ولادت
حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی۱ربیع الاول سن ۱۳۴۹ھجری قمری مقدس شھرمشھدایران میں پیدا ھوئے۔
آپ کے والدنے اپنے جدکےنام پرآپ کانام علی رکھاآپ کےوالدمحترم کانام سیدمحمد باقر اورداداکانام سیدعلی ہے، وہ ایک بھت بڑے عالم اورزاھد انسان تھے ان کے زندگی نامہ کو مرحوم آقابزرگ تھرانی نےطبقات عالم شیعہ نامی کتاب کے چوتھے حصہ میں صفحہ نمبر۱۴۳۲پرذکرکیاہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ نجف اشرف میں مولاعلی نھاوندی اورسامر ہ میں مجدد شیرازی کے شاگردوں میں تھے اوربعدمیں وہ مرحوم سیداسماعیل صدرکے خاص شاگردوں میں رھے۔سن ۱۳۸۰ھجری میں مشھدمقدس لوٹ آئے اوروھیں سکونت اختیارکرلی مرحوم شیخ محمدرضاآل یاسین ان کے خاص شاگردوں میں سے ہیں۔
آپ کے خاندان کاتعلق حسینی سادات سے ہے،یہ خاندان صفوی دورمیں اصفھان میں رھتاتھا جب آپ کے پرداداسیدمحمدکو،سلطان حسین صفوی نے سیستان میں شیخ الاسلام کا عھدہ سپرد کیاتووہ اپنے گھروالوں کے ساتھ وھیں جاکر بس گئے ۔
سیدمحمدکے پوتے، سیدعلی،جوآپ کے دادا ہیں انھوں نے وہاں سے مشھد مقدس کی طرف ھجرت کی اوروھاں مرحوم محمدباقرسبزواری کے مدرسہ میں رھنے لگے بعدمیں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وھاں سے نجف اشرف چلے گئے۔
آیتاللہ العظمی سیستانی (دامت برکاتہ) نے پانچ سال کی عمرمیں اپنی تعلیم کاآغازقرآن کریم سے کیا اور لکھناپڑھناسیکھنے کے لئے دارالتعلیم نامی ایک دینی مدرسہ میں داخلا لیا، اسی دوران اپنے استادمرزاعلی آقاظالم سے کتابت سیکھی۔
سن ۱۳۶۰ھجری میں اپنے والدبزرگوارکے حکم سے دینی تعلیم شروع کی اورعربی ادب کی کچھ کتابیں جیسے شرح الفیہ ابن مالک ،مغنی ابن ھشام، مطول تفتازانی ،مقامات حریری اورشرح نظام ،مرحوم ادیب نیشابوری اوردوسرے استادوں سے پڑھیں اورشرح لمعہ وقوانین مرحوم سیداحمدیزدی جونھنگ کے لقب سے مشھورتھے، سے پڑھی ۔ مکاسب ورسائل اورکفایہ جیسی کتابیں جلیل القدرعالم دین شیخ ھاشم قزوینی سے پڑھی ۔ فلسفہ کی کچھ کتابیں جیسے منظومہ سبزواری وشرح اشراق اوراسفار استادیاسین سے پڑھی اورشوارق الالھام شیخ مجتبی قزوینی کے پاس پڑھی ۔ موصوف نے علامہ محقق مرزامھدی اصفھانی ،متوفی۱۳۶۵ھجری،سے بھت زیادہ کسب فیض کیا۔اسی طرح مرزامھدی آشتیانی اورمرزا ھاشم قزوینی سے بھی کافی استفادہ کیا ۔ مقدماتی وسطحی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کچھ استادوں کے پاس علوم عقلیہ اورمعارف الھیہ سیکھنے میں مشغول ھوگئے ۔ اس کے بعد سن ۱۳۶۸ھجری میں مشھدمقدس سے شھر قم کی طرف ھجرت کی اوربزرگ مرجع تقلیدآیة اللہ العظمی بروجردی کے فقہ واصول کے درس خارج میں شریک ھوکرعلمی فیض حاصل کیا۔ موصوف نے ان کی فقھی بصارت ،مخصوصا علم رجال اورحدیث سے بھت زیادہ کسب فیض کیا،اسی طرح موصوف نے فقیہ وعالم فاضل سیدحجت کھکمری اوراس زمانے کے دوسرے مشھورعلماء کے درسوں میں بھی شرکت کی۔
موصوف نے قم کے قیام کے دوران مرحوم سیدعلی بھبھانی (جواھوازکے جلیل القدرعالم دین اورمرجع محقق شیخ ھادی تھرانی کے تابعین میں سے تھے) سے قبلہ کے مسائل کے سلسلہ میں کافی خط وکتابت کی ، آپ اپنے خطوں میں مرحوم محقق تھرانی کے نظریوں پراعتراض کرتے تھے اور مرحوم بھبھانی اپنے استادکادفاع کرتے تھے یہ سلسلہ ایک مدت تک چلتارھا یھاں تک کہ مرحوم بھبھانی نے آپ کوشکریہ کا خط لکھااورآپ کی کافی تعریف کی اوریہ طے پایاکہ باقی بحث مشھدمیں ملاقات کے موقع پرھوگی۔
سن۱۳۷۱ھجری میں آپ نے قم سے نجف اشرف کاسفرکیااورامام حسین علیہ السلام کے چھلم کے دن کربلامیں واردھوئے ۔ پھروھاں سے نجف چلے گئے ۔ نجف پھنچ کرمدرسہ بخارائی میں قیام کیااورآیة اللہ العظمی خوئی ،شیخ حسین حلی جیسے بزرگ مراجع اکرام کے فقہ واصول کے درسوں میں شرکت کی، اسی طرح موصوف آیة اللہ حکیم اورآیة اللہ شھرودی جیسے بزرگ علماء کے درسوں میں بھی شریک ھوئے۔
جب سن ۱۳۸۰ھجری میں آپ نے مستقل قیام کی نیت سے اپنے وطن مشھدواپس آنے کاارادہ کیاتواس وقت آیة اللہ العظمی خوئی اورشیخ حسین حلی نے آپ کو اجتہھاد کا اجازہ لکھ کردیا،اسی طرح مشھورمحدث آقابزرگ تھرانی نے رجال اورحدیث میں موصوف کے تبحرعلمی کی کتبی تصدیق کی۔
موصوف سن ۱۳۸۱ھجری میں دوبارہ نجف تشریف لے گئے اور وھاں شیخ انصاری کی کتاب مکاسب سے فقہ کادرس خارج کھناشروع کردیا۔اس کے بعدشرح عروة الوثقی سے کتاب طھارت اورصلاة کی تدریس کی اورجب سن ۱۴۱۸ھجری میں کتاب صوم تمام ھوئی تو آپ نے کتاب الاعتقادکی تدر یس شروع کی ۔
اسی طرح اس عرصہ میں آپ نے مختلف موضوعوں جیسے کتاب القضا،کتاب الرباء ،قاعدہ الزام، قاعدہ تقیہ ،وغیرہ پرفقھی بحث کی، آپ نے اس دوران علم رجال پربھی بحث کی ، جس میں ابن ابی عمیرکی مرسلہ روایتوں کے اعتبار اور شرح مشیخة التھذیبین پربحث ھوئی۔
موصوف نے سن۱۳۸۴ھجری میں شعبان کے مھینہ سے علم اصول کادرس دیناشروع کیا اورآپ کے درس خارج کاتیسرا دورا سن۱۴۱۱ھجری کے شعبان ماہ میں تمام ھوا ۔ سن ۱۳۹۷ھجری سے آج تک کے ، آپ کے فقہ واصول کے تمام درسوں کے آڈیوکیسٹ موجودہیں۔
علمی کارنامے
حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی (دامت برکاتہ) ھمیشہ اپنے استادوں کے درسوں میں اپنی بے پناہ ذھانت وصلاحیتوں کاثبوت دیاکرتے تھے اورھمیشہ ھی تمام شاگردوں میں ممتازرھتے تھے ۔ آپ اپنے علمی اعتراضوں ،حضورذھن،تحقیق،فقہ ورجال کے مسائل کے مطالعہ ،دائمی علمی کاوشوں اورمختلف علمی نظریوں سے آشنائی کے بل بوتے پرحوزہ میں اپنی مھارت کاثبوت پیش کرتے رھتے تھے۔
قابل ذکربات یہ ہے کہ آپ کے اورشھیدصدر(قدس سرہ)کے درمیان علمی کارناموں کے سلسلہ میں مقابلہ رھاکرتاتھا۔اس بات کااندازہ آپ کے دونوں استادوں، آیة اللہ خوئی(رضوان اللہ تعالی علیہ) اورعلامہ حسین حلی (قدس سرہ) کے اجازہ اجتھادسے لگایاجاسکتاہے ۔ یہ بات بھی مشھورہے کہ آیة اللہ خوئی(قدس سرہ)نے ایة اللہ العظمی سیستانی (دام ظلہ) اورآیة اللہ شیخ علی فلسفی(جوکہ مشھدکے مشھورعلماء میں سے ہیں) کے علاوہ اپنے شاگردوں میں سے کسی کوبھی کتبی اجازہ نھیں دیا ۔ اسی طرح اپنے زمانے کے شیخ المحدثین علامہ آقابزرگ تھرانی نے آپ کے لیے سن۱۳۸۰ ھجری قمری میں جواجازہ لکھاہے اس میں آپ کی مھارت اورعلم رجال اورحدیث میں آپ کی درایت کوکافی صراحاہے آقابزرگ تھرانی نے آپ کے لیے یہ اس وقت لکھاتھا جب موصوف کی عمرصرف ۳۱سال تھی۔
تالیفات اور فکری کارنامے
تقریبا ۲۴سال پھلے ،آپ نے فقہ ،اصول اوررجال کادرس خارج کھناشروع کیااور اسی طرح مکاسب کی کتاب الطھارت ،صلاة،قضا، خمس،اوردوسرے قواعدفقھی جیسے ربا،تقیہ اورقاعدہ الزام کوپوراکیا،آپ اصول کی تدریس کے تین دورہ ختم کرچکے ہیں، جس میں کی کچھ بحثیں جیسے اصول عملی ،تعادل وتراجیح اورکچھ فقھی بحثیں جیسے ابواب نماز،قاعدہ تقیہ والزام چھپنے کے لئے تیار ہے۔حوزہ کے کچھ مشھور علماءو فضلاءجن میں سے بعض درس خارج بھی کھتے ہیں، جیسےعلامہ شیخ مھدی مروارید،علامہ سیدمرتضی مھری،علامہ سیدحسین حبیب حسینیان ، سیدمرتضی اصفھانی، علامہ سیداحمد مددی،علامہ شیخ باقرایروانی اورحوزہ علمیہ کے کچھ دوسرے استادآپ کی بحثوں پرتحقیق کی ہے۔ حضرت آیة اللہ العظمی سیستانی( دام ظلہ ) نے درس دینے کے ساتھ ساتھ کچھ اھم کتابوں اوررسالوں کی تصنیف وتالیف بھی ہے۔ اسی طرح آپ نے،ا پنے استادوں کی تمام تقریرات کوبھی تالیف کیا ہے ۔
- Prev
- Next >>