www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

فرض کروکہ لفظ مولیٰ کے لغت میں بھت سے معنی ہیں لیکن تاریخ کے اس عظیم واقعہ وحدیث غدیر کے بارے میں بھت سے ایسے قرائن و 

شواھد موجود ہیں جو ھر طرح کے شک و شبھات کو دور کرکے حجت کو تمام کرتے ہیں ۔

  پھلی دلیل:
جیسے کہ ھم نے کھا ہے کہ غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاعر حسان بن ثابت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لے کر ان کے مضمون کو اشعار کی شکل میں ڈھالا ۔اس فصیح و بلیغ وارعربی زبان کے رموز سے آشنا شخص نے لفظ مولا کی جگہ لفظ امام وھادی کو استعمال کیا اور کھا:
فقال لہ قم یا علی فاننی
فانی رضیتک من بعدی اماما ً وھادیاً
یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا : اے علی! اٹھو کہ میں نے تم کو اپنے بعد امام وھادی کی شکل میں منتخب کرلیا ہے ۔
جیسا کہ ظاھر ہے شاعر نے لفظ مولا کو جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام میں استعمال کیاتھا امام، پیشوا،ھادی اور امت کی رھبر کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں استعمال نھیں کیا ہے ۔ اس صورت میں کہ یہ شاعر ،عرب کے فصیح و اھل لغت افرادمیں شمار ھوتا ہے ۔اورصرف عرب کے اس عظیم شاعر حسان نے ھی اس لفظ مولا کو امامت کے معنی میں استعمال نھیں کیاہے بلکہ اس کے بعد آنے والے تمام اسلامی شعراء نے جو عرب کے مشھور شعراء ،ادباء اور عربی زبان کے استاد شمار ھوتے تھے انھوں نے بھی اس لفظ مولا سے وھی معنی مراد لئے ہیں جو حسان نے مراد لئے تھے یعنی امامت ۔
 دوسری دلیل:
حضرت امیر علیہ السلام نے جو اشعار معاویہ کو لکھے ان میں حدیث غدیر کے بارے میں یہ فرمایاکہ :
واوجب لی ولایتہ علیکم رسول اللہ یوم غدیر خم
یعنی اللہ کے پیغمبر نے غدیرکے دن میری ولایت کو تمھارے اوپر واجب قراردیا ۔
امام سے بھتر کون شخص ہے جو ھمارے لئے اس حدیث کی تفسیر کرسکے ؟اوربتائے کہ غدیر کے دن اللہ کے پیغمبر نے ولایت کو کس معنی میں استعمال کیاہے ؟کیا یہ تفسیر یہ نھیں بتا رھی ہے کہ واقعہ غدیر میں موجود تمام افراد نے لفظ مولا سے امامت کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب نھیں سمجھا تھا ؟
 تیسری دلیل:
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے " من کنت مولاہ " کھنے سے پھلے یہ سوال کیا کہ "الست اولیٰ بکم من انفسکم؟" کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نھیں رکھتا ھوں ؟پیغمبر کے اس سوال میں لفظ اولیٰ بنفس کا استعمال ھوا ہے۔ پھلے سب لوگوںسے اپنی اولویت کا اقرار لیا اور اس کے بعد بلافصل ارشاد فرمایا:" من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ " یعنی جس جس کا میں مولا ھوں اس اس کے علی مولا ہیں، ان دو جملوں کو آپس میں ملانے سے کیا ھدف ہے؟کیا اس کے علاوہ بھی کوئی اورھدف ھو سکتا ہے کہ بنص قرآن جو مقام پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے ،وھی علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت کریں؟صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ پیغمبر ہیں اور علی علیہ السلام امام ،نتیجہ میں حدیث غدیر کے یہ معنی ھو جائیں گے کہ جس جس سے میری اولویت کی نسبت ہے اس اس سے علی علیہ السلام کو بھی اولویت کی نسبت ہے ۔
اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے علاوہ اور کوئی ھدف ھوتا تو لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرارلینے کی کوئی ضرورت ھی نھیں تھی،یہ انصاف سے کتنی گری ھوئی بات ہے کہ انسا ن ان تمام قرائن کی روشنی میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پیغام کو نظراندازکرتے ھوئے آنکھیں بند کرکے گذرجائے۔
 چوتھی دلیل:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام کے آغاز میں لوگوں سے اسلام کے تین اھم اصول کا اقرارلیا اور فرمایا ”الست تشھدون ان لا الٰہ الا اللہ وان محمد ا عبدہ ورسو لہ وان الجنۃ حق والنار حق ؟
یعنی کیا تم گواھی دیتے ھو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبود نھیں ہے اور محمد اس کے عبد ورسول ہیں اور جنت و دوزخ حق ہیں؟ان سب کا اقرارکرانے سے کیا ھدف تھا ؟کیااس کے علاوہ کوئی دوسرا ھدف تھا کہ وہ علی علیہ السلام کے لئے جس مقام و منزلت کو ثابت کرنا چاھتے تھے اس کے لئے لوگوں کے ذھن کو آمادہ کریں تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں ولایت و خلافت کا اقرار دین کے ان تین اصولوں کی مانندہے جن کا سب اقرار کرتے ہیں ؟اگرمولاسے دوست یامددگار مراد لیں تو ان جملوں کا آپسی ربط ختم ھو جائے گا اور کلام کی کوئی اھمیت نھیں رہ جائے گی کیا ایسا نھیں ہے ؟
 پانچویں دلیل:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ کے شروع میں اپنی رحلت کے بارے میں باتیں کرتے ھوئے فرمایا کہ :" انی اوشک ان ادعیٰ فاجیب"یعنی قریب ہے کہ میں دعوت حق پر لبیک کھوں یہ جملہ اس بات کی حکایت کررھاہے کہ پیغمبر یہ چاھتے ہیں کہ اپنے بعد کے لئے کوئی انتظام کریں اور اپنی رحلت کے بعد پیدا ھونے والے خلا کو پرکریں اور جس سے یہ خلا پر ھو سکتا ہے وہ ایسے لائق وعالم جانشین کا تعین ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعدتمام امور کی باگڈور اپنے ھاتھوں میں سنبھال لے ۔اس کے علاوہ کوئی دوسر ی صورت نظر نھیں آتی ۔
جب بھی ھم ولایت کی تفسیر خلافت کے علاوہ کسی دوسری چیز سے کریں گے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملوںمیں پایا جانے والا منطقی رابطہ ٹوٹ جائے گا جبکہ وہ سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام کرنے والے ہیں مسئلہ ولایت کے لئے اس سے روشن تر اور کیا قرینہ ھو سکتا ہے ۔
 چھٹی دلیل:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے " من کنت مولاہ " جملے کے بعد فرمایا کہ :" اللہ اکبر علیٰ اکمال الدین واتمام النعمت ورضی ربی برسالتی والولایت لعلی من بعدی" اگر مولا سے دوستی یا مسلمانوں کی مدد مراد ہے تو علی علیہ السلام کی دوستی ومدد سے دین کس طرح کامل ھوگیا اور اس کی نعمتیں کس طرح پوری ھوگئیں ؟
 سب سے روشن بات یہ ہے کہ وہ کھتے ہیں کہ اللہ میری رسالت اور میرے بعد علی علیہ السلام کی ولایت سے راضی ھو گیا۔ کیایہ سب خلافت کے معنی پر دلیل نھیں ہے؟
 ساتویں دلیل:
اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ھو سکتی ہے کہ شیخین(ابوبکر و عمر)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے حضرت کے منبر سے اترنے کے بعد علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہ سلسلہ مغرب تک چلتا رھا شخین وہ پھلے افراد تھے جنھوں نے امام کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی "ھنیئاً لک یاعلی بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولای ومولیٰ کل مومن ومؤمنۃ" یعنی اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ھو کہ صبح شام میرے اور ھر مومن مرد و عورت کے مولا ھوگئے ۔
 علی علیہ السلام نے اس دن ایسا کونسا مقام حاصل کیا تھا جس کے نتیجہ میں اس مبارکبادی کے مستحق قرارپائے ؟ کیامقام خلافت ،زعامت اور امت کی رھبری ،کہ جس کا اس دن تک رسمی طور پر اعلان نھیں ھوا تھا اس مبارکبادی کی وجہ نھیں تھی؟محبت و دوستی تو کوئی نئی بات نھیں تھی ۔
 کیا قرآن نے تمام اھل ایمان افراد کو ایک دوسرے کا بھائی نھیں کھا ہے؟جیسا کہ ارشاد ھوتا ہے" انما المومنون اخوۃ " مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔کیا قرآن نے دوسری آیتوں میں مومنین کو ایک دوسرے کے دوست کی شکل میں متعرف نھیں کرا یا ہے؟ اور علی علیہ السلام بھی اسی مومن سماج کے ایک فرد تھے لھٰذا کیا ضرورت تھی کہ ان کی دوستی کا اعلان کیا جائے؟اور اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس اعلان میں دوستی ھی مد نظر تھی تو پھر اس کے لئے ناسازگار ماحول میں ان انتظامات کی ضرورت نھیں تھی ،یہ کام مدینہ میں بھی کیا جا سکتا تھا ۔یقینا کوئی بھت اھم مسئلہ درکار تھا جس کے لئے استثنائی مقدمات کی ضرورت پیش آئی کیونکہ اس طرح کے انتظامات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں نہ کبھی پھلے دیکھے گئے اور نہ ھی اس واقعہ کے بعد نظر آئے ۔
 اب آپ فیصلہ کریں:
اگر ان روشن قرائن کی موجودگی میں بھی کوئی شک کرے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد امامت و خلافت نھیں تھا تو کیا یہ تعجب والی بات نھیں ہے ؟وہ افراد جو اس میں شک کرتے ہیں اپنے آپ کو کس طرح مطمئن کریں گے اور روز محشر اللہ کو کیا جواب دیں گے ؟یقینا اگر تمام مسلمان تعصب کو چھوڑ کر از سر نو حدیث غدیر پر تحقیق کریں تو دل خواہ نتیجوں پر پھونچیں گے اور یہ کام مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں آپسی اتحادکی مضبوطی کا سبب بنے گا اور اس طرح اسلامی سماج ایک نئی شکل میں ڈھل جائے گا ۔
 زوجات پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام سلمیٰ اور عائشہ کھتی ہیں کہ ھم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا:"علی مع الحق و الحق مع علی یفترقا حتی یردا علی الحوض"
علی علیہ السلام حق کے ساتھ ہیں اور حق علی علیہ السلام کے ساتھ ہے ۔اور یہ ھرگز ایک دوسرے جدا نھیں ھوسکتے جب تک حوض کوثر پر میرے پاس نہ پھونچ جائیں۔
یہ حدیث اھل سنت کی بھت سی مشھور کتابوں میںموجودہے۔علامہ امینی نے ان کتابوں کا ذکر الغدیر کی تیسری جلد میں کیا ہے۔
اھل سنت کے مشھور مفسر فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ حمد کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ:" حضرت علی علیہ السلام بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھتے تھے ۔اور یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ جو دین میں علی علیہ السلام کی اقتدا کرتا ہے وہ ھدایت یافتہ ہے ۔اور اس کی دلیل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا:" اللھم ادرلحق مع علی حیث دار" اے اللہ حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں ۔
یہ حدیث قابل توجہ ہے جو یہ کھہ رھی ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات حق کا مرکز ہے ۔
 

Add comment


Security code
Refresh