یہ تحریک کن مقاصد کے حصول کے لئے چلائی گئی اور یہ کیا چاہتی ہے؟ کیا یہ ڈیموکریسی چاہتی ہے؟ کیا یہ ہمارے ملک سے استعماریت کو ختم کرنا چاہتی ہے؟ کیا یہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے ابھری ہے؟ کیا یہ نسلی امتیاز سے چھٹکارا حاصل کرنے اور مساوات کے لئے چلائی گئی ہے؟ کیا یہ استبدادیت کو ختم کرنے کے لئے ہے؟ اور کیا یہ مادیت پرستی کے اثر کو زائل کرنے کے لئے ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
تحریک کی نوعیت کے پیش نظر جو بتائی جا چکی ہے اور ان بیانات و اعلانات کی روشنی میں جو اس تحریک کے رہنما گاہے بگاہے دیتے رہتے ہیں‘ مندرجہ بالا سوالات کا جواب ”ہاں“ اور ”نہ“ دونوں صورتوں میں دیا جا سکتا ہے۔ ”ہاں“ اس لئے کہ اوپر دیئے گئے تمام مقاصد اس تحریک کے ہدف ہیں اور ”نہ“ اس لئے کہ یہ تحریک ایک مقصد میں محصور نہیں ہے‘ اسلاسمی تحریک کسی صورت میں بھی محدود نہیں ہوتی‘ کیونکہ اسلام ایک ”ناقابل تقسیم کل“ ہے اور اس کے متعلق کچھ مقاصد کے محسوس کر لینے سے اس کا کردار ختم نہیں ہو جاتا ہے۔
تاہم اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ موقع شناسی کے پیش نظر کچھ مقاصد کو دوسروں پر فوقیت نہیں اور مختلف مقاصد کے حصول و مراحل کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتا ہے۔ کیا اسلام خود موقع شناسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بتدریج نہیں آیا ہے؟ آج تحریک نفی و انکار کی منزل پر ہے اور استبداد و استعمار پر کاری ضرب لگا رہی ہے‘ کل جب یہ مرحلہ طے کر کے اثبات اور تعمیرنو کی منزل آئے گی تو دوسرے مسائل توجہ طلب ہوں گے۔
اس مضمون کے شروع میں ہم نے حضرت علی علیہ السلام کے اصلاحی مقاصد کا تذکرہ کیا تھا جو نہج البلاغہ میں پائے جاتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی بتایا کہ اصلاحی مقاصد کی اسی طرح کا نظریہ ان کے بیٹے حسین علیہ السلام کا بھی تھا۔ امام حسین نے عہد معاویہ میں ایام حج کے دوران میں صحابہ اور ممتاز شخصیات کے ایک اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے اس نظریہ کی تشریح کی‘ انہوں نے جو اصلاحی مقاصد بیان فرمائے وہ تمام اسلامی تحریکوں پر حاوی ہیں‘ ہر دور میں کسی نہ کسی اسلامی اصلاحی تحریک نے ان مقاصد میں سے کسی خاص جز یا فرع کو لیا ہے‘ انہوں نے کلی مقاصد ان چار جملوں میں ارشاد فرمائے:
۱﴾ لِنَرَىَ الْمَعالِمَ مِنْ دِینِکَ
خدا کے راستے کی محو شدہ نشانیوں کو جن کے بغیر اسلام کی پہچان نہیں ہو سکتی‘ واپس لایا جائے‘ یعنی اسلام کے بنیادی اصولوں کی واپسی اور اسلام حقیقی کا احیاء۔ بدعتوں کو ختم کر دینا چاہئے اور اصلی سنت کو دوبارہ جاری کیا جانا چاہئے‘ دوسرے لفظوں میں خود اسلام کے اندر فکری‘ روحی اور ضمیری اصلاح لائی جانی چاہئے۔
۲﴾ وَ نُظْهِرَ الاِصْلاحَ فِی بِلادِکَ
وہ بنیادی حقیقی اور دوررس نتائج کی حامل اصلاح لائی جانی چاہئے جو ہر مشاہدہ کرنے والے کی توجہ مبذول کرائے‘ لوگوں کی زندگی میں بہبود و بہتری کی علامات نظر آئیں یعنی خلق خدا کے انداز زندگی میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔
۳﴾ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبادِکَ
خدا کے مظلوم بندوں کو ظالموں کے شہر سے پناہ دی جائے‘ ظالموں کے ظلم سے چھٹکارا حاصل کیا جائے‘ یعنی انسانوں کے اجتماعی روابط میں اصلاح کی جائے۔
۴﴾ تقام المعطلة من حدودک
خدا کے معطل شدہ مقررات اور اسلام کے قوانین کو جن میں نقص پیدا کر دیا گیا ہے‘ دوبارہ اصلی حالت میں لانا‘ اسلامی حدود اور قوانین کے ذریعے لوگوں کی اجتماعی زندگی پر اسلام کی حاکمیت بحال کرنا‘ یعنی مدنی اور اجتماعی معاملات میں اسلامی نظام قائم کرنا۔
ہر مصلح جو اوپر دیئے گئے چار اصولوں پر عملی جدوجہد کے ذریعے اس قابل ہوا کہ لوگوں کے اذہان کو اصلی اسلام کی طرف لے جائے اور بدعتوں و خرافات کا خاتمہ کر دے۔ جس نے عمومی زندگیوں میں اصلاح کر کے خوراک‘ مکان‘ طبی امداد اور تعلیم مہیا کی‘ جس نے روابط انسانی کے تحت انسانوں میں برابری‘ بھائی چارہ‘ احساس اخوت اور ہمسائیگی کو برقرار رکھا اور جو سوسائٹی کو ایسا نظام حکومت دے جو خدائی اور اسلامی حاکمیت اور انتظام حکومت پر مبنی ہو تو یقینا اس نے بحیثیت ایک مصلح انتہائی کامیابی حاصل کر لی۔
تحریک کی نوعیت
- Details
- Written by admin
- Category: مصلحین و دانشمندان
- Hits: 286