اسلام ، انسانوں کو ھر طرح کی ذلت اور غلامی سے نجات دینے کے لئے اور انکے درمیان عدالت بر قرار کرنے کے لئے آیا ھے ۔
ساتھ ھی ساتھ انکی مادی اور فطری ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ انکی روحی اور معنوی جنبوں سے بھی تربیت کرتا ھے تاکہ انسانی سماج کی تعمیر عدالت اور اخلاق کی بنیادوں پر ھو ۔
بات بالکل واضح ھے کہ سماج میں قانون کے اجرا اور حکومت کے بغیر ھم اس مقصد تک نھیں پھونچ سکتے ۔ اسی لئے پیغمبر اسلام (ص) نے بھی مدینہ کی طرف ھجرت کرنے کے بعد سب سے پہلے حکومت تشکیل دی تھی ۔ ھمارے ائمہ معصومین(ع) بھی اسی کوشش میں رھے کہ سماج کی رھبری کی باگڈور اپنے ھاتھوں میں رکھیں ۔ حضرت علی (ع)نے جو خط مالک اشتر کی حکومت کے لئے لکھا تھا ، اس میں ذکر کئے گئے دستور العمل کے ذریعے مالک اشتر کو حکم دیا تھا کہ ایک دینی حکومت کے توسط سے عوام کی فکری ، اقتصادی اور سماجی حالت کو بھتر اور مستحکم کیا جائے اور ایک ایسا سماج وجود میں لایا جائے جو ایک ایسا نمونہ( ideal) ھو جسے خدا بھی پسند کرتا ھو ۔
ھمیں ایک بارپھر اپنے دین کے مقاصد اور اسکے سیاسی اھداف پر نظر ڈالنی چاھئے تاکہ حقیقت سے اور قریب ھوجائیں اور اسکے لئے مندرجہ ذیل نکات پر توجہ ضروری ہے:
۱۔ آسمانی ادیان اور خدا کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبران کے مقاصد ۔
۲۔ پیغمبر اور امام اجتماعی قدرت اور اسلامی حکومت کے لئے کوشش کرتے تھے تاکہ خدا کے احکام کو بھتر طریقے سے اجراء کر سکیں ۔
۳۔ پیغمبر اور ائمہ معصومین(ع) کی راہ انکے بعد بھی جاری رہ سکتی ھے ۔
۴۔ دین اسلام صرف پیغمبر (ص)،ائمہ معصومین (ع)اور انکے زمانہ کے لوگوں سے ہی مخصوص نھیں تھا ۔
۵۔ امام زمانہ (ع) کی غیبت کے زمانہ میں بھی وھی راہ وروش اور پروگرام جاری رھنا چاھئے جو خود پیغمبر(ص) اور ائمہ معصومین (ع)کے زمانہ میں جاری تھا ۔
ان نکات پر توجہ کرنے کے بعد اس میں کوئی شک باقی نھیں رہ جاتا کہ ھمارے زمانہ میں بھی اسلامی حکومت قائم ھونی چاھئے تاکہ خدا کا دین سماج میں رواج پیدا کرسکے ۔ اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نھیں ھے ۔ خود اسلام کے احکام سے پتہ چلتا ھے کہ ان احکام کو جاری کرنے کے لئے حکومت اور رھبری کی ضرورت ھے ۔ اسکے بغیر اسلام کے احکام کو سماج میں اجرا نھیں کیا جا سکتا ھے ۔ اس سلسلے میں امام خمینی (رہ) کا یہ جملہ غور طلب ھے:
ولایت فقیہ ان موضوعات میں سے ھے کہ جنکا تصور ھی ان کی تصدیق کرتا ھے اور کسی دلیل و ثبوت کی ضرورت نھیں رکھتا ۔ اس طرح جو بھی اسلام کے احکام اور عقاید کو ذرا سا بھی قبول کرتا ھے تو جیسے ھی وہ ولایت فقیہ ( فقیہ کی ولایت ) پر پھونچے گا اور اسکا تصور کرے گا تو فوراً ھی اسکی تصدیق بھی کردے گا اور اسکو ضروری اور بدیہی سمجھے گا۔( حکومت اسلامی ، مقدمہ)
اسی وجہ سے وفات پیغمبر(ص) کے ساتھ اسلامی قوانین اور احکام معطل نھیں ھوگئے بلکہ صرف اتناھوا کہ امت اسلامیہ کی رھبری ائمہ معصومین (ع) کے دوش پر آگئی ۔ امام حسن عسکری(ع) کی شھادت کے بعد اور بارھویں امام کی غیبت کے زمانہ میں بھی ، مسلمانوں کی دینی اور فکری ھدایت جاری ھے ۔ کیونکہ خدا وند متعال نے اس دین کو ساری دنیا کے لئے آخری و کامل دین اور قرآن کو آخری آسمانی کتاب قرار دیا ھے جو قیامت تک کے آنے والے انسانوں کی فردی اور سماجی زندگی کے لئے رھنماھے ۔ سب سے بہتر اور عقلی راستہ یھی ھے کہ خد اکے قوانین اور احکام اسلامی حکومت کے ذریعہ جاری ھوں۔ اگر چہ لوگ دین کے بارے میں علم رکھنے والے اور دیندار ھی کیوں نہ ھوں ، لیکن حکومت، غیر اسلامی اور ظالم ھو گی تو اسلام کے احکام کو پوری طرح پورے معاشرہ پر جاری کرنے کا امکان پیدا ھو ھی نھیں سکتا ھے ۔
بھترین قانون بھی صرف اسی وقت اھمیت رکھتا ھے جب اسکو جاری کیا جائے ورنہ صرف قانون کا بنا دینا کوئی اھمیت نھیں رکھتا ۔ کسی قانون کو جاری کرنا ، اسکو جاری کرنے والوں اور سماج کو چلانے والوں کے ھاتھوں میں ھوتا ھے ، نیزحکومت ھی قانون کے اجراء کے لئے ذمہ دار ھوتی ھے ۔
مندرجہ بالا وضاحت سے یہ نتیجہ بخوبی نکلتا ھے کہ امام زمانہ (ع) کی غیبت کے زمانہ میں بھی واحد اور صحیح راستہ یھی ھے کہ ایک اسلامی حکومت ھو جو خدا کے احکام و قوانین کو سماج میں اجرا کرے ۔ جو اس حکومت میں سب سے اعلیٰ درجہ پر فائز ھوتا ھے اسے ” ولی امر مسلمین “ کھا جاتا ھے ۔ لوگ ھر زمانہ میں ” ولی “” امام “ پیشوا اور رھبر کے ھاتھوں پر بیعت کرتے ھیں اور اسکے فرمان کو تسلیم کرتے ھیں ۔ امام خمینی(رہ) اس بارے میں ، کہ امام زمانہ(ع) کی غیبت کے زمانہ میں بھی حکومت تشکیل دینا ضروری ہے ، فرماتے ھیں:
" جو چیز حضرت رسول خدا (ص)کی زندگی اور حضرت علی (ع)کے زمانہ میں لازم تھی وہ حکومت اور قوانین اسلامی کا اجرا کرنا تھا ۔ یھی چیز ا ن کے بعد ، ھمارے زمانہ میں بھی ضروری ھے " ۔
یہ پوری طرح روشن اور واضح ھو جانے کے بعد کہ امام زمانہ (ع) کی غیبت کے زمانہ میں بھی حکومت اور پیغمبر خدا (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کی ولایت کا جاری رھنا ضروری ھے ، دعویٰ کیاجاسکتاھے کہ اسکاسلسلہ فقھا پر جاکر ختم ھو گا ۔ ولایت فقیہ اس زمانہ میں اس اھم اور بزرگ عھدے کا دوسرا نام ھے ۔ اس دعوے کو ثابت کرنے سے پھلے ضروری ھے کہ اس سے متعلق اصطلاحات) کو روشن اور واضح کر دیا جائے ۔
فقیہ کون ھے ؟ مجتھد کیسا ھوتا ھے ؟ کون مجتھد اور فقیہ ھو سکتا ھے ؟ کون ولی فقیہ ھو سکتا ھے اور اس کے شرائط کیا ھیں ؟ ولی فقیہ اور رھبر کا انتخاب کیسے ھو ناچاھئے ؟ وہ کن لوگوں کے ذریعہ اور کتنی مدت کے لئے منتخب ھوتا ھے ؟ اسکے اختیارات کیا ھیں ؟ ولی فقیہ کس زمانہ تک ولایت رکھتا ھے؟ اس مسئلہ میں عوام کا کیا حصہ ھوتا ھے ؟ یہ اور اس جیسے دوسرے سوالات کے جوابات دینا اور انھیں واضح کر دینا ضروری ھے ۔
جس طرح رسول خدا (ص)نے اپنے بعد ، مسلمانوں کے لئے ان کا وظیفہ اور ذمہ داری روشن کر دی تھی اور اپنا جا نشین معین کر دیا تھا اسی طرح پیغمبر کے جانشین امام (ع) نے بھی زمانہ غیبت میں جس میں امام (ع) سے رابطہ قائم نھیں کیا جا سکتا لوگوں کا وظیفہ اور ذمہ داری بیان کر دی ھے ۔ اس جانشینی کا اعلان کبھی ممکن ھے کہ نام اور صفات کے ذریعہ ھو ، جیسے خود پیغمبر اور انکے بعد ھر امام (ع) نے ، اپنے بعد آنے والے امام (ع) اور انکی صفتوں کو ذکر کیا یا کبھی ممکن ھے کہ خصوصیت اور شرطوں کو مختصر طور پر بیان کر دیا جائے کہ جو بھی ان صفات اور شرطوں کا حامل ھو وہ لوگوں کی پیشوائی اور رھبری کے لئے سب سے بھتر ھے ۔ فقھا جو کہ امام (ع) کے جانشین ھیں ، کے سلسلے میں دوسرا راستہ اختیار کیا جاتا ھے ۔
کسی حدیث اور روایت کی طرف رجوع کئے بغیر یہ بات پوری طرح سے واضح ھے کہ اسلامی سماج میں خدا وند متعال کے احکام کا اجراء ھونا ضروری ھے اور چونکہ مسلمانوں کا سر پرست دین کے احکام کو جاری کرنے کا ذمہ دار ھے اور یہ ذمہ داری حکومت کو تشکیل دئے بغیر پوری نھیں کی جا سکتی ھے اس لئے جو بھی حکومت کے عھدے اور منصب پر فائز ھو ،اس میں مندرجہ ذیل شرطیں پائی جانا ضروری ھیں :
۱۔ فقاھت یعنی وہ اسلام اور احکام خدامیں مھارت رکھتا ھو ۔
۲۔ عدالت یعنی اس میں عدل اور تقویٰ پایا جاتا ھو ۔
۳۔ کفایت یعنی اس میں رھبری کے لئے سیاسی اور سماجی تدبر اور بصیرت پائی جاتی ھو ۔