انسانوں کا باھمی ربط چاھے گھر میں ھو یا دفتر میں، مسجد میں ھو یا مندر میں، مدرسے میں ھو یا یونیورسٹی میں، کھیت میں ھو یا منڈی میں، دیھات میں ھو یا شھر میں، ملک میں ھو یا دنیا میں، اس ربط کے
خیر و خوبی سے برقرار رھنے کے لئے چند رویئے بھت اھم ہیں۔ یہ رویئے بنیادی طور پر انسان کے فکر و عقیدہ، فھم و فراست اور ذھنی کیفیت کے آئینہ دار ھوتے ہیں۔
اگر معاشرے میں یہ رویئے اعتدال کے ساتھ موجود نہ ھوں تو انسانوں کا ربط بعض اوقات بھت بھیانک صورت اختیار کر جاتا ہے۔ عدم برداشت اور شدت پسندی دو ایسے ھی رویئے ہیں، جو معاشرے میں فساد اور خلفشار کا بھت اھم اور بنیادی عامل ہیں۔
آج بڑی مشکل اور عجیب دور ہے، لوگ اصطلاحات اور ان کے مفاھیم کے مابین سعی کرتے نظر آتے ہیں، جیسے حجاج صفا و مروہ کے مابین سعی کرتے ہیں۔ ھزاروں نھیں لاکھوں روپیہ ان اصطلاحات کو مفاھیم بخشنے اور پھر ان مفاھیم کو اذھان انسانی میں راسخ کرنے کے لئے لگایا جاتا ہے، جو بذات خود اس سارے عمل کو مشکوک کر دیتا ہے۔
انسانی لغت میں اصطلاحات اور مفاھیم کا تعلق کبھی بھی ایسا نہ تھا۔ مفاھیم پھلے وجود رکھتے تھے اور ان کے لئے اصطلاحات بعد میں وضع کی جاتی تھیں۔ تاھم آج بعض مخصوص موارد میں اصطلاح پھلے آتی ہے اور اسے مفھوم کی قبا بعد میں پھنائی جاتی ہے۔
شدت پسندی، انتھا پسندی، عدم برداشت، دھشت گردی جیسے الفاظ کے ساتھ بھی کچھ یوں ھی ھوا۔ آپ دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑایئے جو کچھ پھلی اور دوسری جنگ عظیم میں ھوا، کیا وہ شدت پسندی اور عدم برداشت کے مظاھر نہ تھے، جو ظلم ھیرو شیما میں کیا گیا، کیا وہ عدم برداشت اور بربریت کا ایک مظاھرہ نہ تھا؟ ویتنام میں بھی دھشت گردی نھیں کی گئی، نوآبادیاتی نظام کے ذریعے دنیا کے وسائل کو پوری دو صدیاں دونوں ھاتھوں سے لوٹا جاتا رھا، کیا یہ انتھا پسندی اور ریاستی دھشت گردی نہ تھی۔
فلسطینیوں پر ھونے والے مظالم اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کو وجود میں لانا، کیا مذھبی دھشت گردی نھیں ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود دنیا کی ایک بھت بڑی اکثریت ان دھشت گردوں، شدت پسندوں اور عدم برداشت کے حامل لوگوں کو محسن انسانیت اور دھشت گردی کے خلاف برسرپیکار ممالک کی صف میں نہ صرف شامل کرتی ہے بلکہ آج یہ تصور کیا جاتا ہے کہ دھشت گردی، انتھا پسندی اور عدم برداشت کے خلاف جنگ کو لڑنے والے ہیں ھی یھی۔ طرفہ تماشہ دیکھئے کہ شدت پسند، انتھا پسندی اور دھشت گرد کی اصطلاحات اب کچھ خاص ڈھب کے لوگوں کے لئے رہ گئی ہیں، لفظ ادا ھوا نھیں اور ذھن اس دین کے پیروکاروں کی جانب چلا گیا، جس کی آمد کا مقصد ھی دنیا میں امن و آشتی، اعتدال اور عدل اجتماعی تھا۔
وہ دین جو اپنے پیروکاروں سے کھتا ہے:
دین میں کوئی جبر نھیں(سورۂ بقرۃ،آیت 256)
وہ دین جس کی تعلیم ہے کہ:
"ایمان والوں سے کھہ دیجئے کہ ان لوگوں کو جنھیں اللہ کے دنوں پر یقین نھیں ہے، کو معاف کر دیں اس لئے کہ یہ اسی خدا کا کام ہے کہ ھر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دے۔"(سورۂ جاثیۃ،آیت 14)
وہ دین جس نے اپنے پیروکاروں کو معاف کرنے اور غصہ پی جانے کی تعلیم کچھ انداز سے دی:
"وہ غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔"(سورۂ آل عمران،آیت ۱۳۴)
وہ دین جس نے سب انسانوں کو کچھ اس انداز سے کلمۃ سواء پر جمع ھونے کی دعوت دی:
"کھہ دیجئے اے اھل کتاب! ھمارے اور تمھارے درمیان جو بات مشترک ہے اس کی طرف آؤ! یہ کہ ھم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ یہ کہ ھم اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور یہ کہ ھم سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو معبود نہ بنائے۔"(سورۂ آل عمران ،آیت ۶۴)
کوئی بھی سچا پیروکار مصطفٰی (ص) ان آیات پر ایمان لائے بغیر اور ان کو اپنی زندگی کے روزمرہ امور میں اپنائے بغیر دین داری کا دعویٰ نھیں کرسکتا، اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ انتھا پسندوں کی ایک بڑی جماعت اسلام کے لبادہ میں دین دشمنی پر کمر بستہ ہے۔
آج بھی ھم دیکھتے ہیں کہ معاشرہ اسی طرح کے رویوں کا شکار ہے۔ نعرہ تکبیر لگا کر مسلمانوں کے گلوں پر خنجر چلایا جاتا ہے۔ اسلام کی خدمت سمجھ کر مسلمانوں کی آبادیوں میں دھماکے کئے جاتے ہیں۔ دین کی سربلندی کی بات کرکے عورتوں اور بچوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ توحید کا نظام نافذ کرنے کے نام پر توحید پرستوں ہی کے عقائد و نظریات نیز مقدسات پر حملے کئے جاتے ہیں۔ پورا عالم اسلام بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم اس فکر سے دوچار ہے کہ اس عفریت سے معاشرے کو کیسے نجات بخشی جائے۔ انسانوں کی بدقسمتی کھئیے یا مقدر کہ دنیا کی وہ طاقتیں جو عالمی وسائل پر تسلط کا خواب دیکھتی ہیں،ان کے لئے یہ عفریت مفید ہے۔
اگر ھم فقط مشرق وسطٰی جو کہ اسلام کا مرکز ہے، پر غور کریں تو ھم دیکھتے ہیں کہ اس خطے میں عالمی استعمار کے بنیادی طور پر تین اھداف ہیں:
۱۔ صھیونی ریاست کا قیام اور اس کا تحفظ۔
۲۔ خطے میں موجود توانائی کے ذخائر پر کنٹرول۔
۳۔ خود اسلام حقیقی کی بحیثیت نظام طاقت و قوت کو ختم کرنا ہے۔
ان کی نظر میں جو عمل سے بھی ظاھر ہے، یہ تینوں اھداف حاصل کرنے کا بھترین طریقہ یھی ہے کہ ان خطوں کو بدامنی، خلفشار، اندرونی مسائل اور الجھنوں میں گرفتار رکھا جائے۔ تکفیری فکر، شدت پسندی اور عدم برداشت کے رویئے ان مقاصد کے حصول کا بھترین ذریعہ ہیں۔
مسلمانوں کو علاقائیت، فرقہ اور مذھب کی بنیاد پر تقسیم رکھنے کے لئے ھر حربہ بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان علاقوں میں براجمان کٹھ پتلی بھترین خدمت گزار کا کردار ادا کرتے ہیں۔
پیر جماران اور امت کے مسائل
آج دنیا اس عظیم بطل اسلام کا یوم وفات منا رھی ہے، جس نے امت کے مسائل کو بھت قریب سے دیکھا اور اپنی قرآنی و الھی بصیرت کو بروئے کار لاتے ھوئے ان مسائل کا حل پیش کیا۔
امام خمینی(رہ) کے افکار کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ھم دیکھتے ہیں کہ ان کا بنیادی زور ’’دشمن شناسی‘‘ پر تھا۔ وہ مسائل سے پھلو تھی نھیں کرتے تھے بلکہ ان مسائل کا سامنا کرتے ھوئے ان کے حل پر توجہ مبذول رکھتے تھے۔
امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی انسانی معاشرے پر تاثیر کو اپنے اور پرائے سبھی نے قبول کیا ہے، تاھم آج بھی اس شخصیت کی بھت سی ایسی پرتیں ہیں جن پر سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔
امام خمینی(رہ) ایک مجتھد ھونے کے ساتھ ساتھ فلسفی، مفکر، عارف، شاعر اور اعلٰی انسانی صفات کی حامل شخصیت تھے۔ ان کا بدنی تعلق تو شاید کسی ایک خطے اور زمانے سے ھو، تاھم روحانی و فکری وسعت کے اعتبار سے وہ زمانوں اور خطوں سے ماوراء انسان تھے۔
اسلام کا گھرا مطالعہ، امت مسلمہ کے مسائل کا گھرا ادارک، اس امت کی کمزوریوں کا گھرا احساس اور اس کی نشاۃ ثانیہ کا گھرا ارمان ان کے قلب و نظر میں معجزن تھا۔
نھایت افسوس سے کھنا پڑتا ہے کہ آج بھی عالم اسلام کو اپنے اس عظیم فرزند کی افکار کو سمجھنے میں بھت سی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ھماری دوریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ ھم اپنے افق پر طلوع ھونے والے آفتاب کو نھیں دیکھ پاتے۔ یہ ایسا ھی ہے کہ انسان ایک سمت رخ کرکے کھڑا ھوجائے اور اسی سمت سے آفتاب کے طلوع کا منتظر رھے، حالانکہ نور کا پھیلاؤ اس بات کی علامت ھو کہ کسی اور سمت سے آفتاب طلوع ھوچکا ہے۔
اندھیروں کا چھٹ جانا، چھپے ھوئے دشمنوں کا ظاھر ھو جانا، مسائل کی حقیقتوں کا اندازہ ھو جانا، ظلم کے خلاف آوازوں کا بلند ھونا، سب اس بات کی علامت ہیں کہ روشنی کا منبع یعنی آفتاب طلوع کرچکا ہے۔
خمینی جنھیں بت شکن کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے، نے امت کے موجودہ دور میں مسائل کو بھت خوبی سے نہ صرف بیان کیا بلکہ ان کے بھت واضح حل کا بھی تعین کیا۔ ان کا دیا ھوا شعار مرگ بر امریکا (مردہ باد امریکا)، اس شعار میں بت شکن نے مظلومین عالم اور امت مسلمہ کے حقیقی مسائل کے ایک اھم عامل کی جانب متوجہ کیا۔ اگر ھم حقیقی معنوں میں اس شعار کے پیچھے چھپے پیغام کو سمجھ لیں اور اس سے جڑے مسائل کو حل کرنے کی جانب بڑھنے لگیں تو آج بھی اپنی عزت رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔
امام خمینی(رہ) کے نعرے ’’لا شرقیہ ولا غربیہ‘‘ اور ’’مرگ بر امریکا‘‘ کے اندر چھپے پیغام نے جو دراصل اسلام کے بنیادی کلمے لا الہ الا اللہ سے ماخوذ ہے، نہ صرف ملت ایران کو بیدار کیا بلکہ ان کو بیداری اسلامی کا سرخیل اور پشتی بان بنایا۔
ملت ایران اس شعار پر عمل کرکے نہ فقط خود استبدادی پنجہ سے آزاد ھوئی بلکہ اقوام عالم میں حق و صداقت کی ایک مضبوط آواز بن کر ابھری۔ اس حق پرستی کے لئے ملت ایران کو یقیناً بھت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بے پناہ قربانیاں دینی پڑیں، لیکن آج یہ حق کی آواز جماران کے ایک چھوٹے سے حسینیہ سے نکل کر دنیا کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔
لبنان، عراق، شام، فلسطین، بحرین، قطیف، یمن، افغانستان، مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر، نائجیریا اور نیز دنیا کے گوش و کنار میں پھیلے ھوئے باضمیر انسانوں کی عالمی استعمار اور استبداد نیز اس کے گماشتوں کے خلاف صدائے احتجاج خمینی بت شکن کے دیئے ھوئے شعار ھی کا تسلسل ہے۔
امام خمینی رضوان اللہ علیہ عالم اسلام کی شخصیات کے اس قبیلے سے ہیں، جن کی افکار ان کے عمل سے ظاھر و آشکار ہیں۔ امام نے امت کے مسائل بالخصوص انتھا پسندی و عدم برداشت کے حقیقی اسباب پر توجہ مبذول کروائی اور ان کے خلاف اقدام پر مسلم مفکرین اور علماء نیز عوام کو متوجہ کیا۔
جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا گیا کہ عالم اسلام میں انتھا پسندی اور عدم برداشت کی قبیح صورت کا ایک اھم سبب اور سھولت کار عالمی استعمار ہے۔ عالم اسلام میں موجود یہ دونوں رویئے اور ان رویوں کے حامل گروہ چاھے ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ھو، عالمی استعمار کے مفادات کے ضامن ہیں۔
اسلامی ممالک کا اندرونی خلفشار اور بدامنی جو ان غیر معتدل رویوں کی وجہ سے سے پیدا ھوتا ہے، عالمی استعمار کا ایک خواب ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے امت مسلمہ کے عوام کو تشویق دلائی کہ اگر آپ واقعی اپنے ان مسائل سے چھٹکارا چاھتے ہیں تو آپ کو پھلے اس کے پشتی بان اور ان رویوں پر تیل چھڑکنے والی قوت کو شناخت کرکے اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ھوگا۔
امام خمینی(رہ) نے اپنے دیس میں عملی طور پر ایسا کرکے دکھایا۔ سید روح اللہ خمینی اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ امت میں فرقہ وارانہ، علاقائی اور لسانی عصبیتوں کو فروغ دے کر اس کی قوت کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ انھوں نے شیعہ سنی کی تفریق، علاقائی و لسانی عصبیتوں پر بھی کاری ضربیں لگائیں۔ امام اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المستضعفین کے عظیم داعی تھے۔
نبی رحمت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا روز ولادت جو مسلمانوں کے مابین اختلافی تھا، اس کو آپ نے ایک فرمان کے ذریعے روز وحدت اور اتحاد بنا دیا۔
یہ امام خمینی(رہ) کی الھی بصیرت کا ھی نتیجہ ہے کہ آج پورے عالم اسلام میں بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول تک ھفتہ وحدت منایا جاتا ہے۔
امام راحل وحدت امت کو طاقت کا سبب اور افتراق کو امت کی کمزوری کا محرک جانتے تھے۔ وہ راہ حق میں اعتصام بحبل اللہ کے قائل تھے اور فرماتے تھے کہ وحدت حقیقی اللہ کی رسی سے متمسک ھوئے بغیر ممکن نھیں ہے۔
امام اس بات کے قائل تھے کہ امت میں وحدت قرآن کریم کے احکامات پر عمل، اسلامی حکومت اور امت کے قیام، جذبہ اخوت، اختلافی امور سے اجتناب اور ائمہ اھل بیت علیھم السلام کی پیروی کے بغیر ممکن نھیں۔
امام خمینی(رہ) اس بات کے قائل تھے کہ وہ شخص جو امت مسلمہ میں تقسیم کو گھرا کرنے والے مسائل کو اٹھاتا ہے اس کو دین اسلام کا ذرا بھی درد نھیں ہے۔( ایرانی، 1388ش، ص72)
امام خمینی فرماتے تھے:
ما مامور بہ وظیفہ ھستیم مامور بہ نتیجہ نیستیم
آئیں آج پیر جماران کے یوم وفات کے روز ان کی روح سے عھد کریں کہ ھم اپنے وظیفہ کو شناخت کریں گے اور اس کی انجام دھی کے لئے اقدام کریں گے، خداوند کریم ھم سب کا حامی و ناصر ھو۔
تحریر: سید اسد عباس تقوی