سید عبد الحسین شرف الدین نے۱۲۹۰ع ھ میں شھر کاظمین (عراق) میں آنکھیں کھولیں ﴿١﴾ انھوں نے اپنی مھربان اور باعصمت ماں ”زھرا صدر” کی مھر و محبت سے بھری آغوش میں اور اپنے روحانی اور جلیل القدر عالم دین والد گرامی سید یوسف شرف الدین کے زیر سایہ تربیت پائی ۔
عبد الحسین ابھی ایک ھی سال کے بچے تھے جب آپ کے والد گرامی اعلی دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے نجف اشرف کی طرف ھجرت کرنے کا فیصلہ کرتے ھیں اور اس طرح سید عبد الحسین، ماں باپ کے ساتھ نجف اشرف چلے جاتے ھیں ۔ چھ سال کے تھے جب آپ کو پھلی بار نجف اشرف میں ایک دینی درس گاہ میں بھیجا گیا تا کہ متدین اور باعمل علماء اور اساتذہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کریں ۔ آٹھ سال کے تھے جب آپ کے والدین واپس جبل عامل (لبنان) لوٹے اور وھیں پر اپنے عالم اور روحانی باپ سے عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور برسوں صرف و نحو، لغت، معانی، بیان و بدیع، شعر و انشاء اور تاریخ اور کتابت کی تعلیم حاصل کرنے میں گزارے ۔ اور مشق و تمرین کے ذریعہ اپنی معلومات کو مزید کمالات بخشنے میں کامیاب ھوگئے ۔
جب عربی ادب، منطق اور اصول فقہ میں ضروری تعلیمات حاصل کرلیں تو اپنے والد گرامی کی خدمت میں علم فقہ حاصل کرنے مین مشغول ھوگئے اور اپنے مضبوط ارادوں کے ساتھ نجاة العباد، المختصر النافع فی فقہ الامامیہ اور شرائع الاسلام جیسی برجستہ فقھی کتابیں بھت اچھی طریقہ سے پڑھ لیں ﴿۲﴾ سید ان کتابوں کے علاوہ دوسرے موضوعات جیسے ادبیات، تاریخ، تفسیر، فقہ، اصول، منطق، اخلاق، عقائد وغیرہ میں بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا اور اپنی تابناک صلاحیتوں کی تربیت کی اور اپنی صلاحیت کو مزید بھتر طریقہ سے پرواں چڑھایا اور زبردست معلومات کا خزانہ اپنے اندر جمع کر لیا ۔ اور اسی زمانے میں اپنے ماں باپ کی تجویز پر اپنی چچا زاد بھن سے شادی کا بندھن جوڑ لیا ۔﴿۳﴾
۱۳۱۰ھ ق میں اپنی والدہ، زوجہ اور بھائی کے ساتھ دو بار عراق کا سفر کیا اور اپنے مامون جلیل القدر عالم دین آیت الله حسن صدر سے مشورہ اور اظھار خیال کے بعد اپنی فقھی اور اصولی اعلیٰ تعلیم کو حوزہ علمیہ سامراء کے دو معروف اساتذہ شیخ حسن کربلائی (متوفی ۱۳۲۲ھ) اور شیخ باقر صدر (متوفی ۱۳۳۳ھ) کے زیر تعلیم شروع کرتے ھیں ۔ ﴿۴﴾
اسی طرح بڑے جوش و ولولے سے ھر جمعہ کی صبح کو حکیم الٰھی آیت الله شیخ فتح علی سلطان آبادی کے درس اخلاق میں شرکت کرتے ھیں ۔ ﴿۵﴾ اور اپنے تشنہ کام دل کو اس عشق حق کے سرچشمہ سے سیراب کرتے ھیں ۔
ایک سال کے بعد مرجع تقلید شیعیان جٓھان آیت الله میرزای شیرازی کچھ اسباب کی بناپر سامرا کو ترک کرکے نجف اشرف منتقل ھوئے تو شرف الدین بھی حوزہ علمیہ سامرا کے دیگر علماء اور اساتذہ کے ساتھ راھی نجف ھوئے جو اس وقت دیار عشق اور قبلہ تشنگاہ علم و معرفت تھا ۔ ﴿٦﴾آپ نے فقہ، اصول، اور کلام وغیرہ کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر سالھا سال تک حوزہ علمیہ نجف اشرف کے برجستہ علماء اور بزرگ فقھاء کے سامنے زانوئے ادب تھہ کیا من جملہ:
۱۔آقای رضا اصفھانی (متوفی ۱۳۲۲ھ)
۲۔شیخ محمد طہٰ نجف( متوفی ۱۳۲۳)
۳۔آخوند خراسانی ( متوفی ۱۳۲۹ھ)
۴۔شیخ الشریعہ اصفھانی (متوفی ۱۳۰۳ھ)
۵۔شیخ عبد اللہ مازندرانی (متوفی ۱۳۳۰ھ)
۶۔سید محمد کاظم طباطبائی یزدی (متوفی ۱۳۳۷ھ)
۷۔میرزا حسین نوری (متوفی ۱۳۲۰ھ) ﴿۷﴾
باز گشت (دوبارہ واپسی﴾
شرف الدین نے بارہ سال تک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے، علمی اور اعتقادی تحقیقات اور مناظرہ انجام دینے اور نھایت ھی ذوق و شوق اور امتیازی محنت و مشقت کے بعد بالآخر درجہ فقاھت واجتھاد کو حاصل کر لیا اور نجف اشرف کے اول درجہ کے مجتھدین اور فقھاء سے اجتھاد کی تائید اور اجازت حاصل کر لی اور صرف بتیس سال کی عمر میں حوزہ ھای علمیہ نجف، کاظمین، کربلااور سامرا کے تمام بزرگ فقھاء و مجتھدین نے ان کے اجتھاد مطلق کو قبول کر لیا اور اس کی تائید کی ۔
اسی عرصہ میں آپ نے علمی اور فقھی تعلیم کے سا تھ ساتھ ادبی علوم میں بھی اپنی سرگرمی دکھائی اور اسرار بلاغت ادبی نزاکت، فنون خطابت اور تصنیف و تاٴلیف پر بھی مکمل طور پر مسلط ھونے میں پوری تلاش و کوشش کی۔اور یہ تمام مھارتیں امتیازی طور پر حاصل کر لیں۔
۹ربیع الاول ۱۳۲۲ھء کو اپنے اھل و عیال کے ساتھ نجف اشرف کو خیر باد کھا اور دمش کے راستے راھی جبل عامل (لبنان) ھوئے ۔ ﴿۸﴾ اور اپنے ھم وطن لوگوں کے پاک جذبات اور احساسات کی ٹھاٹھیں مارتی ھوئی لھروں میں اپنے وطن میں داخل ھوگئے۔
پھلے تو “شحور”میں سکونت اختیار کیا اور اپنے والد گرامی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ھدایت اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور تدریس میں مشغول ھوگئے ۔ ﴿۹﴾ تین سال کے بعد “شھر صور”کے لوگوں کی دعوت پر وھاں روانہ ھوگے ۔آپ نے “حسینہ صور” ﴿١۰﴾ کی بنیاد ڈال کر اس مقام کو مختلف دینی سماجی پروگرام منعقد کرنے کیلئے ایک مرکز میں تبدیل کر دیا۔
منادی وحدت
شرف الدین اپنے زمانے سے آگاہ اسلام جیسے مکتب الٰھی کے بنیادی اور اصل حقائق سے آشنا اور دور اندیش عالم دین کے عنوان سے، جوانی کے زمانے سے ھی اسلامی معاشروں کی ناگفتہ بہ اور آشفتہ حالات اور مسلمانوں کے بھودہ اور افسوسناک اختلاف سے رنجیدہ خاطر تھے۔
آپ نہ صرف شیعہ معاشروں کی اصلاح اور تعبیر نو کے بارے میں سوچ رھے تھے بلکہ اپنے دینی اور سماجی اصلاحی اقدامات کے آغاز ھی میں تمام اسلامی ممالک کی اصلاح اور عزت بخشی اور مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارگی برقرار کرنے کی فکر میں تھے۔آپ نے پوری نصف صدی تک تمام علمی اور معنوی توانائی اور اپنے صادقانہ قلم، بیان اور عمل کے ذریعہ سے امتِ محمدی کو متحد کرنے میں پوری جد وجھد کی اور کسی بھی طرح کی تلاش و کوشش سے دریغ نھیں کیا۔ ﴿١١﴾
امت مسلمہ کو متحد کرنے کی راہ میں آپ کا سب سے پھلا اور سنگین قدم ایک گرانقدر کتاب بنام”الفصول المھمة فی تالیف الامّة” (امت مسلمہ کو متحد بنانے کے بارے میں چند اھم باب تھا جو ۱۳۲۷ھء میں شھر “صور”(لبنان) میں چھپائی کے مراحل سے گزر کر عوام کے ھاتھوں میں آئی۔ ﴿١۲﴾ اس دن سے لیکر عمر کے آخری لمحوں تک (۱۳۷۷ھء)ھمیشہ اپنے اس الٰھی مقصد کو پایہ تکمیل تک پھونچانے کیلئے اپنی تحریک جاری رکھی اور حقیقتاً اس حرکت سے تابناک اور پر ثمر نتائج حاصل کر لئے۔
۱۳۲۹ھء کے آخر میں مصر کے دیدار، وھاں کے مصنفین اور مفکرین، دانشوروں اور علمائے دین سے آشنائی اور امت مسلمہ کے درمیان اتحاد کی راہ ھموار کرنے کیلئے، مصر کی طرف روانہ ھوگئے چونکہ آپ یہ جان چکے تھے کہ انکی اس تحریک کا بھترین نقطہ قاھرہ کی “الازھر یونیورسٹی“ ھے جو اھل سنت مسلمانوں کا سب سے بڑا دینی اور علمی مرکز ھے ۔
خوش قسمتی سے الازھر یونیورسٹی کے مشھور استاد اور بزرگ مفتی شیخ سلیم مالکی کی شرف الدین سے جان پھچان ھوگئی علمی اور مذھبی آشنائی حیرت انگیز اور زبردست تحریری اور تقریری مباحثوں کا سبب بنی کہ جو اسلامی تاریخ میں امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و یکجھتی کی راہ میں اور تاریخی حقائق اور واقعات کو حاصل کرنے میں تمام مسلم علماء اور منکرین کیلئے نمونہ عمل بن سکتی ھے۔اس واقعہ کے ٹھیک پچیس سال بعد ۱۳۵۵ھء میں شرف الدین نے شیخ سلیم کے ساتھ ھونے والے اپنے تحریری مناظرات کا سلسلہ جو ۱۱۲ خطوط پر مشتمل تھا، جدید طرز کے مقدمہ کے ساتھ ایک کتاب بنام “المراجعات “کے صورت میں شھر “صیدا”میں چھپوائی ۔ ﴿١۳﴾
اس کتاب کے علمی اور استدلالی ھونے کے علاوہ یہ خصوصیات ھیں کہ اس میں جدید اور مفید کلمات مختصر لیکن معنیٰ خیز جملات، دلنشین اور ادبی تعبیرات کا استعمال اور عربی اشعار اور محاورات استفادہ کر کے اس کے مطالب پر ثمر ثابت ھوئے کہ جس نے اپنی نوعیت میں ایک بے مثال اثربنا دیا۔
مصر میں شرف الدین نے شیخ سلیم بشری کے ساتھ خط و کتابت کے علاوہ اھل سنت کے دیگر علماء اور دانشوروں کے ساتھ بھی مختلف ملاقتیں اور علمی، دینی اور فلسفی بحث و مباحث میں حصہ لیا اور اھل سنت کے بزرگ علماء جیسے شیخ محمد نجیب، شیخ محمد سلموطی، شیخ محمد عبدہ اور شیخ عبد الکریم الکتانی ادریسی نے شرف الدین کے حق میں علمی تائیدات اور اجازت نامے صادر کر کے انکی علمی اور فکری منزلت و مقام کی قدر دانی کی۔
جھاد اور جدّ و جھد کا زمانہ
۱۳۳۰ھء کے اواخر میں اپنی رسالت کو پایہ تکمیل تک پھونچا نے اور مخالفین کے دلوں کو فتح کرنے کے بعد مصر سے لبنان روانہ ھوئے ۔اس زمانے میں لبنان کے لوگ بھی دیگر اسلامی ممالک کے لوگوں کی طرح اپنے ملک کے استقلال اور سلطنت عثمانی سے آزادی کے خواھاں تھے۔
ایسے وقت میں شرف الدین پھلی بار آزادی خواہ گروھوں کی تحریک کی تائید کرتے ھوئے سیاسی سرسرگرمیوں اور سماجی جدّو جھد کے میدان میں وارد ھوگئے ۔آپ لبنان کی جنگ آزادی میں لوگوں کے شانہ بہ شانہ لڑتے رھے انکی دینی اور سیاسی قیادت کو قبول کر لیا اور “جبل عامل” کے آمادہ شدہ افرادکو پناہ دی۔آپ نے ھمہ جھت اور عمومی قیام کو تشکیل دینے اور ملک بھر کی فرانس مخالف تحریکوں کو ھماھنگ کرنے کیلئے “جبل عامل کے علماء وقائدین کو ایک عمومی کانفرنس تشکیل دینے کیلئے انھیں شھر “وادی الحجیر”(لبنان اور شام کی سرحد) میں بلالیا ۔اور اسی کانفرنس میں اپنی تقریر کے درمیان فرانسیی سامراج کے خلاف جھاد کا فتوا دے دیا۔ ﴿١۴﴾
فرانسوی فوج نے شرف الدین کو گرفتار کرنے کیلئے زبر دست تلاش و جستجو شروع کی اور آپ پھلے جبل عامل ار پھر دمشق ھجرت کر گئے ۔اور دمشق کے سیاسی، دینی اور علمی اجتماعات میں برابر حاضر ھوتے رھے۔چونکہ آپ کی علمی اور سیاسی صلاحتیں اسلامی ممالک میں شھرہ افاق تھیں جھاں بھی جاتے وھاں کے لوگ زبردست استقبال کرتے اور قدر دانی کرتے ھوئے اپنی آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔آپ مسلمان علماء دانشوروں، سیاستدانوں، روشنفکر وں اور مجاھدوں کی راھنمائی کر تے اور سیاسی جدّ وجھد کا صحیح راستہ دکھاتے تھے۔فرانسی فوج چونکہ شرف الدین تک رسائی حاصل نھیں کر پائی لھٰذا انکے گھر اور انکی لائبریری کو نذر آتش کردیا اور آپ کے بھت سارے قلمی اور خطی آثار کو جلاکر راکھ کا ڈھیر بنادیا ۔ ﴿١۵﴾
شرف الدین دمشق میں سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے علاوہ، لبنانی اور غیر لبنانی مسلمان پناہ گزینوں کا بھی خیال رکھتے اور انکی ھر طرح کی مدد کرتے تھے۔آپ دیگر لبنانی مجاھدین کے ساتھ کچھ عرصہ تک دمشق میں ھی رھے یھاں تک کہ فرانسی سامراج اور جنایتکاروں نے اپنی زیادتیوں اور تھاجم کو وسعت دیتے ھوئے شام کی سرزمین پر بھی اپنا قبضہ جمالیا۔ایسے حالات میں شرف الدین اپنے خاندان کے ھمراہ فلسطین چلے گئے اور شھر”حیفا”میں سکونت اختیار کر لی۔کچھ عرصہ بعد ۱۳۳۸ھء میں اپنا بھیس بدل کر دوسری بار مصر روانہ ھوگئے ۔آپ وھاں کی مسجدوں اور روزانہ کی علمی، سیاسی اور ادبی محفلوں میں حاضر ھونے کے ساتھ ساتھ مختلف افراد اور گرھوں سے دیدار اور گفتگو کرتے تھے اور آپ کے اکثر بیانات مصر کے ان دنوں کے نشریات میں چھپ کر سامنے آجاتے تھے۔
آپ نے اپنی ایک پر جوش اور انقلابی تقریر میں ایک عمیق اور پرمحتویٰ جملہ بولا جو وحدت اسلامی کی حقیقت کو بیان کر تا تھا ۔سید رشید رضا، مصر کا مشھور مصنف اور عالم دین اس محفل میں حاضر تھا نے اس جملہ کو جلی حرفوں اور بڑے خط کے ساتھ اپنے رسالہ “المنار”میں چھپوادیا ۔وہ جملہ یہ تھا کہ:”شیعہ اور سنی معاشرہ کو سب سے پھلے سیاست اور سیاسی چالبازیوں نے ایک دوسرے سے جدا کر دیا اور اس وقت بھی سیاست اور اسلام مسلمین کے سیاسی مفادات ھی ان دو سماجوں کو ایک دوسرے کے پھلو میں بٹھا سکتے اور انھیں متحد کر سکتے ھیں۔ ﴿١٦﴾
شرف الدین ایک عرصہ تک مصر میں ھی رھے ۔پھر آپ اس نتیجہ پر پھونچے کہ ایسی جگہ سکونت کریں جو لبنان سے نزدیک ترین جگہ ھو۔اور بھت قریب سے اپنے ملک اور اپنی قوم کی آزادی کیلئے مناسب جد وجھد کو پائے تکمیل تک پھونچائے ۔ لھٰذا جب بیروت میں وارد ھوگئے تو فرانسی حکام نے انھیں جلد سے جلد شھر”صور”بھیجنے کے مقدمات فراھم کر لئے لیکن شرف الدین بیروت ھی میں ٹھر گئے تاکہ دوسرے مجاھدین اور مھاجرین، ملک بدر اور فراری مبارزین کے بارے میں حکام سے مذاکرات کریں اور آخر کار آپ اپنی تلاش و جدو جھد میں کامیاب ھوگئے اور تمام دوسرے مجاھدین اور مھاجرین کی وطن واپسی پر توافق حاصل ھوگیا اور اس طرح شرف الدین آسودہ خاطر ھوکر شھر”صور “روانہ ھوگئے ۔
شرف الدین کی وطن واپسی کا دن لبنان کی تاریخ میں ایک یاد گار دن ھے ۔لبنان کے مسلمان اور مجاھد لوگ جو تقریبا ایک سال تک ادنیٰ دینی اور انقلابی قائد کی حاضری سے محروم تھے، آپ کی شاندار وطن واپسی پراپنے تمام اندرونی جذبات کا پورے جوش و ولولہ کے ساتھ تقریروں، تحریروں، اشعار و قصائد اور مظاھروں کی صورت مین اظھار کیا۔ ﴿١۷﴾
شرف الدین مردانہ وار مغربی بیگانوں کی مخالفت پر ڈٹے رھے اور لبنان سے انکے آخری فرد کے خارج ھونے اور ۱۹۴۵ھ مین رسمی طور پر اس ملک کے استقلال کی تائید ھونے تک آپ نے اپنی جدو جھد کو جاری رکھا۔اس دوران جب آپ فرانسی قبضہ کے خلاف لبنان میں نبردآزما تھے، فلسطین برطانیہ کے تحت تسلط تھا، اور مسئلہ فلسطین کی وہ صورت حال بھت اچھی تھی جو ۱۹۴۸ء کے بعد پیش آئی لیکن بھر حال اسی وقت سے یہ سازش جاری تھی اور اسکے لئے راہ ھموار کی جاری تھی۔اسی زمانے میں شرف الدین نے دنیا کے یھودیوں کی سرزمین فلسطین کی طرف ھجرت کو:اس ملک کے مستقبل کیلئے کافی خطرناک جانا اور اسی لئے آپ ھمیشہ فلسطین کیلئے صھیونی، یھودیوں کے خطر ے کی یاد دھانی کرتے تھے۔ ﴿١۸﴾
زیارتی سفر
۱۳۴۰ھء کا حج تاریخ کا باشکوہ اور باعظمت حج تھا ۔مسلمانوں کی اس عظیم عالمی کانفرنس میں شرف الدین کی حاضری نے اسے چار چاند لگادیئے تھے ملک حسین کی گزارش پر مسجد الحرام میں پھلی بار ایک شیعہ عالم دین کی امامت میں نماز جماعت قائم ھوتی تھی۔ ﴿١۹﴾
حج کی رسومات کو پایہٴ تکمیل تک پھونچانے کے بعد شرف الدین اپنے ھم وطنوں اور سعودی عرب کے حکام کے احترام اور اکرام کے ساتھ ساتھ جبل عامل روانہ ھوگئے۔
۱۳۵۵ھء کے آواخر میں آپ نے عراق کا سفر کیا اور سب سے پھلے بغداد گئے اور پھر ائمہ معصومین علیھم السلام کی زیارت کے لئے نجف، کربلا، کاظمین اور سامرا گئے۔
۱۳۵۵ھء ھی کے آخری ایام میں شرف الدین عراق سے ایران پھونچ گئے تاکہ شیعیان عالم کے آٹھویں امام حضرت ابو الحسن علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ھوسکیں۔تھران میں بھت سارے علماء دین، دانشوروں اور علمی و دینی شخصیتوں نے آپ کا زبردست استقبال کیا۔اور اسی طرح دیندار لوگ اور شھر کے دوسرے علما ء بھی آپ کے دیدار اور زیارت کے لئے آپ کے پاس گئے اور آپ کو زبردست احترام و اکرام سے نوازا۔
اس کے بعد شرف الدین تھران سے قم تشریف لے گئے تاکہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی صاجزادی کرئمہ اھل بیت حضرت فاطمہ معصومین علیھا السلام کے روضہٴ مبارک کی زیارت کر لیں اور ساتھ ھی حوزہ علمیہ قم اور وھاں کے علماء اور فقھاء سے آشنا ھوجائیں جو اس زمانے میں رضا خانی شھنشا ھیت کے ظلم واستبداد اور گھٹن کے ماحول میں زندگی گزار رھے تھے۔اس دیدار اور زیارت کے بعد، اپنا رخت سفر دیار خراسان کی طرف باندھ لیااور شھر شھادت مشھد مقدس کی طرف روانہ ھوگئے اورآخر کار آستان قدسی حضرت امام رضا علیہ السلام کو بوسہ لیکر اپنی دیرنیہ آرزو کو پورا کر لیا۔شرف الدین کا سفر ایران تقریباً ایک مھینہ تک جاری رھا اور آپ ۱۳۵۶ھء کے اوائل میں اپنے وطن واپس لوٹ گئے۔ ﴿۲۰﴾
ھدایت کے سر چشمے
شرف الدین نے لبنان کی آشفتہ حالت اور وھاں کی تعلیمی اور ثقافتی خراب صورت حال کہ جو اس وقت مغربی سامراج کی خائف حکومت کے غلبہ کے استحکام اور توسعہ کی وجہ سے پیش آتی تھی، کو دیکھتے ھوئے اپنے سماج کے تعلیمی محکمہ (ڈپارٹمنٹ ) کی اصلاح کرنے کی ٹھان لی ۔آپ نے “شھر صور” میں ایک مدرسہ بنانے کا پروگرام بنایا اور اس کام میں ان تمام صاحبان مال و قدرت کو تعاون کرنے کی دعوت دی جن سے آپ کو مالی امداد کی امید تھی۔
ابتدا میں ۱۳۵۷ھء میں مسلمان طالب علموں کی تعلیم کے لئے “المدرسة الجعفریہ” نام کے ایک پرائمری اسکول کی سنگ بنیاد ڈال دی۔ یہ مدرسہ کوئی فیس لئے بغیر مکمل طور پر مفت میں بچوں کو تعلیم دیتا تھا اور جدید تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ اسلامی معارف اور علوم اخلاق بھی اس مدرسہ میں پڑھائے جاتے تھے۔ ﴿۲١﴾
شرف الدین نے ایک آگاہ اور ھمدرد مصلح ھونے کے ناطے”لقب امام صادق علیہ السلام”نام کا ایک کلب (club)(herald imam sadiq a.s.club ) کھولا تاکہ اس طرح جوانوں اور نوجوانوں کو دشمنوں اور بدخواھوں کی محافل میں جانے سے روکیں ۔اور اسی طرح مدرسہ الجعفریہ اور امام صادق علیہ السلام کلب کے پاس ھی ایک مسجد بھی بنوائی تاکہ وہ طالب علم جو مدرسہ آتے ھیں اور وہ افراد جو کلب آتے ھیں اپنے دینی فرائض اور وظائف اس مسجد میں انجام دے سکیں۔ ﴿۲۲﴾
شرف الدین بھت اچھی طرح سے یہ جانتے تھے کہ آج کی لڑکیاں کل کی مائیں ھیں اور مسلمان فرزندوں کی تربیت میں بنیادی کردار کی حامل ھیں۔لھٰذا اس ضرورت کے پیش نظر کچھ ضروری مقدمات فراھم کر کے ۱۳۶۱ھء میں “الزھرا”نام لڑکیوں کا ایک اسکول (AZ.ZAHRA GIRLS SCHOOL)کھولا ۔کچھ ھی عرصہ کے بعد آپ کے سیاسی مخالفین جو کہ فرانس کی کٹھ پتلی تھے، نے طاقت کا سھارا لیتے ھوئے لبنان کی وابستہ حکومت اور سرکاری فوجوں کے ذریعہ مدرسہ “الزھرا”کو بند کر دیا۔لیکن شرف الدین نے کسی خوف اور مایوس کا احساس کئے بغیر اس سال کی کلاسیں اپنے گھر میں برگزار کیں اور سال کے آخر تک ان کلاسوں کو جاری رکھا۔اور آخر کار یہ مدرسہ دوسرے ھی سال دوبارہ کھل گیا اور مدرسہ جعفریہ کے ساتھ ساتھ اپنے کام کو آگے بڑھایا۔ ﴿۲۳﴾ اس کے بعد آپ نے جعفریہ کالج کی بھی بنیاد ڈال دی۔ ﴿۲۴﴾
شرف الدین ھمیشہ اپنی مالی حالت کے مطابق غریب و نادار لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی تلاش میں رھتے تھے ۔ شھر “صور”میں آپ کا گھر فقیروں اور مفلسوں کی پناہ گاہ تھا ۔آپ نے اپنی سماجی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ھوئے لوگوں کی فلاح و بھبود کی خاطر ۱۳۶۵ھء میں ایک فلاحی ادارہ بنام “انجمن سخاوت و احسان”کی بناد ڈال دی۔ ﴿۲۵﴾ اس ادارے کی تائیس شرف الدین کی زندگی کے آخری سالوں کی بنیادی کار آمد اور قابل افتخار کاموں میں سے ایک تھی۔
"نص" کے مقابلے میں اجتھاد
﴿نص: قرآن، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے صریح اور واضح اقوال﴾
﴿اجتھاد:کسی فرد کا ذاتی نظریہ﴾
شرف الدین کی زندگی کے آخری برسوں کا ایک اھم علمی اور تحقیقی کام جسے آپ پایہٴ تکمیل تک پھونچانے میں کامیاب ھوئے آپ کی مشھور اور حیرت انگیز کتاب “نص اور اجتھاد”کی تصنیف تھی ۔یہ کتاب اتحاد و یکجھتی کی راہ میں شرف الدین کا ایک اور شاھکار تھی۔
اس کتاب میں آپ نے تقریباً ان ایک سو مقامات کی نشاندھی کی جھاں پر خلفا ء، حاکموں اور ان کے بعض رشتہ داروں نے رسول خدا کے زمانے میں یا آنحضرت کی رحلت کے بعد، مقابلے میں اجتھاد کیا ھے یعنی پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے صریح اقوال اور وضاحت کے مقابلے میں اپنی ذاتی رائے سے کام لیا ۔آپ نے ان تمام موارد کو اھل سنت کی معتبر کتابوں سے نقل کیا اور ان میں سے ھر ایک کے بارے میں اپنی علمی، تحقیقی اور تنقیدی نظریات کو بیان کیا ۔﴿۲٦﴾
اپنے جد امجد کی امت کی اصلاح اور ثقافتی تربیت کی راہ میں گرانقدر کتاب آپ کی بابرکت زندگی کی آخری کاوش تھی اور یہ کتاب دنیائے اسلام کے اتحاد و یکجھتی اور سعادت و خوش نصیبی کے لئے جدّو جھد کرنے والی ایک انتھک عمر کا حسنِ اختتام سمجھی جاتی ھے۔
آخری منزل
شرف الدین نے کبھی بھی جسمانی کمزوریوں اور بڑھاپے کی طرح طرح کی بیماریوں کو بھانہ نھیں بنایا اور اپنی شرعی اور سماجی ذمہ داریوں سے ھاتھ لیں کھینچا ۔جب آپ بیروت کے اسپتال میں زیر علاج تھے تو ھر روز اور لبنان کے ھر شھر سے طرح طرح کے لوگ جوق در جوق آپ کی عیادت کے لئے آتے تھے۔ایک ایک دن امید اور اضطراب میں گزرتا رھا یھاں تک کہ ۸جمادی الثانی ۱۳۷۷ھ ق پیر کی صبح کو یہ فروزاں اور ھمیشہ بیدار رھنے والی انکھیں، ۸۷ سال کی چکا چوند چمک کے بعد خاموش ھوگئیں ۔
شرف الدین کے انتقال کی خبر نے دنیائے اسلام میں ایک غمناک سایہ ڈال دیا اور شھر “صور “کے لوگ ھمیشہ کے لئے چمکتے ھوئے چھرہ الٰھی اور دلوں کی امید حسرت ِدیدار میں رہ گئے۔
آخر کار رحلت کے دو دن بعد بیروت، بغداد، کاظمین اور بالآخر نجف اشرف میں زبردست تشیع کے بعد شرف الدین کا بدن اطھر صحن امام علی علیہ السلام کے جنوبی سمت اور آپ کے استاد عظیم فقیہ سید محمد کاظم یزدی کی قبر کے پھلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ ﴿۲۷﴾
علمی کاوشیں
اس سے پھلے ھم نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ شرف الدین کے بھت سارے قلمی اور خطی آثار، ھجرت اور جد وجھد کے دوران، فرانسی طاقتوں کے ذریعہ نذر آتش کر دئے گئے ۔اس کے باوجود آپ کے چند قلمی آثار جاودانی اور بے مثال ھیں جو نہ صرف تشیع بلکہ دنیائے اسلام کے قابل فخر، تاریخی، ادبی دینی اور علمی شاھکار وں میں شمار ھوتے ھیں۔
ھم یھاں پر ان کا ایک اجمالی تعارف پیش کرتے ھیں
۱۔ الفصول المھمہ: اس کا ترجمہ فارسی میں بھی”تفاھم کی راہ میں”کے عنوان کے تحت ھو چکا ھے۔
۲۔ الکلمة الغراء فی تفضیل الزھراء (ص): یہ کتاب دنیا کی سب سے با فضیلت خاتون حضرت فاطمہ الزھرا ء علیھا السلام کے بارے میں ھے۔
۳۔ المراجعات: اس کتاب کے بارے میں ھم نے پھلے بھی تذکرہ کیا ھے۔قابل ذکر بات یہ ھے کہ یہ کتاب ۱۳۶۵ھء میں درحالیکہ سید شرف الدین بھی باحیات تھے، بزرگ علامہ حیدر قلی سردار کابلی کے ھاتھوں فارسی میں ترجمہ ھوکر تھران میں چھپوائی گئی ۔اور اس کا اردو ترجمہ دین حق اور مذھب اھل بیت کے نام سے ھند و پاک میں اب تک کئی بار چھپ چکا ھے۔
۴۔ النص واجتھاد: اس کتاب کے بارے میں بھی ھم نے تذکرہ کیا ۔یہ کتاب بھی “علی دوانی”کے ذریعہ فارسی میں ترجمہ ھو کر “نص کے مقابلے میں اجتھاد “کے عنوان کے تحت چھپوائی گئی۔
۵۔ ابو ھریرہ:ابو ھریرہ کے متعلق ایک تحقیقی کتاب ھے۔
۶۔ المجالس الفاخرہ فی مٓاتم العترة الطاھرة: یہ کتاب اسی نام کی ایک دوسری کتاب کا مقدمہ تھی جو چار جلدوں پر مشتمل تھی اور فرانسی غیر متمدان اور بے فرھنگ افراد کے ھاتھوں آگ میں جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئی اور صرف یہ مقدمہ باقی بچا ھے۔
۷۔ فلسفہ المثاق والولایة: الٰھی اور ازلی عھد و پیمان سے متعلق ایک بحث ھے ۔
۸۔ اجوبة مسائل جار الله: ”موسیٰ جار الله “ کے ان بیس سوالوں کا مستدل اور علمی و تحقیقی جواب جو اس نے شیعہ علماء سے کئے تھے۔
۹۔ مسائل فقیھیہ: ان مسائل پر مشتمل ھے جو مختلف مذاھب اسلامی کی فقہ کے مطابق ھیں۔
۱۰۔ کلمة حول الرویة:اعتقادی مسائل سے متعلق ایک کتاب ھے۔
۱۱۔ الی المجمع العلمی العربی بد مشق: یہ کتاب ان تھمتوں اور ان بھتانوں کا جواب ھے جو” مجمع علمی”دمشق نے اس زمانے میں مذھب شیعہ پر لگائے تھے۔
۱۲۔ ثبت الاثباب فی سلسلة الرواة: ایک ایسا رسالہ ھے جو مذاھب اسلامی کے اساتذہ اور صاحبان تالیف کے تذکرے پر مشتمل ھے۔
۱۳۔ موٴلفو الشیعہ فی صدر الاسلام: یہ کتاب ان شیعہ موٴلفین اور صاحبان کتاب کے بارے میں ھے جو عصر نبوت سے لیکر امام ھادی علیہ السلام تک گزرتے ھیں۔
۱۴۔ زینب الکبریٰ: جناب زینب بنت علی علیھا السلام سے متعلق ھے
۱۵۔ بغیة الراغبین فی اصول آل شرف الدین: یہ ایک ادبی، تاریخی اور رجالی کتاب ھے ۔جس میں خاندان صدر اور خاندان شرف الدین کے علماء کے حالات زندگی بیان کئے گئے ھیں۔ ﴿۲۸﴾
منبع: گلشن ابرار؛ گروهی از نویسندگان / ج 1
1. نقباءالبشر، شيخ آقا بزرگ تهرانى، ج 3، ص 1080؛ حياة الامام شرف الدين فى سطور، شيخ احمد قبيسى، ص 31؛ الامام السيد عبدالحسين شرف الدين قائد فكر و علم و نضال، شيخ عبدالحميد الحر، ص 13.
۲. حياة الامام شرف الدين، ص 31؛ الامام عبدالحسين شرف الدين، ص 76 و 77.
۳. حياة الامام شرف الدين، ص 130.
۴. همان، ص 32؛ الامام السيد عبدالحسين شرف الدين، ص 89.
۵. حياة الامام شرف الدين، ص 32.
۶. همان، ص 33.
۷. شرف الدين، محمد رضا حكيمى، ص 53.
۸. نقباء البشر، ج 3، ص 1081؛ حياة الامام شرف الدين، ص 80.
۹. الامام السيد عبدالحسين شرف الدين، ص 88.
۱۰. حياة الامام شرف الدين، ص 85.
۱۱. شرف الدين عاملى، چاووش وحدت، به قلم همين نويسنده، ص 73 و 74.
۱۲. نقباء البشر، ص 1082.
۱۳. ((شرف الدين))، اثر استاد محمد رضا حكيمى، ص 129 - 132.
۱۴. النص و الاجتهاد، شرف الدين، مقدمه سيد محمد صادق صدر، ص 14 و 15.
۱۵. همان، ص 32.
۱۶. النص و الجتهاد، ص 14؛ شرف الدين، ص 175.
۱۷. حياة الامام شرف الدين، ص 115.
۱۸. ر. ك: شرف الدين، ص 226 - 228.
۱۹. المراجعات، شرف الدين، مقدمه شيخ مرتضى آل ياسين، ص 19.
۲۰. حياة الامام شرف الدين، ص 109.
۲۱. همان، ص 88.
۲۲. النص و الاجتهاد، ص 33.
۲۳. شرف الدين، ص 225.
۲۴. حياة الامام شرف الدين، ص 91.
۲۵. همان، ص 101.
۲۶. النص و الاجتهاد؛ شرف الدين، ص 132 - 137.
۲۷. نقباء البشر، ج 3، ص 1085 و 1086؛ النص و الاجتهاد، ص 29.
۲۸. شرف الدين، ص 103 - 139 و النص و الاجتهاد، مقدمه.