہ ماہ رجب المرجب میں بغاوت کرے گا۔
۹۔عن ابی عبدالله علیه السّلام قال:" قبل قیام القائم ـ علیه السّلام ـ تجزل حرب قیس."(اثبات الهداه، ج 7، ص 428)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: حضرت قائم علیہ السلام کے قیام سے قبل "قیس کی جنگ" پھیل جائے گی۔
۱۰۔ قال الامام الصادق علیه السلام: "إذا قام القائم لایبقى أرض إلّا نودى فیها شهاده أنْ لا إله إلّا الله و أنّ محمّداً رسول الله۔"(بحارالانوار ج 52 ص 340)
جب ھمارے قائم علیہ السلام قیام کریں گے کوئی بھی ایسی سرزمین دنیا میں باقی نھیں رھے گی جس پر شھادتین (لا إله إلّا الله و محمّد رسول الله (ص)) کی گونج سنائی نہ دے رھی ھوگی۔
۱۱۔أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبّارِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا رَفَعَهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ اللّهِ ع قَالَ قُلْتُ لَهُ مَا الْعَقْلُ قَالَ مَا عُبِدَ بِهِ الرّحْمَنُ وَ اكْتُسِبَ بِهِ الْجِنَانُ قَالَ قُلْتُ فَالّذِي كَانَ فِي مُعَاوِيَةَ فَقَالَ تِلْكَ النّكْرَاءُ تِلْكَ الشّيْطَنَةُ وَ هِيَ شَبِيهَةٌ بِالْعَقْلِ وَ لَيْسَتْ بِالْعَقْلِ۔"(اصول كافى جلد 1 صفحه: 11 رواية: 3)
راوی کھتا ہے: میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا: عقل کیا ہے؟
فرمایا: عقل وہ ہے جس کے ذریعے اللہ کی پرستش کی جائے اور اس کے ذریعے جنت کا استحقاق کمایا جائے۔
میں نے پوچھا: پس وہ جو معاویہ کے پاس تھا کیا عقل نھیں کھلاتا؟
فرمایا: وہ مکر و فریب ہے، وہ شیطنت ہے جو عقل سے مشابھت رکھتی ہے حالانکہ وہ عقل نھیں ہے۔
۱۲۔ عن ابی عبد الله ـ علیه السّلام ـ :"... رجال كان قلوبهم زبر الحدید لا یشوبها شك فی ذات الله اشدّ من الحجر لو حملوا علی الجبال لازالوها لا یقصدون برایاتهم بلدة الاخرّبوها. كانّ علی خیولهم العقبان یتمسّحون بسرج الامام ـ علیه السّلام ـ یطلبون بذلك البركة و یحفّون به یقونه بانفسهم فی الحروب و یكفونه ما یرید فیهم. رجال لا ینامون اللیل لهم دویّ فی صلاتهم كدویّ النحل یبیتون قیاماً علی اطرافهم و یصبحون علی خیولهم، رهبان في الليل ليوث في النهار، هم اطوع له من الامة لسیّدها، کالمصابیح كانّ قلوبهم القنادیل و هم من خشیة الله مشفقون یدعون بالشهادة و یتمنون ان یقتلوا فی سبیل الله شعارهم "یالثارات الحسین" اذا ساروا یسیر الرعب امامهم مسیرة شهر یمشون الی المولی ارسالاً بهم ینصر الله امام الحق."(بحار، ج52، ص308).
ایسے مرد ہیں جن کے دل لوھے کے ٹکڑوں کی مانند ہیں، ذات اللہ میں کسی شک و تردد کا شکار نھیں ھوتے، ان کے دل پتھر کی مانند مضبوط ھونگے اوراگر وہ پھاڑوں پر حملہ آور ھوجائیں تو انھیں اکھاڑ کر ختم کردیں گے؛ اپنے پرچم لے کر کسی شھر کا قصد کریں تو اس کو نیست و نابود کرکے ھی دم لیتے ہیں؛ گویا اپنے گھوڑوں پر سوار عقاب ہیں اور تبرک کی نیت سے امام (ع) کے گھوڑے کی زين کو ھاتھوں سے مسح کرتے ہیں؛ اور جنگوں میں امام (عج) کے گرد پروانہ وار گھومتے ہیں اور امام (عج) کے فرامین کی تعمیل کرتے ہیں؛ ایسے مرد ہیں جو راتوں کو سویا نھیں کرتے بلکہ نماز پڑھتے ہیں اور ان کی نماز کی صدا شھد کی مکھیوں کی بنبناھٹ سے مشابھت رکھتی ہے جو چھتے سے سنائی دیتی ہے؛ اور وہ اپنی سواریوں پر سوار ھوکر صبح کرتے ہیں؛ راتوں کو راھب بنتے اور دنوں کو شیر ھوتے ہیں وہ اپنے امام کے لئے، مالک کے کے لئے کنیز سے بھی زیادہ، اطاعت گذار ہیں؛ چراغوں کی مانند ہیں اور گویا ان کے دل قندیل ہیں جبکہ وہ اللہ کے خوف سے فکرمند رھتے ہيں؛ شھادت کی دعا کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں قتل ھونا ان کی آرزو ہے؛ ان کا نعرہ اور شعار "یا لثارات الحسین (ع)" اے حسین کے خونخواھو!) ہے؛ جب روانہ ھوجاتے ہيں تو ان کا رعب اور ان کے آنے کا خوف ان کے پھنچنے سے قبل ـ ایک مھینے کی مسافت، کے برابر ـ دشمن پر طاری ھوتا ہے۔
چنانچہ یہ ہیں امام زمانہ (عج) کے ساتھیوں کے اوصاف:
۱۔ قلب محكم کے مالک ھونگے، ان کے قلوب لوھے کے ٹکڑوں کی مانند ھونگے۔
۲۔ وسوسوں سے دوری، ذات خدا میں کسی طور بھی شک نھیں کریں گے۔
۳۔ دشمن کے جس علاقے کا رخ کریں گے اسے فتح کرکے دم لیں گے۔
۴ـ برکت کے خواھاں ھونگے؛ عقابوں کی مانند اپنے گھوڑوں پر سوار ھوکر امام علیہ السلام کی زین پر ھاتھ پھیر کر برکت جوئی کریں گے۔
۵ـ جان نثار ھونگے؛ امام علیہ السلام کی شمع کے گرد پروانہ وار گھومیں گے اور اور اپنی جانوں سےآپ (ع) کی حفاظت کریں گے۔
۶ـ شب زندہ دار اور اھل مناجات ہیں؛ راتوں کو نھیں سوتے اور ان کے تھجد کی صدائیں ان شھد کی مکھیوں کی آواز جیسی سنائی دے گی جو چھتے سے سنائی دیتی ہے۔
۷ـ اطاعت محض اور صرف اور صرف فرمانبراری؛ وہ اپنے امام (ع) کے فرمان کے سامنے مالک کے فرمان کے سامنے کنیزکی اطاعت سے بھی زیادہ اطاعت گذار ھونگے۔
۸۔ راتوں کے زاھد و راھب اور دنوں کے شیر ھونگے۔
۹ـ ان کے دل روشن ھونگے؛ چراغوں جیسے ھونگے اور ان کے دل یوں روشن ھونگے گویا کہ ان کے قلوب قندیل و مشعل کی مانند روشن ھونگے۔
۱۰ـ خوف خدا کے حامل ھونگے؛ وہ اللہ کے خوف سے فکرمند ھونگے۔
۱۱ـ شھادت طلبی ان کا شیوہ؛ ان کی آرزو اللہ کی راہ میں قتل ھونا ہے۔
۱۲ـ حق کی نصرت کرنے والے ھونگے؛ اور اللہ تعالی ان کے ذریعے امام حق (عج) کو نصرت عطا فرمائے گا۔