www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

874555
خدا یا! میں کتاب توریت میں ایک امت کو دیکھتا ھوں کہ انجیل اس کے سینے میں موجود ھے اور اس کی حفاظت کرتی ھے ۔( مناجات حضرت موسیٰ علیہ السلام )

حفظ قرآن کا آغاز :
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چالیس سال کی عمر میںمقام نبوت پر فائز ھوئے اور قرآن ۲۳/ سال کے عرصہ میں مختلف موقعوںپر قلب پیغمبر پر نازل ھوا ۔ اس دوران اصحاب ،رسول کی فرمائش کے مطابق آیات الٰھی کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے تھے ۔ یہ لوگ آیتوں کو جانور کی کھال، دانت اور ان کی ھڈیوں ، کجھور کے درخت کی لکڑیوں ، سفید پتھروں ، کاغذ اور کپڑوں پر لکھتے تھے اور معنوی ثواب کی خاطر ان کو حفظ کرتے تھے ۔
قرآن کی حفاظت کے لئے پھلا قدم آیات الٰھی کو حفظ کرنا تھا کیوں کہ ایک اعتبار سے اس زمانہ کا خط کوفی تھا اور اعراب اور نقطہ نہ ھونے کی وجہ سے مختلف صورتوں سے پڑھا جاتا تھا اور دوسری طرف تمام لوگ جاھل تھے صرف قرآن کو حفظ کر کے ھی وہ قرآن سے اپنے عشق و محبت کو ظاھر کر سکتے تھے ۔ جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حرا میں تشریف لے گئے تھے ایک فرشتہ ان کے سامنے آیا اور ان سے کھا : پڑھو تو پیغمبر نے فرمایا کہ میں پڑھنا نھیں جانتا ھوں اور اسی وقت بیھوش ھو گئے جس وقت آپ ھوش میں آئے تو فرشتہ نے کھا ” اقراء باسم ربک الذی خلق “ امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں : بسم اللہ الرحمن الرحیم اقراء باسم ربک یہ سب سے پھلی آیہ مبارکہ ھے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ھوئی ۔
پھلا مرحلہ تلاوت اور حفظ کا مرحلہ ھے ۔کتابت کا مرحلہ بعد میں وجود میں آیا۔ اس اعتبار سے قرآن کی ابتدائی آیتیں بتاتی ھیں کہ ان سے مراد آیات کو سینوں میں حفظ کرنا ھے ۔اب ھم اس مسئلہ کے سلسلے میں مختلف موارد پرروشنی ڈالیں گے ۔

صدر اسلام میں حافظ کی اصطلاح
عربی زبان میں لفظ حفظ دو معنی میں استعمال ھوتا ھے ۔
الف : نگھداری اور نگھبانی
ب: ذھن میں رکھنا، فراموشی کی ضد
قرآن میں یہ لفظ اور اس کے ھم جنس الفاظ صرف پھلے معنی میں استعمال ھوئے ھیں ۔
” حافظ “ اسم فاعل ھے اور علوم قرآن کی اصطلاح میں اس شخص کو حافظ کھتے ھیں کہ جس نے پورے قرآن کو تجوید و ترتیل اور علوم قرآن کی قابل قبول قراٴت سے استفادہ کرتے ھوئے حفظ کیا ھو ۔
اس طرح جو شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیثوں پر تسلط رکھتا ھے،انکے موارد اتفاق اور اختلاف کو جانتا ھے اور راویوں کے حالات اور ان کے طبقات سے کاملا ً آگاھی رکھتا ھے اس کو بھی حافظ کھتے ھیں۔ ان میں سے بعض نے احادیث تعدادبھی معین کی ھے کہ وہ شخص جس کو ایک لاکہ احادیث سند کے ساتھ حفظ ھوں اس پر ، لفظ حافظ صادق آنا چاھئے ۔
ابتدائے اسلام میں قرآن کو ذھن میں رکھنے والوں کو حافظ ھی کھتے تھے بلکہ ان کو دوسرے الفاظ جیسے جماع القرآن ، قراء القرآن ، حملة القرآن اور الماھرفی القرآن کے نام سے بھی یاد کرتے تھے۔ لفظ حافظ قرن اوّل یا نصف قرن دوم ۳ھء کے بعد اس معنی میں استعمال ھوا ھے ۔
حضرت کے زمانہ میں اگر کوئی تھوڑا سا بھی قرآن حفظ کرلیتا تھا تو اس کو بھی حافظ کھتے تھے ۔

سب سے پھلے حافظ قرآن
آیات الٰھی کے حفظ کا سلسلہ نزول قرآن کے پھلے ھی دن سے شروع ھو گیا تھا۔ پیغمبر اسلام سب سے پھلے حافظ قرآن ھیں ۔ آپ قرآن کو حاصل کرنے اور اس کو حفظ کرنے کے لئے بھت زحمت اٹھاتے تھے۔ آپ فرشتۂ وحی کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت دیتے اورکلمات کو دھراتے رھتے تھے تاکہ جوکچھ سنا ھے اس کو بھول نہ جائیں ۔
مرحوم طبرسی ” لا تحرک بک لسانک تعجیل بہ ان علینا جمعہ و قراٴ نہ “ کی شان نزول میں ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ھیں: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شدید عشق کی بنا پر جوا ن کو دریافت قرآن اور حفظ قرآن سے تھا جس وقت فرشتہ ٴ وحی آیات کو ان کے لئے پڑھتا تھا تو اس کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کو حرکت دیتے رھتے تھے اورکلمات کو دھراتے رھتے تھے تاکہ جو کچھ سنا ھے بھول نہ جائیں ۔ خدا نے ان کو اس کام سے روکا اور کھا کہ میں تمارے لئے اس کو جمع کردوں گا۔
مختلف روایات میں اس طرح ملتا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھر سال ماہ رمضان المبارک میں اس وقت تک جتنا قرآن نازل ھو چکاھوتا تھا اس کو جبرئیل امین کے ساتھ تکرار کرتے تھے۔

Add comment


Security code
Refresh