www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

قرآن علوم  ومعارف کا ایسا گہرا دریا ہے جس میں غوطہ ور ہونا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ،البتہ انبیاء الہی اور ائمہ طاھرین(ع) اس سے مستثنیٰ ہیں۔

قرآن دروس وعبرت کی کتاب ہے جس سے ہر انسان اپنے وجود کی لیاقت اور اپنی روحی آمادگی کے نتیجہ میں بہرہ مند ہوسکتا ہے ۔ اور اس کی آیات پہ غور وفکر کرنے سے اپنے مطلوبہ کمال تک پہونچ سکتا ہے۔وہ افراد جو حق وحقیقت کی تلاش میں ہیں قرآن کے مطالعہ سے حق وحقیقت تک پہونچ سکتے ہیں کیونکہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر خشک وتر موجود ہے۔جیسا کہ خود قرآن میں ارشاد ہوتا ہے :"لا رطب ولا یابس الا فی کتاب کتاب مبین" [1]

 

انسان کو چاہئے کہ اپنے پورے وجود کے ساتھ عظمت قرآن کو سمجھے اور اسے اپنا امام وپیشوا قرار دے تاکہ فلاح وبہبودی اس کے شامل حال ہوسکے۔

 

قرآن کریم کی آیات میں ۱۰مرتبہ "جوان" کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں لفظ "فتی" یا ا س کے مشتقات کو استعمال کیاگیا ہے۔قرآن میں مذکورہ لفظ استعمال ہونے میں بہت سے نکات مضمر ہیں، منجملہ قرآنی ثقافت میں نوجوان"جوانمرد" کہلاتا ہے لہذا اسے جوانمردی کے اصول یعنی طہارت ،عفو وگذشت،شجاعت وشھامت کی رعایت کرنا چاہئے۔

 

مذکورہ لفظ اور اس کے مشتقات، قرآن میں متعدد افراد کے لئے استعمال ہوئے ہیں منجملہ کچھ موارد کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

 

۱۔حضرت ابراہیم(ع)(انبیاء،۶۰)

 

۲۔۳۔حضرت موسی (ع) کے دوست اور رفیق(کھف،۶۰و۶۲)

 

۴۔حضرت یوسف(ع)(یوسف،۳)

 

۵۔زندان میں حضرت یوسف(ع) کے ساتھی(یوسف،۳۶)

 

۶۔۷۔اصحاب کھف(کھف،۱۰و۱۳)

 

۸۔حضرت یوسف(ع) کی بادشاہت کے دور میں ان کے خدمتگزار(یوسف،۶۲)

 

۹۔۱۰۔مومن کنیزیں (نساء،۲۵)و(نور،۳۳)

 

قرآن، حضرت ابراہیم (ع) کے بارے میں فرماتا ہے:"  قالوا سمعنا فتى يذكر هم يقال له ابراهيم" انہوں نے کہا کہ ہم نے ابراہیم نامی ایک جوان کا نام سنا ہے جو ہمارے خداؤوں کو برائی سے یاد کرتا تھا۔

 

بعض روایات کی بنا پر اس وقت جناب ابراہیم (ع) کی عمر سولہ سال تھی  لہذا آپ کے اندر  جوانمردی کی تمام خصوصیات پائی جارہی تھیں۔[2]

 

اصحاب کھف قرآن کی  نہایت جالب اور سبق آموز داستان ہے۔ دو موارد میں اصحاب کھف کو قرآن نے جوان کہا ہے: "اذ اٰوی الفتیۃ الی الکھف فقالوا ربنا اٰتنا من لدنک رحمۃ وھیّء لنا من امرنا رشداً"۔[3] جبکہ کچھ جوانوں نے غار میں پناہ لی اور یہ دعا کی کہ پروردگار ہم کو اپنی رحمت عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے کام میں کامیابی کا سامان فراہم کردے۔

 

"نحن نقص علیک نبأھم بالحق انھم فتیۃ امنوا بربھم وزدناھم ھدیٰ"[4]

 

ہم آپ کو ان کے واقعات بالکل سچے سچے بتارہے ہیں-یہ چند جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا تھا۔

 

اصحاب کھف ۳۰۹سال طولانی نیند کے بعد خدا وند متعال کے ارادہ سے بیدار ہوئے تاکہ قیامت اور مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے  کے سلسلے میں دلیل بن سکیں۔

 

قرآن نے ان افراد کو جوان کہہ کر پکارا ہے ۔امام صادق(ع) سے منقول ایک روایت میں آیا ہےکہ اصحاب کھف سب کے سب بوڑھے اورسن رسیدہ تھے لیکن خدا وندمتعال نے ان کے ایمان کی وجہ سے انہیں جوان کہا ہے۔ لہذا جو شخص خدا پہ ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرے وہ جوان اور جوانمرد ہوتا ہے۔[5]

 

حوالہ:

[1] انعام / ۵۹

[2] تفسیر نمونہ،ج۱۳،ص۴۳۵و۴۳۶

[3] کھف/۱۰

[4] کھف/۱۳

[5] میزان الحکمہ ،ج۵،ص۱۰

 

جوانی، غنیمت ہے       

 

قرآن:

 

اور جو کچھ خدا نے دیا ہے اس سے آخرت کے گھر کا انتظام کرو اور دنیا میں اپنا حصّہ بھول نہ جاؤ اور نیکی کرو جس طرح کہ خدا نے تمہارے ساتھ نیک برتاؤ کیا ہے اور زمین میں فساد کی کوشش نہ کرو کہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے[1]

 

اور یہ وہاں فریاد کریں گے کہ پروردگار ہمیں نکال لے ہم اب نیک عمل کریں گے اس کے برخلاف جو پہلے کیا کرتے تھے تو کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرسکتے تھے اور تمہارے پاس تو ڈرانے والا بھی آیا تھا لہٰذا اب عذاب کا مزہ چکھو کہ ظالمین کا کوئی مددگار نہیں ہے۔[2]

 

احادیث:

 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی علیہ السلام کو سفارش کرتے ہوئے ہوئے چار چیزوں کی تاکید کررہے ہیں:اے علی بڑھاپے سے پہلے جوانی ،بیماری سے پہلے تندرستی،نیاز مندی سے پہلے بے نیازی اور موت سے پہلے زندگی کی قدر ومنزلت پہچان لو۔[3

 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:انسان کو دنیا میں  آخرت ،زندگی میں موت اور جوانی میں بڑھاپے کے لئے زاد راہ فراہم کرنا چاہئے کیونکہ دنیا تم لوگوں کے لئے اور تم لوگ آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔[4]

 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:تمام امور اپنے زمانے کی زد میں ہیں۔[5]

 

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:جوانی کو بڑھاپے سے پہلے اور تندرستی کو بیماری سے پہلے درک کرو۔[6]

 

امام علی علیہ السلام نے فرمایا:دنیا بہت جلد نابود ہونی والی ہے اور جوانی بھی بہت جلد بڑھاپے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔[7]

 

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:فرصتوں سے فائدہ اٹھاؤ اس لئے کہ بادلوں کی طرح بہت جلد گزر جاتی ہیں۔[8]

 

امام صادق علیہ السلام خدا وندمتعال کے اس قول "کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرسکتے تھے[9]" کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ قول اٹھارہ سالہ نوجوانوں کی مذمت میں ہے۔[10]

 

حوالہ:

 

[1] قصص/۷۷

[2] فاطر /۳۷

[3] کتاب من لایحضرہ الفقیہ ،ج۴،ص۳۵۷،ح۵۷۶۴،الخصال: ص۲۳۹،ح۸۵

[4] تنبیہ الخواطر،ج۱،ص۱۳۱

[5] عوالی الاآلی ،ج۱،ص۲۹۳،ح۱۸۰

[6] غرر الحکم،ح۴۳۸۱

[7] غررالحکم،ح۹۶۸۹

[8] غررالحکم،ح۲۵۰۱

[9] فاطر،۳۷

[10] الخصال،ص۵۰۹،ح۲

Add comment


Security code
Refresh