امام خمینی (رہ) کی پیش گوئی کے مطابق ھمارا پالا ایک پست ترین دشمن سے پڑنا تھا کہ جسکی سازش کا کوئی اختتام نھیں۔ چنانچہ ھم سےھماری تھذیب، نظم، اتحاد، اتفاق اور وسائل کو نابود کرکے آخری مرحلہ ھماری فنا کا آن پھنچا۔
اب وہ وقت ہے کہ دشمن ھمیں چن چن کر شناخت کرکے ختم کر رھا ہے۔ اب ھم گھر کے باھر محفوظ ہیں نہ گھر کے اندر۔ ھمیں مساجد میں، امام بارگاھوں میں، بازاروں میں، سڑکوں پر، درس گاھوں میں، درگاھوں میں ۔۔۔ حتیٰ کہ اپنے گھروں کے اندر گھس کر قتل کیا جا رھا ہے۔ ایک ایک کرکے ھمارے جوان، بزرگ، عورتیں اور بچے تک شھید کئے جا رھے ہیں۔ ھم سب کے نام دشمن کی فھرست میں موجود ہیں، لیکن ھمارا رویہ اپنی باری کے انتظار والا ہے۔
"آپ کی آنے والی زندگی تاریک ہے۔ ھر طبقے اور ھر طرف سے بے شمار دشمن آپ کے گرد گھیرا ڈالے ھوئے ہیں۔ آپ کو اور مراکزِ علمی کو تباہ کرنے کے خطرناک اور شیطانی منصوبے بنائے جا چکے ہیں۔ سامراجی طاقتیں آپ کے خلاف بھت برے ارادے اور سخت پروگرام رکھتی ہیں۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کی تباھی کے خواب دیکھتے ہیں۔
ظاھراً اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آپ کے متعلق خطرناک نقشے بنا چکے ہیں۔ آپ فقط تھذیب کے سائے میں اور صحیح تنظیم و ترتیب کے ساتھ نہ صرف ان مفاسد و مشکلات کو اپنے راستے سے ھٹا سکتے ہیں، بلکہ ان کے سامراجی منصوبوں کو مفلوج بھی کرسکتے ہیں۔ میں اپنی زندگی جی چکا۔ اب کسی بھی وقت میرے اور آپ کے درمیان پردہ حائل ھوجائے گا، لیکن آپ کو تاریک و سیاہ مستقبل کی نوید سنا رھا ھوں۔
اگر آپ نے اپنے گریبان میں نہ جھانکا، اپنی زندگی کے امور اور حصولِ علم کی راھوں میں نظم و ضبط پیدا نہ کیا تو آنے والے تاریک دور کی سیاہ بھول بھلئیوں میں بھٹک جانے کا قوی خدشہ ہے۔ جب تک فرصت ہے اور آپ کے دینی و علمی مراکز دشمن کی دسترس سے محفوظ ہیں، غور و فکر کر لیجیے اور ھوشیاری کے ساتھ اٹھ کھڑے ھوں۔
اولین مرحلے میں جس چیز پر توجہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ ہے تزکیۂ نفس اور اپنی ذات کی اصلاح! دوسرے مرحلے میں آپس کے اتحاد و اتفاق کو اپنا شعار بنا لیں۔ اپنے علمی مراکز میں نظم و ضبط کو بنیادی حیثیت میں رکھیں۔ کسی دوسرے کو یہ موقع نہ دیں کہ وہ باھر سے آکر آپ کو نظم و ضبط کا درس دے۔ کھیں ایسا نہ ھو کہ دشمن آپ کی بیکاری اور نااھلی کے بھانے آپ کے مراکز میں نفوذ کر جائے اور اصلاح و نظم و ضبط کے نام پر فساد اور بدنظمی کو فروغ دینے کی کوشش کرے اور بالآخر آپ پر اپنا تسلط قائم کر لے۔ آپ ھرگز دشمن کو ایسا بھانہ فراھم نہ کریں۔ اگر آپ مھذب و منظم ھوگئے تو کسی میں آپ کی جانب غلط نگاہ اٹھانے کی ھمت نھیں ھوگی۔
چنانچہ آپ اپنے آپ کو آمادہ کریں تاکہ مھذب، بااخلاق اور باکردار انسان بن کر مفاسد و مفسدین کا سدِباب کرسکیں۔ ساتھ ھی اپنے مراکز کو ان حوادث کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی تیار رکھیں۔
آپ کے سامنے خدانخواستہ ایک مشکل مستقبل ہے کہ سامراجی قوتوں کو اسلامی ترجیحات اور امتیازات کی نابودی سے غرض ہے۔ اب آپ کا فرض ہے کہ ان کے سامنے ڈٹ جائیں، لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ نفس پرستی، خود پسندی، غرور و تکبر اور حبِ جاہ و حشم کا آپ کی زندگیوں میں کوئی عمل دخل نہ ھو۔ آپ اپنے آپ کو خدا کے لئے وقف کر دیں۔ دنیا کی محبت کو دل سے نکال دیں، تب ھی مقابلہ ھوسکتا ہے۔ ابھی سے اپنے قلب کی تربیت اس نقطۂ نگاہ سے کریں کہ مجھے صرف اسلام کا مسلح سپاھی بننا ہے، مرتے دم تک اسلام کے لئے کام کرنا ہے اور اسلام ھی پر قربان ھونا ہے۔ وقت کی کمی اور نامناسبی کے بھانے نہ تراشئے، بلکہ ابھی سے کوشش کا آغاز کر دیجئے، تاکہ مستقبل میں کھیں آپ کا کردار نظر آسکے۔ المختصر یہ کہ اچھے انسان بن جائیں۔
سامراجی قوتوں کا خوف صرف انسان سے ہے۔ ان کی خواھش ہے کہ ھمارا سب کچھ خود ھی ھضم کرجائیں۔ وہ یہ نھیں چاھتے کہ ھمارے علمی مراکز انسان سازی کریں۔ انھیں محض یھی خوف ہے کہ اگر کوئی ایک بھی انسان پیدا ھوگیا تو وہ ان کے مقابلے میں آن کھڑا ھوگا۔
آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو سنواریں اورا نسانِ کامل بن کر دشمنانِ اسلام کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ اگر آپ منظم نہ ھوئے اور ان کے حملوں کے خلاف خود کو تیار نہ کیا تو نہ صرف آپ تباہ و برباد ھوجائیں گے بلکہ اسلام کے قوانین و احکامات بھی فنا ھوجائیں گے، جس کی تمام تر ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر ھوگی اور اس کے لئے علماء اور مسلمان جوابدہ ھوں گے۔
"کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ"۔ تم میں سے ھر ایک محافظ، بادشاہ ہے اور ھر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ھوگا۔
اب نوجوانوں کو چاھئے کہ اپنے ارادوں کو مضبوط کریں، تاکہ کسی بھی قسم کے نامساعد حالات کا مقابلہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی حل نھیں۔ آپ کا ذاتی، اسلام کا اور اسلامی ممالک کا وقار اس بات میں ہے کہ آپ مقابلے کے لئے کمر بستہ رھیں اور مقاومت کریں۔
خداوندِ عالم اسلام، مسلمین اور بلادِ اسلامیہ کو مخالفین کے شر سے محفوظ رکھے۔ اسلامی شھروں اور مراکزِ علمی کو ان سامراجی خائنین کی نگاھوں سے کوتاہ رکھے۔ علمائے اسلام اور مراجعینِ عظام کو قرآنِ کریم کے مقدس قوانین کی حفاظت اور اسلام کے پاکیزہ مقاصد کی ترویج و تبلیغ کی توفیق عطا فرمائے۔
خداوندِ عالم کالج و یونیورسٹیوں کے طلاب اور تمام انسانوں کو خود سازی اور تھذیب و تزکیۂ نفس کی توفیق عنایت فرمائے۔ ملتِ اسلام کو خوابِ غفلت سے چونکا کر اٹھا دے۔ سستی، کم فھمی اور جمود فکری سے آزاد کر دے، تاکہ وہ الھام سے قرآن کی نورانی اور انقلابی تعلیمات سے فیض حاصل کرکے اپنے پاؤں پر کھڑے ھوسکیں۔ اتحاد و اتفاق کے سائے میں سامراج اور اسلام کے دیرینہ دشمنوں کے ھاتھوں کو اسلامی ممالک کی جانب بڑھنے سے روکیں اور آزادی، استقلال اور اپنی عظمتِ رفتہ کو بارِ دیگر حاصل کریں۔
"ربنا افرغ علینا صبرا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکفرین۔ ربنا وتقبل دعائنا"۔
اے ھمارے پروردگار! ھم پر صبر کا ساون برسا دے اور ھمارے قدموں میں مضبوطی پیدا فرما اور کافر قوم کے مقابلے میں ھماری نصرت فرما۔ بارِ الٰھا! ھماری دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخش دے۔"
مندرجہ بالا کلمات اس وقت میری نظر سے گزرے، جب میں شیلف میں رکھی پرانی کتابوں کی صفائی اور چھان بین میں مشغول تھا۔ میرے ھاتھ بھت بیش قیمت کتب و رسائل لگے، لیکن جب ان صفحات کو پڑھنا شروع کیا تو اپنے گریبان میں جھانکتے جھانکتے اوندھے منہ جاگرا۔ کچھ دیر تک تو کچھ نہ سوجھا کہ یہ سب کیا اور کیسے ہے۔ ورق الٹا کر تاریخ ِ اشاعت دیکھی تو میں بھی وقت کے قالین پر الٹے پیروں چلتا ھوا ماضی میں سجے اسی پنڈال کی کسی نشست پر جا بیٹھا، جس کے سامنے یہ خطاب ھو رھا تھا۔
کم و بیش تیس سال پھلے ادا ھونے والے یہ الفاظ ہیں اس مردِ درویش ۔۔۔۔ بلکہ مردِ دوراندیش کے جو اپنے ملک کے غیور عوام کے سامنے ان کے حال کی روشنی میں ان کا مستقبل عیاں کئے کھڑا تھا۔
جی ھاں! یہ اقتباس ہے امام خمینی(رہ) کے ایک لیکچر سے۔ مجھے نھیں معلوم کہ یہ درس مدرسۂ فیضیہ میں ھو رھا تھا، مسجدِ حرم میں، مسجدِ لطف اللہ اصفھان میں یا جامعہ تھران میں۔ لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ جھاں اس خطاب کے ظاھری مخاطبین ملتِ ایران کے اساتید و طلباء تھے، وھیں باطنی اور حقیقی طور پر ان کلمات کے مخاطبین دنیا بھر میں پھیلے ھوئے پیروانِ مکتبِ اھلِ بیت علیھم السلام تھے۔ وہ مردِ مومن بیم و رجا کے پل پر اپنے شانوں کو سبک کرتا ھوا ذمہ داری کے بوجھ کو ھم سب کے کاندھوں پر منتقل کرتا ھوا قدم بہ قدم آگے بڑھ رھا تھا۔
آج اس درس کا تجزیہ کیا جائے تو یھی نتیجہ اخذ ھوتا ہے کہ امام خمینی(رہ) کے ادا کئے گئے جملوں کا پاس ایرانی قوم نے رکھا اور ان احکامات پر عمل پیرا ھوکر اپنے رھبر کی امیدوں پر پورا اتری۔ دنیا بھر میں پھیلے ھوئے محبانِ اہلبیت علیھم السلام کے بارے میں تو مجھے کچھ معلوم نھیں لیکن ایک شیعہ ھونے کے ناطے اگر غلط نہ کھوں تو امام خمینی(رہ) کے تمام تر خدشات اور خوف کو ھم شیعوں نے سچا ثابت کیا۔
معلوم ھوتا ہے کہ شاید اُس وقت اسی پنڈال میں بیٹھے بیٹھے ان لوگوں نے ان تمام باتوں کو نائبِ امام کے احکامات کا درجہ دے کر ان کو پلے باندھ لینا اپنے اوپر واجب کر لیا تھا اور اسی لمحے کمربستہ ھوگئے تھے، جبکہ جلد یا بہ دیر یہ باتیں دیگر ممالک کی مانند تمام ممالک کے مومنین تک بھی پھنچ گئیں، لیکن ھم نے ان باتوں پر یہ سوچ کر توجہ نہ دی کہ یہ باتیں ھمارے لئے نھیں، بلکہ ایران کے باسیوں کے لئے مخصوص ہیں، چونکہ انقلاب ایران کی سرزمین پر وارد ھوا ہے، اس لئے شیعوں پر یہ باتیں لاگو نھیں ھوتیں۔ ھم یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ انقلابِ اسلامی تھا، نہ کہ انقلابِ ایرانی۔ زمین کے مختلف خطوں میں برپا ھونے والے انقلابات اور ھوتے ہیں اور انکی عمریں بھی محدود ھوتی ہیں، جبکہ زمین پر بسنے والے انسانوں کے دلوں میں برپا ھونے والا انقلاب نہ صرف حقیقی انقلاب ھوتا ہے، بلکہ وہ دائمی بھی ھوتا ہے۔ اس انقلاب کے لئے کسی وقت یا کسی سرزمین کی کوئی قید نھیں ھوتی۔
لیکن بصد افسوس! ھم نے غور کیا نہ فکر ۔۔۔۔ اور آج وہ وقت آگیا کہ ایک ولی اللہ کے پیش کردہ خدشات محض تیس سال کے قلیل عرصے میں حقیقت کا روپ دھار کر ھمارے سامنے ھماری کوتاہ نظری کا منہ چڑا رھے ہیں۔
تھذیب و تزکیۂ نفس کیا ہے اور کیونکر ھوسکتا ہے، یہ ھماری فکروں کا دور دور تک کا مسئلہ نہ رھا۔ اتحاد، اتفاق، یگانگت، ھم آھنگی اور نظم و ضبط کن چڑیوں کے نام ہیں، ھمیں اس سے کوئی غرض نہ رھی۔ مراکزِ علمی کو حقیقتاً علم اور جدوجھد کا گھوارہ کیسے بنانا ہے، شاید ھم سیکھ ھی نہ سکے۔ اس میں کوئی شبہ نھیں کہ گذشتہ تیس برسوں میں نہ صرف انقلابِ اسلامی کے اثرات پھیلے ہیں بلکہ تشیع نے ترقی بھی کی ہے۔ لیکن حقیقی جائزہ لیا جائے تو اس ترقی سے زیادہ ھم اخلاقی تنزلی کا شکار ھوئے۔
ھماری ظاھری عبادتگاھوں اور درس گاھوں کی تعداد میں یقیناً ایک واضح اضافہ ھوا، لیکن ھم انسان سازی میں بلاشبہ ناکام رھے۔ ھمارے یھاں عابدین و عزاداران تو کثیر تعداد میں ملیں گے، لیکن تزکیہ، نظم و ضبط اور اتفاق کی بنیادوں سے محروم۔
اسلام کی خوبی ھی یھی ہے کہ اس کے ھر حکم کا نتیجہ انسان سازی، تھذیبِ نفس، نظم و ضبط اور روحانی بالیدگی ہے۔ مثال کے طور پر اسلام کے بنیادی ترین رکن نماز کو ھی لے لیجئے۔ یہ ایک عام معاشرتی حیوان کو انسان، انسان کو مومن اور مومن کو اسکی معراج تک پھنچا کر دم لیتی ہے، جھاں ملائکہ اسکی ملاقات کے مشتاق ھوتے ہیں۔ اس کو اسکی شرائط اور معصومین علیھم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں ادا کیا جائے تو یہ تربیتِ نفس کا اکثیر نسخہ ہے۔
اس کو اس کے مخصوص اوقات میں مخصوص انداز سے بجا لانا نظم و ضبط کا احسن ترین مظاھرہ ہے، اور اس کے نتیجے میں انسان جو روحانی کمالات حاصل کرتا ہے، وہ خود اپنی ذات میں محسوس کرسکتا ہے۔ لیکن ھمارے معاشرے میں اسی نماز کو ادا کرنے والے اکثر جب مساجد کا رخ کرتے ہیں تو دوسروں کے لئے مشکلات کا باعث بن جاتے ہیں۔
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ھوئے مسجد تک پھنچنا، غلط پارکنگ، جائے وضو کو کیچڑ زدہ تالاب میں تبدیل کر دینا، نمازیوں کے اوپر سے پھلانگ کر اگلی صفوں تک رسائی، حضورِ قلب اور خضوع و خشوع سے پاک نماز، نماز کے اختتام پر بھاگم دوڑ اور مسجد سے پھلے نکلنے کی جلدی کرنا ایسے گناہ ہیں جو ھماری دانست میں گناہ کی حیثیت نھیں رکھتے، لیکن دراصل ھماری نماز کو اپنے ھی منہ پر واپس لوٹا دینے کی بھرپور صلاحیت سے مالا مال ہیں۔
یہ تمام مشقت نہ تو تزکیہ کی اھلیت رکھتی ہے اور نہ ھی اس سے معاشرتی زندگی میں نظم و ضبط پیدا ھوسکتا ہے۔ چنانچہ یہ عام مشاھدہ کی بات ہے کہ جتنی مساجد بڑھ رھی ہیں، اتنا ھی معاشرے سے انسانیت، اخلاق اور نظم ناپید ھوتا جا رھا ہے۔ دکھ کا مقام یہ ہے کہ جن علماء کو خطاب کرتے ھوئے امام خمینی(رہ) نے ان امور کی نگھداشت کی تنبیہ کی تھی، انھوں نے شاید ان باتوں کو سبک سمجھا اور اپنے پسِ پشت نماز ادا کرنے والوں کو ان ذمہ داریوں کا احساس نہ دلایا۔
آج عزاداری اور رسومِ عزاداری کا سلسلہ ماشاءاللہ چھاردانگِ عالم میں پھیل چکا ہے۔ دنیا میں اس اس مقام پر امامِ عالی مقام کا ذکر جاری ہے، جھاں کوئی اس ذکر کا سوچ بھی نھیں سکتا تھا۔
تائیدِ غیبی کے ساتھ ساتھ اس عظیم کاوش کا سھرا یقیناً ان حقیقی عزاداران کے سر ہے جو ذکرِ کربلا کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلانے کا وسیلہ بنے۔
لیکن کھیں کوئی کوتاھی ضرور ھوئی، جس کے نتیجے میں خلا پیدا ھوا اور منبرِ رسول پر پیشہ ور مداری کمالِ ھوشیاری سے قابض ھوگیا۔
ھمیں بھی اس سامراجی دشمن کو پھچاننے میں غلطی ھوئی کہ بھروپ حقیقت سے اتنا قریب تر تھا کہ ھم بھروپ کو ھی حقیقت سمجھ کر اپنے ایمان کا سودا کر بیٹھے۔
مراکزِ علمی کی حفاظت میں کچھ اس طرح سے روگردانی ھوئی کہ دشمن نے احکاماتِ شرعیہ اور قوانینِ معصومین علیھم السلام پر اس انداز میں ڈاکہ ڈالا کہ سادہ لوح افراد باآسانی اس شیطانی غچے کا شکار ھوکر اپنے ایمان سے ھاتھ دھو بیٹھے۔
امام خمینی(رہ) نے ھمیں دعا دی تھی کہ ھم قرآن سے فیض حاصل کرکے اپنے پیروں پر کھڑے ھوجائیں۔ لیکن بصد افسوس! ھم نے قرآن کو ایسے فراموش کیا کہ کبھی مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لئے ھی کھولنے کی زحمت کرلیا کرتے تھے۔
لیکن اب اسکی بھی نوبت نھیں آتی۔
ھمارے لئے کبھی جنتری باعثِ فیض بنی تو کبھی فرضی بی بی جھٹ پٹ کی فرضی اور مضحکہ خیز کھانیاں۔
ھماری امیدیں اھلِ بیت علیھم السلام کی بجائے دھاگوں اور گلاب جامن میں جڑے چھلوں سے وابستہ ھوگئیں۔
اتحاد و اتفاق کو ھم نے اپنی زندگیوں سے یوں محو کیا، جیسے کبھی گدھے کے سر سے سینگ غائب ھوئے تھے۔ ایک مرکز محض ھمارا افتخار تھا لیکن ھم نے ٹولیوں میں بنٹنا اپنا افتخار سمجھا۔ ھم اتنا تقسیم ھوئے کہ ایک ایک تحریک، ایک ایک تنظیم اور ایک ایک جماعت کے کئی کئی دھڑوں میں بنٹتے چلے گئے۔
عزاداری سیدالشھداعلیہ السلام انجمنوں اور سنگتوں کے پروگراموں، حلیم، بریانی، تیری اور میری مجلس کی نذر ھوگئی۔ مذھبی وسیاسی تحریکوں پر شخصیات اور گروھوں کا غلبہ ھوگیا۔ منبر و محراب پر کاروباری چرب زبان قابض ھوگئے۔ ھم یوں تقسیم در تقسیم ھوئے کہ مظلومینِ فلسطین کے لئے صدائے احتجاج بلند کرنے والے بھی ایک مقام سے علیحدہ علیحدہ پرچموں تلے علیحدہ علیحدہ راھوں پر نکلے۔
لیکن چونکہ امام راحل(رہ) کی پیش گوئی کے مطابق ھمارا پالا ایک پست ترین دشمن سے پڑنا تھا کہ جس کی سازش کا کوئی اختتام نھیں۔
چنانچہ ہم سے ھماری تھذیب، نظم، اتحاد، اتفاق اور وسائل کو نابود کرکے آخری مرحلہ ھماری فنا کا آن پھنچا۔ اب وہ وقت ہے کہ دشمن ھمیں چن چن کر شناخت کرکے ختم کر رھا ہے۔ اب ھم گھر کے باھر محفوظ ہیں نہ گھر کے اندر۔ ھمیں مساجد میں، امام بارگاھوں میں، بازاروں میں، سڑکوں پر، درس گاھوں میں، درگاھوں میں ۔۔۔ حتیٰ کہ اپنے گھروں کے اندر گھس کر قتل کیا جا رھا ہے۔ ایک ایک کرکے ھمارے جوان، بزرگ، عورتیں اور بچے تک شھید کئے جا رھے ہیں۔ ھم سب کے نام دشمن کی فھرست میں موجود ہیں، لیکن ھمارا رویہ اپنی باری کے انتظار والا ہے۔
تیس سال قبل وابستہ کی گئی امیدوں پر رنگ لانے والی قوم کا وقار آج دنیا بھر کے سامنے ہے۔ انسان بن کر عظمتِ رفتہ، استقلال اور آزادی کو جنھوں نے اپنا مقدر بنا لیا، وہ آج سامراج کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔
طاغوت کو جن کے محض انسان بننے سے خوف تھا، وہ اس کے سامنے وہ اشرف مخلوق بن کر کھڑے ہیں کہ جن کی ملاقات کے ملائکہ مشتاق ہیں۔ جنھیں ان کے رعایا کے متعلق سوال سے خوفزدہ کیا گیا، وہ واقعتاً اپنی عوام کے نگھبان بن گئے۔ انھوں نے اپنے نفوس کا ایسا تزکیہ کیا کہ شیطان ھار بیٹھا لیکن انکے پایۂ ثبات میں لغزش نہ آئی۔ تعلیمی اداروں اور علمی مراکز کو نظم و ضبط اور تھذیب و تربیت کے ایسے گھواروں میں ڈھال دیا کہ بلادِ اسلامیہ تو درکنار، دیگر اقوام کے لئے نشانِ راہ بنا دیا۔
امام خمینی(رہ) کی امید اس قوم نے ھم جیسے سست، کم فھم اور جمود فکر لوگوں کے لئے عملی مثال پیش کر دی کہ خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے اپنے رھبر کی رھنمائی میں قرآن و اھلبیت علیھم السلام سے فیض حاصل کرتے ھوئے بیدار بھی ھوا جاسکتا ہے، تزکیہ نفس بھی کیا جاسکتا ہے، اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق اور نظم و ضبط بھی پیدا کیا جاسکتا ہے اور اپنے معاشرے کو ایک انسانی معاشرے میں ڈھال کر دیگر پسی ھوئی اقوام کے لئے مثال بنا جاسکتا ہے۔
اب یہ ذمہ داری ھمارے کاندھوں پر عائد ھوتی ہے کہ اگلا قدم ھم اٹھائیں اور اپنے آپ کو کئے جانے والے سوال کا جواب دینے کے قابل بنائیں۔ انشاءاللہ کامیابی ھماری قدم بوسی کو منتظر ہے کہ خدا اپنے اولیاء کی دعاؤں کو رد نھیں کرتا۔
امام خمینی کی مانگی گئی دعا
"ربنھ افرغ علینا صبرا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکفرین۔ ربنا وتقبل دعائنا"۔
اے ھمارے پروردگار! ھم پر صبر کا ساون برسا دے اور ھمارے قدموں میں مضبوطی پیدا فرما اور کافر قوم کے مقابلے میں ھماری نصرت فرما۔ بارِ الٰھا! ھماری دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخش دے" ۔۔۔۔۔تیس سال قبل اسی وقت قبول ھوگئی تھی۔ اس کا نتیجہ عالم پر کب جلوہ افروز ھوتا ہے، کب یہ تاریک دور روشن صبحوں میں ڈھلتا ہے، کیسے سامراج ھمارے لئے بُنے گئے جال میں خود الجھتا ہے۔۔۔۔۔ یہ ھماری قوتِ ارادی پر منحصر ہے۔ خدا ھمارا حامی و ناصر ھو۔
تحریر: سید قمر رضوی